گارا بنانے والا مزدور
ایک متاثرکن واقعہ
مرسلہ : عبیرہ خان
ایک نیک شخص کے گھر کی دیوار اچانک گرگئی ۔ اسے بڑی پریشانی لاحق ہوئی اور وہ اسے دوبارہ بنوانے کے لئے کسی مزدور کی تلاش میں گھر سے نکلا اور چوراہے پر جا پہنچا ۔ وہاں اس نے مختلف مزدوروں کو دیکھا جو کام کے انتظار میں بیٹھے تھے ۔ان میں ایک نوجوان بھی تھا جو سب سے الگ تھلگ کھڑا تھا، اس کے ایک ہاتھ میں تھیلا اور دوسرے ہاتھ میں تیشہ تھا ۔
اس شخص کا کہنا ہے کہ، ”میں نے اس نوجوان سے پوچھا، ”کیا تم مزدوری کرو گے؟ ”نوجوان نے جواب دیا،”ہاں!” میں نے کہا،”گارے کا کام کرنا ہوگا۔” نوجوان کہنے لگا،”ٹھیک ہے! لیکن میری تین شرطیں ہیں اگر تمہیں منظور ہوں تو میں کام کرنے کے لئے تیار ہوں،
پہلی شرط یہ ہے کہ تم میری مزدوری پوری ادا کرو گے، دوسری شرط یہ ہے کہ مجھ سے میر ی طاقت اور صحت کے مطابق کام لو گے اور تیسر ی شرط یہ ہے کہ نماز کے وقت مجھے نماز ادا کرنے سے نہیں روکو گے ۔”میں نے یہ تینوں شرطیں قبول کر لیں اور اسے ساتھ لے کر گھر آگیا، جہاں میں نے اسے کام بتایا اور کسی ضروری کام سے باہر چلا گیا ۔جب میں شام کے وقت واپس آیا تو دیکھا کہ اس نے عام مزدوروں سے دوگنا کام کیا تھا ۔ میں نے بخوشی اس کی اجرت ادا کی اور وہ چلا گیا ۔
دوسرے دن میں اس نوجوان کی تلاش میں دوبارہ اس چوراہے پر گیا لیکن وہ مجھے نظر نہیں آیا ۔ میں نے دوسرے مزدوروں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک دن مزدوری کرتا ہے ۔ یہ سن کر میں سمجھ گیا کہ وہ عام مزدور نہیں بلکہ کوئی بڑا آدمی ہے۔ میں نے ان سے اس کا پتہ معلوم کیا اور اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ وہ نوجوان زمین پر لیٹا ہوا تھا اور اسے سخت بخار تھا۔ میں نے اس سے کہا، ”میرے بھائی! تُو یہاں اجنبی ہے، تنہا ہے اور پھر بیمار بھی ہے، اگر پسند کرو تو میرے ساتھ میر ے گھر چلو اور مجھے اپنی خدمت کا موقع دو ۔” اس نے انکار کر دیا لیکن میرے مسلسل اصرار پر مان گیا لیکن ایک شرط رکھی کہ وہ مجھ سے کھانے کی کوئی شے نہیں لے گا، میں نے اس کی یہ شرط منظور کر لی اور اسے اپنے گھر لے آیا۔
وہ تین دن میرے گھر قیام پذیر رہا لیکن اس نے نہ تو کسی چیز کا مطالبہ کیا اور نہ ہی کوئی چیز لے کر کھائی۔ چوتھے روز اس کے بخار میں شدت آگئی تو اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہنے لگا، ”میرے بھائی! لگتا ہے کہ اب میرا آخری وقت قریب آگیا ہے لہذا جب میں مر جاؤں تو میری اس وصیت پر عمل کرنا کہ، ”جب میری روح جسم سے نکل جائے تو میرے گلے میں رسی ڈالنا اور گھسیٹتے ہوئے باہر لے جانا اور اپنے گھر کے ارد گرد چکر لگوانا اور یہ صدا دینا کہ لوگو! دیکھ لو اپنے رب تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والوں کا یہ حشر ہوتا ہے ۔”شاید اس طرح میرا رب عزوجل مجھے معاف کر دے ۔ جب تم مجھے غسل دے چکو تو مجھے انہی کپڑوں میں دفن کر دینا پھر بغداد میں خلیفہ ہارون رشید کے پاس جانا اور یہ قرآن مجید اور انگوٹھی انہیں دینا اور میرا یہ پیغام بھی دینا کہ،”اللہ عزوجل سے ڈرو! کہیں ایسا نہ ہو کہ غفلت اور نشے کی حالت میں موت آجائے اور بعد میں پچھتانا پڑے، لیکن پھر اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ ”وہ نوجوان مجھے یہ وصیت کرنے کے بعد انتقال کر گیا ۔ میں اس کی موت کے بعد کافی دیر تک آنسو بہاتا رہا اور غمزدہ رہا ۔ پھر )نہ چاہتے ہوئے بھی( میں نے اس کی وصیت پوری کرنے کے لئے ایک رسی لی اور اس کی گردن میں ڈالنے کا قصد کیا تو کمرے کے ایک کونے سے ندا آئی کہ، ”اس کے گلے میں رسی مت ڈالنا، کیا اللہ عزوجل کے اولیاء سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟ ” یہ آواز سن کر میرے بدن پر کپکپی طاری ہوگئی ۔ یہ سننے کے بعد میں نے اس کے پاؤں کو بوسہ دیا اور اس کے کفن و دفن کا انتظام کرنے چلا گیا ۔
اس کی تدفین سے فارغ ہونے کے بعد میں اس کا قرآن پاک اور انگوٹھی لے کر خلیفہ کے محل کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہاں جا کر میں نے اس نوجوان کا واقعہ ایک کاغذ پر لکھا اور محل کے داروغہ سے اس سلسلے میں بات کرنا چاہی تو اس نے مجھے جھڑک دیا اور اندر جانے کی اجازت دینے کی بجائے اپنے پاس بٹھا لیا۔ آخرِ کار !خلیفہ نے مجھے اپنے دربار میں طلب کیا اور کہنے لگا، ”کیا میں اتنا ظالم ہوں کہ مجھ سے براہ راست بات کرنے کی بجائے رقعے کا سہارا لیا ؟” میں نے عرض کی،”اللہ تعالیٰ آپ کا اقبال بلند کرے، میں کسی ظلم کی فریاد لے کر نہیں آیا بلکہ ایک پیغام لے کر حاضر ہوا ہوں ۔” خلیفہ نے اس پیغام کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے وہ قرآن مجید اور انگوٹھی نکال کر اس کے سامنے رکھ دی۔ خلیفہ نے ان چیزوں کو دیکھتے ہی کہا،”یہ چیزیں تجھے کس نے دی ہیں؟ ”میں نے عرض کی،”ایک گارا بنانے والے مزدور نے ۔۔۔۔۔۔۔” خلیفہ نے ان الفاظ کو تین بار دہرایا،”گارا بنانے والا،،، گارا بنانے والا،،، گارا بنانے والا،،،”اور رو پڑا۔ کافی دیر رونے کے بعد مجھ سے پوچھا، ”وہ گارا بنانے والا اب کہاں ہے؟ ”میں نے جواب دیا،”وہ مزدور فوت ہو چکا ہے۔ ”یہ سن کر خلیفہ بے ہوش ہو کر گر گیا اور عصر تک بے ہوش رہا۔ میں اس دوران حیران و پریشان وہیں موجود رہا۔ پھر جب خلیفہ کو کچھ افاقہ ہوا تو مجھ سے دریافت کیا، ”اس کی وفات کے وقت تم اس کے پاس تھے؟
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا تو کہنے لگا،”اس نے تجھے کوئی وصیت بھی کی تھی؟ ”میں نے اسے نوجوان کی وصیت بتائی اور وہ پیغام بھی دے دیا جو اس نوجوان نے خلیفہ کے لئے چھوڑا تھ ۔
جب خلیفہ نے یہ ساری باتیں سنیں تو مزید غمگین ہو گیا اور اپنے سر سے عمامہ اتار دیا، اپنے کپڑے چاک کر ڈالے اور کہنے لگا،”اے مجھے نصیحت کرنے والے ! اے میرے زاہد و پارسا! اے میرے شفیق !۔۔۔۔۔۔” اس طرح کے بہت سے القابات خلیفہ نے اس مرنے والے نوجوان کو دئيے اور مسلسل آنسو بھی بہاتا رہا ۔ یہ سارا معاملہ دیکھ کر میری حیرانی اور پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا کہ خلیفہ ایک عام سے مزدور کے لئے اس قدر غم زدہ کیوں ہے؟ جب رات ہوئی تو خلیفہ نے مجھ سے اس کی قبر پر لے جانے کی خواہش ظاہر کی تو میں اس کے ساتھ ہو لیا ۔ خلیفہ چادر میں منہ چھپائے میرے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ جب ہم قبرستان میں پہنچے تو میں نے ایک قبر کی طرف اشار ہ کر کے کہا، ”عالی جاہ! یہ اس نوجوان کی قبر ہے ۔”
خلیفہ اس کی قبر سے لپٹ کر رونے لگا ۔ پھر کچھ دیر رونے کے بعد اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہو گیا اور مجھ سے کہنے لگا، ”یہ نوجوان میرا بیٹا تھا، میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرے جگر کا ٹکڑا تھا، ایک دن یہ رقص وسُرور کی محفل میں گم تھا کہ مکتب میں کسی بچے نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی،
” اَلَمْ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخْشَعَ قُلُوۡبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ )پ۲۷، الحدید۱۶(کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد )کے لئے (۔)ترجمۂ کنزالایمان)
جب اس نے یہ آیت سنی تو اللہ تعالیٰ کے خوف سے تھر تھر کانپنے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور یہ پکار پکار کر کہنے لگا،”کیوں نہیں؟ کیوں نہیں؟ ” اور یہ کہتے ہوئے محل کے دروازے سے باہر نکل گیا ۔ اس دن سے ہمیں اس کے بارے میں کوئی خبر نہ ملی یہاں تک کہ آج تم نے اس کی وفات کی خبر دی ۔”
(حکایات الصالحین،ص ۶۷ )