ایسی بھی ہوتی ہیں شادیاں
مرسلہ : عبیرہ خان
حضرت شیخ شاہ کرمانی رحمتہ اللہ علیہ کی صاجزادی کے لئے بادشاہ کرمان نے نکاح کا پیغام بھیجا۔ شیخ نے کہلا بھیجا کہ مجھے جواب کے لئے تین دن کی کی مہلت دیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس دوران وہ مسجد مسجد گھوم کر کسی صالح انسان کو تلاش کرنے لگے۔ ایک لڑکے پران کی نگاہ پڑی جس نے اچھی طرح نماز ادا کی اور دعا مانگی۔ شیخ نے اس سے پوچھا تمھاری شادی ہو چکی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے نفی میں جواب دیا۔ پھر پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔کیا نکاح کرنا چاہتے ہو؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لڑکی قرآن مجید پڑھتی ہے، نماز روزہ کی پابند ہے، خوبصورت پاکباز اور نیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے کہا بھلا میرے ساتھ کون رشتہ کرے گا۔ شیخ نے فرمایا۔ میں کرتا ہوں۔ لو یہ درہم، ایک درہم روٹی، ایک درہم کا سالن اور ایک درہم کی خوشبو، خرید لاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح شاہ کرمانی نے اپنی دختر کا نکاح اس سے پڑھا دیا۔ لڑکی جب شوہر کے گھر آئی تو اس نے دیکھا پانی کی صراحی پر ایک روٹی رکھی ہوئی ہے۔ اس نے پوچھا یہ روٹی کیسی ہے؟
شوہر: یہ کل کی باسی روٹی ہے۔ میں نے افطار کے لئے رکھی ہے۔ یہ سن کر وہ غم زدہ ہونے لگی۔
شوہر: مجھے معلوم تھا کہ شیخ شاہ کرمانی کی دختر مجھ غریب انسان کے گھر نہیں رک سکتی۔
لڑکی: میں تیری مفلسی کے باعث نہیں لوٹ رہی بلکہ اس لئے کہ خدا پر تمھارا یقین بہت کمزور نظر آ رہا ہے۔ بلکہ مجھے تو اپنے باپ پر حیرت ہے کہ انہوں نے تجھے پاکیزہ خصلت، عفیف اور صالح کیسے کہا جب کہ اللہ تعالٰی پر تمھارے اعتماد کا یہ حال ہے کہ روٹی بچا کر رکھتے ہو۔
نوجوان نے اس کی بات سنی تو کہا اس کمزوری پرمعذرت خواہ ہوں۔ لڑکی: اپنا عذر تم جانو! البتہ ایسے گھر میں میں تو نہیں رک سکتی جہاں ایک وقت کی خوراک جمع کر رکھی ہو۔ اب یا میں رہوں گی یا روٹی۔
نوجوان نے فوراً جا کر روٹی خیرات کر دی۔ اور ایسی درویش خصلت شہزادی کا شوہر بننے پر خدا کا شکر ادا کیا۔
(روض الریاحین)
ایک وہ وقت تھا جب بیٹی کی شادی کے لئے کسی صالح نوجوان کا انتحاب کیا جاتا تھا، اور اب وقت یہ آیا کہ اگر کسی نیک نوجوان کے لئے رشتہ جائے تو یہ کہہ کر رشتہ ٹھکرا دیا جاتا ہے کہ ”لڑکا مولوی ہے“۔ کیا آج ہم دنیا کو دوست نہیں رکھتے؟ کیا ہم آخرت کو ترک نہیں کیے دیتے؟ کیا آج رشتہ کے معاملہ میں ہماری ترجیحات بدل نہیں گئیں؟
کیا ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے ان عملوں اور نیتوں کے بارے میں پوچھا نہ جائے گا؟ کیا ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمیں موت نہیں آنی؟ کیا ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم اٹھائے نہیں جائیں گے؟کیا ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ دین کے مقابلے میں دولت، شہرت، اور خوبصورتی آخرت میں سامانِ نجات ہو گی؟ جب یقین ہے کہ ایسا تو ہرگز نہ ہو گا تو پھر اللہ تعالٰی سے اتنا بے خوف ہونا کیسا؟
One thought on “ایسی بھی ہوتی ہیں شادیاں ۔ ۔ ۔ ۔”
میں اس تحریر کے منشاء سے متفق ہوں لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس تحریر میں توکل کا جو تصور پیش کیا گیا ہے وہ کم ازء کم میرے لیے قابل قبول نہیں ہے
توکل یہ نہیں کہ روٹی بھی افطار کے لیے نہ رکھی جائے
مجھے تو اس حکایت ہی میں اشکال ہے
اور وہ منکوحہ بیوی جس کا یہ خیال ہے کہ یا تو روٹی رہے یا گھر میں وہ محترمہ
توکل یہ ہے کہ جناب محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا
اعقلھا و توکل علی الله
یعنی اونٹ کو کھلا چھوڑ کر یہ نہ کہو کہ مجھے اللّٰہ پر بھروسہ ہے بلکہ اونٹ کو باندھو گویا تدبیر اختیار کرو عالم اسباب میں تدابیر ضروری ہیں
محترمہ عبیرہ خان صاحبہ کی اس تحریر کا مقصد و منشاء بہت ٹھیک ہے لیکن جس حکایت کا سہارا لیا گیا ہے
شیخ کرمانی کے اس واقعہ کے علی الرغم
مضمون کا مجموعی پیغام اور مفہوم بہرحال قابل قبول ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں دین سے زیادہ دنیا کو اہمیت دی جاتی ہے
وصی اللّٰہ بختیاری عمری
صدرِ شعبۂ اردو، گورنمنٹ ڈگری کالج، پلمنیر ضلع چتّور، آندھرا پردیش