عالمی سطح پر بچوں کے ادب کی ابتداء:مختصرجائزہ
ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی
لکچرر گورنمنٹ جونیر کالج ‘ شاد نگر ‘تلنگانہ
موبائل : 09346651710
قطعی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ عالمی سطح پر بچوں کے ادب کی ابتداء کس سن‘ کس صدی اور کس ملک سے ہوئی‘ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ خاص طور پر بچوں کے لیے سب سے پہلی جس کتاب کا تذکرہ ملتا ہے‘ وہ بیشپ ایلڈہم (۶۴۰۔۷۰۹ء)کی تصنیف ہے ‘ جو لاطینی زبان میں لکھی گئی ہے‘ ایلڈہم کے بعد تقریباً پندرہ سو منظوم کتب بچوں کے لیے لکھی گئیں‘ جو مکالموں اور سوال و جواب کی شکل میں تھیں‘ ۶۷۳ تا ۷۳۵ء کے دوران وینریبل بیڈنے جو انگلینڈ کے مدرسہ میں معلم تھا‘ لڑکوں کے لیے اولین درسی کتب قلم بند کیں‘ جو لاطینی زبان میں تھیں‘ اس کے بعد کینٹ بری کے سینٹ آرک بیشپ کا نام آتا ہے‘ جس نے بچوں کے لیے دنیا کا پہلا انسائیکلو پیڈیا تیار کیا‘ جو عالمی ادب اطفال میں عام معلومات کی پہلی کتاب ہے‘ ۱۶۵۸ء میں جان اناس کومینیس کی تیار کردہ پہلی باتصویر کتاب آربیس پکچر شائع ہوئی‘ یہ بیک وقت لاطینی اور جرمن زبان میں پیش کی گئی تھی‘ بعد میں اس کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا گیا۔
سترہویں صدی عیسوی میں ادب اطفال میں مذہبی رجحانات کی شمولیت کا آغاز ہوا‘ اس وقت پیورٹین ازم کی تبلیغ شباب پر تھی‘ اور کتابوں کی وساطت سے بچوں میں مذہبی تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا گیا‘ مذہبی تعلیم کے اعتبار سے امریکہ کی رائل پرائم بہت مشہور کتاب ہے‘ ۱۶۷۱ء میں ایک عیسائی مبلغ جیمس جینوے نے اے ٹوکن فار چلڈرن نام کی کتاب لکھی‘ پیورٹینس کے علاوہ بھی بچوں کے لیے بہت سی مذہبی کتابیں لکھی گئیں‘ جن میں جان بنیار (۱۶۲۸۔۱۶۸۸ء) کی کتاب پلگرمس پرو گریس بہت مشہور ہے‘ اسے عیسائیت کی سب سے مشہور تبلیغی کتاب شمار کیا جاتا ہے‘ اس میں ایسے فاتح مذہبی قائدین کے کارنامے شامل ہیں‘ جنھوں نے بے شمار خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے مذہب کی توسیع و اشاعت کی۔
جوناتھن سوئفٹ (۱۶۶۷۔۱۷۶۵ء) کی گولیورس ٹراویس اور ڈینشیل ڈیفو (۱۶۶۰۔۱۷۳۱ء) کی رابنس کروسو عالمی ادب اطفال میں ایسی دل چسپ ترین کتابیں ہیں جو اصلاً بڑوں کے لیے لکھی گئی تھیں‘ لیکن بچوں میں بے حد مقبول ہوئیں‘ ان کتب کے ترجمے بشمول اردو کے دنیا کی تقریباً تمام اہم زبانوں میں ہوئے ہیں‘ ۱۶۹۸ء میں فرانس کے مشہور دانشور چارلس پیرالٹ نے ’’مدر گوز ٹیلز‘‘تصنیف کی جو آٹھ کتابوں پر مشتمل ہے‘ یہ عالمی ادب میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے‘ جو صرف تفریح کے مقصد سے لکھی گئی‘ اس کی بے پناہ مقبولیت کے زیر اثر عالمی ادب اطفال میں تفریحی کتب کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا‘ اور تفریحی کتب کی مقبولیت بہت بڑھگئی۔ یہ تمام کتابیں آج بھی بچوں کے ادب میں مقبول عام ہیں‘ البتہ ان میں وقتاً فوقتاً تھوڑی بہت ترمیم کی جارہی ہے۔
بچوں کے عالمی ادب میں قدیم ہندوستانی کہانیوں نے بھی غیر معمولی مقبولیت حاصل کی‘ سنسکرت میں پنڈت وشنو شرما کی لافانی تصنیف ’’پنچ تنتر‘‘ کو عالمی مقبولیت حاصل ہے‘ اس میں انسانی حالات‘ واقعات‘ مسائل اور کہانیوں کو جانوروں کی زبانی پیش کیا گیا ہے‘ اور اس کا ترجمہ دنیا کی تقریباً تمام اہم زبانوں میں کیا گیا ہے۔
سنسکرت کی قدیم کتابوں میں تین قسم کی کہانیاں ملتی ہیں۔ ۱۔ جانوروں کی کہانیاں۔ ۲۔ پریوں کی کہانیاں۔ ۳۔نصیحت آموز کہانیاں۔
ان میں جانوروں کی کہانیاں سب سے زیادہ مقبول ہوئیں‘ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اول تو بچوں کو شروع سے جانوروں اور چرند پرند سے دل چسپی رہتی ہے‘ دوسری: کہانیوں میں جانور‘ پرندے اور کیڑے مکوڑے سب ہی انسانوں کی طرح بات چیت کرتے ہیں‘ اور انسانوں کی طرح کام انجام دیتے ہیں‘ یہ تمثیلی پیرایہ بچوں کی تفریح کے ساتھ ساتھ تدریسی اعتبار سے بھی بہت موثر ہے‘ بچے چرند پرند اور کیڑے مکوڑ وں کی زبانوں سے کہانیاں سن کر ایک عجیب اور انوکھی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں‘ جس میں حیرت بھی ہے اور تجسس بھی‘ پنچ تنتر کی عالمی مقبولیت کا یہی راز ہے۔
’’پنچ تنتر‘‘ کی تالیف کا مقصد دلچسپ کہانیوں کے ذریعہ اخلاق و حکمت کی تعلیم دینا تھا‘ کہتے ہیں کہ جنوبی ہند کے روپا نگر میں امر گیرتی نام کا ایک راجہ حکومت کرتا تھا‘ اس کے چار بیٹے تھے‘ چاروں بے وقوف اور جاہل تھے‘ انہیں پڑھانے کے تمام طریقے ناکام ثابت ہوئے‘ آخرکار پنڈت وشنو شرما کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ ان راج کماروں کو راج کاج کے طریقے سکھائیں‘ اور انہیں اخلاقیات کی تعلیم دیں۔ وشنو شرما نے جانوروں کی زبانی انسانی خصوصیات‘ سماجی رشتوں ‘ انسانی پیچیدگیوں اور مسائل کی ایسی دل چسپ تشریح و توضیح کی کہ یہ کہانیاں آج بھی اسی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔
جانوروں کے وسیلے سے کہانیاں لکھنے کا یہ اسلوب بعد میں جین اور بودھ کہانیوں میں بھی ملتا ہے‘ لیکن ’’پنچ تنتر‘‘ کو جو مقبولیت حاصل ہوئی‘ وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوسکی‘ بچوں کے عالمی ادب میں پنچ تنتر کی اہمیت مسلمہ ہے‘ اور حقیقت میں ’’پنچ تنتر‘‘ کی کہانیوں سے ہندوستان کی بیش تر زبانوں میں بچوں کے ادب کی بنیاد پڑی ہے۔