فتح پورسیکری جامع مسجد، آگرہ – – ڈاکٹرعزیزاحمدعرسی

Share

جامع مسجد

فتح پور سیکری جامع مسجد، آگرہ
Fatehpur Sikri Jama masjid, Agra
(وہ مسجد جہاں شہنشاہ اکبر ؔ جھاڑو لگایا کرتا تھا)

ڈاکٹرعزیزاحمدعرسی – ورنگل
موبائل : 09866971375

فتح پور سیکری آگرہ سے تقریبا 30تا 35کلو میٹر کے فاصلے واقع ہے ،یہ مقام کئی وجوہات کی بنا اہمیت رکھتا ہے لیکن مغل حکمرانوں کے پاس اس کے تقدس کیاہم وجہہ حضرت شیخ سلیم ؔ چشتی ؒ کا مزار مبارک ہے جو اس علاقے میں واقع ہے ۔ صاحب مزار بڑے بزرگ تھے جن کے عقیدت مند، ان سے نیاز حاصل کرنے کے لئے ان کی خدمت میں آتے اور دعاؤں کی گزارش کرتے ،1564ء میں اکبر ؔ نے حضرت سے ملاقات کی تھی ، جن کی دعا سے 30اگسٹ 1569کو شہزادہ سلیم پیدا ہوا۔ تاریخی واقعات یہ شہادت دیتے ہیں کہ اس فصیل بند شہر کو اکبرؔ نے حضرت سلیم چشتیؓ کی خدمت میں نذر کرنے کی غرض سے تعمیر کروایاتھا، اکبر نے سب سے پہلے اس احاطے میں ایک وسیع مسجد بنائی ،اس کے بعد مسجد کے کمپاؤنڈ سے قدرے دور اکبر ؔ نے دوسری تعمیرات کروائیں جو آج بھی بہتر حالت میں موجود ہے،لیکن ان تعمیرات کا مسجد کمپاؤنڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے ،فتح

پور سیکری کی اس جامع مسجد کو ہندوستان کی بڑی مساجد میں شمار کیا جاسکتا ہے، یہ عظیم الشان مسجد کی تعمیر 1572ء میں مکمل ہوئی ۔تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت سلیم چشتی ؒ کا انتقال بعمر92برس 14فبروری 1572ء کو ہوا ،اس طرح حضرت کی زندگی ہی میں اس مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی، جس جگہ حضرت تشریف فرما ہوتے اسی مقام پر حضرت کا مزار بنایا گیاجو آج بھی بہترین حالت میں مسجد کے صحن میں موجود ہے۔جامع مسجد فتح پور سیکری وسعت کے اعتبار سے کافی بڑی مسجد ہے،اس مسجد کا صحن کافی وسیع ہے جس میں تینوں جانب دالان بنے ہوئے ہیں جو مسجد کو خوبصورت بناتے ہیں ، مسجد کے شمال مشرقی جانب شاہی خاندان کے افراد کی قبور بنی ہوئی ہیں۔ مسجد 165 میٹر لمبی اور 133میٹر چوڑی ہے، بشمول صحن اس مسجد میں تقریباً پندرہ تا بیس ہزار نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ خالص ہندوستانی طرز تعمیر کو سامنے رکھ کر بنائی گئی یہ مسجد مغل طرز تعمیر کی بہترین مثال ہے ، مسجد کا اندرداخل ہونے کے لئے بڑا اور اونچا دروازہ بنا ہوا ہے جس پر بڑا گنبد ہے لیکن یہ گنبد سامنے صحن سے دکھائی نہیں دیتی، ویسے مسجد میں جملہ تین گنبد ہیں داخلہ دروازے پر موجود گنبد بڑا ہے جبکہ دوسرے گنبدان چھوٹے ہیں گنبد کے اندر کی نقاشی اور معماری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ،مسجد کے اندر اور بعض بیرونی حصوں میں سفید اور کالے سنگ مرمر کی منبت کاری کا بہترین کام موجود ہے ۔ مسجد کی بعض دیواروں اور گنبدان میں رنگ وروغن کا کام بھی موجود ہے جو اس قدر عرصہ گذر جانے کے باوجود کہیں کہیں بہتر حالت میں دکھائی دیتا ہے۔ اس دروازے میں مسجد کی محراب تک پہنچنے کے لئے تین کمانیں بنی ہوئی ہیں جس کو دیکھ کر سمر قند کے بی بی خانم مسجد کا دروازہ یاد آتا ہے ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ اس مسجد کے بیشتر حصوں بالخصوص مسجد کے صدر دروازے کو بی بی خانم مسجد کے دروازے کی مطابقت میں بنایا گیا۔ اس اونچے دروازے پر پانچ چھتریاں بنی ہوئی ہیں اور ایوان کے دونوں کنارے چھوٹی مینار جیسی ساخت رکھتے ہیں جن کے درمیان میں منقوش حفاظتی دیوار بنی ہوئی ہے،مسجد کے مشرقی جانب چھت پر چھتریوں کی قطار بنی ہوئی ہے جو ایک عجیب حسن پیدا کرتی ہے اور تعمیر کے وقار میں اضافہ کرتی ہے۔مسجد میں ستون کافی تعداد میں موجود ہیں جو اندرونی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں،ان ستونوں پر نوکیلی کمانیں بنی ہوئی ہیں ۔ قبلے کی دیوار پر تین محراب بنے ہوئے ہیں جن میں اصل محراب خمس پہلو ہے جو درمیان میں واقع ہے بقیہ دو محراب کے صرف نقش ہیں جو ہر سات کمانوں کے بعد قبلے کی دیوار پر ابھارے گئے ہیں ۔ مسجد کا اصل محراب عالی شان ہے جس پر نصف کروی چھت ہے جو آدھے گنبد کے مماثل نظر آتی ہے ویسے یہ محراب کی نصف گنبد ہر مسجد کی نمایاں خصوصیت ہے۔ اس محراب کی تعمیری خوبیاں آج بھی عیاں ہیں ،نازک کام سے مزین محراب کے اطراف کے نقوش آج بھی حسن کے دلداہ افراد کو کچھ دیر مسجد کے مقدس ماحول میں کھو جانے پر مجبور کرتے ہیں ، محراب کے اطراف عربی آیات لکھی ہوئی ہیں جس میں محراب کے بالکل اوپر سورہ بقرہ کی یہ آیات لکھی ہیں فلنولینک قبلۃ ترضا ھا فول وجھک شطر المسجد الحرام ۔امام کے چھوٹے محراب کے اوپر ایک بڑا محراب بنا ہوا ہے جس پر خوبصورت ہندوستانی طرز کے کنگورے بنے ہوئے ہیں، جو مسجد میں اکثر مقامات پر نظر آتے ہیں ،علاوہ اس کے مسجد میں جگہ جگہ ایسی تعمیرات دکھائی دیتی ہیں جو خالص ہندوستانی طرز کی نقیب ہیں ،ممکن ہے اس کی وجہہ اکبر اعظم کی گجرات کی فتوحات ہوں،کیونکہ گجرات میں انڈو اسلامک تعمیری تہذیب کا ہر جگہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ جامع مسجد سیکری کی قبلے کی دیوار پر سفید سنگ مرمر کے آرائشی تکڑے جڑے ہوئے ہیں جو اس کے حسن کو دو بالا کردیتے ہیں ،اوپری کمان کے دونوں جانب یعنی Spandrelپر بھی بہترین دیدہ زیب کام موجود ہے ،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا رنگ و روغن ماند پڑتا جارہا ہے ، ویسے یہ مسجد ہندوستان کی ابتدائی مساجد میں ہے جہاں اندرون مسجد رنگ و روغن چڑھایا گیا۔مسجد میں حکومت کی جانب سے صفائی کا زیادہ بہتر انتظام نہیں ہے ، کبوتروں کی بیٹ جگہ جگہ پڑی ہے کبھی کبھی تو اندرونی حصے میں نماز پڑھنے کے لئے صاف جگہ تلاش کرنی پڑتی ہے حالانکہ امام و موذن موجود ہیں لیکن اس قدر بڑی مسجد کی صفائی ان دونوں کے بس کی بات نہیں۔ امام صاحب زیادہ تر قرآن کی تلاوت میں وقت گذارتے ہیں صفائی کے نام پر زائرین کو پر آس نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں ، نماز ہوتی ضرور ہے لیکن شاید ہی کبھی ایک صف مکمل ہوپاتی ہوگی۔کہا جاتا ہے کہ بادشاہ اکبر اعظم اس مسجد کی صفائی خود جھاڑو کے ذریعے کیا کرتا تھا اور بعض اوقات خود موذن کے فرائض انجام دیتے ہوئے اذان دیا کرتا تھا، یعنی یہ وہ مسجد ہے جس کا موذن ہندوستان کا طاقتور ترین بادشاہ اکبر اعظم ہوا کرتا تھا۔ دنیا کا مشہور بلند دروازہ دراصل اسی مسجد کا باب الداخلہ ہے جس کو مسجد کی تعمیر کے کچھعرصہ بعد مسجد کے جنوب میں بنایا گیا، یہ دروازہ تقریباً 53میٹر اونچا اور 35 میٹر چوڑا ہے ،بلند دروازہ تقریباً نیم دائروی ہشت پہلو پلان پر بنایا گیا۔اس کی انتہائی بلندیوں پر 13 عدد چھتریاں (Kiosks) نصب ہیں جس کو سفید اور کالے سنگ مرمرسے بنایا گیا ،یہ چھتریاں اس بلند دروازے کو مشترکہ تعمیری تہذیبی اقدار عطا کرتی ہیں۔سادہ آرائش رکھنے والے اس بلند دروازے پر قرآن کی آیات کندہ ہیں، ویسے مسجد کے مشرقی جانب بھی ایک دروازہ موجود ہے جس کو بادشاہی دروازہ کہا جاتا ہے۔مسجد میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے حضرت سلیم چشتی ؒ کی درگاہ نظر آتی ہے جس کے چاروں طرف سنگ مرمر میں نفاست سے ترشی ہوئی جالیاں لگی ہوئی ہیں، فنی اعتبار سے ان جالیوں کے نازک کام کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے ،کام اس قدر باریک ہے کہ اگر کوئی شخص جالی کے سامنے کھڑا ہوجائے تو جالی اس کے مکمل سراپا کو دیکھنے میں قطعی حارج نہیں ہوتی ۔اس قدر بہترین کام سارے ہندوستان میں بہت کم دکھائی دیتا ہے ، ان جالیوں کو تراشنے کے لئے استعمال کیا گیا سنگ مرمر اعلیٰ کیفیت رکھتا ہے جو آج بھی ہاتھی دانت کے انداز میں چمکتا دکھائی دیتا ہے، کیونکہ اس سنگ مرمر کو تراشتے وقت عرق اللولوء کا استعمال کیا گیا ،عرق اللولوء دراصل سیپ (Oyster)میں بننے والے موتی کی سفید چمک کا ذمہ دار عنصر ہے۔ مزار مبارک کے مشرقی جانب ایک وسیع ’’جماعت خانہ ‘‘ بنا ہوا ہے جہاں حضرت سلیم چشتی ؒ بادشاہ اکبرؔ اور اپنے مریدوں سے ملاقات کرتے تھے اور انہیں ہدایات دیتے تھے، ان دنوں اس میں کچھ قبور نظر آتی ہیں جو حضرت کے مقرب مریدوں کی قبور ہوسکتی ہیں ،یہ حصہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ اس میں سنگ سرخ رملی کی جالیاں بنی ہوئی ہیں جو خوبصورتی میں بے نظیر ہیں۔سفید سنگ مرمر کے تعویذ پر چھپر کھٹ بنا ہوا ہے اندرونی جانب قرآنی آیات کندہ ہیں ان آیات کو نیلے اور بھورے سنگ مرمر سے سجایا گیا ہے، یہ درگاہ ایک میٹر اونچے پلیٹ فارم پر تعمیر کی گئی ہے،درگاہ شریف کی گنبد کو 1581 عیسوی میں بنایا گیا تھا۔ اس آستانے پر آج بھی ہزاروں کی تعداد میں زائرین آتے ہیں اور حضرت سلیم چشتیؒ کی مزار مبارک کے سامنے موجود مسجد میں نماز پڑھ کر اللہ سے اولاد کی منت مانگنے کے لئے آتے ہیں۔
Written by Dr Azeez Ahmed Ursi
ڈاکٹر-عزیزاحمدعرسی

Share
Share
Share