اردو کے ایک اہم ناول نگار ’’ اداس نسلیں‘‘ کا مصنف عبداللہ حسین نہیں رہے ۔
معروف ناول نگار عبداللہ حسین 84 برس کی عمرمیں لاہور میں انتقال کرگئے۔ وہ گزشتہ ایک برس سے کینسرکے مرض میں مبتلاتھے۔عبداللہ حسین کے شہرہ آفاق ناول ’اداس نسلیں‘ کو نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر بھی بے حد پزیرائی ملی، اداس نسلیں کا خصوصی سلور جوبلی ایڈیشن 2 سال قبل منظرِ عام پر آیا۔ عبداللہ حسین نے یہ ناول 25 برس کی عمر سے لکھنا شروع کیا اور اس کے لیے بھرپور تحقیق کی تھی۔
”اداس نسلیں“ اس کے نام اورموضوع سے پتہ چلتا ہے کہ ناول تاریخی ادوارسے تعلق رکھتا ہے۔ او ر یہ دور 1913ءسے 1947ءپر محیط ہے۔ ناول میں ایک گاؤں روشن پور کو لیا گیا ہے۔ اُن کے ساتھ اس دورمیں کیا کچھ ہوا۔ خواہ غربت ہو جنگ عظیم ہو یا تحریک آزادی۔ ان حالا ت نے لوگوں پر کیااثرات مرتب کیے ۔انگریز کی غلامی اور فسادات نے اعضابی تنائو کا شکاراداس نسلیں پیدا کیں۔ اور یہی بڑاموضوع اس ناول کا موضوع رہا ہے۔
عبداللہ حسین کا ناول ’’اداس نسلیں‘‘ اس نسل کا آئینہ دار ہے جو تقسیم ہند کے بعد بے روزگاری سے پریشان اور خوف زدہ سیاسی و سماجی ماحول سے بے زار نظرآتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم سے تقسیم ہند تک مختلف ادوار، معاشرے اور سماج کو ایک ساتھ پیش کیا ہے۔ عبداللہ حسین کا خیال ہے کہ ماحول ہی انسان کی اداسی کا سبب بنتا ہے۔ ماحول کا انتشار، انسان کے ذہن کو منتشر کرتا ہے اور قوت فیصلہ کو سلب کرلیتا ہے۔ تقسیم ملک کے واقعات کو عبداللہ حسین نے نہایت درد و کرب کے ساتھ پیش کیا ہے اور بے پناہ حقیقت نگاری سے کام لیا ہے۔اس ناول برصغیر کی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔تقسیم ہند کے المیہ کی نسل بھی اب بوڑھی ہو چلی ہے۔
عبداللہ حسین کو حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی صلاحیتوں کے پیش نظر انھیں 2012 میں پاکستان کے سب سے بڑے لٹریچر ایوارڈ ’کمال فن‘ سے نوازا گیا جب کہ ان کے ناول ’اداس نسلیں‘ پر برطانوی نشریاتی ادارے نے ایک دستاویزی پروگرام بھی بنایا تھا جس پر انھیں آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ 2002 میں انھیں رائل سوسائٹی آف لٹریچر کی فیلوشپ بھی دی گئی۔ عبداللہ حسین کے مشہور ناولز میں باگھ، فریب، قید، نشیب، نادار لوگ اور رات شامل ہیں۔
ذیل میں ’’اداس نسلیں ‘‘کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو جس میں مذہب کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔
ڈاکٹرانصاری نے بے چینی سے پہلو بدلا اور ہاتھ کو خفیف سی جنبش دی ۔ ” تم وقت کو بہر طور تسخیر نہیں کر سکتے ۔ یہ ایک مابعدالطبیعیاتی عمل ھے۔ مذہب ، جادو یا ایسی کوئی چیز نہیں ۔ یہ تو ایک سیدھی صاف اور مثبت قوت ھے جو ہمیشہ آگے کی طرف بڑھاتی ھے ، بناتی یا سنوارتی ھے ، بگاڑنے یا نفی کی اس میں صلاحیت نہیں ، تم اپنی زندگی کو آج ہی سے ایک نئے ڈھب سے شروع کر سکتے ہو ۔ اگر تم ماضی کو بھلا دینے پر اپنے اپ کو آمادہ کر سکو تو یہ ایسا ہی ہو گا جیسے تم ابھی پیدا ہوئے ہو ، تمہارا دل ، دماغ اور تخیل جوان ہو سکتے ہیں اور زندگی ۔ ۔ ۔ ”
” تو پھر مذہب کی کیا ضرورت ھے ؟ ” نعیم نے چڑ کر پوچھا ۔
"مذہب ؟افوہ۔ ۔ ۔ نیا انسان بننے کیلئے ایک نظریے کی ضرورت ہوتی ھے ، مذہب ہمیں وہ نظریہ مہیا کرتا ھے ۔ ٹھہرو ، مجھے بتاؤ۔ اب تمہارے پاس کیا ھے ؟ وہ رکے ، ” تاسف اور احساسِ جرم اور پشیمانی ؟اس اثاثے کے بل پر تم کیا کر سکتے ہو ، کہاں تک جا سکتے ہو ؟اس بیماری ہی کا مقابلہ کر سکتے ہو ؟تم اپنی گزشتہ زندگی کے متعلق سوچتے ہو اور اسے تلف کرنے کی فکر میں ہو حالانکہ یہ تمہارے بس سے باہر ھے ، یہ جبھی ممکن ھے جب تم اپنا ذہن کھو دو۔ تم یہ سب جانتے ہو اور مافوق الفطرت باتیں سوچتے ہو اور خطرناک حد تک تخیل پرست ہوتے جا رہے ہو ، تم قطعی لاحاصل طور پر آہستہ آہستہ اپنے آپ کو ختم کر رہے ہو ، اپنے وجود کو بے مصرف بنا رہے ہو اپنے لیے اور دوسروں کیلئے ۔ اس وقت تمہیں ایک مثبت نظریے کی ضرورت ھے ایسی قوت جو تمہیں اتنی تیزی سے آگے کی طرف چلائے کہ تمام پشیمانی ، احساسِ زیاں اور سارے غیر ضروری جذبات پیچھے رہ جائیں ، جو تمہیں گزرے ہوئے وقت سے آزاد کر دے ، جو تمہارے مصیبت زدہ ذہن کو جھٹک دے ، میں جانتا ہوں تمہارے دماغپر تمہاری سوچ کا بوجھ ھے جو تمہیں ختم کر رہا ھے اور تمہارے دل میں کسک ھے جو نقصانِ عظیم کے احساس سے پیدا ہوتی ھے ، اس طرح تم زیادہ دور تک نہیں جا سکتے ۔ ”
” اپنے آپ کو دھوکا ہی دینا ھے ڈاکٹر ” نعیم نے بے حد اکتا کر کہا ۔ ” تو مذہب کو بیچ میں کیوں لاتے ہیں ، اگر اپنے اپ کو یہی کچھ بتلانا ھے کہ دیکھو بھائی اب تک جو کچھ ہوا اسے تو بھول جاؤاور نئے سرے سے پروگرام شروع کرو ، زندگی صحت مند نظریے سے ہی خوشگوار بن سکتی ھے ، چنانچہ سب سے پہلے تو نظریہ حاصل کرنے کی کوشش کرو ، تو جناب اس میں مذہب کہاں سے آگیا ، یہ تو ہم محض تخیل کے بل پر یا تھوڑے سے فلسفے کی مدد سے بھی کر سکتے ہیں ، میرا مطلب ھے کہ ۔ چند مادی فوائد کے لیے مذہب کو استعمال کرنا تو میرے خیال میں ۔ ۔ ۔ ۔ ”
ڈاکٹر انصاری خاموش بیٹھے سرخ ہوتے رہے مگر بولنے سے پہلے انہوں نے اپنے آپ پر قابو پا لیا ۔ ” میں مذہب کی اس زاویے سے تشریح کر رہا تھا جس زاویے سے تم نے اسے دیکھا ، یہ مذہب کی ہمہ گیری ھے کہ ہم اس سے مادی فوائد بھی حاصل کر سکتے ہیں ، ورنہ مذہب تو ہمیں اس دنیا میں لے جاتا ھے جہاں اس کا تصور بھی محال ھے ، یوں مادی فوائد سے کوئی مذہب کسی کو منع نہیں کرتا لیکن اگر آپ اسے محض روحانی رہنمائی کی خاطر استعمال کرنا چاہیں تو آپ کی خوش بختی ھے ، مذہب کا سب سے بڑا آلہ عبادت ھے ، عبادت جو انسان کی شخصیت سے ہم آہنگ ہو کر ایک جذبہ بن جاتی ھے ، جو انسان کو اپنے اندر جھانکنے کی استطاعت بخشتی ھے ، آج تک جس کسی نے اپنے آپ کو جانا اور پہچانا ھے اس کی بساط عبادت نے اس کے اندر پیدا کی ھے ، یہ وہ راستہ ھے جس پر چلتا ہوا آدمی ساری دنیا میں گھوم گھام کر پھر اپنے آپ تک آپہنچتا ھے ، وہ خفیہ اور تنگ راستہ جو انسان کی اپنی ذات تک آکر ختم ہوتا ھے اور پھر اندر اتر جاتا ھے اور جب آدمی ڈرتا ہوا ، جھجکتا ہوا اپنی ذات میں داخل ہوتا ھے تو راستہ روشن اور کشادہ ہوتا جاتا ھے اور اس مقدّس روشنی تک پہنچنے کا جذبہ ، جو راستے کے اختتام پر نظر آتی ھے ، اسے پا لینے کی دیوانی خواہش انسان کو آگے چلاتی جاتی ھے اور اسے ایک مقصد عطا کرتی ھے اور جب وہ مقصد شخصیت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ھے تو انسان اپنی ذات میں گم ہو جاتا ھے ، پہلے شعور کے پردے اٹھتے ہیں ، پھر آہستہ آہستہ لاشعور کے در وا ہوتے ہیں اور جب وہ آفاقی سطح پر پہنچ جاتا ھے تو ماوراء میں دیکھنے اور اسے جاننے لگتا ھے پھر وہ سلیمانی ٹوپی پہن کر بازاروں میں پھرتا ھے ، دنیا کے ہنگاموں میں منزل منزل گھومتا ھے اور لوگ صرف ایک گمنام اور قناعت پسند آدمی کو جانتے ہیں ، کیونکہ جو کچھ وہ دیکھتا ھے اور کوئی نہیں دیکھتا اور جو کچھ وہ جانتا ھے اور کوئی نہیں جانتا ، اسطرح چپکے چپکے وہ زندگی کی سچائی اور اصلیت کی کھوج میں لگا رہتا ھے اور اسی کھوج میں اسے سکون مل جاتا ھے ، سکون ۔ ۔ جو دنیا کی تمام آفتوں کے مقابلے میں ڈھال ھے ۔