چانسلربے قاعدگیوں کے خلاف سخت کارروائی کے حق میں
سبکدوش وائس چانسلر کے حامی ہنوز سرگرم
حیدرآباد۔/26جون، ( سیاست نیوز) ملک میں اہم شخصیتوں کی تعلیمی اہلیت، قابلیت اور جعلی اسناد سے متعلق معاملات کے منظر عام پر آنے کے بعد مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی بھی کسی بھی وقت تحقیقات کے دائرہ میں آسکتی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق مرکزی حکومت یونیورسٹی میں تقررات کے سلسلہ میں استعمال کئے گئے اسنادات کی جانچ کا منصوبہ رکھتی ہے اور اس سلسلہ میں ماہرین سے مشاورت کے بعد قطعی فیصلہ کیا جائے گا۔ یونیورسٹی کے چانسلر ظفر سریش والا بھی یونیورسٹی میں بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کے خاتمہ کے سلسلہ میں سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے واضح کردیا کہ یونیورسٹی میں آئندہ اب کسی بھی بے قاعدگی یا بدعنوانی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یونیورسٹی نے جو سرویس رول وضع کئے ہیں
ان کی خلاف ورزی کی کئی شکایات ملی ہیں جس کے تحت نئے تقررات اور تبادلوں کے اُمور شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے وائس چانسلر کو پانچ سال کے ایکشن پلان کے ساتھ روانہ کیا جائے گا۔ ایکشن پلان پر عمل آوری کی نگرانی کیلئے علحدہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ ظفر سریش والا ملک کے مختلف ماہرین تعلیم کے ساتھ مشاورت کے ذریعہ اردو یونیورسٹی کے معیار کو بلند کرنے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کا معیار اور موجودہ صورتحال باعث افسوس ہے اور اس کے لئے جو بھی عوامل ذمہ دار رہے ان کا جائزہ لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت اور چانسلر کی حیثیت سے انہیں یونیورسٹی کے اُمور کے سلسلہ میں حالیہ عرصہ میں کئی ایک شکایات ملی ہیں جن کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ انہوں نے اس بات کا اشارہ دیا کہ یونیورسٹی کو دیگر سنٹرل یونیورسٹیز کے معیار کے مطابق کھڑا کرنے کیلئے مرکزی حکومت سخت اقدامات کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اسی دوران بتایا جاتا ہے کہ یونیورسٹی میں فرضی اور جعلی ڈگریوں کے ذریعہ تقررات اور ترقی کے اُمور کی جانچ کیلئے بعض گوشوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی نگرانی میں کمیٹی کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تاکہ قیام سے لے کر آج تک تمام تقررات کے سلسلہ میں پیش کئے گئے اسنادات کی جانچ کی جاسکے۔ اسی دوران یونیورسٹی میں جانچ سے متعلق اطلاعات عام ہوتے ہی ان حلقوں میں بے چینی پائی جاتی ہے جو بے قاعدگیوں اور اس طرح کی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں یا پھر جنہوں نے اس طرح کی سرگرمیوں میں اہم رول ادا کیا تھا۔ دوسری طرف یونیورسٹی کے طلباء اور ملازمین نے تحقیقات کے امکانات کا خیرمقدم کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ انچارج وائس چانسلر نے حالیہ عرصہ میں ایکزیکیٹو کونسل کے اجلاس منعقد کرتے ہوئے سابق وائس چانسلر کے فیصلوں پر مہر تصدیق ثبت کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ کسی بھی تحقیقات سے ان معاملات کو بچایا جاسکے۔ یونیورسٹی پر ابھی بھی سبکدوش وائس چانسلر کے کنٹرول کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ ایکزیکیٹو کونسل اجلاس میں ان کے ایک حامی نے یونیورسٹی کے اہم ادارہ کو سابق وائس چانسلر کے نام سے موسوم کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس تجویز کی کئی ارکان نے مخالفت کی اور انچارج وائس چانسلر کی جانب سے اہم پالیسی فیصلوں پر بھی سوال اٹھائے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مسئلہ پر اختلافات کے سبب ایک پروفیسر نے فینانس آفیسر اور کنٹرولر کی زائد ذمہ داری سے استعفی پیش کردیا۔ اس طرح یونیورسٹی میں ابھی بھی سابق وائس چانسلر کے حامیوں اور دیگر اساتذہ کے درمیان سرد جنگ جاری ہے۔ پروفیسرس نے شکایت کی کہ موجودہ انچارج وائس چانسلر اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں کے تمام اہم فیصلوں سے متعلق فائیلوں کی کچھ اس طرح یکسوئی کی جائے کہ اس میں بے قاعدگی کی کوئی جھلک نظر نہ آئے اور یہ فیصلے تحقیقات کے دائرہ میں شامل نہ ہوں۔ اسی دوران چانسلر ظفر سریش والا نے ’’ سیاست‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نئے وائس چانسلر کے انتخاب کیلئے سرچ کمیٹی نے تین ناموں کی سفارش کی ہے اور مختلف زاویوں سے جائزہ لینے کے بعد وائس چانسلر کے نام کا اعلان کردیا جائے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جاریہ ماہ اردو یونیورسٹی کیلئے نئے وائس چانسلر کا انتخاب مکمل ہوجائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ غیر جانبدار اور انتظامی اُمور کے ماہر شخص کو اس اہم عہدہ کی ذمہ داری دی جائے گی۔ مرکزی حکومت چاہتی ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران یونیورسٹی میں جو بھی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں ان کا اعادہ نہ ہو۔ یونیورسٹی کے معیار کو بلند کرنے اور اس کی سرگرمیوں میں وسعت کی دیانتدارانہ مساعی کرنے والے شخص کو اس عہدہ پر فائزکیا جائے گا۔ ظفر سریش والا نے کہا کہ یونیورسٹی میں ابھی بھی ایسے افراد موجود ہیں جو پرانے طریقہ کار کے مطابق یونیورسٹی چلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ نئے وائس چانسلر کے تقرر کے بعد ہر شعبہ کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے
روزنامہ سیاست