اک حرفِ انقلاب ہیں سردارجعفری
ڈاکٹر حامد اشرف
اسو سی ایٹ پروفیسر و صدر شعبۂ اردو
مہاراشٹرا اودے گری کالج ٗ اودگیر
(موبائل:09423351351)
تا ریخ گواہ ہے کہ ہر زمانے میں اشخاص تو بہت ہوتے ہیں ٗ مگر شخصیتیں شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں۔جن لوگوں نے زمانے کے سمندر سے گو ہرِ فردا ڈھونڈ نکالا ٗ جن کی امیدیں قلیل اور مقا صد جلیل ہوںٗ جن کے ارادوں میں پہا ڑوں کا استقلال اور طبیعت میں طوفا نوں سا جوش پایا جائے ٗ اُ نہیں غیر معمولی شخصیت کہنا غلط نہ ہوگا۔علی سردار جعفری کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے زخموں میں زندگی کے آفتا بوں کی حدت ٗ اُن کی ٹھو کروں میں انقلابوں کی داستانیں ٗ بغاوت اُن کا مسلک اور نوجوانی اُن کا مذہب ہے۔ انہوں نے بیک وقت شاعری ٗافسانہ نگاری ٗ ڈرامہ نویسی ٗ صحا فت ٗ خطا بت ترجمہ نگاری اور ہدایت کاری مختلف جہتوں میں کارہائے نمایاں اس طرح انجام دیے کہ زندگی کی صداقتیں اور سیاق و سباق نئی معنویت سے ہمکنار ہوئے۔
سردار جعفری ۲۹؍ نومبر ۱۹۱۳ ء کو قصبہ بلرام پور ضلع گونڈہ میں پیدا ہوئے۔دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ انقلابی شاعری اور احتجاجی سر گر میوں کے سبب علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی سے ایم ۔اے کا امتحان دینے سے روک دیے گئے۔ تاہم پوری زندگی کمیو نیزم اور فاشزم سے متا ثر ہو کر انسان کی بہتری اور بھلائی کے لیے لڑتے رہے۔اس لڑائی میں اُن کا قلم اُن کے لیے ایک طاقتور ہتھیارثابت ہوا۔ اسی قلم کے سہارے وہ سماجی ٗ سیاسی اور ادبی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور پورے ملک میں اُن کی پہچان بنتی گئی۔اُن کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۵؍ جون ۱۹۸۸ ء کو ہندوستان کے وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اُنہیں۳۳واں گیان پیٹھ ایوارڈ یہ کہہ کر عطاکیا کہ ’’ علی سردار جعفری کو اعزاز دے کر ہم نے اپنی عزت افزائی کی ہے۔‘‘یہی نہیں بلکہ حکومتِ ہند نے اُنہیں پہلے پدم شری کے اعزاز سے نوازا۔بعد میں اُنہیں سوویٹ نہرو ادبی انعام اور اسکالر شپ بھی ملی۔نیز مہاراشٹرا اردو اکاڈمی نے اُنہیں ’گیانیشور ایوارڈ‘ سے سرافراز کیا ٗ جو ایک لاکھ روپےؤکے ساتھ شیلڈ اور سرٹیفکیٹ پر مشتمل تھا۔
۱۹۳۶ ء میں جب سجاد ظہیر ٗ ملک راج آنند ٗ ڈاکٹر دین محمد تاثیر نے ترقی پسند وں کے ہمراہ لندن کے مانکنگ ریستوران میں ترقی پسند مصنفین کا مینی فیسٹو تیار کیا اور پرانی روایتوں سے بغاوت کرتے ہوئے نئے قوانین اور نئی قدروں کو خوش آمدید کہا ٗتو ترقی پسند تحریک کی بنیاد پڑی ٗ۔اِس تحریک کے سب سے بڑے شاعر سردار جعفری ہیں۔ اُن کے جملہ نو(۹) شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ پہلا شعری مجموعہ ’پرواز ‘ ۱۹۴۳ ء کو منظرِ عام پر آیا۔بعد میں نئی دنیا کو سلام (۱۹۴۸ ء) خون کی لکیر(۱۹۴۹ء) ایشیاء جاگ اُٹھا (۱۹۵۱ء) پتھر کی دیوار(۱۹۵۳ ء) ایک خواب اور (۱۹۵۴ء) پیراہنِ شرر( ۱۹۶۵ ء) امن کا ستارہ اور لہو پکارتا ہے( ۱۹۷۸ء) میں شا ئع ہوئے ۔ افسانوی مجموعوں میں منزل اور لکھنو کی پانچ راتیں قابلِ ذکر ہیں۔وید اور کمار سمبھو کے ذریعے انہوں نے کبیر ٗ میرا اور گردھر گوپال کی پریم وانی کو اردو کا جامہ پہنایا۔اس کے علا وہ ’اقبال شناسی‘ غالب اور اس کی شاعری جیسی گراں قدر تصانیف بھی
اُن کے قرطاس و قلم کی یادگار ہیں۔نیز ترقی پسند تحریک کا ترجمان رسالہ ’نیا ادب‘ جیسے تاریخی مجلّے کی ادارت کی ذمے داری نبھاتے ہوئے ’گفتگو‘ اور ’قومی جنگ‘ جیسے وقیع رسالے شائع کیے۔آل انڈیا ریڈیو اور ٹی۔وی۔کے اعزازی پرڈیو سربھی رہے۔’محفلِ یاراں ‘اور ’کہکشاں‘ کے عنوان سے ٹی۔وی۔سیریل بھی بنائے۔
سردار جعفری کی انقلابی شخصیت اور انقلابی شاعری کامنبع راقم السطور کے خیال میں دراصل وہ حالات ہیں ٗ جو ہندوستان میں انقلاب کا سبب بنے۔آزادی سے پہلے اور بعد بھی ہر طرف انقلاب زندہ باد کی آوازیں گونج رہی تھیں۔وندے ماترم اور قومی ترانہ ہر فرد کی زبان پرتھا تو ہر دل ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ کی گواہی دے رہا تھا۔جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کی شکست اور شہادت کے پیشِ نظر پٹنہ کے شاعر راجہ رام نارائن موزوں ؔ نے ایک شعر کا مرثیہ لکھا ۔
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانا مر گیاآخر تو ویرانے پہ کیا گزری
۱۷۵۷ ء سے ۱۹۴۷ ء تک قیصرِ ہند رانی وکٹوریہ کا راج ہندوستان پر تقریباً دو سو برسوں تک رہا۔اس دوران جنگیں بھی ہوئیں اور بغاوتیں بھی۔بہادر شاہ ظفرکو ملک بدر کر دیا گیا۔مولوی محمود الحسن کو اسیرِ مالٹا کیا گیا اور مولانا ظفر علی خان کو کالے پانی کی سزا دی گئی۔کا کوروی کیس کے شہید رام پرساد بسمل ؔ نے اپنے ہم نام بسمل ؔ عظیم آبادی کی غزل تختۂ دار پر پڑھی۔
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا با زؤے قاتل میں ہے
دلی میں اخبار نکالنے کے جرم میں مولانا فضلِ حق خیر آبادی اور متی صدرا لدین آزردہ کو تہہِ تیغ کر دیا گیا۔حیدرآباد میں صدائے آزادی بلند کرنے پر مولوی علا الدین خان اور طرّے باز خان کو چار مینار پر پھا نسی دی گئی ۔شہید بھگت سنگھ نے پھانسی کے سائے میں بیٹھ کر اپنے عزیز کرتار سنگھ کو ایک طویل خط لکھا اور نواب واجد علی شاہ کا وہ شعر تحریر کیا جو آج بھی ضرب المثل کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔
درو دیوار پر حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہلِ وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
اس طرح اردو شاعری کا ما حول انقلابی ہو گیا تھا۔اس ماحول میں سردار جعفری کی جوشیلا مزاج اُن پر کیسے نہ غالب آتا۔ چناں چہ اُن کی شاعری اپنے خون چکاں ما حول کی آئینہ داری کرتے کرتے انقلابی رنگ و آہنگ کا نمونہ بن گئی۔
فولاد کی گرج ہے ٗ یہ آہن کا شور
نغمہ نہیں ہے شاعرِ نازک خیال کا
۱۹۴۱ ء تک آتے آتے بقول پروفیسر عابدی
’’ سردار جعفری کی انقلاب آفریں شخصیت کا آبگینۂ فکر تندئ صہبا سے پگھلنے لگا اور وہ
اپنے بیان کی وسعت کے لیے کچھ اور چا ہنے لگے ۔‘‘ سردار جعفری ٗقدیم سرماےۂ شاعری میں مو جود تشبیہات و استعارات کو ایک خزانہ ضرور مانتے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان پر قناعت کر لینا نادانی ہے۔اس طرح زندگی کی نئی ضرورتوں اور نئے مسائل کے نئے طریقِ اظہار اور نئے اندازِ بیاں کے مطالبے سردار جعفری نے قبول کیے۔جس کی وجہہ سے ان کی شاعری روایتی شاعری کے بجائے نئے پیغام اور نئی امیجری کی بہترین مثال بن گئی۔
شام کی آنکھ میں بارود کے کاجل کی لکیر
رائل کرتی ہے فولاد کے ہونٹوں سے کلام
ہم مگر سر پھرے ٗ منچلے اور مغرور ہیں
موت سے ہم کو ملنے کی فرصت نہیں
۱۹۵۰ ء میں حکومتِ وقت کے خلا ف بغاوت کے جرم میں اُنہیں جیل میں قید کیا گیا۔ڈیڑھ سال بعد رہا ہوئے تو انہوں نے جیل کی نظموں پر مشتمل شعری مجموعہ ’’ پتھر کی دیوار‘‘ شائع کیا۔ جس میں حرفِ اول کے زیرِ عنوان وہ لکھتے ہیں کہ
’’ میں اپنی شاعری کو نالۂ نیم شبی اور آہِ سحرگاہی نہیں بنا سکا ہوں۔میں اسے بیک وقت
ستار کا نغمہ اور تلوار کی جھنکار بنانا چاہتا ہوں۔‘‘
مذکورہ بالا شعری مجموعے میں ایک نظم ’’پتھر کی دیوار ‘‘کے عنوان سے ملتی ہے۔یہ نظم جیل میں محبوس نو جوانوں کی حرماں نصیبی اور یاس و الم کی دردناک تصویرہے ٗ جس کے رنگ عصرِ حاضر کی سیاست اور نو جوانوں کی بے راہ روی کے پیشِ نظر اور بھی گہرے دکھائی دیتے ہیں۔
پتھروں کی دیواریں؍پتھروں کے دروازے ؍پتھروں کی انگڑائی ؍
پتھروں کے پنجوں میں ؍ آہنی سلا خیں ہیں ؍اور ان سلاخوں میں ؍حسرتیں ٗ تمنا ئیں ؍
آرزوئیں ٗ امیدیں ؍خواب اور تعبیریں ؍اشک پھول اور شبنم ؍چاند کی جواں نظریں؍
دھوپ کی سنہری زلف؍با دلوں کی پرچھا ئیں ؍صبح و شام کی پریاں؍ موسموں کی لیلائیں؍
سولیوں پہ چڑھتی ہیں؍ اور اس اندھیرے میں ؍ سولیوں کے سائے میں ؍ انقلاب پلتا ہے
ہندوستان کے کم و بیش سبھی صوبوں میں پھیلی دہشت گردی ٗ جنسی جرائم اور غیر محفوظ انسانی صورتحال ٗ اخلاقی و تہذیبی قدروں کا زوال ٗ غریبی ٗ بے کاری ٗ بھکمری اور ظلم و تشدد کی سر گر میوں کو بر سرِ عام دیکھتے ہیں تو سردار جعفری کا قلم پوری توانیاں بکھیرنے لگتا ہے۔
میں نے دہلی میں پنجاب میں اپنے نغموں کی جھولی پساری
اور ایک ایک سے امن کی بھیک مانگی
انہوں نے میری گود میں ؍ چند جھلسے ہوئے ہاتھ
ٹوٹی ہوئی ہڈیاں
خون میں لتھڑی ہوئی چھاتیاں پھینک دیں
سردار جعفری نے طوائف اور رنڈیوں کو کبھی چاند ٗ سورج اور کبھی روٹی سے تشبیہہ دی ہے۔یہاں بھی اُن کا انقلابی لیجہ صاف دکھائی دیتا ہے۔
روٹیاں چکلوں کی قبائیں ہیں
جن کو سرمایہ کے دلالوں نے
نفع خوری کے جھروکوں میں سجا رکھا ہے
۱۹۴۶ ء کے آتے آتے شام ٗ لبنان ٗ مصر ٗ اور ہندوستان کی حکومتوں کا ظالمانہ رویہ ملا حظہ کرتے ہیں اور انسانیت کو تبدیلیِ حالات کا خواہاں دیکھتے ہیں تو یہ عہد کرتے ہیں کہ
آج سے کوچہ و بازار میں مرنا ہے روا
ظلم کی چھاؤں میں چُپ بیٹھ کے جینا ہے حرام
اٹھو کھل گیا پرچمِ آفتاب
نکلتا ہے جس طرح سے آفتاب
غلامی کی زنجیر کو توڑ دو
وقت کی رفتار کو موڑدو
اب سردار جعفری کی شاعری ٗشاعری نہیں رجز کی آواز بن جاتی ہے۔جس میں بادلوں کی گرج ہے۔طوانوں کی صدا ہے۔
کڑکتی ہوئی بجلیاں ٗ زلزلے ٗ آندھیاں ٗ غرض اک انقلابی آہنگ جو انسان دوستی کے پردے میں دکھائی دیتا ہے۔شعری مجموعہ’’ خون کی لکیر ‘‘کی آخری نظم ’رومان سے انقلاب ‘ کا آخری حصہ ملا حظہ ہو۔
شاعرو ٗ ساتھیو
نئے گیت گاؤ
گاؤ جس طرح میداں میں کو ئی مجاہد رجز پڑھ رہا ہو
گاؤ جیسے سمندر میں طوفاں کا دیوتا چڑھ رہاہو
گاؤ ٗ گاؤ گرجتے بادلوں کی طرح
گاؤ گاؤ کڑکتی بجلیوں کی طرح
آندھیوں کی طرح
زلزلوں کی طرح
گولیوں کی طرح اپنے الفاظ دشمن پر برساؤ
سارے عالم پر چھا جا ؤ
۱۹۳۳ ء میں جب وہ علیگڑھ گئے تو وہاں اُن کی دوستی اسرار الحق مجاز ٗ رشید جہاں ٗ سجاد ظہیر اور سبطِ حسن سے ہوئی ۔یہ سب شہرت کے آسمان پر چمکنے والے ستارے تھے۔حسرت موہانی کی رومانیت ٗ بغاوت اور اشتراکیت سے مزین شاعری کے چرچے ہر
طر ف عام تھے۔ اس طرح ایک علمی اور انقلابی ماحول سردار جعفری کو ملا ۔وہ لکھتے ہیں کہ
’’ گاندھی کی کتاب کو پڑھ کر اور نہرو کی تقا ریر کو سن کر جو دروازے ذرا ذرا کھلے تھے اور بند
ہو گئے تھے اب کی بار پورے کھل گئے۔‘‘
جعفری صاحب کے اسلوبِ شاعری کو کسی حد تک کم پسند کیا گیا۔اُن کی شاعری دوسرے ترقی پسند شعراء مجازؔ ٗ جوشؔ ٗفیضؔ اور مخدومؔ کے مقابلے میں کم پسندیدہ رہی۔ اس کی ایک وجہہ یہ ہو سکتی ہے کہ اُن کا پیغام اور لہجہ روایتی نہیں تھے۔اور وہ بقولِ علی احمدفاطمی ’’ اپنے آپ کو شاعر سے زیادہ تہذیب و تاریخ کا وارث سمجھتے تھے۔‘‘
اسی لیے اُنہیں الگ الگ نام دیے گئے۔کسی نے انہیں شاعر کم اور دانشور زیادہ کہا تو کسی نے انقلاب و احتجاج کاوقتی شاعر بتایا۔ِ فراق ؔ نے کہا
’’ سردار جعفری کے ہر صفحہ پر فوج ڈورتی نظر آتی ہے۔‘‘
رفعت سروش نے اُنہیں ایک حرفِ انقلاب کہا۔ غرض یہ کہ وہ ایک انقلابی ٗ جرأت مند اور نئے لب و لہجے کے شاعر تھے۔اُن کا اپنا ڈکشن اور ایک الگ پہچان ہے۔اُن کی شاعری میں حسرت و حرماں کے بجائے اُمید و انبساط اور فکرو بصیرت کے چراغ جلتے ہیں۔اُن کا یہ کہنا درست دکھائی دیتا ہے کہ
ہمارے دل کی تپش سے چراغ جلتے ہیں
ہماری تشنہ لبی میکدے بناتی ہے
Article : Ali Sardar Jafri
Written by Dr.Hamid Ashraf