اصل سکندر اعظم کون؟
سکندر اعظم کون تھا، مقدونیہ کا الیگزینڈر یا تاریخ اسلام کے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ۔ یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب دینا دنیا بھر کے مورخین پر فرض ہے۔ آج ایس ایم ایس کا دور ہے، موبائل کا میسجنگ سسٹم چند سیکنڈ میں خیالات کو دنیا کے دوسرے کونے میں پہنچادیتا ہے۔ جدید دور کی اس سہولت سے اب قارئین اور ناظرین بھی بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ گزشتہ روز کسی صاحب نے پیغام بھجوایا ’’کاش آپ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر کالم لکھا ہوتا۔‘‘ پیغام پڑھنے کے بعد اس وقت سوچ رہا ہوں کہ مقدونیہ کا الیگزینڈر سکندر اعظم تھا یا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ۔ ہم نے بچپن میں پڑھا تھا مقدونیہ کا الیگزینڈر 20سال کی عمر میں بادشاہ بنا۔ 23سال کی عمر میں مقدونیہ سے نکلا، اس نے سب سے
پہلے پورا یونان فتح کیا، اس کے بعد وہ ترکی میں داخل ہوا، پھر ایران کے دارا کو شکست دی، پھر وہ شام پہنچا، پھر اس نے یروشلم اور بابل کا رخ کیا، پھر وہ مصر پہنچا، پھر وہ ہندوستان آیا، ہندوستان میں اس نے پورس سے جنگ لڑی، اپنے عزیز از جان گھوڑے کی یاد میں پھالیہ شہر آباد کیا، مکران سے ہوتا ہوا واپسی کا سفر شروع کیا، راستے میں ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوا اور 323قبل مسیح میں 33سال کی عمر میں بخت نصر کے محل میں انتقال کرگیا، دنیا کو آج تک بتایا گیا، وہ انسانی تاریخ کا عظیم جرنیل، فاتح اور بادشاہ تھا اور تاریخ نے اس کے کارناموں کی وجہ سے اسے الیگزینڈر دی گریٹ کا نام دیا اور ہم نے اسے سکندر اعظم یعنی بادشاہوں کا بادشاہ بنادیا، لیکن آج اکیسویں صدی کے نویں سال کے پہلے دن میں پوری دنیا کے مورخین کے سامنے یہ سوال رکھتا ہوں کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہوتے ہوئے الیگزینڈر کو سکندراعظم کہلانے کا حق حاصل ہے؟ میں دنیا بھر کے مورخین کو سکندر اعظم اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی فتوحات اور کارناموں کے موازنے کی دعوت دیتا ہوں، آپ بھی سوچئے الیگزینڈر بادشاہ کا بیٹا تھا، اسے دنیا کے بہترین لوگوں نے گھڑسواری سکھائی، اسے ارسطو جیسے استادوں کی صحبت ملی تھی اور جب وہ بیس سال کا ہوگیا تو اسے تخت اور تاج پیش کردیا گیا، جب کہ اس کے مقابلے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی 7پشتوں میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا تھا، آپ بھیڑ بکریاں اور اونٹ چراتے چراتے بڑے ہوئے تھے اور آپ نے تلوار بازی اور تیراندازی بھی کسی اکیڈمی سے نہیں سیکھی تھی۔ سکندر اعظم نے آرگنائزڈ آرمی کے ساتھ 10برسوں میں 17لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا تھا، جب کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے 10برسوں میں آرگنائزڈ آرمی کے بغیر 22لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا اور اس میں روم اور ایران کی دو سپر پاور بھی شامل تھیں۔ آج کے سیٹلائٹ، میزائل اور آبدوزوں کے دور میں بھی دنیا کے کسی حکمران کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نہ صرف گھوڑوں کی پیٹھ پر فتح کرائی تھی، بلکہ اس کا انتظام و انصرام بھی چلایا تھا، الیگزینڈر نے فتوحات کے دوران اپنے بے شمار جرنیل قتل کرائے، بے شمار جرنیلوں اور جوانوں نے اس کا ساتھ چھوڑا، اس کے خلاف بغاوتیں بھی ہوئیں اور ہندوستان میں اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار بھی کردیا، لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کسی ساتھی کو ان کے حکم سے سرتابی کی جرأت نہ ہوئی، وہ ایسے کمانڈر تھے کہ آپ نے عین میدان جنگ میں عالم اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول کردیا اور کسی کو یہ حکم ٹالنے کی جرأت نہ ہوئی۔ آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کوفے کی گورنری سے ہٹادیا۔ آپ نے حضرت حارث بن کعب رضی اللہ عنہ سے گورنری واپس لے لی۔ آپ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا مال ضبط کرلیا اور آپ نے حمص کے گورنرکو واپس بلا کر اونٹ چرانے پر لگا دیا، لیکن کسی کو حکم عدولی کی جرأت نہ ہوئی۔
الیگزینڈرنے 17لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا، لیکن دنیا کو کوئی نظام ، کوئی سسٹم نہ دے سکا، جب کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دنیا کو ایسے سسٹم دیے جو آج تک پوری دنیا میں رائج ہیں، آپ نے نماز فجر میں الصلوٰۃ خیرمن النوم کا اضافہ کرایا۔ آپ کے عہد میں نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔ آپ نے شراب نوشی کی سزا مقرر کی۔ سن ہجری کا اجرا کیا۔ جیل کا تصور دیا۔ مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں، مسجدوں میں روشنی کا بند و بست کرایا۔ پولس کا محکمہ بنایا۔ ایک مکمل عدالتی نظام کی بنیاد رکھی۔ آب پاشی کا نظام قائم کرایا۔ فوجی چھاؤنیاں بنوائیں اور فوج کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا۔ آپ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواؤں اور بے آسراؤں کے وظائف مقرر کیے۔ آپ نے دنیا میں پہلی بار حکمرانوں، سرکاری عہدیداروں اور والیوں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کاتصور دیا۔ آپ نے بے انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا اور آپ نے دنیا میں پہلی بار حکمران کلاس کی اکاؤنٹبلٹی شروع کی۔ آپ راتوں کو تجارتی قافلوں کی چوکیداری کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے جو حکمران عدل کرتے ہیں، وہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں۔ آپ کا فرمان تھا ’’قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتا ہے۔‘‘ آپ کی مہر پر لکھا تھا ’’عمر! نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے‘‘۔ آپ کے دسترخوان پر کبھی دو سالن نہیں رکھے گئے۔ آپ زمین پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سو جاتے تھے۔ آپ سفر کے دوران جہاں نیند آجاتی تھی، آپ کسی درخت پر چادر تان کر سایہ کرتے تھے اور سو جاتے تھے اور رات کو ننگی زمین پر دراز ہوجاتے تھے۔ آپ کے کرتے پر 14پیوند تھے اور ان پیوندوں میں ایک سرخ چمڑے کا پیوند بھی تھا۔ آپ موٹا کھردرا کپڑا پہنتے تھے۔ آپ کو نرم اور باریک کپڑے سے نفرت تھی۔ آپ کسی کو جب سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تو اس کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور اگر سرکاری عہدے کے دوران اس کے اثاثوں میں اضافہ ہوجاتا تو آپ اس کی اکاؤنٹبلٹی کرتے تھے۔ آپ جب کسی کو گورنر بناتے تو اسے نصیحت فرماتے تھے۔ کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا۔ آپ فرماتے تھے ظالم کو معاف کردینا مظلوموں پر ظلم ہے اور آپ کا یہ فقرہ آج انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’’مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے انہیں کب سے غلام بنالیا۔‘‘ فرمایا میں اکثر سوچتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں۔ ’’عمر بدل کیسے گیا۔‘‘ آپ اسلامی دنیا کے پہلے خلیفہ تھے، جنہیں ’’امیر المومنین‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ دنیا کے تمام مذاہب کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہے ، اسلام کی سب سے بڑی خصوصیت عدل ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جو اس خصوصیت پر پورا اترتے ہیں۔ آپ کے عدل کی وجہ سے عدل دنیا میں عدلِ فاروقی ہوگیا۔ آپ شہادت کے وقت مقروض تھے، چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کا واحد مکان بیچ کر آپ کا قرض ادا کردیا گیا اور آپ دنیا کے واحد حکمران تھے جو فرمایا کرتے تھے میرے دور میں اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرگیا تو اس کی سزا عمر(حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ) کو بھگتنا ہوگی۔ آپ کے عدل کی یہ حالت تھی۔ آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دور دراز علاقے کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چیخ کر بولا ’’لوگو! حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔‘‘ لوگوں نے حیرت سے پوچھا ’’تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں ہو تمہیں اس سانحے کی اطلاع کس نے دی۔‘‘ چرواہا بولا ’’جب تک حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ زندہ تھے، میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیںدیکھتا تھا، لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کر لے گیا۔ میں نے بھیڑیے کی جرأت سے جان لیا کہ آج دنیا میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ موجود نہیں ہیں۔‘‘
میں دنیا بھر کے مورخین کو دعوت دیتا ہوں، وہ الیگزینڈر کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھ کر دیکھیں انہیں الیگزینڈر حضرت عمر فاروق کے حضور پہاڑ کے سامنے کنکر دکھائی دے گا، کیوںکہ الیگزینڈر کی بنائی سلطنت اس کی وفات کے 5سال بعد ختم ہوگئی، جب کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں جس جس خطے میں اسلام کا جھنڈا بھجوایا، وہاں سے آج بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں آتی ہیں، وہاں آج بھی لوگ اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ دنیا میں الیگزینڈر کا نام صرف کتابوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے، جب کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بنائے نظام دنیا کے 245ممالک میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ آج بھی جب کسی ڈاک خانے سے کوئی خط نکلتا ہے، پولس کا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، کوئی فوجی جوان 6ماہ بعد چھٹی پر جاتا ہے یا پھر حکومت کسی بچے، معذور، بیوہ یا بے آسرا شخص کو وظیفہ دیتی ہے تو وہ معاشرہ، وہ سوسائٹی، بے اختیار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو عظیم تسلیم کرتی ہے، وہ انہیں تاریخ کا سب سے بڑا سکندر مان لیتی ہے، ماسوائے ان مسلمانوں کے جو آج احساس کمتری کے شدید احساس میں کلمہ تک پڑھنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھتے ہیں۔ لاہور کے مسلمانوں نے ایک بار انگریز سرکار کو دھمکی دی تھی ’’اگر ہم گھروں سے نکل پڑے تو تمہیں چنگیز خان یاد آجائے گا۔‘‘ اس پر جواہر لال نہرو نے مسکرا کر کہا تھا ’’افسوس آج چنگیز خان کی دھمکی دینے والے مسلمان یہ بھول گئے ، ان کی تاریخ میں ایک (حضرت) عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) بھی تھا۔‘‘ ہم آج بھی یہ بھولے ہوئے ہیں کہ ہم میں ایک حضرت عمر فاروق بھی تھے، جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ’’میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ حضرت عمر بن خطاب ہوتے۔