’’ورجینیا وولف سے سب ڈرتے ہیں‘‘
قرۃ العین حیدر کی یاد میں
سلام بن رزاق
603 -B ‘ نیو آکار سی ایچ ایس ۔ بالمقابل حیدری مسجد ‘نیا نگر‘ میرا روڈ (ایسٹ)‘ تھانے ۔
ای میل :
موبائل : 09967330204
قرۃ العین حیدر اردو کی ایسی مایہ ناز ادبیہ تھیں جنہوں نے نہ صرف اردو میں بلکہ برصغیر کی دیگر زبانوں میں سبھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ان کے ناولوں اور افسانوں کے اہم عناصر دو ہیں، ماضی کی باز یافت اور تہذیبوں کی شکست دریخت کا المیہ۔
اس بات کا اعتراف خود مصنّفہ نے بارہا کیا ہے۔ وہ اپنی خود نوشت میں ایک جگہ لکھتی ہیں۔
’’میں نے اپنی پہلی کہانی شاید سات برس کی عمر میں لکھی تھی جو اس طرح شروع ہوئی تھی۔ ’رات کے بارہ بجے تھے۔ کاٹھ گودام کے اسٹیشن پر قلی لالٹین لیے ادھر ادھر دوڑتے پھرتے تھے۔ ہیروئن میری گڑیا تھی جو خود ہی ٹکٹ خرید کر پاؤں پاؤں چل کر غلط ٹرین میں بیٹھ گئی تھی۔‘‘
اگرچہ ان سطروں کو انہوں نے اپنی پہلی کہانی کے طور پر پیش کیا ہے مگر اس عبارت سے ان کے ذہنی روییّ اور فکری رجحان کا پتا چلتا ہے۔ لگتا ہے ان کے دل میں بچپن ہی سے انجانی دنیاؤں کی سیر کی خواہش آسودہ خاطر ہونے کو مضطرب اور بے قرار تھی۔ گڑیا کا غلط ٹرین میں بیٹھ جانا اپنے آپ میں ایک تھرل ہی نہیں انجانے سفر کا استعارہ بھی ہے۔ قرۃ العین حیدرکی زندگی کے نشیب و فراز اور ان کی بے پناہ تحریروں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں ان کی گڑیا نہیں وہ خود غلط ٹرین میں سوار ہوگئی تھیں۔ ایک ایسی ٹرین میں جو ہر موڑ پر زمانۂ حال کی وادیوں سے نکل کر ماضی کے دھندلکوں میں داخل ہوجاتی ہے، جسمانی طور پر وہ دنیا کے مختلف ملکوں اور نئی بستیوں کی سیر کرتی رہیں۔ مگر ذہنی طور پر وہ ہر پل، ہر گھڑی ماضی کے کھنڈروں میں شکستہ تہذیبوں کی کرچیاں چنتی رہیں۔ اس تلاش و جستجو کے نتیجے میں ان کی آنکھیں لہو روتی رہیں اور قلم آگ اگلتا رہا۔ تاریخ اور تہذیب سے انھیں شروع سے دلچسپی رہی ہے۔ وہ عرب، عبرانی، ایرانی، تورانی اور ہندوستانی ورثے کو اپنی تحریروں کا لازمی حصہ سمجھتی تھیں۔ موقع ملنے پر وہ موہن جوداڑو کے بارے میں لکھنا چاہتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں ‘I would like back and back’ انہوں نے ایک کہانی لکھی تھی ’روشنی کی رفتار‘ جس میں ایک لڑکی ٹائم مشین میں بیٹھ کر تیرہویں صدی قبل مسیح میں چلی جاتی ہے، غالباً یہ وہی لڑکی ہے جو غلط ٹرین میں بیٹھ گئی تھی اور اب ٹائم مشین کے ذریعہ تیرہویں صدی قبل مسیح کے مصر کی سیر پر نکل گئی ہے۔
’میرے بھی صنم خانے‘ سے لے کر ’آگ کا دریا‘، آخر شب کے ہم سفر، گردش رنگ چمن اور کار جہاں دراز ہے تک ان کے تقریباً سبھی ناولوں میں ماضی کی بازیافت کے ساتھ ساتھ ٹوٹتی بکھرتی تہذیبوں کا المیہ دکھائی دیتا ہے اور یہی موضوع ان کے فن کا مرکز اور محور ہے۔ قرۃ العین پر ہمارنے نقادوں نے کم کم توجہ دی ہے اور جتنی دی ہے وہ بھی غیر تشفی بخش ہے۔ خود قرۃ العین حیدر کا ماننا ہے کہ ان کی تحریروں کے استعارے علائم اور تلمیحات کو اکثر نقادوں نے قطعاً نظر انداز کیا ہے یا غلط مطالب اخذ کیے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ناقدین سے سخت برہم نظر آتی ہیں۔ ایک جگہ لکھتی ہیں۔
’’مجھ سے اکثر طنزاً کہا جاتا ہے کہ آپ کی تحریروں پر لکھنے کے لیے بہت سے علوم سے واقف ہونا چاہیے یہ بالکل سہل بات ہے۔ اگر ناقدین نے اپنے آپ کو ادب کا پارکھ مان کر اپنی گدیاں سنبھالی ہیں تو یقیناًان کو بہت سے پوتھیاں بانچنی چاہئیں۔ ادب اکہری چیز نہیں ہے۔‘‘
۱۹۶۳ میں ملازمت کے سلسلے میں جب میں بمبئی میں وارد ہوا تو اردو ادب کا میرا مطالعہ بس یونہی سا تھا۔ قرۃ العین حیدر کا نام ضرور سنا تھا مگر ان کی کوئی تحریر میری نظر سے نہیں گزری تھی۔ کرشن چندر اور منٹو میرے پسندیدہ ادیب تھے۔ میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی کتابیں پڑھتا تھا۔ جب پہلی دفعہ میں نے آگ کا دریا، پڑھا تو مجھے محسوس ہوا جیسے میری سوچ کے افق پر ایک نیا ستارہ روشن ہوگیا ہے۔
اس کے بعد ایک ایک کرکے میں نے ان کے افسانوں کے مجموعوں، ناولوں کے علاوہ کار جہاں دراز ہے تک ان کی بیشتر کتابیں پڑھ ڈالیں مگر بمبئی میں رہتے ہوئے بھی ایک عرصے تک ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ وہ بہت کم لوگوں سے ملتی تھیں مگر جو لوگ ان سے مل لیتے تھے ان کے لیے وہ لمحات یادگار ہوجاتے تھے۔ بعد میں میری بھی ان سے دوچار ملاقاتیں ہوئیں۔ ان سے پہلی ملاقات کا نقش تو آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ تقریباً چالیس برس پہلے کی بات ہے۔
ہندی کے نامور مزاح نگار شرد جوشی نے ایک مضمون لکھا تھا جو اس زمانے کے مشہور ہندی ہفتہ وار دھرم یگ، میں شائع ہوا تھا۔ جس کا عنوان تھا۔ ورجینیا وولف سے سب ڈرتے ہیں۔ اردو میں جدیدیت کا غلغلہ تھا اور ہندی میں بھی آدھونکتا واد کا بول بالا تھا۔
جدید ادب کے حوالے سے کیا ہندی اور کیا اردو دونوں زبانوں میں ژاں پال سارتر جیمس جوائز کامو اور ورجینیاوولف جیسے ناموں کی دھوم تھی۔ آگ کا دریا کی اشاعت کے بعد کسی ناقد نے قرۃ العین حیدر کو اردو فکشن کی ورجینیا وولف لکھ دیا۔ اس کے بعد ہر کوئی خواہ اس نے ورجنیاوولف کو یا آگ کا دریا پڑھا ہو یانہ پڑھا ہو قرۃ العین حیدر کو اردو کی ورجینیا وولف کہنا شروع کردیا۔ اس زمانے میں قرۃ العین حیدر کا ایسا دبدبہ تھا کہ ایک طرف ان کے افسانوں ناولوں، رپور تاژ اور سفر ناموں نے برصغیر کے نہ صرف اردو داں طبقے کو اپنے حلقۂ اثر میں لے لیا تھا بلکہ انگریزی اور ہندی کے علاوہ دیگر علاقائی زبانوں میں بھی ان کے افسانوں اور ناولوں، خاص طور پر آگ کا دریا کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا۔ ان کی تخلیقات کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ ان کی پر وقار شخصیت اور ان کی ترش مزاجی نیز تنہائی پسندی کے قصے بھی خاصے عام تھے۔ کوئی ان پر پی۔ایچ ڈی کرنا چاہتا تھا۔ فون پر اجازت طلب کی تو انہوں نے سختی سے منع کردیا۔ ان کے بارے میں اکثر لوگ خاص طور پر باقر مہدی صاحب اپنے مخصوص انداز میں ہم نئے لکھنے والوں کو یہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ وہ کسی سے نہیں ملتیں۔ دروازے سے ہی لوٹا دیتی ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو منہ بھی نوچ لیتی ہیں۔ باقر صاحب کے کہنے کا انداز کچھ ایسا ہوتا تھا جیسے کوئی بچوں کو طلسماتی کہانیوں کی کسی پراسرار جادو گرنی سے ڈرا رہا ہو۔ مجھ پر بھی ان کی باتوں کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ کبھی ان سے ملنے کا خیال بھی آتا تو ہمت پست ہوجاتی۔ یہی وجہ تھی کہ میرے افسانوں کا پہلا مجموعہ ۱۹۷۷ میں چھپا تھا لیکن ان کے گھر جاکر ان کی خدمت میں پیش کرنے کی جرأت نہیں ہوسکی۔ وہ ان دنوں ٹائمز گروپ کے مشہور اخبار السٹریڈ ویکلی میں اپنی خدمات انجام دے رہی تھیں۔
۸۱۔۱۹۸۰ء کی بات ہے آل انڈیا ریڈیو پر معروف شاعر جاوید ناصر ایکزیکٹیو آفیسر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ان سے اکثر ملنا ہوتا تھا۔ ایک دن انہوں نے کہا ’’تم عینی آپا (قرۃ العین حیدر) سے ملنا چاہتے تھے میں کل ریڈیو کانٹریکٹ پر دستخط لینے ان کی رہائش گاہ پر جارہا ہوں۔ اگر چلنا چاہو تو چلو۔‘‘
اپنی کتاب پیش کرنے اور ملاقات کرنے کا یہ اچھا موقع تھا میں فورا تیار ہوگیا لیکن اس اندیشے کا بھی اظہار کردیا کہ وہ بغیر اپوامینٹ کے کسی سے ملنا پسند نہیں کرتیں۔ جاوید نے کہا ’’یہ مجھ پر چھوڑ دو۔‘‘ جاوید ان سے ریڈیو پروگراموں کے سلسلے میں دو تین بار مل چکے تھے۔ انہوں نے آکاش وانی پر ان سے ایک انٹرویو بھی لیا تھا۔
عینی آپا پیڈر روڈ پر رہتی تھیں۔ ہم لوگ دوسرے دن وقت مقررہ پر ان کے فلیٹ پر پہنچے ۔ میں اندر سے قدرے گھبرایا ہوا تھا۔ باقر صاحب کی بات بار بار یاد آرہی تھی کہ وہ ملنے والوں کو دروازے سے ہی لوٹا دیتی ہیں۔ بلکہ بعض اوقات منہ بھی نوچ لیتی ہیں بہر کیف ڈور بیل بجانے کے کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک ضعیفہ نے باہر جھانک کر پوچھا ’’کون ہے؟‘‘ غالباً یہ ان کی نوکرانی تھیں۔ جاوید نے اپنا نام اور کام بتایا۔ ضعیفہ واپس چلی گئیں۔ چند لمحوں بعد لوٹ کر آئیں اور ہم لوگوں کو اندر ڈرائنگ روم میں بٹھا کر پھر غائب ہوگئیں۔ میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ چھوٹا سا ڈرائنگ روم تھا۔ دیواروں پر تین طرف بڑے بڑے بک شیلف بنے ہوئے تھے جن میں انگریزی اور اردو کی موٹی موٹی کتابیں قرینے سے سجی ہوئی تھیں۔ پانچ سات منٹ گزر جانے کے بعد بھی عینی آپا باہر نہیں نکلیں تو میں نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ جاوید نے آہستہ سے کہا ۔ ’’وہ تیار ہو رہی ہوں گی۔‘‘ میں ان کے جملے کا مطلب نہیں سمجھا آخر دس بارہ منٹ بعد وہ باہر آئیں۔ گہرے اودے رنگ کے چھنیٹ کی شلوار کرتہ زیب تن کیے ہوئے تھیں۔ دوپٹا گلے میں حائل تھا۔ باب کٹ بالوں میں مہندی کی جھلک تھی۔ کانوں میں کوئی زیور تھا یا نہیں اب یاد نہیں البتہ گلے میں لباس کے رنگ سے میچ کرتے بڑے بڑے موتیوں کی مالا تھی۔ کلائی پر گھڑی، آنکھوں پر موٹی فریم کا چشمہ اور ہونٹوں پر لپ اسٹک کی ہلکی ہلکی سرخی، واقعی وہ تیار ہوکر ہی آئی تھیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ملاقاتیوں سے اسی وضعداری سے ملتی ہیں۔
ان کی مسحور کن شخصیت کو دیکھ کر میرے ذہن میں کسی پر اسرار جادو گرنی کا تصور پاش پاش ہوچکا تھا۔ وہ تو کسی ریاست کی شہزادی معلوم ہو رہی تھیں۔ ہم انھیں دیکھتے ہی احتراماً کھڑے ہوگئے۔ انھیں آداب کیا۔ وہ صوفے پر بیٹھتی ہوئیں ہمیں بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ جاوید نے میرا تعارف کرایا۔ بولیں۔۔۔۔۔۔ ’’جانتی ہوں۔ رسالوں میں دیکھا ہے۔‘‘
پھر مجھ سے مخاطب ہوئیں۔ ’’کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’میں بمبئی کا ہی رہنے والا ہوں ۔‘‘
میں نے اپنا مجموعہ ننگی دوپہر کا سپاہی کا ایک نسخہ دستخط کر کے ان کی خدمت میں پیش کیا۔
انہوں نے کتاب کو ادھر ادھر سے اُلٹ پلٹ کر دیکھا اور پوچھا۔
’’تم لوگ ترقی پسند ہو جدیدیت پسند؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’ہم نہ ترقی پسند ہیں نہ جدیدیت پسند بس جو سمجھ میں آتا ہے لکھتے ہیں۔‘‘
بولیں۔۔۔ ’’تمھارا امام کون ہے؟ سردار جعفری، شمس الرحمن فاروقی یا باقر مہدی؟‘‘
لہجے میں ہلکی سی شوخی تھی۔ میرا خوف بھی قدرے کم ہوچکا تھا۔ میں نے جاوید کی طرف دیکھا وہ حسب عادت اپنی انگلیاں چٹخاتے ہوئے مند مند مسکرا رہے تھے۔ میں نے رسان سے کہا۔
’’ہمارا کوئی امام نہیں ہم امّت بے رسول ہیں۔‘‘
اس پر ذرا سا مسکرائیں اور بولیں ’’گڈ‘‘
اتنے میں نوکرانی چائے کی ٹرے لے آئی۔ ٹرے میں بسکٹ اور نمکین کی پلیٹیں بھی تھیں ۔
میں آگ کا دریا پڑھ چکا تھا اس پر ناقدین کی آراء بھی میری نظر سے گزری تھیں۔ ایک سوال میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا۔ آخر میں نے جھجھکتے ہوئے پوچھ ہی لیا۔
آپا! اس بات پر تو سارے ناقدین متفق ہیں کہ آگ کا دریا اردو کا جدید کلاسیک ناول ہے مگر بعض کا کہنا ہے کہ اس ناول پر جیمس جوائس اور ورجینیا وولف کے اسٹریم آف کانشیس نیس کا اثر ہے۔‘‘
ان کی روشن پیشانی پر خفیف سا بل پڑ گیا۔ قدرے تیز لہجے میں بولیں۔
’’جیمس جوائس؟ اردو میں کتنے لوگوں نے پڑھا ہے جیمس جوائس کو؟ وہ دیکھو وہاں رکھا ہے پورا جیمز جوائس۔‘‘ انہوں نے انگلی سے ایک شیلف کی طرف اشارہ کیا۔ وہاں انگریزی کی کئی موٹی موٹی کتابیں قرینے سے لگی ہوئی تھیں۔ وہ کھنکتے لہجے میں کہہ رہی تھیں۔
’’اور یہ اسٹریم آف کانشیس نیس (Stream of consciousness)کیا ہوتا ہے؟
کسی نے کچھ کہہ دیا۔ باقی سب اس کی تکرار کرنے لگتے ہیں۔ ارے ناول میں اس کے علاوہ بھی تو بہت کچھ ہے غور کرنے کے لیے۔‘‘
میں نے جلدی سے کہہ دیا۔ ‘’باقر صاحب کہہ رہے تھے۔‘‘
باقر صاحب کا نام سن کر لمحے بھر کو توقف کیا۔ پھر بولیں۔
’’باقر کی ہر بات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے۔‘‘
ہم لوگ چائے پی چکے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے ان سے اجازت طلب کی۔ دروازے تک ساتھ آئیں پھر بولیں ’’آپ لوگوں نے اچھا کیا کہ اپنا کوئی امام نہیں بنایا۔ بس لکھتے رہو۔ لکھتے رہنا ضروری ہے۔‘‘
اس کے سال بھر بعد پتا چلا کہ انھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شبعۂ اردو میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے مدعو کیا گیا ہے جہاں وہ فکشن پر ریسرچ کرنے والے طلبہ کو گائڈ کرتی ہیں۔ بعد میں دو تین سیمناروں میں ان کے نیاز حاصل کرنے کے مواقع ملے۔ ہر ملاقات پر جب میں انھیں آداب کہتا تو یہ خدشہ لاحق رہتا کہ پتا نہیں وہ پہچان پائیں گی یا نہیں۔ مگر میرے خدشات ہمیشہ باطل قرار پاتے۔ وہ تپاک سے ملتیں اور بزرگانہ شفقت کے ساتھ یہ سوال ضرور کرتیں، کیا ہورہا ہے آج کل ادب میں؟‘‘
ان کی تحریروں میں ابتدا سے روحانیت کے اثرات موجود رہے ہیں۔ کار جہاں دراز ہے میں تو انہوں نے لکھا ہے کہ ان کے خاندان کا سلسلہ براہ راست امام زین العابدین سے جا ملتا ہے۔ ان کے اجداد صوفی نظریات کے حامل تھے۔ اپنی تحریروں میں انہوں نے صوفیوں کی صحبتوں کے فیوض و برکات کا ذکر بڑی عقیدت سے کیا ہے۔ آخری ایام میں تو انہوں نے بالکل صوفیانہ طرز زندگی کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں ان کی پاک باطنی ان کی نفاست اور طہارت، نیز ادب کے تئیں ان کے شوق ریاضت کے پیش نظر انھیں اردو ادب کی ورجینیا وولف کی بجائے رابعہ بصریؒ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
عینی آپا اب ہمارے درمیان نہیں رہیں مگر اردو فکش میں ان کا نام اور کام ہمیشہ باقی رہے گا۔
نوٹ : یہ مضمون مصنف نے جہان اردو کے لیے ای میل کے ذریعے ارسال کیا ہے۔تحقیق پر پتہ چلا کہ یہ مضمون سمت کے شمارہ نمبر ۹ کی فہرست میں شامل ہے۔مگر سرچ کرنے پر بھی یہ مضمون مذکورہ شمارہ میں نہیں ملا۔اس کے باوجود ہم آن لائن جریدہ سمت کے ممنون ہیں۔
آن لائن جریدہ سمت