جاوید نامہ کی ایک فارسی نظم:۔ ۔ نعیم جاوید‘ سعودی عرب

Share

مشاعرہ

جاوید نامہ کی ایک فارسی نظم:
’’روحِ ابوجہل در حرمِ کعبہ‘‘

مضمون نگار: نعیم جاوید۔۔ سعودی عرب

موبائل : +966540428951
ای میل :

1932 ؁ میں علامہ اقبالؔ کی ایک جاوداں ادبی تخلیق مشرق کی توانا آواز بن کر ایوانِ مغرب کے ادب زار وں میں
پہنچتے ہی ہلچل مچادیتی ہے۔ مغرب کے باخبر نقادانِ فکرو فن اُسے ایک لازوال ادبی فن پارہ قرار دیتے ہیں۔جاوید نامہ کی بابت
خود علامہ اقبالؔ نے کہا تھا کہ’’ اس کے ابیات؛ جہانِ دیگر کا احوال کہتے ہیں‘‘۔ جہاں شاعرِ مشرق کا طاقتور تخیل ایک ایسی
جولانگاہِ شوق کی بازیافت کرتا ہے جسے ہم دراصل معراجِ النبی ؐ کا تمثیلی سفر نامہ کہہ سکتے ہیں۔ بقول اقبال ؔ ؂
آنچہ گفتم ازجہان ِ دیگر است این کتاب از آسمانِ دیگر است

آئیے ہم اقبال ؔ کے علوی سفر میں ایک حیرت انگیز منظر کو دیکھتے ہیں جہاں حرم کعبہ پہنچکر ایک معروف اسلام مخالف شخصیت کی ایک
دلچسپ الجھن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور اس کا نوحہ سنتے ہیں۔پھر ہم ان سوالات پر بھی غور کرتے ہیں جس نے اس کو
ابو الحکم ؔ سے ابوجہل ؔ بننے پر مجبور کردیا تھا۔
25 اشعار پر مشتمل اس فارسی نظم میں بنو مخزوم ؔ کی سردار عمروؔ بن ہشام جسے ’’دالندوہ‘‘ کی سیاسی مجلسِ ادارت نے
اس کی دانش افروز سیاسی بصیرت پر اعتماد رکھتے ہوئے ’’ابو الحکم‘‘ کا سرکاری اعزاز دیکر اس کے سیاسی شعور کی تصدیق
کی تھی۔ یہاں اس کے سیاسی اختیار کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہ یاد رکھیں کہ شہر مکہ میں ’درالعجہ‘ اور دارالاسرا‘
کی حیثیت ذیلی سیاسی اداروں کی تھی جب کہ ’دارالندوہ‘ سب سے بااختیار سیاسی ادارہ تھا۔جہاں قیادت کی اہلیت
قبائل کی سربراہی کی اساس کی علاوہ سیاسی بصیرت کی بنیاد پر بھی دی جاتی تھی۔جس کا ثبوت ’میثاقِ حلف الفضول ‘ جو
حرب الفجار کو فرو کرنے کے لئے خود نبی رحمت ؐ ایک مصلح کی حیثیت میں شریکِ معاہدہ رہے۔ آپؐ کی حیثیت اس وقت
ایک جواں سال و دانشمند شخصیت کی تھی نہ کہ قبیلے کے سردار کی ۔ کیونکہ بنو ہاشم کی قیادت اس وقت جنابِ ابو طالب کے
پاس تھی۔اسی طرح بنو مخزوم کی قیادت بھی ولید بن مغیرہ کے پاس تھی نہ کہ ابوجہل کے پاس لیکن وہ اپنے سیاسی فیصلوں کی شہرت
کے سبب ’ابوالحکم ‘ کے لقب و اعزاز سے ’دارالندو‘ کے اہم ترین شخصیات میں شامل تھا۔دوسری طرف ایک مسیحانفس
صادق و مصدوق نبیؐ نے خدا کے آخری صحیفہ کی تکذیب کرنے کے جرم میں اسی ابوالحکم عمرو بن ہشام کو ’’ابو جہل ‘‘ قرار دیا تھا۔
ایسا کیونکر کیا تھا ہم یہ سمجھنے کی سعی کرتے ہیں۔۔اسی ابو جہل کی روح اس نظم کا مرکزی کردار بن کر حرم کعبہ پہنچ کر احتجاج کرتی ہے اور نوحہ کناں ہے کہ’’ میراسینہ محمد ؐ کی تعلیمات سے داغ داغ ہوچکا ہے۔چراغِ حرم بت شکنی کی وجہہ سے گل ہوگیا ۔

۲
اس کا حقیقی سبب اُس پیغام کا وہ جادہ ہے جس کے طلسم میں پوری قوم کے ہوش اُڑے اور حیرت تو یہ ہے کہ ’لاالہٰ‘ خود ایک کلمۂ کفر ہے جس نے پوری دنیا کو وحدتِ الہٰ کا عجیب و غریب پیام دیا ہے۔ مسلمانوں کی بے ذوقی کی انتہا تو دیکھوکہ غائب خدا کو سجدے گذارتے ہیں اور حاضر و موجود شۂ کو غائب پر ترجیح دیتے ہیں‘‘ ؂

سینۂ ما از محمدؐ داغ داغ از دم اُو کعبہ را گل شد چراغ
ساحر و اندر کلامش ساحری است ایں دو حرفِ لاالہٰ خود کافری است
خم شدن پیشِ خدائے بے جہات بندہ را ذوقے نہ بخشد ایں صلوات

ان اشعار کا حسن یہ ہے کہ اقبال ؔ نے دشمنِ اسلام سے دراصل اسلام کی دلنواز مدح کروائی ہے۔ اسی نظم میں ابوجہل کو آبأ پرستی کے
مٹ جانے کا غم ہے۔قیصر و کسری ٰ کے شاہی سطوت کے بکھرنے کا دکھ ہے۔فکرِ اسلام کی پیہم ضربوں سے لات و منات کے
ریزہ ریزہ ہو کر ٹو ٹ جانے پر حزن و ملال ہے۔ خصوصاً نوجوانوں کے تازہ اذہان کا جاں گداز فیصلہ جس نے صدیوں پر
محیط اصنام پرستی کے دیومالائی فلک بوس نظام کا ابطال کیا۔ جن کے ایک فیصلے نے پوری عصبیت کی دنیا معدوم کردی۔
نظم کا دوسرا بند جو دراصل اس کا کلائمکس ہے جس میں شکایت کی لَے تیز و تند ہوجاتی ہے۔جس میں اقبالؔ نے ’’اشیاء کے اضداد
سے اشیاء کے عرفان ‘‘کے کلیہ کونوحہ کے احتجاج میں بڑے سلیقے سے چھپا کر رکھا ہے۔ ابوجہل کو شکایت ہے کہ’’ اس مذہب نے اولادِ آدم کومٹی کی جڑوں سے اکھاڑدیا ہے۔ ملک سے وابسطہ اپنے وجود کے احساسِ افتخار کو آگ لگادی۔ جغرافیائی تشخص ثانوی ہو کر رہ گیا۔ زمینوں کا تقدس ملیامیٹ ہوگیا۔ نسب کا اکرام غیرمعتبر حوالہ بن گیا۔ علم الانساب کا سرمایہ ‘ عمل کا ثبوت طلب کرتا ہے۔ قریش کی اجارہ داری نہ رہی۔خاندانِ قریش کی برتری کو خود قریشیوں نے معرضِ خطر میں گھسیٹا ہے۔(جیسا کہ ہم واقف ہیں کہ خود ابوجہل اصلاً و نسلاً قریشی تھا)۔ خاندانوں اور خانوادوں کی برتری ایک اضافی شۂ ٹہری ۔اس کی زیادہ وقعت نہیں رہی۔صرف ایک شناختی لاحقہ بن کر رہ گئی ہے۔ عرب کے فضل کو اس مذہب نے مٹا کر رکھ دیا ہے۔ حبش ؔ کے بد شکل غلاموں کو خوانِ نعمت کا حصہ دار بنایا گیا۔ سیاہ رنگت کی نسلوں نے سرخ وسفید رنگت کی ہمسری کا منصب حاصل کرلیا۔
احرارِعرب کو مساوات کا فریب دے کرعجمی گنواروں کے برابرکردیا گیا۔ابوجہل اس مقام پرچلّا اٹھتا ہے کہ ۔ابن عبداللہ یعنی حضور رسالتماٰبؐ ’’نقلِ کفر کفر نہ باشد ‘‘۔۔دراصل سلمان فارسیؓ کے دامِ فریب میں پوری طرح آچکے ہیں۔جس نے ایران کے مزدکی فلسفہ کے سحر سے مساوات کا ثور پھونکا اور اس عقل فریب برابری کانام اسلام رکھ دیا۔جس کے نتیجے میں ہمارے
تمام سماجی و تمدنی ادارے مواخواۃ کی زد پر آگئے‘‘۔(جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جاہلیت کے دور میں تین طرح کے
میثاق ہوتے تھے۔ (۱) حلف (۲)جوار (۳) وِلا یعنی Patronage جو آج معروف معنوں میں’’کفالۃ ‘‘ کی
صورت میں اکثر عرب ممالک میں جاری و ساری ہے۔جس کا افسوس ہے۔جس نے پھر ایک بار فاصلوں کی بنیاد ڈال دی۔
جب کہ مواخاۃ کی بنیاد نظریہ پر رکھی گئی ہے۔ جس میں کہیں کہیں مزاجوں اور حیثیتوں کا لحاظ ضرور کیا گیا ۔اسی مواخاۃ نے
سماج کے تمام فرسودہ طریقوں کے اثر کو زائل کر دیا تھا۔
ابو جہل ؔ اسی نوحہ میں اسلامی فکر و تربیت کو تمام تر محرومیوں سے تعبیر کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ ’’دو رکعت کے فریب میں پوری دنیاآچکی ہے۔حقیقت میں اسلامیانِ عرب و عجم دانشِ نور سے بیگانۂ ہوگئے ہیں۔خود آلِ ہاشم نے عربی وجاہت پر خاک اُڑائی ہے۔ کہاں بنو عدنانؔ کا نسبی افتخار کہاں کج لسان عجمی ۔۔اور وہ اخطبِ عرب وہ فصیح جن و انس سحبان بن رُفر لوائلی جس کی طلاقتِ لسانی کو فصحائے عرب نے سجدوں سے خراجِ تحسین دی تھی۔اور یہ گونگے لوگ کیسے ہمسری کرسکتے ہیں۔اسی نوحہ میں ابو جہل شاعرِ عرب زہیرؔ کو آواز دیتا ہے کہ ’’ وہ اپنی قبر سے اٹھ کھڑا ہو اور عربی شان کے تحفظ کیلے سینہ سپر ہوجائے‘‘۔اقبال ؔ ان شعلہ پوش خیالات کو کیسے شعر کے آہنگ میں پیش کرتے ہیں دیکھئے ؂
مذہبِ او قاطع ملک و نسب از قریش و منکر از فضل عرب
در نگاہے او یکے بالا و پست با غلامِ خویش بریک خواں نشست
قدر ِ احرار عرب نشناختہ با کلفتان حبش در ساختہ
ا حمراں با اسوداں آمیختند آبروئے دود مانے ریختند
ایں مساوات ایں مواخاتِ اعجمی است خوب می دانم کہ سلمانؓ مزدکی است
چشم خاصانِ عرب گرویدہ کور بر نیائی ائے زہیرؔ از خاک گور
عصبیت کے تمام رنگوں کے احیا کا خواب لیکر روحِ ابوجہل ؔ تہذیبی تصادم کی آرزو میں ایک نعرۂ مستانہ لگاتی ہے کہ’’ تمام یاران رنگ و بو اٹھ کھڑے ہوں؛ ذات پات ‘ فرقہ و قبیلہ ‘ رنگ و نسل ‘ علاقہ اور خاندان کے علم سنبھال لیں۔ دنیا کے اس تہذیبی اکھاڑے میں اسلام کو چاروں خانے چت کردیں۔ بلکہ ابوجہل باد صر صر کوصدائیں دیتا ہے کہ چلی آ۔۔ اوراسلام کی اس گمراہ کن مساوات
کی ان بستیوں کی بساطیں الٹ دے۔اسلامی تہذیب کے تناور درخت کو جڑ سے کاٹ دے۔ اس گھنے شجر کی شاخوں اور پتیوں کو انفرادی تشخص و انفرادی برتری کے ہولناک خواب دے کر انھیں مرکزیت سے محروم کردے‘‘۔
اس نظم کا باطنی منظر اس یقین کے ساتھ ابھرتا ہے کہ ابوجہل کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ اسلام ؛عظمتِ آدم کا علمبردار ہے۔
تکریم انساں کی واحد اساس پر اس نظریہ کی توسیع ہوئی ہے۔عربوں کی صدیوں کی ہٹ دھرمی ‘ انا ‘غرور اور کبر اسلام کے
اولین نعرہ سے جھاگ بن کر اڑ جائیگا۔ اسلام آخرکار انسانی شخصیت کے ارتقأ کی ایک دستاویز بن جائیگا۔ جہاں عصبیتیں
دم توڑدینگی‘صنم کدے ویران ہوجائینگے۔اسی احساس کو پاتے ہی ابوجہل آگے بڑھ کر لات و منات کو آواز دیتا ہے۔
سنگِ اسود کو گواہ ٹہراکر مدد کو پکارتا ہے کہ ’’ہمارے دل و نظر کی دیویو آو اور اس کعبہ کوبچا ؤ اور ہمارے شہر سے نہ جاؤ بھلے ہی ہماری راہوں اور منزلوں سے تم دور ہوگئے ہو۔
اس نظم کے آخرمیں امراالقیس ؔ کی غزل کا ایک شعر جس کے مرکزی خیال سے ابو جہل حظ اٹھاتا ہوا اور اصنام کے فراق پھر
ان کے عشووں کے سرمائے سے اکتسابِ کیف کرتے ہوئے روح ابوجہل ناکام و نامراد حرم کعبہ سے لوٹ جاتی ہے۔۔۔۔نظمٍ تمام ہوتی ہے۔۔ میرا ذہن پورے عالمِ اسلام کی موجودہ اخلاقی صورتحال میں غلطاں ہوجاتا ہے۔۔۔عربوں کے مزاج کا بگاڑ۔۔ان کی کج فکری ۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی مسلکی و گروہی فرقہ واریت ۔۔ہندوستان کے ہندو احیا پسند قوتوں کے خواب ان کی دیومالائی خرافات ۔ان کے عکس و آواز کے توسط سے احیا کے سرکش منصوبے تمام تر نظم کے تناظر میں انسانی مسائل بن کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور جواب چاہتے ہیں۔جس طرح ہر خیال اپنے تہذیبی منظر کا آفریدہ ہوتا ہے اور ہر تہذیب اپنے وجود کومنوانے کیلے پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور انجام کار ہر قوت فتح و شکست پر تمام ہوتی ہے ؛جہاں ایک فریق کا مقدر اپنے آرزوں کے حرم کی بازیافت اس کی فضاؤں میں تکبیر و تہلیل اور شکست خوردہ فریق کو آخرش نوحہ خوانی نصیب ہوتی ہے۔ ہم کس صف میں ہیں۔اورہماری تیاریاں کتنی ہیں !!!کیا ہم ابوجہل سی آرزوں سے دور ہو سکے۔ حسب نسب کا افتخار ‘ نگ ونسل
کی برتری ‘زبان و لہجوں کا زعم ہماری شریکِ سفر تو نہیں۔جب کہ ابو جہل نے تو اپنی جان بھی اسی زعمِ باطل پر قربان کردی تھی۔
ایسے کئی سنجیدہ سوالات ہیں جو ہم سے جواب چاہتے ہیں جو اس نظم کے مطالعہ سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

Share

One thought on “جاوید نامہ کی ایک فارسی نظم:۔ ۔ نعیم جاوید‘ سعودی عرب”

Comments are closed.

Share
Share