مسجد ٹولی، حیدرآباد
Toli Masjid, Hyderabad
ڈاکٹر عزیز احمد عرسی ۔ ورنگل۔ تلنگانہ
موبائل : 919866971375+
ای میل :
مسجد مقدس جگہ ہے جہاں انسان تقدس کے جذبہ کے ساتھ حاضر ہوتا ہے تاکہ خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت انجام دے سکے،یہ مجھ کمزور انسان کا احساس ہے کہ جب بھی میں نے مسجد کے ماحول کو دلکش اور روحانی پایا تو میرے خشوع و خضوع کے معیار میں تبدیلی آئی اور میں نے اپنے آپ کو اس چوکھٹ کے قریب محسوس کیا جہاں سے عبادتیں قبولیت کی منزل میں داخل ہوتی ہیں ، ایسی ہی ایک دلکش مسجد میں نے حیدرآباد میں بھی دیکھی ہے جس کو ’’مسجد ٹولی ‘‘ کہا جاتا ہے۔ مسجد ٹولی ایک شاندار،خوشنما اور آرائشی اشیاء سے مزین چھوٹی سی مسجد ہے جس کو بڑے تزک احتشام سے بنایا گیا، اس مسجد کو 1671ء میں سلطان عبداللہ کے دور میں انڈو اسلامک اور قطب شاہی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔مسجد ٹولی کو ہم قطب شاہی طرز تعمیر کی غیر معمولی عمارت بلکہ سب سے بہترین تعمیر قرار دے سکتے ہیں۔اس مسجد کو 2007میں INTACH یعنی ’’انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹس اینڈ کلچر ل ہیریٹیج ‘‘کی جانب سے ایوارڈ بھی حاصل ہوا، INTACH راجیو گاندھی کا قائم کردہ غیر سرکاری ادارہ ہے۔
ٹولی مسجد میں مختلف نقوش کو جس فنکارانہ مہارت سے ابھارا گیا ہے قابل دید ہے، شاید حیدرآباد کی کسی دوسری مسجد میں اس انداز کے نقوش دکھائی نہیں دیں گے۔اس کا آرکیٹیکٹ میر موسیٰ خان محل دار تھا اور یہی وہ آرکیٹیکٹ ہے جس نے مکہ مسجدکی ڈیزائنگ کی تھی۔یہ معمار سلطان عبداللہ قطب شاہ کا درباری انجینیرتھا اس دور کی تمام تعمیرات اسی معمار کے ذریعہ انجام پائیں۔گلزار آصفیہ میں لکھا ہے کہ اس آرکیٹیکٹ کو مکہ مسجد کی تعمیر پر خرچ ہونے والے ہر روپیے پر ایک ’’دمڑی ‘‘ دی جاتی تھی ، معمارمیر موسٰی خان نے اسی دمڑی کو جمع کیااور جمع شدہ رقم کو اس مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا اور اس قدر شاندار اور خوبصورت مسجد بنوائی جس کا
جواب سارے حیدرآباد میں نہیں دکھائی دیتا۔
مسجد ٹولی حیدرآباد کے علاقہ کاروان میں پرانے پل کے قریب واقع ہے مسجد کی نازک کاریگری اور خوبصورتی سے انسانی عقل دراک بھی حیران ہوجاتی ہے۔ یہ مسجد ہندوستانی اور ایرانی طرز تعمیر کی آمیزش ہے جس میں قطب شاہی انداز بھی شامل کردیا گیا ہے،اس مسجد کو پتھر اور ’’اندود گچ و سیمان ‘‘ یعنی ’’ گچ ‘‘ (Stucco) سے بنایا گیا ہے، یہ مسجد اونچے پلیٹ فارم پر تعمیر کی گئی ہے ، ساخت کے اعتبار سے مسجد کے اندرونی حصے میں تین کمانیں دکھائی دیتی ہیں ، یہ کمانیں مسجد کے ہال کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہیں ،بیرونی ہال صحن میں کھلتا ہے جس میں پانچ کمانیں بنی ہوئی ہیں۔صحن میں وضو کے لئے ایک حوض بنا ہوا ہے، مسجد کا سب سے زیادہمنقش حصہ ان ہی کمانوں کے اوپر کا حصہ ہے ،اور یہی منقش حصہ سب سے زیادہ دیدہ زیب ہے جو ہندی طرز تعمیر کی اسلامی نقل ہے، ان پانچ کمانوں میں درمیانی کمان قدرے بڑی اور چوڑی ہے اور اس پر بڑی خوبصورتی سے نقوش ابھارے گئے ہیں جو کافی بھرواں دکھائی دیتے ہیں ، یہ نقوش کنگوروں ، قوسوں، کمانی دار ساختوں اور مختلف جیومیٹری کے ڈیزائنوں پر مشتمل ہیں ، خصوصاً کمان کے نچلے حصے میں دوسری کمانوں کے مقابلے زیادہ کنگورے بنائے گئے ہیں یہ کنگورے کمان کے نچلے حصے میں چھوٹے چھوٹے قوسوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ان کمانوں میں اور اس کے اوپری حصے میں نہایت نازک کاری گری ہے، کمانوں کے اوپری قوس کے دونوں جانب تقریباً مثلث نما حصے موجود ہیں جو اوپر چوکھٹے تک پہنچتے ہیں ا ن کو spandrel کہا جاتا ہے۔ان حصوں میں کنول کے پھولوں کو خوبصورتی سے بنایا گیا ہے ، جس سے مسجد کا مجموعی حسن نکھر جاتا ہے یہ مثلث نما حصے اوپری جانب کمان کے اوپری حصے تک پہنچتے ہیں اس حصے میں گول نمائشی پتھر جڑا ہے جس پر عربی آیات کندہ ہیں۔ تعمیر میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لئے ہر دو کمانوں کے درمیان Archade جیسی ساخت بنی ہوئی ہے ،جو وزن کو نہیں سہارتی لیکن حسن کو ضرور ابھارتی ہیں، کمانوں کے اوپر چھجہ جیسی ساخت ’’آب چکان (Guttae)‘‘ بنی ہوئی ہے جس پر نازک انداز میں بنائی گئی جالیاں رکھی ہوئی ہیں ، تمام جالیاں ایک جیسی نہیں ہیں بلکہ یہ آرائشی جالیاں مختلف انداز میں ترشی ہوئی ہیں ویسے یہ آرائشی جالیاں اس جانب چھت کی ’’حفاظتی دیوار‘‘ بھی بن جاتی ہیں جس کو Parapet دیوار کہا جاتا ہے۔ جالیوں کے اوپر کئی چھوٹی چھوٹی کمانیں بنی ہوئی ہیں۔جن کے اوپر تقریباً 15 براکٹس لگی ہوئی ہیںیہ براکٹس ہر دو جالیوں کے درمیان سے نکل کر اوپری چھت بلکہ ’’ کورنس ‘‘ (Cornice)کو سہارا دیتی ہیں جس پر چھ چھوٹے مینار بنے ہیں۔گنبد متشاکل ہے جو فنکاری کا اچھا نمونہ ہے لیکن عدم نگہداشت یا مناسب توجہہ دہانی میں کمی کے باعث یہ عظیم الشان گنبد مخدوش ہوتا جارہا ہے، مسجد کا پچھلا حصہ جو عموماً سامنے سے نظارا کرنے والوں سے چھپا رہتا ہے بہت خوبصورت ہے، پچھلے حصے میں’’ مشربیہ ‘‘بنا ہوا ہے۔ مسجد کے اوپر گنبد اور اس کے اطراف میں چھوٹے چھوٹے مینار دیکھنے میں بہت بھلے لگتے ہیں۔ویسے مسجد کو دو بڑے میناروں سے سجایا گیا ہے جو تقریبا 20 میٹر اونچے ہیں،ان میناروں کے بھی ہر حصے پر سجاوٹی بیل بوٹے فنکاروں کی محنت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے، میناروں میں دو بالکونیاں بنی ہوئی ہیں ایک بالکونی جالیوں کے محاذی ہے جبکہ دوسری بالکونی اس کے اوپر ہے، ان بالکونیوں میں بھی کئی کمانیں بنی ہوئی ہیں، مینار کے اوپری حصے پر گول گنبد جیسی ساخت بنی ہوئی ہے جس پرکلس لگا ہوا ہے۔بڑی میناروں کا قاعدہ پتھر میں تراشا گیا ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ مینار ایک گل دان میں رکھے ہوئے ہیں۔یوں تومسجد کے ہر ہر حصے پر نازک نقوش بنائے گئے ہیں اور نقوش بھی ایسے کہ انسانی عقل حیران رہ جائے لیکن ان میناروں کی نزاکت قابل دید ہے ۔ کیونکہ یہ مینارجو واقعی خوبصورت ہیں اور دل کو لبھاتے ہیں۔مسجد کا اندرونی ہال اپنے اندر جدا گانہ کیفیت رکھتا ہے یہ بے زبان ہال ہے لیکن کبھی کبھی میں محسوس کرتا ہوں کہ اس کی بے زبانی اکثر اوقات زبان بن جاتی ہے اور یہ ہال مسجد میں آنے والے ہر نمازی کو گلے لگا کر سرفرازی کی دعائیں دیتا رہتا ہے۔ مسموع ہے کہ اس مسجد کے تحت تقریباً27 ایکڑ زمین تھی جس پر مختلف افراد قابض ہیں یا قابض ہوتے جارہے ہیں۔ اور ان کی پشت پناہی سیاسی قایدین کررہے ہیں۔کچھ دنوں قبل حیدرآباد ہائی کورٹ نے مسجدٹولی کی زمین پر قبضوں کو برخواست کرنے اور ناجائز زیر تعمیر عمارتوں کو منہدم کرنے کا حکم دیا ہے۔
Dr.Azeez Ahmed Ursi
One thought on “مسجد ٹولی، حیدرآباد – – -ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی”
ڈاکٹر عزیز عرسی کے اچھے مضامین پڑھنے کو مل رہے ہیں۔مبارکباد قبول ہو ۔ ٹولی مسجد کے ضمن میں عزیز صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ ’’ٹولی‘‘ کسے کہتے ہیں؟میں عرض کرتا چلوں کہ ٹولی دراصل قطب شاہی دور کا سکہ (کرنسی) ہے۔اسی مناسبت سے مسجد کا نام رکھا گیا ہے ۔اس کے علاوہ حیدرآباد میں ایک محلہ کا نام بھی ٹولی چوکی ہے۔قطب شاہی عہد میں وہاں ایک چوکی ہواکرتی تھی جہاں سپاہی متعین رہتے تھے اور ٹولی ادا کرنے والے کو قلعہ میں جانے کی اجازت دی جاتی تھی۔گویا یہ اس دور کا قدیمtoll cess کہلاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد عطا اللہ حان ۔ شکاگو۔
فون ۔ 17735775780+ / 13023573644+
email: