افسانہ : ’’زِچ‘‘ ۔ ۔ ۔ بلراج بخشی ۔ جموں کشمیر

Share

بلراج بخشی جموں

افسانہ : زِچ

بلراج بخشی
۳/۱۳، عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی، ادہم پور-
۱۸۲۱۰۱(جموں کشمیر) Mob: 00919419339303
email:

کمرے میں الیکٹرونک گھنٹی کی مترنم آواز کی گونج حالانکہ زیادہ نہیں تھی لیکن ساحل کی آنکھ کھل گئی۔
وہ آہستگی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔اس نے خوشبو کی طرف دیکھا۔ وہ اسی کی جانب چہرہ کیٔے سو رہی تھی۔ چادر اسکے شانوں سے نیچے ڈھلکی پڑی تھی جس میں سے اسکا عریاں بدن جھانک رہا تھا۔ ساحل نے جلدی سے اٹھ کر شب خوابی کا گاؤن پہنا اور خوابگاہ کے دروازے کیطرف بڑھا۔ یہ دو کمروں کا ہنی مون سوئیٹ تھاجس کا باہر والا کمرہ ڈرائینگ روم کی حیثیٔت سے استعمال ہوتا تھا اور اسکا دروازہ باہر راہداری میں کھلتا تھا۔ ساحل نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ ہوٹیل کا ویٹر ہاتھوں میں چائے کی ٹرے لیٔے کھڑا تھا۔

’’ گڈ مارننگ سر․․․․․ ‘‘
’’ گڈ مارننگ․․․․․․․‘‘ساحل نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔
ویٹر نے آگے بڑھ کر چائے کی ٹرے میز پر رکھی۔ ساحل نے ویٹر کو کنکھیوں سے خوابگاہ کے بند دروازے کی طرف سرعت سے ایک نظر پھینکتے ہوئے دیکھا۔ ویٹر واپس مڑا۔ ساحل نے اسے مخاطب کیا
’’ آدھے گھنٹے بعد دو کپ چائے اور․․․․․․․․․․ ‘‘
’’ یس سر․․․․․․․ ‘‘ ویٹر نے مسکرا کر کہا ’’ روز کی طرح ․․․․․․․․ ‘‘ اور دروازے سے باہر نکل گیا۔
خوابگاہ کے بند دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے ویٹر نے پتہ نہیں کیا سوچا ہو گا ‘ دروازے میں چٹخنی لگاتے ہوئے ساحل سوچ رہا تھا۔ اس نے ٹرے اٹھائی اور خوابگاہ میں آ گیا۔ ٹرے میز پر رکھ کراس نے کپ میں چائے انڈیلی اور بیڈ کے سامنے صوفے پر بیٹھ کر چسکیاں لینے لگا۔اسکی نظر خوشبو پر پڑی۔ وہ ابھی تک اسی کروٹ سوئی ہوئی تھی۔ہلکی سی ملاحت لئے چہرے پر بادام آنکھوں کے کناروں پہ اسکی گھنی پلکیں دو سیاہ نیم قوسیں بناکر اس کے چہرے کی دلآویزی میں بے پناہ اضافہ کر رہی تھیں۔ کھلی آنکھوں کا جادو کچھ اور ہے لیکن بند آنکھوں کا سحر بھی کچھ کم نہیں ہے ، اس نے سوچا ۔ چادر کچھ زیادہ نیچے ڈھلک گئی تھی ۔ ساحل کی نظریں اس کے جسم پر پھسلنے لگیں۔ کتنی عجیب بات ہے ‘ ساحل نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے سوچا ، کچھ بھی ہو جائے جی بھرتا ہی نہیں ، ہمیشہ کچھ تشنگی رہ جاتی ہے ۔اس نے اور چائے انڈیلی اور کپ لے کر کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔
کھڑکی کے با لکل پاس سے بادل کا ایک ٹکڑا اڑا جا رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اسے ہاتھ بڑھا کر چھو سکتا تھا۔ اسنے ہاتھ باہر نکالا اور پھراپنی اس خواہش پرنہ جانے کیوں مسکرا دیا۔ یہ ہوٹیل بہت اونچائی پر واقع تھا۔ سینکڑوں فٹ نیچے کی گہرائی تک پھیلی ہوئی وادی میں سانپ کی طرح بل کھاتی سڑک پر ابھی اکا دکا مال بردار گاڑیاں ہی نظر آ رہی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں سیاحوں سے بھری ہلکی نجی گاڑیاں اور ٹیکسیاں اس سڑک پر پہ چیونٹیوں کیطرح رینگتی دکھائی دینے لگیں گی ، اسنے چائے کا ایک بڑا سا گھونٹ بھرتے ہوئے سوچا ۔یہ جون کا مہینہ تھا۔ میدانوں میں گرمی کے شباب پر آتے ہی لو گ آس پاس کے پہاڑوں کی طرف نکل بھاگتے تھے۔ لیکن متوسط طبقے کا ایک خوشحال فرد ہونے کے باوجود اس نے اپنے آبائی پہاڑوں کے بجائے دور کے ان پہاڑوں میں پناہ لی تھی۔ یہ نہیں کہ وہ اتنی دور آکر اس مہنگے ہوٹیل میں قیام کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔ حالآنکہ اسکی عمر صرف پینتیس سال تھی لیکن ایک کثیرالاقوامی تجارتی ادارے میں ایک خاصی تنخواہ پر فائیز ہونے کے باوصف ایک معقول حد تک گراں ہوٹیل میں قیام پذیر ہونے کے لیٔے اسے دوسری بار سوچنے کی ضرورت نہیں تھی۔اور پھر خوشبو بھی اسی کمپنی میں اسی کی جونیئر تھی۔ لیکن ، اس نے ایک طویل سانس لے کر سوچا ‘ کمال تو یہ ہے کہ مجھے سیاحت میں کبھی دلچسپی نہیں رہی اور اس دور افتادہ پہاڑی مقام پر چھٹیاں گذارنے کی وجہ بھی عام سیاحوں جیسی نہیں تھی۔ساحل نے کپ منہ سے لگا کر چسکی لینی چاہی لیکن کپ خالی ہو چکا تھا۔ وہ واپس مڑا۔ خوشبو ویسے ہی گہر ی نیند سو رہی تھی ۔ اسکی چادر کچھ اور نیچے ہو گئی تھی۔ ساحل اسے نہارنے لگا۔ وہ اب بھی کتنی خوبصورت ہے ، ساحل نے سوچا۔ بادل کا ایک ریلا یکبارگی کھڑکی سے در آیا۔ سردی نہ ہونے کے باوجوداسے ہلکی سی خنکی کا احساس ہوا اور اسکی آنکھوں کے سامنے گھنی دھند معلق ہو گئی۔
ڈاکٹر سامی انہیں خاموشی سے دیکھتا رہا۔
وہ بھی اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے۔ ان کے چہروں پر صدمے کے آثار صاف دکھایٔ دے رہے تھے۔
ــ’ ’آپ شایٔد سمجھے نہیں‘‘ ڈاکٹر سامی نے کھکار کر کہا ’’ چلیٔے․․․․ پہلے میں ٹیکنیکل زبان میں بات کر رہا تھا․․․․․․․ اب میں آسان زبان میں بات کرنے کی کوشش کرونگا․․․ دیکھیٔے اتنا تو آجکل سبھی جانتے ہیں کہ پیڑ پودے یا جانور ‘ یعنی کوئی بھی جاندار چیز نر اور مادہ کے ملن کا نتیجہ ہے۔ جنسی ملاپ یعنی Sexual Union سے مردکا مادۂ تولید یعنی Semenعورت کی Uterus یعنی کوکھ میں پہنچتا ہے جہاں ایک Ovum یعنی ․․․ انڈا․․․ ہمیشہ مادۂ تولید میں موجود Sperms کے انتظار میں رہتا ہے․․․․ Sexual Act ، جسمانی ملن کے دوران ․․․ Semen کے ایک بار کے اخراج میں دس لاکھ سے زیادہ Sperms ہوتے ہیں ․․․ اور ان میں سے صرف ایکSperm ہی Ovumکو چھید کر اس میں ضم ہونے میں کامیاب ہوتا ہے اور اسے․․․ یعنی انڈے کو Fertilize کرتا ہے․․․ یعنی ․․․․ اسکی تخم ریزی کرتا ہے․․․ ا․․․و․․․․ر ․․ ․پھر ․․․․Pregnancy ہو جاتی ہے․․․․ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں؟ ـ‘‘
ساحل نے سر کو آہستہ سے تفہیمی جنبش دی ۔ ڈاکٹر سامی نے خوشبوکی طرف دیکھا۔ وہ چہرہ گھما کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔
’’ ٹھیک ہے․․․․ یہ ایک عام سا ․․․․ ام م م م م․․․ کیا کہیں گے․․․ یہ ایک عام سا Biological عمل ہے جسے کھرب ہا لوگ کر چکے ہیں اور․․․․ ہر لمحہ کر رہے ہیں․․․لیکن کئی بار ایسا نہیں ہوتا۔ مرد یا عورت کے سسٹم میں․․․ کئی قسم کی․․․․ ٹیکنیکل پرابلمز ہو جاتی ہیں․․․․ جن کی وجہ سے Semen کوکھ میں منتظر Ovum یا انڈے تک نہیں پہنچ پاتا․․․․․ اور․․․Pregnancy نہیں ہو پاتی․․․ آپ سمجھ رہے ہیں نا ؟‘‘
ساحل نے سر کو پھر آہستہ سے تفہیمی جنبش دی۔ خوشبو بدستور کہیں اور دیکھ رہی تھی۔
اسے شروع ہی سے یہ گفتگو ناگوار لگ رہی تھی۔ اس نے ساحل سے کہا بھی تھا کہ وہ خود جا کر ڈاکٹر سے رپورٹ لے آئے لیکن ساحل نے اسے سمجھایا تھا کہ ڈاکٹر نے دونوں کے آنے پر اصرار کیا تھا تاکہ اس مسئلے کو دونوں سمجھ سکیں۔ اور اب وہ سوچ رہی تھی کہ وہ نہ ہی آتی تو بہتر تھا۔ حالآنکہ وہ نئے زما نے کی ایک پڑھی لکھی موڈرن لڑکی تھی لیکن وہ اتنی آزاد خیال بھی نہیں تھی کہ کسی اجنبی کے سامنے بے جھجھک اس قسم کی گفتگوکر سکتی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم پر سے ایک ایک کپڑا اتار کر اسے عریاں کیا جا رہا ہو۔وہ اپنے آپ میں کچھ اور سمٹ گئی۔
ڈاکٹر سامی نے آنکھوں سے چشمہ اتارا اور کوٹ کی بائیں جیب میں سے رومال نکال کر شیشے صاف کرنے لگا ۔ پھر اس نے چشمہ آنکھوں پر لگایا، رومال جیب میں ڈالا اور ان کی جانب متوجہ ہوا۔
’’ جہاں تک آپ دونوں کا تعلق ہے ․․․آپ کا مسئلہ الگ ہے․․․․ آپ کے سلسلے میں کویٔ ٹیکنیکل پرابلم نہیں ہے․․․کوئی Obstruction نہیں ہے ‘‘ ڈاکٹر سامی چھت کی طرف دیکھنے لگا ’’ آپ کے سلسلے میں Semen کوکھ میں Ovum یا انڈے تک پہنچ جاتا ہے ․․․․ لیکن․․․․ ‘‘ ڈاکٹر سامی خاموش ہو گیا۔
’’ لیکن کیا ڈاکٹر صاحب․․․‘‘ ساحل نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے پوچھا۔
دوسری طرف دیکھتے ہوئے بھی خوشبو کے کان اسی طرف تھے۔
’’ دیکھیئے ایسا ․․․ بہت کم ہوتا ہے․․․بہت ہی کم․․․․ میڈیکل ہسٹری میں ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے․․․ لاکھوں میں ایک آدھ کیس ․․․ اور میری تقریباً اٹھارہ بیس سال کی پریکٹس میں تو ․․․آج تک ایسا کوئی کیس نہیں آیا․․․․‘‘
ڈاکٹر سامی کے کلینک میں لگا ائیر کنڈیشنربھی ساحل اور خوشبو کی گھٹن کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا۔
’’ ڈاکٹر صاحب․․․․ آپ جو بھی کہنا چاہتے ہیں صاف صاف کہیے ‘‘
’’ میں صاف صاف ہی کہنے کی کوشش کر رہا ہوں ․․․․․ لیکن یہ ایک عجیب سی سچوئیشن ہے․․․․․ صاف بات یہ ہے کہ․․․ ‘‘ ڈاکٹر سامی نے خوشبو کی طرف دیکھا جو پہلے کی طرح سر جھکائے ہوئے تھی لیکن اس کے چہرے پر ناگواری کے اثرات کچھ اور نمایاں ہو گئے تھے ۔ ڈاکٹر سامی نے ساحل کی جانب دیکھا جو اس کی طرف پیشہ ورانہ دلچسپی سے دیکھ رہا تھا ’’ صاف بات یہ ہے مسٹر ساحل․․ ․کہ․․․male infertility کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ․․․ خاص طور پر گذشتہ پندرہ سالوں میں کھانے پینے کی چیزوں میں جراثیم کش ادویات کی آمیزش ، تمباکو نوشی ، پولٹری اور ڈیئری فارمنگ کے لیٔے چارے میں ملائے جانے والے estrogens ، کسے ہوئے زیرجامے․․․ کسی ہوئی جینز․․․․ male infertility کی نئی وجوہات کے طور پر ابھری ہیں․․․ لیکن ․․․․ آ پ بے شک ․․․․ میرا مطلب ہے کہ آپ کی Sexual Life بے شک Normal ہے ․․․․لیکن آپ کے Semen میں Sperms نہیں ہیں․․․․․‘‘
’’ کیا مطلب ؟‘‘ ساحل نے چونک کر کہا
’’Sperm Count کم بھی ہو سکتا ہے یا Sperm کمزور بھی ہو سکتے ہیں پر اسکا علاج کیا جا سکتا ہے․․․․ لیکن․․․․ آپ کے جسم کا نظام سرے سے Sperms ہی نہیں بناتا․․․․ میڈیکل زبان میں اسے ․․․․ Azospermia کہتے ہیں․ ․․ اس کا ․․․ مطلب یہ نکلتا ہے کہ ․․․ حمل نہیں ہو پاتا ․․․․․ یہ ہے آپ کی پرابلم․․․․ اور اس کا کوئی حل نہیں ․․․․․ آیٔ ایم سوری․․․․‘‘
ڈاکٹر سامی چشمہ اتار کر چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ ساحل نے خوشبو کی طرف دیکھا لیکن اس کے چہرے سے لاتعلقی ظاہر ہو رہی تھی‘ جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ ساحل کچھ دیر چپ رہا پھر اسنے کھکار کر گلا صاف کیا۔ڈاکٹر سامی اس کی جانب متوجہ ہوا۔
’’ آپ کو یہ سن کر ضرور شاک لگا ہو گا مسٹر ساحل ․․․ یہ سچویئشن ہی ایسی ہے․․․․ ‘‘
’’ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ․․․․․‘‘
’’ نہیں ․․․․ مطلب نکالنے میں جلدی نہ کریں․․․․ آپ کا مسئلہ حل بھی کیا جا سکتا ہے․․․․․․ ‘‘
’’ میں سمجھا نہیں․․․․․․ ‘‘
’’ سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ پرابلم آپ میں ہے مسٹر ساحل آپ کی وایٔف بالکل ٹھیک ہیں․․․آپ کی ذاتی پرابلم کا کسی کے پاس کوئی علاج نہیں ہے لیکن آپ دونوں کی مشترکہ پرابلم․․․․یعنی بچہ․․․․ اسکا حل کیا جا سکتا ہے ․․․ ‘‘ ڈاکٹر سامی خاموش ہو گیا۔
خوشبو کا دل اور زور زور سے دھڑکنے لگا۔ پتہ نہیں ڈاکٹر سامی کیا کہنے والا تھا۔ اسکے دل کی دھڑکن اسکے سر میں دھمک پیدا کر رہی تھی۔
’’ Artificial Insemination․․․․ مسٹر ساحل․․․ بس یہی ایک حل ہے․․․․‘‘
ڈاکٹر سامی نے باری باری دونوں کو دیکھا۔
’’ Artificial Insemination․․․․ ؟‘‘ ساحل نے آہستہ سے دہرایا
’’ ہاں ․․․ اس میں پریشانی یا گھبرانے کی کویٔ بات نہیں ہے․․․․ اب یہ کویٔ بڑی بات نہیں رہی ․․․ ہمارے ہاں کئی In Vitro Fertility clinics ہیں جہاں ٹیسٹ ٹیوب بیبی کا اہتمام کیا جا سکتا ہے․․․ یہ ایک عام سا پروسس ہے․․․ اگر بیوی کے جسم میں پرابلم ہے تو اس کے رَحم میں سےOvum نکال کر incubator میں ۳۷ ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہء حرارت پر ایک دو دن کے لیٔے اسے culture کیا جاتا ہے․․․ اور اسکے شوہر کاSemen لے کر Ovum کو لیبوریٹری میںFertilize کر کے ایک اسٹیج کے بعدبیوی کے رَحم میں واپس رکھ دیتے ہیں اور وہ عام بچے کی طرح پیدا ہوتا ہے․․․․ٹیسٹ ٹیوب بے بی․․․․ اور اگر بیوی کی uterus حمل کے اہل نہیں ہے تو fertilized embryo کسی دوسری عورت کے اندر بھی رکھا جا سکتا ہے ․․․․ یہ ایک صورت ہے․․․․ ایک اور صورت بھی ہے․․․ کہ عورت میں Ovum پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے․․․․ پھرکسی جسمانی تعلق کے بغیر ہی ․․․․ ہم اسکے شوہر کا Semen لے کر کسی دوسری عورت کے اندر رکھ دیتے ہیں ․․․ بچہ وہاں نارمل طریقے سے بڑھتا ہے اور جنم لیتا ہے․․․․ اس عورت کو Surrogate Mother کہا جاتا ہے․․․․ اور․․․ اس بچے کو ٹیسٹ ٹیوب بیبی کہا جائے گا ․․․․ مسٹر ساحل ․․․ دنیا کا سب سے پہلا ٹیسٹ ٹیوب بے بی ۲۵ جولائی ۱۹۷۸ء کو انگلینڈ میں پیدا ہونے والی ایک لڑکی تھی جسکا نام Marie Lousie Brown ہے ․․․ اسکے عین ۶۷ دنوں کے بعد ڈاکٹر سبھاش مکھوپادھیائے کی دیکھ ریکھ میں دنیا کا دوسرا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کولکاتا میں پیدا ہوا․․․ اتفاق سے یہ بھی ایک لڑکی تھی اور اس کا نام درگا رکھا گیا ․․․․ لیکن اس زمانے کی medical fraternity نے ڈاکٹر سبھاش مکھوپادھیائے کے اس عظیم کارنامے پر یقین نہیں کیا اور ۱۹۸۱ء میں انہوں نے انتہائے مایوسی میں خود کشی کر لی ․․․․ یہ بہر حال بر سبیل تذکرہ تھا ․․․کہے کا مطلب یہ ہے کہ آج کل یہ ایک عام بات ہے ․․․آیئے اب آپ کی بات کریں ․․․ایک تیسری سچویشن آپ کی ہے․․․ آپ کیا کریں گے ؟ آج تک یہی ہوتا تھا کہ آپ کوئی بچہ گود لے لیتے تھے ․․․․ لیکن اب کیونکہ آپ کے کے پاس دوسری Options ہیں اسلیٔے اب یہ خیال رواج پا رہا ہے کہ گود لیٔے بچے کے ساتھ کیو نکہ آپ کا کویٔ جسمانی رشتہ نہیں ہوتا اس لیٔے جذباتی لگاؤ بھی نہیں ہو پاتا ․․․․ لیکن Artificial Insemination کی ٹیکنیک میں کم سے کم یہ تسلی تو رہتی ہے کہ شوہر اور بیوی میں سے کسی ایک ساتھ تو بچے کا جسمانی رشتہ ہے․․․․ او ر یہ بات ․․․․․ بچے کے ساتھ جذباتی لگاؤ پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہے․․․․ اب․․․ آپ کے سلسلے میں کسی اور کا Semen ان کے اندر رکھا جأیگا․․․ ‘‘ اسنے خوشبو کی طرف اشارہ کیا۔
’’ لیکن․․․․․ ‘‘ ساحل ہچکچایا۔
’’ مجھے بات پوری کرنے دیجئے․․․․‘‘ ڈاکٹر سامی نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ’’ اس میں کسی قسم کا رسک نہیں ہے․․․ کیونکہ Semen کسی کا بھی ہو․․․ Donor کا نام․․․ پتہ․․․ کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا․․․․ ہاں Donor کی جسمانی خصوصیات․․․․․ جیسے اسکا رنگ․․․․ قد وغیرہ یا اسکے مذہب جیسی باتوں کی تفصیلات محفوظ رکھی جاتی ہیں تا کہ ضرورتمند جوڑے اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق انتخاب کر سکیں․․․․ ٹھیک ہے مسٹر ساحل ․․․․․ میں نے تمام باتیں آپ کو تفصیل سے بتا دی ہیں․․․․ اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے․․․․․اینڈ ناؤ اف یو ول پلیز ایکسکیوز می․․․․ ‘‘
ڈاکٹر سامی نے بزر دبایا۔ باہر کہیں الیکٹرونک گھنٹی کی آواز آئی ایک باوردی ملازم نے دروازہ کھول کر اندرجھانکا۔
’’ نیکسٹ پیشینٹ پلیز ․․․‘‘ ڈاکٹر سامی نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
اس رات وہ دونوں متضاد سمتوں میں کروٹیں لیٔے دیر تک سونے کی کوشش کرتے رہے۔ خوشبو نے کئی بار اسے مخاطب کرنا چاہا لیکن اس نے محسوس کیا کہ وہ اسے دانستہً نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ دونوں کو پتہ تھا کہ وہ جاگ رہے ہیں لیکن دونوں شایٔد ایک دوسرے کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اگلی صبح ساحل نے دفتر فون کرکے علالت کی وجہ سے نہ آ سکنے کی اجازت حاصل کر لی۔ حالآنکہ وہ جاگ گیا تھا مگر دن چڑھے تک بستر ہی پر دراز رہا۔ خوشبو نے بھی بس بیڈ ٹی ہی پر اکتفا کی۔ اس نے نہ صرف ناشتہ بلکہ دوپہر کا کھانا بھی فون کرکے ریستوراں سے منگوا لیا تھا۔ کام والی بائی نے بھی فلیٹ کی فضا میں کسی قدر تناؤ محسوس کر لیا تھا اور وہ بھی کام ختم کر کے روز مرہ کی عمومی گفتگو کیٔے بنا ہی چلی گئی تھی۔خوشبو سار ا دن ساحل کے پاس ہی بیٹھی رہی۔ اس نے صبح ہی سے ٹیلیفون کا ریسور نیچے رکھ دیا تھا اور اپنا اور ساحل کا موبایئل آف کر دیا تھا۔ دوپہر کے کھانے سے پہلے ساحل نے وہسکی کے دو پیگ لے لیٔے ۔خوشبو تشویش سے اسے دیکھتی رہی۔ کھانے کے بعد خوشبواس کے ساتھ بستر پر لیٹ گئی۔ ساحل نے نیم باز آنکھوں سے اسے دیکھا اور کچھ منمناتے ہوئے اسے اپنی بانہوں میں بھرلیا۔ خوشبو کو اس سے لپٹ کر راحت کا احساس ہوا۔ یوں بھی اس نے ساری رات جاگتے ہی گزاری تھی۔ جلد ہی وہ اسکی بانہوں میں گہری نیند سو گئی۔اور پھر جب اسکی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ ساحل بیڈ پر نہیں تھا۔ وہ کمرے میں بھی نہیں تھا۔ وہ گھبرا کربیڈ سے نیچے اتر آئی اور تقریباً بھاگتی ہوئی خوابگاہ سے نکل کر فلیٹ کی لابی میں آئی اور یہ دیکھ کر اطمینان کی سانس لی کہ ساحل صوفے پر بیٹھا تھا ‘ اسکے ہاتھ میں وہسکی کا گلاس تھا ۔ میز پر ہنڈریڈ پایٔپرز کی بوتل اور پانی کا جگ رکھا تھا۔ ساحل نے نظر اٹھا کر اٹھا کر اسے دیکھا۔ خوشبو آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ اس نے دیکھا کہ ساحل کی آنکھیں متورم اور آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ ا سکے دل میں ساحل کے لیٔے محبت کا بے پناہ جذبہ امڈ آیا اور اسکی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔
’’ میں تمہارے لیے صرف وہی نہ کر سکا جو دنیا کا ہر مرد اپنی بیوی کے لیے کرتا ہے۔‘‘ ساحل نے کچھ دیربھرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’لیکن مجھے کوئی شکایٔت نہیں․․․․ اور پھر اس میں تمہارا کیا قصور․․․․‘‘
’’ بات قصور کی نہیں ہے․․․سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہونا تھا․․․ تم نے سنا نہیں ڈاکٹر نے کیا کہا․․․ ایسا کیس اس نے آج تک دیکھا ہی نہیں․․․ ‘‘
’’ایسی باتوں کی کوئی وجہ نہیں ہوتی․․․․جہاز اغوا ہو گیا یا کوئی حادثہ ہو گیا․․․ بس ہو گیا ․․․ کیا کیا جا سکتا ہے ․․․ ‘‘ وہ سرک کر بالکل اس کیساتھ سٹ گئی۔
’’ میں جانتا ہوں․․․․ ‘‘ ساحل نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ اسکی کوئی وجہ․․․․ اگر ہو بھی․․․ توکم سے کم بیان سے باہر ہے․․․ میں صرف غمگین ہوں․․․․ خوشبو ․․․ ‘‘
’’ دل چھوٹا نہ کرو․․․ سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘ خوشبو نے ا ٹھتے ہوئے کہا
’’ کہاں جا رہی ہو ؟ ‘‘
’’آج کھانا کہیں باہر کھائیں گے․․․․ میں تیار ہوتی ہوں․․․․ تم بھی اٹھو‘‘ اس نے مڑتے ہوئے کہا ۔
’’ نہیں․․․․ ‘‘ ساحل نے اسکی بانہہ پکڑ لی اور وہ اسکی گود میں آ گری۔ ساحل نے اپنا چہرہ اسکے چہرے پر رکھ دیا ’’ کہیں جانے کو جی نہیں کر رہا․․․․ تم یہیں رہو․․․ میرے پاس․․․ ‘‘
شب و روز یوں ہی گذرنے لگے۔ زندگی معمول پر آنے لگی۔ بدلے ہوئے حالات کے ساتھ خواہی نخواہی سمجھوتا ہی زندگی کے ارتقا اور بقا کی ضمانت ہے اور یہ سمجھوتا کوئی شعوری عمل نہیں ہے بلکہ زندگی خود بدلاؤ کیساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ کچھ دنوں بعد کم از کم بادی النظر میں شایٔد یوں لگنے لگا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہولیکن دونوں کے دلوں میں خلش بدستور موجود تھی چاہے وہ اس ضمن میں ایک دوسرے سے بات کرتے یا نہ کرتے۔ دراصل بچے کا نہ ہونا کافی عرصہ سے ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا تھا۔ اور اب بات صرف ان دونوں ہی تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ پھیل گئی تھی۔ ان کی شادی کو چھ سال ہو چلے تھے اور بچے کے نہ ہونے کا کوئی جواب یا جوازبھی اب ان کے پاس نہیں رہ گیا تھا۔ دونوں کے گھر والوں کی طرف سے دن بدن دباؤ بڑھتا جا رہا تھا جسے اب زیادہ نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وہ دونوں خود بھی اس سلسلے میں کچھ کم پریشان نہیں تھے۔اور ڈاکٹر سامی نے انہیں جو بتایا تھا وہ کسی کو بتایا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اور پھر ایک رات جب وہ ایکدوسرے کی بانہوں میں تھے تو خوشبو نے بات چھیڑدی۔
ـ’’ سنو ․․․اس روز ڈاکٹر نے کیا کہا تھا کہ دوسرا طریقہ کیا ہے ؟ ‘‘
’’ Artificial Insemination ․․․ کیوں؟‘‘
’’ بس․․․ یونہی․․․ میں سوچ رہی ہوں اگر کوئی دوسرا حل نہیں ہے تو․․․ کیوں نہ یہی طریقہ اپنائیں ؟‘‘
’’ طریقہ ․․․․ تو․․․ ٹھیک ہے․․․․․ لیکن․․․․ اس میں ایک پریشانی ہے․․․‘‘
’’ کیا ؟ ‘‘
’’ دیکھو خوشبو․․․․ Donor کا رنگ اور قد وغیرہ کو تو․․․․ کسی حد تک ہم چن سکتے ہیں․․․․․ لیکن اس کے خدوخال․․․ Features․․․کا کیا کریں گے؟ میں نے ڈاکٹر سامی سے بھی بعد میں پوچھا تھا․․․․․ لیکن اس نے بھی یہی کہا تھا کہ یہ رسک تو لینا ہی پڑے گا․․․․․ ‘‘
’’ تو لے لیتے ہیں یہ رسک․․․․․․․․ لوگ کسی کا بچہ بھی تو گود لیتے ہیں․․․․ ‘‘
’’ تم سمجھی نہیں․․․․ گود لیٔے گئے بچے کے بارے میں سب کو پتہ ہوتا ہے․․․اس لیٔے اسکی شکل ، صورت جیسی بھی ہو چل جاتی ہے․․․ لیکن یہ Artificial Insemination ․․․ اگربچے کی شکل اور چہرہ مہرہ عجیب و غریب ہوا تو ؟ ․․․․‘‘ ساحل کچھ سوچتا ہوا بولاــ’’ ․․․ لوگ طرح طرح کی باتیں کر کے تمہارا اور میرا مذاق اڑائیں گے ․․․ اور․․․تم کس کس کو جواب دیتی پھرو گی․․ ․ کیونکہ ہمارے سامنے تو کوئی کہے گا نہیں؟‘‘
خوشبو خاموش رہی۔
’’ پھر کیا کریں ؟ ‘‘ وہ تھوڑی دیر بعد بولی۔
’’ ایک اور طریقہ بھی ہے․․․․ ‘‘ ساحل نے اسکی زلفوں سے کھیلتے ہوئے کہا۔
’’ کیا ؟ ‘‘
’’ اگر ․․․ فیصلہ کر لو ․․․․ تو ․․․․ طریقہ مشکل بھی نہیں ہے․․․․․ سنو․․․․ میں نے بہت سوچا ہے ‘ لیکن مجھے اس کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آتا․․․ ‘‘
’’ کون سا راستہ ؟‘‘
’’ کسی ․․․ ایسے․․․ آدمی کو ڈھونڈتے ہیں․․․ جس کا رنگ․․․․ اور․․․․ شکل ․․․ تھوڑی بہت․․․ مجھ سے ملتی جلتی ہو․․․ ‘‘
خوشبو چھٹپٹا کر اس کی بانہوں سے نکلی اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔
’’ کیا بکواس کر رہے ہو․․․ ‘‘ اس نے تیز لہجے میں کہا۔
’’ وہی ․․․ جو تم نے سنا․․․ ‘‘ ساحل نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ تت․․․ تم جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ ‘‘
ــ’’ اچھی طرح جانتا ہوں ․․․‘‘
’’لگتا ہے تم پاگل ہو گئے ہو․․․․ ‘‘
’’ کیوں․․؟ اس میں پاگلپن کی کون سی بات ہے ؟ ‘‘
خوشبو کو معاً اپنی برہنگی کا احساس ہوا۔ ساحل کی اس بات نے اسکے ہوش اڑا دیئے تھے۔ وہ کپڑے پہننے لگی۔ ساحل اسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
’’ میں نے پوچھا اس میں پاگلپن والی کون سی بات ہے․․․ ‘‘
ـ’’یہ پاگلپن نہیں تو اور کیا ہے․․․ ‘‘ خوشبو نے سامنے صوفے پر بیٹھ کر اسے بے اعتباری سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ اگر تم مذاق کر رہے ہو تو ․․․․․․ یہ ایک گھٹیا مذاق ہے․․․ ‘‘
’’ نہیں․․․․ میں مذاق نہیں کر رہا ہوں ‘‘
’’ تم ․․․ تمہارا مطلب ہے․․․ تم اپنی مرضی سے ․․․․․اپنی بیوی کو ․․․ کسی اور کے حوالے کرو گے ؟ ‘‘ اس نے بے یقینی سے کہا۔
’’ اس میں برائی ہی کیا ہے ․․․‘‘
وہ سکتے میں آ گئی۔
’’ ت ․․․ت․․․تم ․․․․ ہوش میں نہیں ہو․․․ ‘‘ اس نے تھوڑی دیر بعد کہا۔
’’ میں اس سے زیادہ کبھی ہوش میں نہیں رہا․․․ خوشبو ․․․․ تم سمجھ نہیں رہی ہو․․․ ‘‘ ساحل نے کہا۔ ’’ میں کوئی انوکھی بات نہیں کر رہا ہوں․․․ لوگ اپنی بیویوں کو ترقیوں کیلئے․․․․ کاروباری اور سیاسی فایٔدوں کیلیئے اپنے افسروں․․․․ اپنے سے بڑوں کے حوالے کرتے ہیں ․․یہ ہر جگہ ہو رہا ہے․․․ اور․․․ میں کیا کر رہا ہوں؟․․ ایک ایسے کام کے لٔیے ․․ یہ کر رہا ہوں جو مجھ سے نہیں ہو سکتا․․․․ ‘‘
وہ دونوں بڑی دیر تک خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ ساحل بستر سے اترا اور خوشبو کے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔لیکن وہ اٹھی اور کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی اور باہر اندھیرے میں نظریں ادھر ادھر دوڑانے لگی۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد مڑی اور آ کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ اسنے اپنا سر ساحل کے شانے پر ٹکا دیا۔
’’ پچھلے سال ․․․ ‘‘ خوشبو نے ہولے سے کہا ’’․․․ میں نے تم سے ذکر نہیں کیا․․․ ماں نے بتایا تھا کہ ایک سادھو کے پاس ایسی جڑی بوٹی ہے جو․․․ ‘‘
’’ شش ش ش ․․․․ ‘‘ ساحل نے بات کاٹ کر کہا ’’ تم پڑھی لکھی ہو کر ایسی باتیں کرتی ہو خوشبو ؟․․․ جڑی بوٹی ہے․․․ تعویز ہے․․․ منتر ہے․․․پیر فقیر ہے․․․․ سادھو ہے․․․ ہر جگہ ایک ہی بات ہے․․․․ Male اور Female ․․․․․ عورت اور مرد․․․ کوئی جادو نہیں․․․ کوئی منتر نہیں․․․ ‘‘
’’ لیکن یہ جو تم کہہ رہے ہو․․․․ پاپ ہے․․․ گناہ ہے․․․ ‘‘ اس نے تھوڑی دیر بعد کہا۔
’’ پاپ ؟ گناہ ؟ دیکھو ڈارلنگ ․․․ یہ پاپ اور گناہ کی تھیوری کب کی غلط ثابت ہو چکی ہے․․․ ہینہہ․․ ہندوؤں کے لیٔے گائے کھانا حرام ہے․․․اور مسلمانوں کے لیٔے سؤر․․․ لیکن عیسایؤں کے لیٔے دونوں جایٔز ہیں ․․․ اور وہ ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں․․․ دیکھو خوشبو․․․․ میں ایک بزنس مین ہوں․․․․ مجھے رزلٹ چاہیٔے․․․․ بس رزلٹ․․․․․ ‘‘
’’ تو ․․․․․․ ‘‘ خوشبو نے طویل سانس لے کر کہا ’’ یہ تم نہیں ․․․․ تمہارے اندر کا بزنس مین بول رہا ہے۔طریقہ غلط ہے یا صحیح․․․ رزلٹ چاہیۓ․․․․ ‘‘
’’ اچھا․․․․ تو پہلے کیا ہوتا تھا․․․․ تم جانتی ہو پہلے کیا ہوتا تھا ؟․․․ تم نے کوروؤں اور پانڈوؤں کا نام سنا ہے نا ؟ کس نے نہیں سنا․․․․ جانتی ہو ان کے بیچ جھگڑے کی اصل وجہ کیا تھی ؟․․․․ بہت کم لوگ جانتے ہیں․․․ دراصل پانچ پانڈوؤں میں سے کوئی بھی اپنے باپ کی اَولاد نہیں تھا․․․ ‘‘
’’ میں نے یہ بات آج تک نہیں سنی․․․․ ‘‘
’’ تمہارے نہ سننے سے اس ملک کی تاریخ بدل نہیں جایئگی․․․․ اصل میں ان کے باپ کا نام پانڈَو تھا ․․․ اور وہ اولاد پیدا نہیں کر سکتا تھا․․․ نامرد تھا․․․نہ نہ ․․ ․یہ میں نہیں کہہ رہا․․․ یہ تواریخ ہے․․․ ہسٹری ہے․․․پانڈَو کی دو بیویاں تھیں ، کنتی اور مادری۔ ایک دن جنگل میں ایک رشی اپنی بیوی کیساتھSex کر رہا تھا۔ مجھے اسکا نام یاد نہیں آ رہا․․․ جو بھی ہو پانڈَو نے انہیں شکار سمجھ کر تیر چلا دیا․․․ تیر رشی کی بیوی کو لگا اور وہ مر گئی․․․ رشی نے اسے بدعا دی کہ اپنی بیوی کے پاس جاتے ہی وہ مر جایٔگا ․ ․․ اب مجھ سے یہ مت پوچھنا کہ بدعا یا شراپ میں طاقت ہوتی ہے یا نہیں․․․ہو سکتا ہے رشی نے ہی انتقاماً اسے جسمانی طور پر نامرد بنا دیا ہو․․․․یا ہو سکتا ہے پچھتاوے کی آگ میں جل کر پانڈَو نے خود ہی عورت کے پاس نہ جانے کا عہد کر کے کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ہو․․․․․․ ‘‘
ساحل خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا۔
’’ پھر کیا ہوا؟ ‘‘ خوشبو نے پہلو بدل کر پوچھا۔
’’ سچ تو یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کے Actions کو ․․․․ہماری․․․ آج کی Values کے مطابق صحیح ثابت کرنے کے لیٔے ہم حقایٔق کو تحس نحس کر کے ان کو Super natural طاقتوں کا مالک بنا دیتے ہیں․․․ اصل میں ․․․ خوشبو ․․․ہم ماضی پرست ہیں․․․ The whole bloody Indian sub continent ․․․ اور ہم آج میں کہاں زندہ ہیں․․․․․ We are living in the past ․․․ خیر․․․ اب اس سے فرق نہیں پڑتا کہ پانڈَو کے نامرد ہونے یا عورت کے پاس اسکے نہ جا سکنے کی وجہ کیا تھی․․․․ لیکن یہ تواریخی حقیقت ہے کہ پانڈَو اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں تھا ، وجہ کچھ بھی رہی ہو․․․․․․․․․․․․یہ ایک بہت بڑی پرابلم تھی․․․․․․․ سن رہی ہو ؟ ․․․․ لیکن شایٔد وہ ایک حقیقت پسندانہ سماج تھا․․․ A realistic society․․․․ اس سماج نے ایسے مسئلوں کے حل کے لیٔے ایک سسٹم بنایا تھا جسے نیوگ کہتے تھے․․․․ اس سسٹم کے تحت اولاد کے لیٔے عورت کو کسی اچھے ․․․․․پہنچے ہوئے ․․․․ دانشور یا کسی سادھو مہاتما کے پاس بھیجا جا سکتا تھا․․․․ ‘‘
’’ یہ کھلی بکواس ہے․․․․ ‘‘ خوشبو نے بے اعتباری سے کہا ’’․․․ تم صرف اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیٔے کہانی گھڑ رہے ہو ․․․ ‘‘
’’ قدیم آریائی سماج میں بیٹے کی بڑی اہمییت تھی ٗ جیسے کہ آج بھی ہے۔ بیٹا ایک تو گھر کی آمدنی بڑھانے میں کام آتا تھا ٗ جیسا کہ آج بھی ہے لیکن اس سے بھی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ مرنے کے بعد بیٹا ہی کرم کانڈ کرتا تھا تاکہ باپ کی روح جہنم میں نہ جا سکے․․․ نہ صرف ہندوؤں کے بلکہ میرا خیال ہے دنیا کے سب سے پہلے قانون داں منو نے نیوگ کا یہ سسٹم بنایا تھا جس کے تحت اولاد حاصل کرنے کے لیٔے گھر کے بڑوں کی اجازت سے عورت اپنے شوہر کے کسی رشتہ دار کے پاس جا سکتی تھی۔ اور․․ یہاں تک کہ کوئی بے اولاد ودھو ا بھی اپنے مرحوم شوہر کی روح کو نرک سے بچانے کے لیٔے نیوگ کا سہارا لے سکتی تھی․․ ․۔ ‘‘
وہ خاموش ہو کر سوچنے لگا۔
’’جیسا میں نے پہلے کہا․․․ ‘‘ وہ تھوڑی دیر بعد بولا ’’ ․․․ پانڈَو کی دو بیویاں تھیں ․․․ کنتی اور مادری․․․ چنانچہ اولاد کے لیٔے کنتی تین الگ الگ آدمیوں کے پاس گئی․․․ اور اسطرح دھرم راج سے یدھشٹر پیدا ہوا․․․․پوَن سے بھیم․․․․․ اور اندر دیوتا سے ارجن․․․․ لیکن پانڈَو سے شادی کے پہلے بھی کنتی سوریہ دیوتا کی ایک ناجایٔز اولاد پیدا کر چکی تھی ․․․․اسکا نام کرن تھا․․․ کمال کی بات تو یہ ہے خوشبو کہ شادی سے پہلے اولاد پیدا کرنا تب بھی ناجایٔزسمجھا جاتا تھا اور اب بھی ․․․خیر ․․․․ اسی طرح پانڈَو کی دوسری بیوی مادری بھی دو گندھرووں کے پاس گئی اور ان سے اسے دو بیٹے ہوئے․․․ نکل ․․․․ اور سہدیو․․․ لہذا پانچوں پانڈَو ․․․ پانچ الگ الگ لوگوں کی اولادیں ہیں․․․․ دریودھن کا یہی اعتراض تھا کہ جب پانچوں پانڈَو اپنے اصلی اور قانونی باپ کی اولادیں نہیں ہیں تو وہ انہیں راج پاٹ میں سے حصہ کیوں دے․․․․سمجھ رہی ہو ؟‘‘
’’ تمہیں یہ سب کیسے معلوم ؟‘‘
’’ ارے․․․ یہ کوئی راز کی بات تھوڑی نا ہے․․․․ عام بات ہے ․․․سب جانتے ہیں ․․․‘‘
’’ مجھے کیوں نہیں معلوم ؟ ‘‘
’’ تمہیں ․․․ اور تمہارے جیسے بہت سارے لوگوں کو اس لیٔے نہیں معلوم کہ اب ہم یہ باتیں بھول جانا چاہتے ہیں․․․ اوراس لیٔے بھول جانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ باتیں ․․․․ وہ رواج ․․․ ہمارے آج کے رواجوں سے نہیں ملتے․․․ باتیں چھپا دی گئی ہیں․․․․ کہانیاں بن گئی ہیں ․․․یا بنا دی گئی ہیں․․․Mythology․․․ انگریزی میں Myth اور ہندی میں متھیا․․․․ اور دونوں کا مطلب ہے ․․․ کہ جو نہیں ہے․․․ جو حقیقت نہیں ہے․․․ لیکن Mythology سے ہماری تہذیب․․․ ہمارا ماضی نکلتا ہے․․․ ہماری روایئتں بنتی ہیں․․․․ رواج بنتے ہیں․․․ آج ہم جوبھی کر رہے ہیں اس لیٔے کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے پچھلے کرتے تھے ․․․ تبدیلی آتی ہے ․․․ مگر بہت آہستہ․․․ رواج بدلتے جاتے ہیں مگر ہمیں محسوس نہیں ہوتا۔ شادی بیاہ پر جو رسمیں ہم نبھاتے ہیں ․․․پہلے ہم ویسے ہی جیتے تھے․․․ پہلے سب باراتی ہتھیاروں ، تلواروں سے لیس ہو کر جاتے تھے کہ ڈاکو بارات نہ لوٹ لیں مگر آج کوئی خطرہ نہیں․․․․ پولیس موجود ہے․․․ یا پھر ہو سکتا ہے ان دنوں دلہنوں کو بزور شمشیر حاصل کرنے کا رواج ہو․․․․ لیکن آج کا سچ یہ ہے کہ ہتھیارکے طور پر تلواراب بیکار ہے․․ ․اس لیٔے تلوار اب صرف دولہے کے کاندھے پر ہوتی ہے․․․ اب یہ محض ایک رسم ہے․․․ مہابھارت کا زمانہ بہت پرانا ہے․․․ پانچ ہزار سال․․․․ دس ہزار سال ؟ کہنا مشکل ہے․․․ اس زمانے کی تہذیب ، رسمیں ، رواج کیسے تھے ، مہابھارت سے اس کا کچھ کچھ اندازہ تو ہوتا ہے لیکن․․․ لیکن انہیں صحیح یا غلط ٹھہرانے کا ہمیں کوئی حق نہیں․․․ ‘‘
خوشبو دم بخود ہو کر سنتی رہی اور پھر بڑی دیر تک خاموشی سے اسکی طرف دیکھتی رہی۔
’’ اگر ایسا ہوا بھی ․․․ اسے کسی بھی لحاظ سے اچھا تو نہیں کہا جا سکتا ‘‘
’’ ہم کون ہوتے ہیں اچھے یا برے کا فیصلہ کرنے والے ․․․یہ تو اس زمانے کی رسمیں تھیں ․․․ رواج تھے․․․․ پرانی رسموں ․․․․ پرانے اعتقادات کو آج کے ترازو میں تولا نہیں جا سکتا․․․ اور نہ ہی ہمیں ان کو صحیح یا غلط ٹھہرانے کا حق ہے․․․ پہلے ستی ہونے والی عورتوں کو سماج دیوی کا درجہ دیتا تھا ، آج کا سماج اسے عورتوں پر ظلم مانتا ہے․․ سماج کا نظریہ آج بدل گیا ہے․․․․ ہندو پہلے ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتے تھے مگر ۱۹۵۵ میں ایک بیوی کا قانون بن گیا․․․ مسلمان آج بھی چار شادیاں کر سکتے ہیں․․․ وہ بھی ٹھیک ہیں یہ بھی ٹھیک ہیں․․․غلط اور صحیح کی بحث ہی نہیں ہے․․․ پہلے نگر ودھو ہوتی تھی․․․․پھر دیو داسیاں ہوتی تھیں۔ دیوداسی سسٹم کو حالآنکہ قانونی طور پر ختم کیا جا چکا ہے لیکن ڈھکے چھپے آج بھی چلتا ہے․․․ اسلیٔے غلط وہی ہے جسے زیادہ لوگ نہیں مانتے اور ٹھیک وہی ہے جسے زیادہ لوگ مانتے ہیں․․․ ‘‘
’’ اور ․․․ تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری ان باتوں ، ان دلیلوں پر یقین کر کے ․․․․ وہ مان لوں جو تم چاہتے ہو؟‘ خوشبو نے تھوڑی دیر بعد کہا۔
’’ نہیں․․․․ ‘‘ ساحل نے کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ ․․․․ تم ان باتوں کو سوچو․․․ خود فیصلہ کرو ․․․ اور اندازہ لگاؤ․․․ کہ اس میں میرا کیا فایٔدہ ہے․․․․ ‘‘
’’تمہیں اس میں فایٔدہ ہے یا نہیں ․․․ اسے چھوڑو․․․ لیکن مجھے یقین ہو تا جا رہا ہے کہ تمہیں اب کسی Psychiatrist کی ضرورت ہے․․․ ‘‘
’’ تمہاری مرضی․․․ ‘‘ ساحل نے منہ پھاڑ کر جماہی لی ’’․․․ تم نے حل پوچھا تھا میں نے بتا دیا․․․․ اب تم سو جاؤ․․․ مجھے بھی نیند آ رہی ․․․ لایٔٹ آف کر دو․․․ میں ذرا ٹوایئلٹ جا رہا ہوں․․․ نہیں لایٔٹ رہنے دو ․․․ میں خود آف کر دونگا․․․ ‘‘
ساحل اٹھ کر ٹوائیلٹ کی جانب بڑھا۔ اور پھر جب بڑی دیر بعد وہ ٹوائیلٹ سے برامد ہوا تو وہیں رک گیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ خوشبو وہیں بیٹھی تھی۔وہ کسی گہری سوچ میں تھی۔
’’ تم سوئی نہیں ؟ ‘‘
خوشبو نے چونک کر اسکی طرف دیکھا۔ وہ کچھ دیراسے دیکھتی رہی۔ پھر اٹھی اور بستر پر لیٹ کر مسکرائی اور دونوں بانہیں اسکی جانب پھیلا دیں۔
’’ لایٔٹ آف کر دو ڈارلنگ․․․ ‘‘ خوشبو نے کہا۔
را ت پتہ نہیں کتنے بجے ساحل کی آنکھ کھل گئی۔ خوشبو اس پر جھکی ہوئی تھی۔
’’ کیا ہے ؟‘‘ اس نے بھرائی ہوئی سی خوابیدہ آواز میں کہا۔
’’ تم اپنی جیسی شکل و صورت والا کہاں سے لاؤ گے؟ ‘‘ خوشبو نے سرگوشی کی۔
ساحل اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہا ۔
’’ کیا کہا تم نے ؟ ‘‘
’’ تم اپنے جیسا کہاں سے لاؤ گے ؟ ‘‘
ساحل نے پہلے تو ہوش میں آ کر اس کی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کی، پھر بولا
’’ وقت کیا ہوا ؟‘‘
’’ یہی․․․․ کوئی ڈھائی ․․․ تین․․․․ ‘‘
’’ نان سینس․․․ ‘‘ ساحل جھنجھلاگیا۔ ’’ ڈھاٗئی تین بجے تو میں بھی نہیں مل سکتا․․․ اپنے جیساکہاں سے لاؤنگا․․․․ ‘‘
پھر اس نے اسے اپنے قریب کھینچا۔ ’’ سو جاؤ میری جان․․․․ صبح بات کریں گے ‘‘ خوشبو نے اسے خواہ مخواہ جگا دیا تھا۔
لیکن سونے سے پہلے ساحل کے ذہن کو یہ خیال چھوتا چلا گیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ خوشبو نے خود ہی اس سے ملتی جلتی شکل والاکوئی ڈھونڈ لیا ہو۔
کمرے میں الیکٹرانک گھنٹی کی سریلی آواز پھر سے گونجی اور وہ چونک گیا۔
دھند تحلیل ہو چکی تھی۔ساحل نے خوابگاہ سے نکل کر ڈرایٔنگ روم کا دروازہ کھولا۔ ویٹر چائے لایا تھا۔ا س نے ٹرے میز پر رکھی اور سوالیہ نظروں سے خوابگاہ کے دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ بعد میں لے جانا․․․ ‘‘ ساحل نے اسکا مطلب سمجھ کر کہا۔
ویٹر سر ہلا کر چلا گیا۔ ساحل نے دروازہ بند کیا اور ٹرے اٹھا کر اندر آ گیا۔ اسنے دو پیالیوں میں چائے ڈالی ‘ انہیں بیڈ کے سایٔڈ ٹیبل پر رکھا ، آہستہ سے چادر اٹھا کربیڈ پر خوشبو کے پاس سرک گیااور اسے سہلانے لگا۔ خوشبو نے آنکھیں کھول دیں۔ ساحل نے اسے بانہوں میں بھر کربھینچ لیا۔
’’ چھوڑو․․․ ‘‘ خوشبو نے اس کی گرفت سے نکلتے ہوئے کہا ’’ ابھی جی نہیں بھرا؟ ‘‘
’’ مجھے تو لگتا ہے کہ ہم ہنی مون پر آئے ہیں ‘‘ساحل نے اسے چائے کا کپ دے کر کہا
خوشبو نے چادر سے اپنے بدن کو ڈھانپا اور اسے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے چائے پینے لگی۔
ناشتہ وغیرہ کر کے تقریباً گیارہ بجے دونوں کے ہوٹیل سے باہر نکلتے ہی دو تین تانگے والے کسی قدر آمدنی کی امید میں ان کی جانب لپکے لیکن ان کے قریب پہنچتے ہی ان کاپیشہ ورانہ جوش فرد ہو گیا۔ ان میں سے کئیوں کو پتہ تھا کہ یہ دونوں اس وقت پیدل ہی جاتے ہیں اور پچھلے سال ہی سے وہ ان کے اس معمول سے واقف ہو چکے تھے۔ سمن زار کے ہوٹیل بہار میں ساحل اور خوشبو کا یہ دوسرا سال تھا۔ قومی شاہراہ پر واقع سمن زار کی یہ پہاڑی بستی دراصل ایک خاصا وسیع مسطح قطع تھا جہاں میلوں تک پھیلے ہوئے سرسبز مرغزاروں میں ہلکے ہلکے لہریئے تھے جنہیں دیکھ کر کسی حسینہ کے جسم کے خطوط کا احساس ہوتا تھا۔ سمن زار کی اہمیت یہ تھی کہ یہاں کا موسم معتدل ہی رہتا تھا اور یہاں سے آگے تقریباً ہر دس کلومیٹر کے بعد درجۂ حرارت گرتا چلا جاتا تھاجہاں صرف نسبتاً شدید تر سرد موسم اور کثیرالوقوع برفباریوں کے شایٔقین ہی جانا پسند کرتے تھے۔ اور اسی لیٔے سیزن میں اور سردیوں میں بھی یہاں کے ہوٹیل عموماً بھرے ہی رہتے تھے۔ خوشگوار موسم کے علاوہ سمن زار میں سیاحوں کی کثرت کا باعث وہ لوک رقص تھے جو گیہوں کی تاخیری کٹائی پر ہوتے تھے اور جن میں حصہ لینے کے لیٔے مضافات سے نوجوانوں اور دوشیزاؤں کی ٹولیاں سمن زار میں آتی تھیں۔عموماً مئی کے اوایٔل سے شروع ہونے والے یہ رقص جولائی کے اوآخرمیں برسات آنے تک ہر دوسرے تیسرے دن ہوتے تھے۔ آس پاس کے علاقوں کے لیٔے مرکزی حیثیت رکھنے والے سمن زار میں یہ رقص یہاں کی ثقافتی زندگی کا ایک لازمی جزو تھے لیکن بہت کم لوگ جانتے تھے کہ اب ان رقصوں میں مقامی لوگ شاذ ہی حصہ لیتے تھے اور لوک رقص کے یہ پروگرام سیاحوں کی تفریح کے لیٔے ریاستی حکومت منظم کرواتی تھی جن میں حصہ لینے والے فنکاروں کو بڑی بڑی ادائیگیاں کی جاتی تھیں ۔ یہ عجب بات ہے کہ سڑک اور تعلیم جہاں بھی پہنچتی ہے وہاں کے لوگ آہستہ آہستہ اپنی روایات سے کٹ جاتے ہیں۔ تین چار مہینوں تک چلنے والے اس جشن رقص میں نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں میں ازدواجی رشتے طے ہوتے تھے مگر ان رقصوں میں شمولیت اب معیوب سمجھی جانے لگی تھی۔
ساحل اور خوشبوچوراہے میں سڑک کے کنارے پھروں سے بنے ایک ٹی اسٹال کے باہر لکڑی کی ایک بنچ پر بیٹھ گئے اور چائے کے لیٔے کہا۔باہر سے آنے والی گاڑیاں گیارہ بجے کے بعد آنا شروع ہو جاتی تھیں اور یہیں آ کر رکتی تھیں۔ نجی گاڑیاں بھی یہاں سے آگے نہیں جاتی تھیں اور مسافروں کو یہیں اترناپڑتا تھا۔ چائے آ گئی تھی۔ انہوں کپ اٹھا لیٔے۔ اتنے میں ایک سومو آ کر رکی۔ اس میں سے ایک ادھیڑ عمر کا مرد اترا اوراس کے ساتھ ایک فربہ اندام عورت بھی جو شایٔد اسکی بیوی تھی۔ تین بچے بھی تھے اور ایک بوڑھی عورت۔ ایک اور گاڑی آ کر رکی۔ اور پھر گاڑیوں کی مسلسل آمد کا سلسلہ جاری ہو گیا۔
خوشبو نے اکتائی ہوئی نظروں سے ساحل کو دیکھا۔ اسکی نظر ساحل سے ملی اور وہ مسکرا دیا۔ خوشبو نے برا سا منہ بنایا۔
’’ بور ہو رہی ہو ؟ ‘‘
خوشبو چپ رہی۔
’’ میری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صورت․․․ لوگ جہاں میں میری تصویر لیٔے پھرتے ہیں․․․․ ‘‘ ساحل نے مسکرا کر کہا۔
’’ کیوں اچھے بھلے گانے کا حلیہ بگاڑ رہے ہو․․․ ‘‘ خوشبونے کہا۔
’’ میں تمہیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں جان من کہ مجھ ایسے لوگ عام نہیں ملتے․․․ ‘‘
’’عام نہیں ملتے․․․․ ‘‘ اس نے اسے چڑایا ‘ اور پھر کچھ سوچتے ہوئے بولی ’’ ․․․میرا خیال ہے تمہارا آیئڈیا ہی غلط تھا․․․ایک سال سے ہم یہاں دربدر ہو رہے ہیں ‘ نتیجہ کیا نکلا ؟‘‘
’’ ایک تو تم بہت جلدی تھک جاتی ہو․․․ صبر سے کام لو․․․ ‘‘ ساحل نے دلاسا دیا ’’ میں تمہیں یوں ہی کسی ایرے غیرے کے حوالے تو نہیں کر سکتا․․․کچھ بات تو ہونی چاہیٔے اس میں․․ ‘‘
’’ کچھ بات ؟ تم میں کیا خاص بات ہے ؟ ‘‘ اس نے چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا
ساحل اسے گھورنے لگا۔ ’’ یہاں․․․ سب کے سامنے نہیں بتا سکتا․․․․رات کو بتاؤنگا․․․․ ‘‘ اسنے آہستہ سے کہا۔
’’ وہ تو سبھی بتاتے ہیں․․․ میں پوچھ رہی ہو ں تم میں کیاخاص بات ہے ؟ ‘‘
ساحل سے فوری طور پر کوئی جواب نہ بن پایا۔
’’ بس ؟ ․․․ چپ ہو گئے ؟․․․ عورت کو تم لوگ تب تک ہی دبا سکتے ہو جب تک وہ چپ ہے․․․ لیکن جب وہ تمہاری زبان میں بات کرتی ہے تو بغلیں جھانکنے لگتے ہو․․․ ‘‘
’’ آج بات کیا ہے․․․ ‘ ساحل نے جھینپ کر کہا ’’ بڑی اکھڑی ہوئی ہو․․․ ‘‘
’’ بور نہ کرو یار․․․ ورنہ تمہیں پھاڑ کھاؤں گی․․․․ ‘‘ وہ ساحل کو ناخن دکھاتی ہوئی بولی۔
’’ یہ تو کرتی ہی رہتی ہو․․․․ ‘‘
وہ اسے اکتائی نظروں سے دیکھتی رہی۔
اسی طرح ایک گھنٹہ اور گذر گیا۔ گاڑیاں آتی رہیں، مسافر اترتے رہے۔ اس بیچ انہوں نے دو دو کپ چائے اور پی لی ۔
ساحل بھی بور ہونے لگا تھا ۔ اس نے پانی کی ایک بوتل لے کر ہینڈ بیگ میں ڈالی۔ تین تین کپ چائے پی کر پیاس کسی لمحہ بھی متوقع تھی۔ پھر وہ خوشبو کے ساتھ واپس ہو لیا۔ راستے میں کئی دکانداروں نے ہاتھ اٹھا کر اسے سلام کیا اوراس نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔ یہاں کے سارے ٹی اسٹال والے ان سے واقف ہو گئے تھے اور دو گھنٹے صبح ا سی وقت اور دو گھنٹے شام کو ادھر ادھر گھومنے کا ان کا معمول اب سبھی جانتے تھے۔ان دونوں کو پسندیدگی سے دیکھا جاتا تھا ۔ خوشبو کی رنگت قدرے گندمی مایٔل تھی۔ چہرے کے خدوخال دلکش تھے۔ ا بھرا ہوا سینہ ‘ پتلی کمر سے نکلتی ہوئی کولہوں کی متناسب گولایئاں جنہیں چھو لینے کی کوشش میں اسکے گھنے بال پریشان ہی رہتے تھے ۔ اسکا گدرایا ہوا جسم جس پربلا آستین اور نیچی تراش کے گلے والی کولہوں سے ذرا نیچے تک قمیض اور پٹیالہ شلوار ۔اور اس پر مستزاد اس کے بھرے بھرے ہونٹ جن پررنگت کی مناسبت سے لپ اسٹک کی ایک ہلکی سی تہ اسکے چہرے کی دلکشی میں بے پناہ اضافہ کرتے تھے۔ کسی کا بھی ایمان خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ لیکن اسکے چہرے کی متانت ‘ سنجیدگی اور پروقار چال سے دیکھنے والے کے دل میں احترام کا جذبہ بیدارہو جاتا تھا۔ ساحل کی شخصیت بھی خاصی جاذب نظر تھی۔انہیں دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ ان کی شادی کو چھ سال ہو چکیہیں۔ مقامی دکاندار ان کا شمار سمن زار کے بہترین مہمان جوڑوں میں کرتے تھے۔
جلد ہی دکانوں والا علاقہ پیچھے چھوٹ گیا۔ یہاں سے دیودار کے درختوں کی گھنی آبادی شروع ہوتی تھی جن میں سیاحوں کی ٹولیاں جگہ جگہ بکھری ہوئی تھیں۔ مخملی گھاس پربچھی دریوں پر بیٹھ کر لوگ ٹھنڈی دھوپ کا لطف لے رہے تھے۔ بچے کلکاریاں مارتے دوڑ رہے تھے اور نوعروس جوڑے خلوت کی تلاش میں عموماً دور آگے غیرآباد حصے کی طرف نکلتے جارہے تھے۔
’’ اس طرف چلیں ؟ ‘‘ ساحل نے اس طرف اشارہ کرکے پوچھا۔
حالآنکہ خوشبو کا من نہیں تھا لیکن ساحل کے لہجے میں اس قدر والہانہ لگاوٹ تھی کہ وہ انکار نہ کر سکی۔ اس نے ساحل کی طرف دیکھے بنا ہی سر ہلا دیا۔
ساحل نے اسکا ہاتھ پکڑا اورایک طرف کو ہو لیا۔ تھوڑی دیر بعداسکا ہاتھ خوشبو کی کمر میں تھا۔ چاہتے ہوئے بھی خوشبو نے مزاحمت نہیں کی۔ پھر اسنے بھی اپنا سر ساحل کے شانوں پر ٹکا دیااور دونوں یونہی چلتے رہے ۔پھر ایک جگہ آ کر رک گئے۔ آگے ڈھلان تھی۔کیمبلو کی خودرو جھاڑیوں کا سلسلہ دور تک پھیلتا چلا گیا تھا۔موسم بہار میں ان جھاڑیوں پر مٹر سے بھی چھوٹے چھوٹے دانے اگ آتے جو میٹھے ہوتے تھے اور جنہیں مقامی بچے بڑے شوق سے کھاتے تھے۔ ساحل نے ادھر ادھر دیکھ کر ایک جگہ منتخب کی اور دیودار کے ایک درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔خوشبو کا سر بدستور اس کے شانے ہی پر تھا۔ اسنے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ ساحل نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اپنی آنکھیں بھی بند کر لیں۔ اس کی زندگی کتنی طمانیت بھری ہے، اسنے سوچا ، بس یہ جو پھانس دل میں چبھی ہوئی ہے یہ نکل جائے تو․․․․․
’’ ارے․․․․․․․․ ‘‘
ساحل نے خوشبو کی آواز سنی اور آنکھیں کھول دیں۔
اس نے دیکھا کہ سامنے تقریباً تین سال کی عمر کے دو بچے کھڑے تھے۔ انکی شکلیں حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے سے ملتی تھیں۔
ـــــ’’ ہمارا․․․ بال․․․ ‘‘ ان میں سے ایک نے خوشبوکی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا۔
خوشبو نے اپنے پاوئں کے پاس پڑی گیند اٹھائی اور بچے کو دکھاتی ہوئی بولی
’’ یہ بال آپ کا ہے ؟ ‘‘
’’ ہاں․․․ ہمارا ہے․․․․․ ‘‘
’’ آؤ․․․ لے لو․․․ ‘‘
دونوں بچے ہچکچاتے ہوئے آگے بڑھے۔ خوشبو نے دونوں کو پکڑ کر پیار سے سہلاتے ہوئے پوچھا :
’’ آپ کا نام کیا ہے ؟‘‘
’’ میرا نام سونو ہے ․․․ ‘‘ ایک نے کہا ’’․․․ اور میرا نام مونو ہے․․․ ‘‘ دوسرے نے بھی کہا۔
’’ہیلو سونو ․․․ ہیلو مونو․․․ اب ہم دوست بن گئے․․․ ٹھیک ہے ؟ ‘‘
دونوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’ ارے ․․․ یہ دونوں تو یہاں ہیں․․․ ‘‘
ایک طرف سے نسوانی آواز سنائی دی۔ سب نے ادھر مڑ کر دیکھا۔ ایک جوان اور قبول صورت عورت ان کی طرف بڑھی چلی آ رہی تھی۔ پھر اس نے واپس مڑ کر اونچی آواز میں کہا
’’ ساگر آ جاؤ․․․ دونوں شیطان مل گئے․․․ ‘‘
وہ مڑ کر ان کی طرف بڑھی۔
’’ معاف کیجیئے․․․ ‘‘ وہ ان کے قریب آ کر کہنے لگی ــ’’ ان شیطانوں نے آپ کو ضرور تنگ کیا ہو گا․․․ ‘‘
’’ اوہ․․․ نہیں تو․․․‘‘ ساحل نے ہنس کر کہا’’․․․یہ تو بڑے پیارے بچے ہیں․․․ ‘‘
اتنے میں درمیانے قد کا ایک وجیہہ آدمی سیدھا ان کیطرف آیا۔ اسنے بچوں کی طرف ایک اچٹتی سی نظر ڈال کی ساحل کیطرف دیکھا اور معذرت طلب لہجے میں بولا:
ـ’’ آپ ہمیں معاف کرینگے پلیز․․․․ہم نے آپ کو ڈسٹرب کیا․․․․ ‘‘
’’ نہیں نہیں ․․․ ‘‘ ساحل کو اس آدمی کا نپا تلا انداز اچھا لگا۔ ’’ ․․․ ناٹ ایٹ آل․․ یو آر ویل کم․․․ ‘‘ اس نے خو ش مزاجی سے کہا۔
خوشبو نے اسے دیکھا تو دنگ رہ گئی۔ نہ صرف اسکی رنگت ہی ساحل سے ملتی تھی بلکہ اسکے خدوخال میں بھی اس قدر مشابہت تلاش کی جا سکتی تھی کہ اس پر بہ آسانی ساحل کے کسی قریبی رشتہ دار کا شبہ ہو جاتا۔ تو کیا یہی ہے وہ جسے وہ پچھلے ایک سال سے ڈھونڈ رہے تھے،‘ خوشبو نے سوچا اوراسکا چہرہ ایکدم سرخ ہو گیا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔اچانک اسے ہاتھوں پیروں میں سے جان نکلتی محسوس ہونے لگی۔ وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی۔
’’آپ کی طبیعت ٹھیک تو ہے نا محترمہ․․․ ؟ ‘‘ اسکے چہرے کی رنگت میں اچانک تغیرپر اجنبی نے آگے جھک کر اسے غور سے دیکھتے ہوئے آہستہ سے پوچھا۔
’’ مم․․․میں ․․․میں․․․ ‘‘ اسکے ہونٹ یک بہ یک سوکھ گئے تھے اورحلق خشک تھا ۔ اسکے چہرے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں چمکنے لگیں۔
’’ انہیں پہلے کوئی تکلیف تو نہیں ہے ؟‘‘ اجنبی نے ساحل سے پوچھا
ـ’’ تکلیف․․․ ؟ نہیں تو․․․ ‘‘ ساحل نے گھبرا کر کہا۔
اجنبی نے اور قریب آ کر اسکی کلائی پکڑی اور کسی ماہر کی طرح نبض دیکھنے لگا۔
’’ ان کا ہارٹ سنک ہو رہا ہے․․․ ‘‘ اجنبی نے کہا اور پھراپنی بیوی سے مخاطب ہوا ’’․․․روشی ․․․ ان کی براکے ہک کھول کر کپڑے ڈھیلے کر دو․․․․ ‘‘
’’ ارے․․․ اسکی کوئی ضرورت نہیں․․․․ ‘‘ ساحل نے جلدی سے کہا۔
ــ’’ ضرورت ہے․․․ ‘‘ اجنبی نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے خشک لہجے میں کہا ’’ میں ایک ڈاکٹر ہوں․․․․ روشی ․․․میں نے کیا کہا ؟ ‘‘ اور پھر جب روشی خوشبو کی طرف متوجہ ہوئی تو وہ اٹھتا ہوا بولا ’’ آئیے مسٹر․․․ کہیں سے پانی لائیں․․․ ‘‘
’’ پانی تو ہے میرے پاس․․․․ ‘‘ ساحل نے کہااور پاس رکھے شولڈر بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر اسے دی۔روشی کی کاروائی جاری تھی۔ اجنبی نے ہاتھ میں پانی لے کر خوشبو کے چہرے پر ایک دو چھینٹے مارے اور وہ چونک کر سیدھی ہو گئی۔
’’یہ پانی پی لیں․․․ آپ بہتر محسوس کرینگی․․․․ ‘‘ اجنبی نے اسے پانی کی بوتل تھماتے ہوئے کہا۔
خوشبو نے اس کے ہاتھ سے بوتل لے کر پانی کے دو گھونٹ لیٔے اور اپنے ہونٹوں کو ترکر کے اسے پر تشکرنظروں سے دیکھنے لگی۔
’’ اب آپ کیسی ہیں․․․ ؟ ‘‘
’’ ٹھیک ہوں․․․ ‘‘ اسنے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بھرائے لہجے میں کہا۔
’’ گڈ․․․․ روشی ․․․ ذرا ان کا خیال رکھو ․․․ میں سگریٹ پی کر آتا ہوں․․․ ‘‘
اجنبی جانے کے لیٔے مڑا ہی تھا کہ ساگر بول پڑا
’’ آپ سگریٹ یہیں پی سکتے ہیں․․․ ہمیں کوئی اعتراض نہیں․․․ ‘‘ اجنبی نے سگریٹ سلگایااور ایک طرف بیٹھ کر خوشبو کو دیکھنے لگا۔
’’ اب کیسی ہو نیلم ؟ ‘‘ ساحل نے خوشبو سے پوچھا اور وہ چونک پڑی۔
نیلم ؟ اوہ ․․․․ تو ساحل نے بھی فیصلہ کر لیا ہے۔ خوشبو نے سر ہلاتے ہوئے سوچا۔دونوں بارہا ریہرسل کرچکے تھے کہ ایسا کوئی موقعہ آنے پر وہ کیا کرینگے۔ بعد میں کسی پیچیدگی کے امکانات کو مٹانے کے لیٔے اپنی شناخت کو صیغٔہ راز میں رکھنااس منصوبے کا لازمی حصہ تھا۔اور اسی لیٔے پچھلے سال کی طرح اس بار بھی انہوں نے ہوٹیل میں اپنے نام اور پتے غلط لکھوائے تھے۔
’’ ٹھیک ہوں․․․․ ‘‘ اس کا لہجہ نقاہت بھرا تھا۔
ـ’’ آپ کو یہاں پہلے نہیں دیکھا ․․․ ‘‘ ساحل نے اجنبی سے پوچھا۔
’’ ہم آج صبح ہی یہاں پہنچے ہیں ․․․‘‘ اجنبی نے کہا۔
’’ کہاں ٹھرے ہیں آپ ؟‘‘
’’ ہوٹیل بہار میں ․ ․․ ؟‘‘
’’ ارے․․․ کیا خوبصورت اتفاق ہے ․․․ ہم بھی تو وہیں ہیں․․․ ‘‘ ساحل کے منہ سے بے اختیار نکلا ۔ اس کے لہجے میں حیرت اور خوشی کے ملے جلے آثار تھے۔ ’’ بائی دی وے․․․ آئی ایم کاسل درابی․․․․ اور یہ میری وایٔف نیلم․․․․ ‘‘
’’ ہیلو مسٹر کاسل․․․ میں ڈاکٹرساگر ․․․ اور میری وایٔف روشی․․․ اور․․ یہ ․․․․‘ اس نے دونوں بچوں کی طرف دیکھا
’’ جی ہاں․․․ ‘‘ خوشبو نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا ۔ ’’سونو اور․․․․ مونو․․․ ان سے ملاقات ہو چکی ہے ․․․ ‘‘
’’ اب آپ کیسی ہیں نیلم ؟ ‘‘
’’ میں بالکل ٹھیک ہوں․․․․ ‘‘ خوشبو اب معمول پر آ گئی تھی ۔
’’ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ڈاکٹرساگر․․․ اسی بہانے آپ سے ملاقات ہو گئی․․․ آج رات آپ کھانا میرے ساتھ کھائیں گے․․․ پلیز․․․ ‘‘
’’ ارے اسکی کیا ضرورت ہے․․․․ ‘‘
’’ پلیز․․․․ ہم یہاں اکیلا محسوس کر رہے ہیں ․․․․ میرا دل نہ توڑیئے․․․ ‘‘ ساحل نے باری باری دونوں کی طرف دیکھا۔
’’ او کے مسٹر․․․․ کیا نام بتایا تھا آپ نے ؟
’’ کاسل․․․ کاسل درابی․․․ ‘‘
’’ ٹھیک ہے درابی صاحب․․․ تو پھر شام ڈنر پر ملتے ہیں ․․․ ‘‘۔
’’ روم نمبر دو سو گیارہ․․․․ ‘‘
ساگر نے سر ہلایا اور واپسی کے لیٔے مڑے۔
’’ بڑے اچھے لوگ ہیں․․․․ ‘‘ ساحل نے خوشبو سے دانستہً قدرے اونچی آواز میں کہا۔
ڈاکٹر ساگر نے مڑ کر کہا
’’ اگر میری ضرورت ہو تو․․․․ ‘‘
ضرور․․․ ساحل نے تشکر کے اظہار میں ہاتھ ہلاتے ہوئے سوچا․․․ تمہاری ضرورت تو پڑے گی دوست ، تمہاری تلاش ہی میں تو ہم یہاں آئے ہیں۔
’’ تمہیں کیا ہو گیا تھا ڈارلنگ․․․ ‘‘ اسنے خوشبو کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ’’ ․․․میں تو گھبرا گیا تھا․․․ ‘‘
’’ میں گھبرا گئی تھی․․․ ‘‘ خوشبو نے کہا ’’ اسکی شکل تم سے اتنی ملتی ہے کہ․․․ میں اچانک پریشان ہو گئی․․․ ‘‘
’’ ہاں واقعی․․․ میں خود اسے دیکھ کر حیران رہ گیا․․․․ چلو․․․ یہ بہت اچھا ہوا․․․․ دیکھا ؟ یہ سب سے مشکل مرحلہ تھا․․․․ انٹروڈکشن․․․ لیکن تمہاری وقتی گھبراہٹ نے سب ٹھیک کر دیا․․․نہ صرف ان لوگوں سے نیچر ل انداز میں ملاقات ہو گئی بلکہ․․․․ چند منٹوں میں ہی ․․․․ اچھے خاصے دوستانہ تعلقات بھی ہو گئے․․․․ ‘‘
’’ مجھے ڈر لگ رہا ہے ساحل․․․ ‘‘
’’ کچھ نہیں ہو گا میری جان ․․․․ ‘‘ ساحل نے ادھر ادھر دیکھ کر اسکے ہونٹوں کو چومتے ہوئے کہا۔ ’’ اوپر والا بھی ہمارے ساتھ ہے تم نے دیکھا کتنی آسانی سے سب ہو گی․․․ بس تم حوصلہ رکھو․․․ ‘‘
اور پھر دو چار ہی دنوں میں وہ ایکدوسرے کے ساتھ یوں گھل مل گئے جیسے برسوں کی جان پہچان ہو۔ اجنبیت کا احساس بتدریج ختم ہو گیا اور اب وہ آہستہ آہستہ ایکدوسرے کے ذاتی معاملات میں بھی دخیل ہونے لگے ۔ ساحل اور خوشبو نے اب ٹی اسٹالوں پر بیٹھ کرآنے والے مسافروں کا انتظار بند کر دیا تھا۔ اب انہیں اس کی پرواہ کب تھی کہ ٹی اسٹال والے ان کے معمول کی خلاف ورزی کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ ہر روز وہ سبھی اکٹھے ہی سمن زار کے غیرآباد مقامات کی طرف نکل جاتے جن سے ساحل اور خوشبو بخوبی واقف تھے۔ پلان کے مطابق اب خوشبو نے روشی کی نظریں بچا کرساگر کے سامنے ساحل کیساتھ کئی باربے رخی برت کر اسے واضح احساس دلا نے میں کامیاب ہو گئی تھی کہ ساحل اور اسکے بیچ سب ٹھیک نہیں ہے۔ساحل اسکی اداکارانہ صلاحیٔتوں پر عش عش کر رہا تھا۔ اور پھرساحل کے اصرار پر جب اسنے آہستہ آہستہ ساگر کو طرح دینا بھی شروع کر دیا توساگر بھی خوشبومیں ایک محتاط دلچسپی لینے لگا۔
اس دن بھی وہ اسی جگہ بیٹھے تھے جہاں ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
’’ دونوں بچے جڑواں ہیں․ ؟ ساحل نے کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’ ان کی شکل بہت ملتی ہے ‘‘
’’ ہاں․․․ ‘‘ روشی نے بچوں کو پیار سے دیکھ کر کہا۔پھر وہ خوشبو کی طرف مڑی ۔ ’’․․․ لیکن آپ ․․․․ ‘‘ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’ ہم ؟ ابھی جلدی کیا ہے․․․ ہماری شادی کو ڈیڑھ سال تو ہوئے ہیں․․․ ابھی دو تین سال اور․․․ ‘‘ خوشبو نے بڑی روانی سے رٹا ہوا جھوٹ بولا۔ ’’ میں نے تو کئی بار کہا ہے․․․ پر یہ مانتی ہی نہیں․․․ ‘‘ ساحل نے کہا۔
’’ بس آپ چپ رہیٔے․․․․ ‘‘ خوشبو نے بیزاری سے کہا ’’․․․ تم مردوں کا بس چلے تو ہمیں تالے کے اندر ہی قید کر کے رکھ دو․․․ ‘‘
’’نہیں ․․․․ نیلم ٹھیک کہتی ہے․․․․ ہماری شادی بھی چھ سال پہلے ہوئی تھی․․․․ ہم نے بھی تین سال․․․ ‘‘ اسے شایٔد جملے ادھورے چھوڑنے کی عادت تھی۔
اچانک ساگر نے غصیلے لہجے میں کہا
’’ روشی․․․ بچے پھرکہیں آگے نکل گئے ہیں․․․ میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا ہے کہ انہیں آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا کرو․․․ ‘‘
’’ اب میں انہیں رسی سے باندھ کر رکھونگی․․․․ ‘‘ وہ دانت پیس کر اٹھتے ہوئے بولی۔ اور انہیں پکارتے ہوئے آگے نکل گئی۔
’’ یہ بچے ایک جگہ ٹھہر ہی نہیں سکتے․․․ ‘‘ ساگر نے تھوڑی دیر بعد کہا۔
’’ بچے ایسے ہی ہوتے ہیں․․․․ ‘‘ ساحل بول پڑا۔
’’نہیں ․․․․ ان دونوں شیطانوں کی یہ بہت بری عادت ہے․․․ ‘‘
’’ یہ مت بھولیٔے کہ ان شیطانوں کی اسی بری عادت نے ہمیں ملوایا ہے․․․․ ‘‘ خوشبو نے پلکیں اٹھا کر اسکی آنکھوں میں دیکھا اورساگر ان آنکھوں میں کھو گیا۔
بہت اچھی جا رہی ہو، ساحل نے دل ہی دل اسکے انداز کی داد دیتے ہوئے سوچا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ دونوں نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’ میں ابھی آیا․․․ ‘‘ ساحل نے آہستہ سے کہا اور ا یک طرف چلا گیا۔
خوشبو کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ امتحان کے اس وقت کے لیٔے حالآنکہ بہت بار سوچا تھا لیکن اب حواس پر قابو رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔
’’ آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں․․․ ‘‘ ساگر اس موقعے کو گنوانا نہیں چاہتا تھا ۔
’’ مم․․․ میں․․․ ‘‘ وہ سچ مچ مضطرب ہو کر ہکلانے لگی۔ یہ ویسا نہیں ہو رہا جیسا کہ ان دونوں نے انہوں نے سوچ رکھا تھا۔
’’ آپ اداس کیوں رہتی ہیں ؟ ‘‘ ساگر نے لہجے میں درد پیدا کرنے کی کوشش کی۔
وہ خاموش رہی۔اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ کاش روشی یا ساحل میں سے کوئی جلد آ جائے۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اسے کبھی ایسی صورتحال کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
’’ آپ کو شایٔد نہیں معلوم کہ آپ جیسی خوبصورت حسینہ کو اداس رہنے کا کوئی حق نہیں ‘‘ ساگرنے کہا۔ اور وہ چونک پڑی۔
ساگر بہت اچھی باتیں کر سکتا ہے ، اس نے سوچا۔
’’ نیلم․․․․․․․․․․․ مجھ سے دوستی کرو گی آپ ؟ ‘‘ساگر نے سوچا سمجھا جوکھم لے کر کہا۔ وقت بہت کم تھا۔ روشی اور اور کاسل میں سے کوئی کسی وقت بھی آ سکتا تھا۔
خوشبو نے کچھ نہ کہا۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، ساگر نے سوچا۔ ایک قدم آگے بڑھا جائے۔
ـــ’’ نیلم․․․․․․ ‘‘ ساگر نے آہستہ سے کہا ۔نیلم کچھ نہ بولی۔
یہی موقع ہے ، کچھ کرنا چاہیٔے ، اس نے سوچا اوراسکا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’ کیا کررہے ہو؟ ‘‘ خوشبو نے ایک جھٹکے کیساتھ ہاتھ چھڑاتے ہوئے تیز لہجے میں کہا۔
ساگر کا دماغ سن ہو گیا۔ اس کا قیافہ غلط نکلا‘ نیلم اس قسم کی عورت نہیں تھی ٗ اس نے سوچا۔ اس نے نیلم کو سمجھنے میں غلطی کردی۔ اب کیا ہو گا ؟
’’ کوئی آ جائے گا․․․․ ‘‘ خوشبو آہستہ سے بولی۔
اوہ․․․ ساگر نے ایک طویل سانس لی اور اسکے حواس بحال ہوتے گئے۔ اب کہنے کے لیٔے کچھ نہیں بچا تھا۔ اپنی اپنی جگہ پر دونوں کامیاب ہو گئے تھے۔
پھر خفیہ ملاقاتوں کے ایک مختصر ترین دَور میں خوشبو نے ساگر کو مکمل اعتماد میں لیتے ہوئے اسے بتایا کہ وہ کاسل ہی کی کمپنی میں ملازم تھی ‘ جو سچ بھی تھا۔ بے دریغ جھوٹ بولتے ہوئے وہ ساگر کو بتاتی گئی کہ وہ اس شادی سے ناخوش تھی کیونکہ اس شادی کے لیٔے کاسل نے اس پر دباؤ ڈالا تھا ۔ اس نے یہ بھی برداشت کر لیا لیکن اب کاسل اسکے جذبات کی قدر نہیں کرتا ، اسے ٹارچر کرتا ہے اورایذا رسانی کا شایٔق ہے۔ساگر نے اسے یقین دلایا کہ وہ یہاں سے جاتے ہی قانونی چارہ جوئی کے لیٔے مشورہ کریگا۔
ساحل خوشبو کی کارکردگی پر مطمیٔن تھا۔وہ اس سب کاروائی کو بیحد سفاک طبی بے اعتنائی سے لے رہا تھا۔ خوشبو اسکی دانستہً غیر جذباتیت اور لاتعلقی پر حیران تھی۔یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی فاصلاتی تجارتی حکمت عملی کو جامۂ عمل پہنانے کے لیَٔے احکامات و ہدایات صادر کر رہا ہو اور سب کچھ اسکے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ہی ہو رہاہو۔ بالآخر فیصلے کی گھڑی بھی آ ہی گئی۔ ساحل اب اس آخری مرحلے کو بھی جلدی سے پار کرجانا چاہتا تھا۔
پھر ایک دن روشی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ اسکی عیادت کو گئے ساحل کو جب ساگر دروازے کے باہر تک چھوڑنے آیا تو ساحل نے اسے بتایا کہ وو ایک آدھ گھنٹے کے لیٔے ذرا مارکیٹ تک جائے گا۔ ساگر کمرے میں واپس آ کر کھڑکی سے ساحل کو جاتے دیکھتا رہا۔ پھر کچھ دیر بعداسنے روشی کو بچوں کو باہر نہ جانے دینے کی ہدایٔت کی اور باہر آکر سیدھا خوشبو کے کمرے میں آ گیا۔
’’ آپ ؟ ‘‘ اسنے گھبراجانے کی اداکاری کی۔ پچھلے دنوں میں ساحل نے انہیں اس قسم کے کئی مواقع فراہم کیٔے تھے ۔ ’’ آپ جایئے یہاں سے․․․ کاسل آ گیا تو․․․․ ‘‘
’’ وہ نہیں آئے گا․․․ بازار گیا ہے․․․ ‘‘ساگر نے ایک طرف اطمینان سے بیٹھتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر تک وہ باتیں کرتے رہے۔ اپنی دانست میں ساگر نے انتہائی ہوشیاری سے اسے اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔ خوشبو نے بھی اسے اپنا غلط پتہ لکھواتے ہوئے جذباتی لہجے میں کہا
’’ بس․․․․ اب میں آپ کے حوالے ہوں․․․ اب جو کرنا ہے آپ نے کرنا ہے ‘‘
’’ فکر نہ کرو نیلم․․․․ آج سے تم میری ذمہ داری ہو․․․ ‘‘ساگر نے کہا اور اسے اپنی بانہوں میں لے کر اسکے بھرے بھرے ہونٹ چومنے لگا۔
’’ نہیں․․․․ ‘‘ خوشبو نے اس کی گرفت سے نکلتے ہوئے کہا ’’․․․ابھی نہیں ․․․‘‘
’’ تو پھر کب ؟ میں تمہارے لیٔے ترس گیا ہوں․․․ ‘‘
’’ آج رات ․․․ ‘‘ خوشبو نے آہستہ سے کہا۔ ’’ گیارہ بجے ․․․یہیں ․․․ ‘‘
’’ یہاں․․․ لیکن کیسے ؟ ․․․ کاسل ؟ ‘‘
’’ آپ فکر نہ کریں․․․ وہ سو جائے گا۔ اسکے ٹارچر سے بچنے کے لیٔے میں اسے رات کے کھانے کے بعدکئی بار کافی میں نیند کی دو گولیاں دے دیتی ہوں۔ وہ صبح سے پہلے نہیں جاگتا․․․ ‘‘
’’ تمہیں یقین ہے ؟ کون سی ٹیبلیٹ استعمال کرتی ہو ؟ ‘‘ اس نے پیشہ ورانہ دلچسپی سے پوچھا۔
’’اب جاؤ․․․ ‘‘ وہ اسے دروازے کی طرف دھکیلتے ہوئی بولی ’’ رات گیارہ بجے․․․․ دروازہ کھلا ہو گا․․․․․ چپ چاپ اندر چلے آنا ․․․ ‘‘
ساگر دل ہی دل اپنی پیٹھ ٹھونک رہا تھا۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ شادی کے چھ سال بعد نیلم جیسی خوبصورت عورت کسی پکے ہوئے پھل کی طرح اسکی جھولی میں آ گرے گی۔ وہ اپنی خوش قسمتی پر ناز کرنے لگا۔ عورتوں کے لیٔے وہ اب بھی باعث کشش تھا ‘ اس نے سوچا اور اسے وہ لڑکیاں یاد آنے لگیں جو اسکی زندگی میں آئی تھیں۔وہ آنے والی رات کے امکانات کا تصور کرنے لگا۔ لیکن
ا س رات گیارہ بجنے ہی میں نہیں آ رہے تھے۔اوہ ، اس نے گھبرا کر سوچا ، وہ رات کو گیارہ بجے کمرے سے نکلنے کا کیا بہانہ کریگا ۔
وہاٹ نان سنس، اگر نیلم خواب آور گولیاں استعمال کر سکتی ہے تو وہ تو ایک تربیت یافتہ ڈاکٹر ہے، اس نے اپنے آپ پر لعنت بھیجی اور پھر مسئلے کے حل پر ہشاش بشاش ہو گیا۔
رات ٹھیک گیارہ بجے ساگر نے کمرہ نمبر دو سو گیارہ کے دروازے کو دھڑکتے دل کے ساتھ آہستہ سے دھکا دیا تو وہ بہ آسانی اندر کی طرف کھلتا چلا گیا۔ ساگر اندر داخل ہوا۔ سامنے خوشبو کھڑی تھی۔ وہ آگے بڑھی اور بڑی آہستگی کے ساتھ چٹخنی چڑھا کردروازے پر پردہ پھیلا دیا۔ وہ واپس مڑنے ہی لگی تھی کہ ساگر اسے بانہوں میں لے لیا۔
خوشبو کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ ذہنی طور پر وہ اس سچویٔشن کے لیٔے تیار تھی مگراب اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسکا رد عمل کیا ہونا چاہیٔے۔ ساگر ایک خاصی پرکشش شخصیت کا مالک تھا اورعمومی طور پر اسے ایک ہمدرد کی حیثیت دی جا سکتی تھی لیکن وہ جذباتی سطح پر اس کے ساتھ ملوث نہیں تھی اور جنسی تشنگی کا شکار بھی نہیں تھی۔ ساحل ایک بہترین شوہر تھا۔ اسنے غیر محسوس طریقے سے اپنے آپ کوساگر سے الگ کیا۔
’’ کاسل کہاں ہے ؟ ‘‘ ساگر کی سانسیں چڑھی ہوئی تھیں۔
’’ اندر․․․․ ‘ ‘ اسنے خوابگاہ کی طرف اشارہ کیا۔
ساگر نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور اندر جھانکا۔ کاسل بے خبر سو رہا تھا۔ مطمئن ہو کر ساگر نے دروازہ بند کر دیا اور ادھر ادھر دیکھا۔ ڈرایٔنگ روم کے وسط میں دبیز قالین پر ایک موٹا سا کمبل بچھا ہوا تھا۔ ساگرنیلم کی انتظامی قابلیت کا قایٔل ہو گیا۔ اسے افسوس ہوا کہ نیلم جیسی عورت کاسل جیسے شخص کے ساتھ ضایٔع ہو رہی ہے۔ وہ ایسا نہیں ہونے دے گا‘ اس نے فیصلہ کیا اور اسکے دل میں نیلم کیلیٔے پیار امڈ آیا۔وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اسکے پاس آیا ‘ اسکا ہاتھ پکڑا اور کمبل پر جا کر بیٹھ گیا اور اسکا چہرہ اٹھایا۔ اسکی پلکیں جھکی ہوئی تھیں۔
’’ نیلم․․․ ‘‘
’’ ہوں․․․ ‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’ تم پریشان کیوں ہو․․․ ؟‘‘
’’ نہیں تو․․․․ ‘‘
’’ فکر نہ کرو․․․ میں ہوں نا․․․․آج سے تم میری ہو ․․․ اور․․․․․ تمہاری پریشانیاں بھی میری ہیں ․․․․․ ‘‘
ساگر اسکے ساتھ کمبل پر لیٹ کر اس سے لپٹ گیااور اسے بے تہاشہ پیار کرنے لگا۔ پھر اسکا ہاتھ خوشبو کی پشت پر قمیض کے نیچے رینگ کراسکی برا کے ہک ڈھونڈنے لگا۔ خوشبو نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔وہ اس عجیب تجربے سے گذرنے والی تھی جس کے لیٔے اسے اس کے شوہر نے تیار کیا تھا۔
خوابگاہ میں ساحل جاگ رہا تھا۔کوئی بھی شوہر ، جس نے پہلی بار کسی بھی وجہ سے اپنی بیوی کو خود کسی کے حوالے کیا ہو کیسے سو سکتاہے۔ وہ ایک سال سے اس فیصلہ کن لمحے کے لیٔے تیار تھا لیکن آج اسے عجیب محسوس ہو رہا تھا۔ وہ دونوں کیا کر رہے ہونگے ‘ اس نے سوچااور اسکے ذہن کی عکس بین میں اَن گنت منظر کوندنے لگے۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے انکی گفتگو حرف بہ حرف سنی تھی۔ ․․․ کیا کہہ رہا تھا․․․․ آج سے تم میری ہو اور تمہاری پریشانیاں بھی میری ہیں ۔ اسکا دماغ گرم ہو گیا․․․․ حرامزادہ․․․ پریشانیاں بھی میری ہیں․․․․ اسکے دل میں آیا کہ اسے دھکے مار کر کمرے سے باہر نکال دے۔ وہ ہانپنے لگا۔ اور اسے گلا سوکھتا محسوس ہوا۔ ساحل نے سایٔڈ ٹیبل پر رکھے جگ میں سے بہ آہستگی گلاس میں پانی انڈیلا اور پی گیا۔ کچھ دیر بعد وہ معمول پر آیا۔ میں بھی کتنا گدھا ہوں ‘ اسنے اپنے آپ سے کہا۔ میں نے ہی تو یہ ڈرامہ رچا ہے ، مجھے غصے پر قابو رکھنا چاہیٔے․․․ اسنے سوچا․․․ آخر یہ سب ایک بڑے مقصد کے لیٔے تو کر رہا ہوں․․․ لیکن ․․․ لیکن وہ اس وقت کیا کررہے ہونگے ؟ اس نے سوچا ، انکی آوازیں بھی نہیں آ رہی تھیں۔ وہ آہستگی سے بیڈ سے اترا اور دبیز قالین پر بڑی احتیاط سے قدم بڑھاتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا۔دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ وہ دھڑکتے دل سے جھانکنے لگا۔
ڈرایٔنگ روم میں روشن زیرو واٹ کے واحد بلب کی روشنی میں وہ دونوں صاف برہنہ نظر آ رہے تھے ۔ وہ ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے۔ساگر کے ہاتھ کسی مشاق فنکار کی طرح خوشبو کے جسم پرپھسل رہے تھے ۔ساحل چپ چاپ دیکھتا رہا۔ معاً ساحل کو خوشبو کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ کا شایٔبہ ہوا۔ سالی․․․ ساحل کے تن بدن میں حسد کی ایک لہر دوڑ گئی۔
کیا وہ انجوائے کر رہی ہے ؟ اس نے سوچا۔
کیا میں انجوائے کر رہی ہوں ؟ خوشبو نے سوچا۔ جب ساگراس کے جسم پر سے ایک ایک کپڑا اتار رہا تھا تو اسکی مزاحمت کا کوئی مطلب ہی نہیں تھا کیونکہ اس نے تو اپنے شوہر کی اجازت سے اسے خود ہی مدعو کیا تھا۔ وہ بڑی دیر تک اس کے جسم سے کھیلتا رہااور وہ برف کی سل کی مانند پڑی رہی تو ساگر نے اسکی اس کیفیت کو اعصابی تناؤ سے تعبیر کیا۔ لیکن یہ سچ مچ اسکی اعصابی کشمکش ہی تو تھی۔ یہ گناہ تو نہیں ہے ‘ کیا میں کوئی پاپ کر رہی ہوں ؟ اسنے سوچا اور اسے یاد آیا کہ ساحل نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا گناہ تو وہ ہوتا ہے سماج جس کی اجازت نہیں دیتا۔
’’ میں تمہارا سماج ہوں ‘‘ ساحل نے یقیں بخش لہجے میں اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ ’’ اور پھر جب میں تمہیں اجازت دے رہا ہوں ‘ مجھے کوئی اعتراض نہیں․․․․ تو سماج کہاں سے بیچ میں آتا ہے․․․ تم نے شیکسپیٔر کا قول یاد نہیں ؟ کچھ بھی اچھا یا برا نہیں․․․․ صرف ہماری سوچ اسے اچھا یا برا بناتی ہے․․․ اور پھر ․․․․ اور پھر ․․․ ہم تو یہ ایک مقصد کے لیٔے کر رہے․․․‘‘
ساحل کے الفاظ یاد آتے ہی خوشبو کو لگا کہ کوئی چٹان اسکے سینے پر سے سرک گئی ہو۔ آہستہ آہستہ اسکا ذہنی تناؤ معدوم ہونے لگا اور اسے احساس ہوا کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔ اب ہر گذرتے لمحے کے ساتھ اضطراری طورپر اسکا جسم خم پذیرہونے لگا۔ساگر کے ہاتھوں اور انگلیوں کے لمس سے خوشبو کے جسم میں لذت فروز سنسنی انگڑایئاں لینے لگی اور پھر اس کی بانہیں از خود ہی ساگر کی گردن میں حمایٔل ہوتی چلی گیٔں۔ اسکی نیم باز آنکھوں کی مدہوشی میں اسکے ہونٹ وا ہوکرساگر کے ہونٹوں پر پیوست ہو گئے اور اس کی زبان ساگر کی زبان ڈھونڈنے لگی۔ خوشبو کے اس مثبت جوابی ردعمل سے مشتعل ہو کر ساگر اسکے بھرپور جسم کی طویل اور پرجوش مسافت پر روانہ ہو گیا۔یہ ایک لذت آمیز سفر تھا جس میں خوشبو نہ صرف اسکی سرگرم معاون بلکہ رہبر بھی تھی۔ پھر وہ اسکے جسم و روح کے اندر کہیں گہرے میں اتر گیا۔ ساری حدیں پار کر کے دونوں بہت دیر تک ایکدوسرے کو دیوانہ وار پیار کرتے رہے۔ اچانک دونوں کے کہیں دور اندر ہزاروں دھماکے ہونے لگے اور پھر ددنوں ایکدوسرے سے لپٹ کروقت کے لامتناہی سلسلے کا حصہ بن گئے۔ پتہ نہیں کتنی صدیاں یوں ہی گذر گیٔں۔ بہت دیر کے بعد جب دونوں الگ ہو کر اٹھے توساگر نے پھر اسے لپٹا لیا۔ساحل ایک ماؤف ذہن کے ساتھ واپس آ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔
خوشبو نے بہ دقت تمام اس سے الگ ہو کر میز پر رکھی وٹامن کی ایک ٹیبلیٹ اٹھائی اور جان بوجھ کرساگر کے سامنے منہ میں رکھی اور پانی پی کر نگل لی۔ ساحل نے اسے سمجھایا تھا کہ اسے یہ تاثر دینا ضروری تھا کہ اس ناجایٔز تعلق کا مقصد جنسی آسودگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دونوں نے کپڑے پہنے اور خوشبو نے اس سے چلے جانے کو کہا۔
’’ جانے کو من نہیں کر رہا․․․ ‘‘ ساگر نے کہا۔
’’کل کی رات نہیں آیئگی ؟ ‘‘ اس نے معصومیت سے پوچھا۔
اس ادا پر فدا ہو کرساگر نے اسکی طرف ایک ہی قدم بڑھایا مگر وہ ہاتھ اٹھا کر تحکمانہ لہجے میں بولی
’’ نہیں بس․․․ کل رات اسی وقت․․․ ‘‘
اس نے آگے بڑھ کر آہستہ سے دروازہ کھولا اور بڑی احتیاط سے باہر جھانکا پھر پیچھے ہٹ کرساگر کو جلدی سے نکل جانے کا اشارہ کیا۔ وہ جلدی سے باہر نکل گیا۔ خوشبو نے دروازہ بند کیا اور خوابگاہ میں چلی گئی۔ بیڈ پر بیٹھے ہوئے ساحل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
’’ ہو گیا ؟ ‘‘ ساحل نے اسے پوچھا۔
’’ہاں․․․ ‘‘ اس نے جماہی لیتے ہوئے انگڑائی لی۔
ــ’’ کیسا رہا ؟ ‘‘
’’ کیسا رہنا تھا․․․․ بس تم چاہتے تھے․․․ اور کیا ․․․ ‘‘
سالی․․․․ حرامزادی․․․․ میں نے صاف دیکھا کہ انجوائے کر رہی تھی اور اب کتنی معصوم بن رہی ہے، ساحل نے سوچا، میں نے کہا تھا․․․ میں نے کہا تھا کہ یہ ایک بالکل غیرجذباتی عمل ہونا چاہیٔے․․․ کسی مذہبی رسم کی طرح․․․ میں نے اس سے کہا تھا کہ جسمانی سطح سے بلند ہو کر ہی اس عمل کا جواز پیدا کیا جا سکتا ہے ورنہ سماج میں مروجہ ضابطۂ اقدار عمر بھر کے لیٔے گناہ کے احساس میں مبتلا کر سکتا ہے․․․ میں نے کہا تھا کہ نیوگ کے سسٹم میں بنیادی شرط یہ تھی کہ حصول اولاد کے لیٔے کیٔے جانے والے اس عمل میں تلذذ کا عنصرکسی طور بھی شامل نہ کیا جائے ، مگر یہ تو اس پورے عمل میں جسمانی اور ارضی سطح پرشعوری طورسے شامل تھی․․․ اسے افسوس ہوا کہ خوشبو اس کے معیار پر نہ اتر سکی اور مقصد کی رفعت کو نہ سمجھ سکی۔اس کام کے لیٔے خوشبو کو تیار کرنا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ مہینوں لگ گئے تھے۔وہ آہستہ آہستہ دنیا بھر سے دلایٔل اکٹھے کر کے اسے سمجھاتا رہا۔ ساحل کو یاد آیا ․․․ اس نے خوشبو کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ میں ہزاروں سپاہی موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں، عام حالات میں اگر کوئی کسی کو جان سے مار دیتا ہے تو اسے سزا ملتی ہے مگر جنگ میں جتنے زیادہ لوگ مارو اتنے زیادہ میڈل ملتے ہیں ، چرچ نے ہزاروں عورتوں کوجادوگرنی ہونے کے شک کی بنا پر زندہ جلا دیا، دہشت گرد نرخرے کاٹ دیتے ہیں، خود کش دستے اپنے سمیت بیسیوں کو اڑا دیتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ مرنے والے تو مر جاتے ہیں مگر ان کے ساتھ جڑے لوگ تو زندہ درگور ہو جاتے ہیں؟وہ سب جانتے ہیں، لیکن ملک اور کئی قسم کی تحریکیں چلانے والے مختلف گروہ انہیں تربیت دے کر تیار کرتے ہیں، ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کے حصول کے لیٔے، وطن کی راہ میں، خدا کی راہ میں ، مذہب کے لیٔے ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو ان حرکات کے ذمہ دار اپنے ضمیروں کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ سماج کی خاموش رضامندی احساس جرم یا احساس گناہ کو تقسیم کر دیتی ہے۔ ایک قیدی کو مارنے کے لیٔے ایک سپاہی کی ایک ہی گولی کیا کافی نہیں ہے ؟ لیکن نہیں، اس کے لیٔے بیس سپاہیوں کا فائرنگ اسکواڈ بنایا جاتا ہے تاکہ وہ جو فیلنگ آف گلٹ ہے، وہ جو احساس گناہ ہے وہ شیئر ہو جائے ․․․․․ سماجی منظوری گھٹیا افعال کو بھی مقصدیت کا جامہ پہنا کر اعلیٰ و ارفع بنا دیتی ہے، مقصد، ہمیشہ مقصد کو یاد رکھو․․․․․ اعلیٰ مقصد․․․․ اس نے کہا تھا اور خوشبو نے مرعوب ہو کر پوچھا تھاکہ اسے اتنی باتیں کیسے معلوم ہیں․․․․ اسکی فہم و فراست سے قایٔل ہو کر خوشبو نے فخر کا اظہار کیا تھا کہ وہ ساحل جیسے ذہین شخص کی بیوی ہے․․․ اور آج․․․ اور آج اس نے سب مٹی میں ملا دیا ۔وہ صاف انجوائے کر رہی تھی، ساحل نے افسردگی سے سوچا
خوشبو اسکے ساتھ لیٹ گئی۔ لیکن ساحل نے کراہت سے منہ پھیر لیا۔بس کسی طرح یہ دو دن اور گذر جایٔں۔ اسے بعد میں دیکھونگا۔
’’ سو جاؤ․․․ مجھے نیند آ رہی ہے․․․ اور تم بھی تھک گئی ہو گی ․․․ ‘‘ ساحل نے بھرائی آواز میں کہا۔
وہ واقعی تھک گئی تھی۔لیکن اس تھکن میں طمانیت بھی شامل تھی۔ ساگرایک اچھا ماہر پیار کرنے والا تھا، اسکا انداز اچھا تھا۔ اس نے سوچا اور پھر وہ واقعی احساس ندامت سے بھر گئی۔
اگلے روز سارا دن ساحل باہر ہی رہا۔ خوشبو نے سوچا کہ وہ جان بوجھ کرکہے بناہی ان دونوں کے لیٔے مواقع فراہم کر رہا ہے۔ شام جب وہ واپس آیا تو بالکل چپ چپ تھا ۔ وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ خوشبو نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ اس سے آنکھیں نہیں ملا رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اسکے قریب آئی اور اسکے قدموں میں بیٹھ گئی۔
’’ کیا بات ہے ․․․ خاموش کیوں ہو ؟ ‘
خوشبو نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں نم تھیں۔اچانک خوشبو کے ذہن میں جھماکا سا ہوا اور اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گیٔں۔ اسے احساس ہونے لگا کہ کل رات ساحل کے دل پر کیا بیتی ہو گی۔ کل جو بھی ہوا اسکے سامنے ہی ہوا تھا او ر کل رات سے لے کر اب تک وہ کس عذاب سے گذرا ہو گا ۔ خوشبو نے اپنا سر اس کی گود میں رکھ دیا۔ اسکا دل بھر آیا اور اچانک اسکی آنکھوں سے اشکوں کے سوتے پھوٹ پڑے۔پھر وہ ہچکیاں لینے لگی۔شایٔد وہ اپنی کل رات والی حرکت پر شرمندہ ہے ساحل نے سوچا اور اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا۔ کچھ دیر بعد ساحل نے اسکا سر اٹھایا۔ اسکا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔
’’بس ․․․ ‘‘ اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ۔ ’’ جو ہوا سو ہوا․․․․ اب اور نہیں․․․ ‘‘
’’نہیں․․․․ دو بار اور․․․․ ‘‘ ساحل نے اسکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔’’․․․ تمہاری ڈیٹ بھی ٹھیک ہے․․․ میں چاہتا ہوں کہPregnancy میں کوئی شک نہ رہے․․․Pregnancy ایک بار میں بھی ہو جاتی ہے لیکن میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا ․․․ ایک سال سے ہم اسی بات کا انتظار کر رہے تھے․․․ اور اب․․․ جبکہ ہم کامیاب ہوگئے ہیں، تم حوصلہ ہار رہی ہو․․․ ؟ صرف دو راتیں․․․․ اور․․․․․ اگر ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اگلے سال ایک آدھ ہفتے کے لیٔے تم اسکے ساتھ اکیلے بھی آ سکتی ہو․․․ لیکن یہاں نہیں․․․․ کسی دوسرے ہل اسٹیشن پر․․․ ‘‘
خوشبو اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔
’’ ہر بار جڑواں نہیں ہوتے․․․․ ‘‘ ساحل نے آہستہ سے کہا۔ ’’ مجھے ایک نہیں ․․․․ دو بچے چاہیٔں․․․․․ ‘‘
لیکن اس رات خوشبو کسی شرابی کی طرح مختلف مرحلوں سے گذرتی رہی۔ کل کی طرح عمل میں اسکا دل نہیں تھا۔اسکی آنکھوں کے سامنے بار بار ساحل کا کرب زدہ چہرہ آ جاتا تھا۔ لیکن ساگر کو وداع کرنے سے پہلے وہ اسے دکھا کر وٹامن کی گولی کھانا نہیں بھولی تھی۔
اگلا سارا دن انہوں نے ساگر ، روشی اور بچوں کیساتھ خوش فعلیوں میں ہی گزارا۔ خوشبو اور ساحل بات بات پر قہقہے لگا رہے تھے۔ساحل کو صاف دکھائی دے رہا تھا کے خوشبو کی طرف ساگر کا جھکاؤ آج کچھ زیادہ ہی ہے مگر ا س نے یہ سوچ کر درگزر کیا کہ آج آخری رات تھی۔لیکن روشی ایک اچھی میزبان تھی اور ساگر بھی بچھا جا رہا تھا ۔حسب معمول وہ دن میں دیوداروں کے بیچ گھومتے رہے۔ ان کے بیچ اس قدر مفاہمت ہو گئی تھی کہ وہ ایک دوسرے کی بیویوں کے ساتھ الگ الگ بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔نیلم پر ظلم کرنے کی پاداش میں حالآنکہ ساگر اسے اچھا آدمی نہیں سمجھتا تھا لیکن اس نے نظر انداز کیا۔اور خوشبو کی نظر میں تو سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ساحل کی فطری خوش مزاجی لوٹ آئی تھی۔ لگتا تھا کہ پچھلے دو دنوں سے اس کے ذہن پر چھائی ہوئی کثافت چھٹ گئی ہے ۔ رات کے کھانے سے پہلے انہوں نے ساگر کے کمرے میں دو دو پیگ لیٔے اور پھر کھانے کے بعد اپنے کمرے میں واپس آتے وقت ساحل نے ساگر کو جب خوشبو کو اشارہ کرتے دیکھا تو اسے اچھا لگا اور وہ بے اختیار مسکرا دیا ۔وہ اپنے بدلے رویے پر خود حیران تھا۔ اپنے کمرے میں آ کر ساحل نے روز کی طرح مقررہ وقت پر زیرو واٹ کے سوا بیڈ روم کی ساری بتیاں بجھا دیں اور لیٹ گیا۔ خوشبو نے نایٔٹی پہن کر خود پر اسپرے کیا۔ شیشے میں دیکھ کر اپنے بال سنوارے اور ساحل کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ساحل میں واضح تبدیلی پر وہ خوش تھی۔
’’ کیسی لگ رہی ہوں․․․․ ‘‘
’’ بہت بہت خوبصورت․․․․ ‘‘ ساحل نے کہا ’’․․․․ ادھر آؤ․․․ ‘‘
’’ اوں ہوں․․․․ ‘‘ وہ اٹھلائی۔ ’’ میک اپ خراب ہو جائے گا ڈارلنگ․․․․ ‘‘
’’ ٹھیک ہے․․․․ ‘‘ ساحل نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ’’ ․․․․ کل کی رات تو میری ہے‘‘
’’ میری ساری راتیں تمہاری تھیں اور تمہاری رہیں گی․․․ لیکن اب جانے دو ․․․․ گیارہ بجنے والے ہیں․․․․․ ‘‘ ا س نے باہر آکر خوابگاہ کا دروازہ بند کر دیا۔
آج سجی سنوری خوشبو کو دیکھ کر ساگر مبہوت رہ گیا ۔ ا س کا حسن آج پورے جوبن پر تھا۔ شفاف نایٔٹی میں سے جھانکتا اسکا مرمریں بدن اسکی توقعات کی ساری حدوں کو پھلانگ گیا تھا۔ خوشبو نے اس کی طرف بانہیں پھیلا دیں۔ ساگر آہستہ سے اسکی طرف بڑھا۔ اسکے قریب آ کر پہلے تو دیر تک اسے نہارتا رہا پھر اسکے سامنے دوزانو ہو کر اسے اپنی بانہوں میں لیا اور اسکے جسم میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔ اپنے حسن کی خدمت میں اس والہانہ خراج پر خوشبو مسرور ہو گئی۔ دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔
خوابگاہ میں ساحل بیڈ سے اٹھا۔ اسے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ پہلی رات کی مانند اس کے دل میں جلن یا حسدکے جذبات نہیں بلکہ ایک تجسس تھا۔ایک غیر جذباتی اشتیاق۔اس نے معمول سے ہٹ کر فرج میں سے وہسکی کی بوتل نکالی اور ایک بڑا پیگ گلاس میں ڈالا۔ پانی ملا کراس نے ایک بڑا گھونٹ لیا اور بلا آواز چلتا ہوا دروازے کے پاس آیا۔ دروازہ بند تھا ۔ اس نے دروازے کو ٹہوکا دے کر اتنا کھولا کہ بہ آسانی دیکھ سکے۔ وہ دونوں ایک دوسرے میں محو تھے۔ انہیں اسطرف دیکھنے کا ہوش ہی کہاں تھا۔ پہلی رات ہی کی طرح دونوں یکسر عریاں تھے۔ ساگر اس پر چھایا ہوا تھا۔ وہ بڑی دیر انہیں دیکھتا رہا۔ ساحل کو حیرت ہوئی کہ اسے یہ سب دیکھ کربرا نہیں لگ رہا تھا۔ اسکی نظروں میں ایک اعلٰی و ارفع مقصد کے پیش نظر ، عورت پر بلا شرکت غیرے مالکانہ حقوق کی فطری اور مردانہ جبلت سے شایٔد وہ وقتی طور پر محروم ہو گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی فلم د یکھ رہا ہو ۔ اچانک اسکی خواہش ہوئی کہ وہ بھی ان کا حصہ بن جائے۔ میں کیا سوچ رہا ہوں ، اس نے اپنے آپ پر نفریں کی، مجھے جذباتی نہیں ہونا چاہیٔے ، اور نہ ہی جسمانی سطح پر ملوث ہونا چاہیٔے ، اس نے سوچا اور انکی طرف متوجہ ہو کر گلاس سے ایک اور چسکی لی ۔ پھر بہت دیر بعد دونوں کے ہونٹوں سے لذت آمیز سسکاریاں نکلیں اور کچھ دیر بعد اس نے ان دونوں کو الگ ہو کر اٹھ بیٹھتے ہوئے دیکھا۔ خوشبو نے حسب معمول وٹامن کی گولی منہ میں ڈال کر پانی کے دو گھونٹ پیٔے اور گلاس میز پر رکھا۔
’’ یہ تم ہربار کون سی ٹیبلیٹ لیتی ہو․․․ ‘‘ ساگر نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’ کیوں․․․ میں نے بتایا نہیں تھا کہ ابھی میں Pregnant نہیں ہونا چاہتی․․․․ ‘‘ خوشبو نے اسے بتایا کہ یہ مانع حمل گولی ہے۔
’’ پھر تو تم بیکار ہی ڈر رہی ہو․․․․ ‘‘ ساگر نے کپڑے پہنتے ہوئے ہنس کر کہا ’’ مجھ سے پوچھ لیا ہوتا․․․․ ‘‘
’’کیا مطلب․․․ ؟ ‘‘
ساحل غور سے سننے لگا۔
’’ یہ․․․․ میرے ساتھ․․․․ ایک عجیب ٹریجڈی ہے نیلم․․․․ ‘‘ ساگر نے اداس ہو کر غمناک لہجے میں کہا ’’ ․․․میری سیکس لایٔف بالکل نارمل ہے․․․مگر ․․․․ مجھ میں Sperms پیدا کرنے کی اہلیت نہیں ہے․․․ یہ ایک بہت Rare میڈیکل کنڈیشن ہے․․․جسے․․․ چھوڑو ․․․․ تم نہیں سمجھو گی․․․․․ بس یوں سمجھ لو ․․․․ کہ ․․․ میں بچہ پیدا نہیں کر سکتا۔․․․ ‘‘
’’ کیا․․․ ؟‘‘ خوشبو سکتے میں آ گئی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔خوشبو کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا۔
’’ کیا ہوا ؟ ‘‘ ساگر نے ایک قدم آگے بڑھ کراسے کندھوں سے پکڑا۔ ’’ تم ٹھیک تو ہو نا ․․ ؟ ‘‘
’’ت ․․․ تت․․․ تو․․․․ تو․․․ تمہارے ․․․ جڑواں بچے․․․․ ‘‘
’’ اوہ․․․ وہ تو ․․․․ ہم نے ایک سادھو کے آشرم میں ایک مہینے تک خدمت کی تھی․․․ کئی راتیں گھٹنے گھٹنے پانی میں رہے․․․ حالآنکہ میں خود ڈاکٹر ہوں․․․ لیکن․․․․ کبھی کبھی یقین کرنا ہی پڑتا ہے کہ کراماتیں بھی ہوتی ہیں ․․․․ ‘‘
اچانک ساحل کے ہونٹوں سے ایک زور کی کراہ آزاد ہوئی اور اندر سے ایک زوردار چھناکے کی آواز آئی۔
ساگر نے خوابگاہ کے دروازے کی طرف اور پھر خوشبو کی طرف دیکھا جس کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئی تھیں اور وہ خود پتھر کا بت بنی ہوئی تھی۔
کہیں کاسل نہ جاگ گیا ہو ساگر نے سوچا اور دروازہ کھول کر تیزی سے باہر نکل گیا۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․

( پس نوشت: اگلی صبح ساگر نے انگڑائی لی اور اٹھ بیٹھا۔ روشی چائے کا کپ ہاتھ میں لیٔے اسے جگا رہی تھی۔ اس نے اسکی طرف دیکھے بنا کپ لے لیا اور چسکیاں لینے لگا۔کل رات سے نیلم کے حسن کا نشہ ابھی تک اس پر طاری تھا۔ اسے افسوس ہوا کہ وہ پچھلے سال یہاں کیوں نہیں آیا۔ بہرحال یہ چھٹیاں کمال کی رہیں، ا س نے سوچا ، نیلم جیسی عورتیں پیڑوں پر نہیں اگتیں اور نہ ہی راہ چلتے ہر کسی کو مل جاتی ہیں۔اسے اپنی خوش نصیبی پر ناز ہونے لگا۔ لیکن رات کو کیا ہوا تھا؟ کہیں کاسل نے جاگ کر انہیں دیکھ تو نہیں لیا تھا۔لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے۔خوشبو نے اسے خواب آور گولیاں تو دی ہونگی۔ اونہہ ، دیکھا جائے گا۔ وہ کوئی ڈرتا تھوڑی نا ہے، دیکھ بھی لیا ہو تو پرواہ نہیں اس نے سوچا، وہ نیلم جیسی عورت کے لیٔے لڑ جایئگا۔لیکن کاسل نے رات کہیں نیلم کو ٹارچر نہ کیا ہو، اگر ایسا ہوا تووہ قانون کی مدد لیگا،اس نے سوچا ۔وہ شب خوابی کے لباس ہی میں ان کے کمرے کی طرف چل پڑالیکن ان کے کمرے پر پڑے قفل کو دیکھ کر اسے مایوسی ہوئی۔ یہ لوگ اتنی صبح کہاں گئے، اس نے حیرت سے سوچا۔
وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ریسیپشن پر آیا اور وہاں بیٹھے ملازم سے پوچھا :
’’ یہ دو سو گیارہ والے کہاں گئے ؟ ‘‘
’’ وہ تو صبح صبح ہی چیک آؤٹ کر گئے ساب۔ ‘‘ اس نے غنودگی کے عالم سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’ پتہ نہیں کیوں․․․ ابھی تو ان کی ریزرویشن بھی باقی تھی․․․․ بڑے اچھے لوگ تھے․․․ ‘‘
کاؤنٹر کلرک پھر اونگھنے لگا۔ ساگر کچھ دیر تک اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہا۔ اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا سا محسوس ہورہا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد اس نے سنبھال لیااور سراسیمگی کے عالم میں اپنے کمرے میں آیا۔ اپنا موبایٔل اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھا۔ اس کے چہرے کی اڑی رنگت دیکھ کر روشی نے اس سے کچھ کہنا چاہا لیکن وہ تیزی سے باہر نکلا ۔ ہوٹیل کے لاؤنج میں آ کر اس نے نیلم کانمبر نکال کر ڈایٔل کیا۔ تھوڑی دیر بعد آواز آئی:
’’The dialed number does not exist․․․․ ڈایٔل کیا گیا نمبر موجود نہیں ہے․․․․․․․ ‘‘ )
نوٹ: اس افسانے میں جن تاریخی واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کا ذمہ دار صرف افسانہ نگار ہوگا۔

Share
Share
Share