عظیم خدمات کا بحرِ بیکراں ۔ ڈاکٹر مظہر محی الدین
از: پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ حیدرآباد
موبائل : 00919848761992
مرہٹوارہ کی سرزمین ابتداء سے ہی سطح مرتفع دکن کی زرخیزی سے مالامال رہی۔ یہ علاقہ جنوبی ہند کے اہم مرکز یعنی حیدرآباد سے الحاق کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے۔ بہمنی دور کی تاریخ میں مرہٹواڑہ کی شناخت دکھائی نہیں دیتی۔ علاء الدین خلجی کے حملوں ۱۲۹۴ء اور محمد تغلق کی جانب سے دولت آباد کو پایۂ تخت بنانے کے عہد یعنی ۱۳۲۷ء تک بھی مرہٹواڑہ کے وجود کی شہادت نہیں ملتی، لیکن پٹن کے علاقہ کی نمائندگی اس علاقہ کی قدامت کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ بہمنی دور کے خاتمہ کے بعد جب دکن میں پانچ نئی مسلم سلطنتوں کا آغاز ہوا اور عادل شاہی بادشاہوں کے قبضہ سے وابستہ ایک اہم علاقہ کو مرہٹوارہ کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ یہی علاقہ بعد کے دور میں عادل شاہی سپہ سالار ملک عنبر اور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے قبضہ و تسلط میں رہا۔ ۱۷۲۴ء میں جب آصف جاہی سلطنت کا آغاز ہوا ، تو مسلم تہذیب کے مرکز کی حیثیت سے اورنگ آباد شہر کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ غرض مرہٹواڑے کا بیشتر علاقہ ملک عنبر ، اورنگ زیب عالمگیر اور آصف جاہ اوّل نواب میر قمر الدین علی خان کی قلمرو میں شامل رہا۔ حیدرآباد کو پائے تخت قرار دے کر آصف جاہی سلطنت نے اس سارے علاقہ کی ہمہ جہت ترقی کے لیے
اسباب فراہم کیے۔ طویل عرصہ تک مرہٹواڑہ کی سرزمین کا حیدرآباد سے الحاق رہا اور جب ہندوستان میں آزادی کا سورج نمودار ہوا تو ریاستوں کی تشکیل جدید کی وجہ سے مرہٹواڑہ کے سارے علاقہ کو ریاستِ مہاراشٹرا کے سپرد کردیا گیا۔ ریاستوں کی تشکیل جدید کے باوجود بھی مرہٹوارہ کو مذہبی، ادبی اور سماجی حیثیت سے برتری کا موقف حاصل رہا ہے۔ اس علاقے کے باشندے مکمل طور پر حیدرآبادی تہذیب و ثقافت کے دلدادہ ہیں اور ان کے رگ و پئے میں روحانیت، مذہبیت اور ادبیت کے علاوہ انسان دوستی کا جذبہ حد درجے سرایت کرگیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس ایکشن کے موقع پر اس علاقہ کے اقلیتی فرقہ کو بے شمار تکالیف برداشت کرنا پڑا، لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ہر شر میں خیر کا پہلو مضمر ہوتا ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۵۶ء کے بعد ریاستوں کی تشکیلِ جدید نے بے شمار بحران اور مسائل پیدا کیے، لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ اسی مرہٹوارہ کی سرزمین سے ایسے سپوت پیدا ہوئے جنہوں نے تعلیم و ثقافت کی نمائندگی کے لیے حیدرآباد کا رخ کیا اور جب خدمات کی انجام دہی کا معاملہ پیش آیا تو سارے مرہٹواڑہ کو تعلیم اور روزگار کی سہولتوں سے مالامال کرنے کے لیے جامعہ عثمانیہ کے فرزندوں کی وجہ سے سازگار ماحول پیدا ہوگیا۔ ایسے ہی ایک سپوت کی حیثیت سے ڈاکٹر مظہر محی الدین کو اپنی خاندانی وجاہت اور ذاتی شرافت کی وجہ سے حد درجہ اہمیت حاصل ہوئی، جو مرہٹوارہ کے نامور خدمت گاروں میں شمار کیے جاتے ہیں، انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے ریاضی جیسے مضمون کا انتخاب کیا اور ذاتی صلاحیتوں کے نتیجہ میں ڈاکٹر رفیق زکریا کیجانب سے اورنگ آباد میں قائم کردہ مولانا آزاد کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ تعلیمی لیاقت کے علاوہ ہمہ جہت صلاحیتوں کی وجہ سے بیش بہا علمی، ادبی اور سماجی کارنامے انجام دیے، جس کی وجہ سے مرہٹوارہ کی سرزمین کی اقلیتوں کو سربلندی کا موقع حاصل ہوا۔ تقریر، تحریر، ادب، صحافت ، تعلیمات، سیاست اور عوامی خدمت کے کاموں سے وابستہ ڈاکٹر مظہر محی الدین نے اس علاقہ کے تمام طبقوں، خاص طور پر مسلم اقلیت اور پسماندہ طبقات کو بے شمار سہولتیں فراہم کرکے انہیں ایسے مقام و مرتبہ کا حامل بنا دیا کہ وہ خود تعلیمی اور سماجی اداروں کے بانی اور کئی علمی و ادبی کارناموں کے روحِ رواں کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔
سرزمین اورنگ آباد میں ڈاکٹر مظہر محی الدین کی سرگرمیوں کا آغاز ان کی طالبِ علمی کے زمانہ سے مربوط ہے۔ بلاشبہ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج سے گریجویشن میں داخلہ لیا۔ اس وقت تک اورنگ آباد میں ساتویں نظام میر عثمان علی خاں کی جانب سے قائم کردہ انٹرمیڈیٹ کالج مکمل طور پر ڈگری کالج میں تبدیل ہوچکا تھا اور اپنی سابقہ عمارت سے قلعہ ارک کے مقام پر منتقل ہوچکا تھا، جس کے نامور فرزندان میں وحید اختر، اخترالزماں ناصر اور عباس علی کے علاوہ انور معظم اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے شہرت کے حامل رہے۔ ڈاکٹر مظہر محی الدین نے ایک عام انسان کی طرح تعلیم حاصل نہیں کی، بلکہ وہ کالج کے طلباء کے رہنما اور ہر جھگڑے فساد کو روکنے کے جذبہ کے ساتھ گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد آزاد کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ مجھے حیدرآباد میں رہائش کے دوران تک ان کی خدمات سے واقفیت کا موقع نہیں ملا تھا اور جب ۱۹۷۸ء میں مولانا آزاد کالج میں اردو لیکچرر کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا تو سب سے پہلے ان کی ادب دوستی اور ادیب پروری نے حد درجہ متاثر کیا۔ اس وقت ڈاکٹر مظہر محی الدین کالج کے وائس پرنسپل تھے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تاریخ کے استاد کنور رفاقت علی خان پرنسپل کے عہدہ پر فائز تھے۔ چوں کہ حیدرآباد سے ہی علم پروری کا مزاج لے کر مرہٹوارہ کی سرزمین میں داخل ہونے کا موقع ملا تھا، اسی لیے سب سے پہلا ٹکراؤ اس وقت ہوا جب کہ مظہر محی الدین نے آل انڈیا ریڈیو کے لیے صفی اورنگ آبادی کے عنوان پر اپنی تقریر لکھنے کے لیے ان کے شعری مجموعوں کو حاصل کرنے کی جستجو کی اور مجھ سے دریافت پر صفی اورنگ آبادی کے انتخابِ کلام کا واحد نسخہ سارے مرہٹوارہ میں صرف آل انڈیا انڈیا لائبریری میں موجود ہونے کی اطلاع دی اور اس کا حصول ممکن ہوگیا، تب ہی سے ریاضی کے ایک استاد نے میری کتب خانوں سے دلچسپی اور علم پروری کی ستائش کی۔ خاندانی شرافت کے علاوہ بذلہ سنجی اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کا جذبہ ان کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ ریاضی کے استاد اور پرنسپل کی حیثیت سے انہیں جس قدر شہرت حاصل ہوئی اس سے کہیں زیادہ اردو کے مضمون نگار اور مترجم کی حیثیت سے ادیب اور نثرنگار کا مرتبہ حاصل ہوا۔ ہر موقع اور محل کے اعتبار سے نہ صرف مقامی اخبار ’’اورنگ آباد ٹائمز‘‘ کے لیے مضامین لکھتے رہے، بلکہ ادبی اور سائنسی موضوعات پر آل انڈیا ریڈیو سے تقریریں نشر کرکے اپنی علم دوستی کا حق بھی نبھاتے رہے۔
مظہر محی الدین کی پرداخت ادبی ماحول میں ہوئی تھی، اس لیے حساب کے استاد ہونے کے باوجود بھی جدید علوم پر ادب کی فضیلت کو دل کی گہرائیوں سے قبول کرتے تھے۔ ادبیات، مذہبیات، روحانیات، تصوف ، فلسفہ ، اسلامی تاریخ اور مختلف ادوار میں ہندوستان کی تاریخ کے علاوہ ہندو فلسفہ سے بہرہ ور تھے، تاہم طبیعت کا میلان اشتراکیت کی جانب زیادہ تھا۔ شاید یہی وجہ رہی کہ انہوں نے اپنی تمام ترزندگی میں انسانی عظمت کو اس کے رتبے اور عہدے سے نہیں، بلکہ اس کی ذاتی صلاحیتوں سے وابستہ کیا۔ اشتراکیت سے ان کی وابستگی کس قدر تھی، یہ تو نہیں کہا جاسکتا، لیکن ان کے احباب کے حلقہ میں بیشتر ایسے لوگ شامل تھے جو ’’سرخ سلام‘‘ کو اہمیت دیتے تھے۔ اس نظریہ سے وابستگی کی وجہ سے ان کی طبیعت میں خدا نے ہر شخص کو انسان سے مساوات اور بھائی چارگی سے پیش آنے کے جذبہ سے مالا مال کردیا تھا، خاص طور پر غریب اور غرض مند افراد کی حمایت اور نئے قائم ہونے والے اداروں کی امداد کے معاملہ میں وہ حد درجہ فراخ دل واقع ہوئے تھے۔ اپنی عملی زندگی میں انہوں نے نہ صرف اقلیتوں کے مسائل حل کرنے پر خصوصی توجہ دی، بلکہ جہاں بھی کوئی اقلیتی ادارہ قائم ہوتا، اس کی دامے، درمے، سخنے مدد کے لیے تیار ہوجاتے تھے۔ یہی وجہ رہی کہ آزاد کالج کے قیام سے لے کر آج تک اِس کالج کے کسی پرنسپل کو وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہوسکا جو مظہر محی الدین کے حصہ میں آیا ہے۔
مرہٹواڑہ کی سرزمین میں کسی وقت اورنگ آباد کو مغلوں کے پائے تخت اور صوفیائے کرام کی گذرگاہ اور آخری آرام گاہ کا موقف حاصل رہا، لیکن آزادی کے بعد شہر اورنگ آباد میں مولانا آزاد کالج کے قیام ۱۹۶۳ء کے بعد اس شہر کو مرکزی حیثیت حاصل ہونے کی صرف یہی وجہ رہی کہ ہر قسم کی سرگرمیوں کا آغاز اسی مولانا آزاد کالج سے ہوتا تھا۔ ادبی سمینار، کل ہند مشاعرے، ڈراموں اور مزاحیہ مشاعروں کا انعقاد، تحریری و تقریری مقابلے اور مرہٹواڑہ کی اساس پر کھیل کود اور سالانہ جلسوں کا اہتمام مولانا آزاد کالج کی سرگرمیوں میں شامل تھے۔ ان تمام سرگرمیوں کو ڈاکٹر مظہر محی الدین کی سرپرستی حاصل ہوتی تھی۔ سرگرمیوں کے دوران مسائل اور جھگڑوں کو حل کرنے کی ذمہ داری بھی ڈاکٹر مظہر محی الدین کی ملازمت میں شامل تھی۔ جب انہیں اور پرنسپل عطار کو ڈونیشن حاصل کرنے کے مقدمہ میں پھنسایا گیا تو اس دشواری سے باہر نکلنے میں ڈاکٹر مظہر محی الدین کی دانشوری کو بڑا دخل تھا۔ دانشورانہ فکر اور مسائل کی تہہ تک پہنچ کر سازشوں کی سرکوبی کرنے کا عالمانہ انداز ان کی سوجھ بوجھ کا حصہ تھا، اسی لیے وہ مسائل کو حل کرنے اور مصیبتوں کو ٹالنے میں پوری طرح کامیاب رہے۔
ڈاکٹرمظہر محی الدین کی شخصیت میں چھپا ہوا انسان ہمیشہ مساوات کی تلاش میں رہتا تھا۔ وہ اسلام بیزار نہیں تھے، لیکن اسلام کی ظاہری عبادتوں سے ابتدائی طور پر گریز برتے تھے، لیکن رفتہ رفتہ اسلام کی حقانیت کے قائل ہوکر مذہب پرستی کے علم بردار بن گئے۔ سیرت کے جلسوں کی نگرانی اور ان کے انعقاد کرنے والوں کو تمام سہولتیں فراہم کرنا ان کی فطرتِ ثانیہ تھی، جس کا نتیجہ یہ رہا کہ سارے مرہٹوارہ میں مسلم اقلیت اپنے نزاعی مسائل کو نظرانداز کرکے متحدہ محاذ کی شکل میں واضح ہوئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر مظہر محی الدین کے مخالفین کا گروہ بھی سرگرم رہا، لیکن انہوں نے کبھی اپنے دشمن سے ہار نہیں مانی، بلکہ عملی اقدامات کے ساتھ دشمنوں کی سرکوبی کا اہتمام کیا۔ ذاتی طور پر ادب اور مذہب سے گہرا لگاؤ تھا، اس لیے وہ ہر ادبی اور مذہبی تقریب میں بنفس نفیس شرکت کیا کرتے تھے۔ مطالعہ کی وسعت اور اہل ذوق افراد کی صحبتوں کا نتیجہ یہ تھا کہ عمدہ اخلاق کے علمبردار اور ذاتی صلاحیتوں سے دوسروں کو فیض پہنچانے کے لیے ہمیشہ اپنے آپ کو تیار رکھتے تھے۔ اس عہد کے تمام شاعروں پدم شری سکندر علی وجدؔ ، قاضی سلیم، قمر اقبال، بشر نواز اور دیگر ادیبوں اور نثر نگاروں کے علاوہ کمیونزم کے سرپرستوں سے ان کے خوشگوار تعلقات رہے۔
مولانا آزاد کالج کے انتظامیہ کی سرگرمیوں کی غلط روش کا خاتمہ کرنے کے لیے انہوں نے میانہ روی کو بطورِ وسیلہ استعمال کیا اورایسے اقدامات کیے کہ جن کی وجہ سے انتظامیہ نے دوبارہ ان کی خدمات کو اپنے ادارہ کے لیے قبول کرلیا۔ انہیں ادبی سرگرمیوں سے بڑی دلچسپی تھی، چنانچہ ان کی پرنسپلی کے دوران مولانا آزاد کالج نے دو ناقابل بیان کارنامے انجام دیئے، جن میں ۱۹۸۲ء کے دوران ’’جشنِ وجد‘‘ کا اہتمام اور ۱۹۸۶ء میں ’’تین سو سالہ جشنِ سراج‘‘ کی تقاریب کو ادب کا مؤرّخ کسی لحاظ سے بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ان دونوں تقاریب میں سارے ہندوستان کے دانشور اور شعراء نے شرکت کرکے ان جشن کے اہتمام کو پسند کی نگاہ سے دیکھا تھا۔ ادبی سرگرمیوں کے اہتمام اور انصرام کے علاوہ انہیں خوش اسلوبی سے منزلِ مقصود تک پہنچانے کا وصف ڈاکٹر مظہر محی الدین کی فطرت میں شامل تھا۔ یہی وجہ رہی کہ وہ نہ صرف ایک کامیاب پرنسپل قرار پائے ، بلکہ اپنے عہد میں ادبی سرگرمیوں کو فروغ دے کر مرہٹواڑہ کی تاریخ میں اہم کارنامہ انجام دیا۔ مولانا آزاد کالج کی سلور جوبلی تقریب ۱۹۸۸ء میں روزنامہ ’’اورنگ آباد ٹائمز‘‘ کی خصوصی اشاعت میں ان کے تعاون کو کسی اعتبار سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
ڈاکٹر مظہر محی الدین انتہائی خوش خلق اور دوسروں کی عزت کرنے والے انسان کی حیثیت سے سارے مرہٹواڑہ میں مقبول رہے۔ بلاشبہ انسان مختلف خامیوں کا مجسمہ ہے، لیکن وہی انسان کامیابی کے زینے طے کرتا ہے جو اپنی خامیوں پر قابو پانے کی صلاحیت سے مالامال ہو۔ خدا نے مظہر محی الدین کی شخصیت میں اسی خوبی کو ودیعت کردیا تھا، البتہ فطری طور پر وہ جلال اور جمال کا حسین سنگم تھے۔ جب اُن پر جلال کا غلبہ ہوتا تو کسی ملازم کی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان کا سامنا کرسکے۔ سارے ملازمین میں مظہر محی الدین کے غصہ کے موقع پر ’خدا تمہیں جلالِ مظہری سے محفوظ رکھے‘‘ جیسے فقرے ادا کرنے کی مجبوری رہی، لیکن اس ناچیز کو یہ فخر حاصل تھا کہ جس وقت بھی ان پر جلال کا جذبہ طاری ہوتا لطائف الحیل کے توسط سے اس بندہ کو ایسا ماحول تیار کرنے میں کامیابی نصیب ہوتی کہ تھوڑی ہی دیر میں پرنسپل چیمبر سے قہقہے بلند ہوتے دیکھے جاتے۔ وہ جس قدر تیزی سے غصہ کی سرحد پار کرتے تھے اسی قدر ملائمت کے ساتھ غصہ پر قابو پانے کی صلاحیت سے مالامال بھی تھے۔ اردو کے استاد کی حیثیت سے آزاد کالج میں کام کرنے کے دوران یہ محسوس ہوا کہ انتظامیہ نے ہمیشہ ملازمین کے ساتھ حاکمانہ رویہ کو روا رکھا ہے، ایسے وقت انتظامیہ اور ملازمین کے درمیان قائم ہونے والی فصل کو پاٹنے میں مظہر محی الدین کی صلاحیتیں یادگار کا درجہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے نہایت ہی سادہ اور عام انسان کی طرح زندگی گذاری۔ کبھی شہرت اور ناموری کو پسند نہیں کیا، بلکہ ان کی صلاحیتیں ہی مرہٹواڑہ میں شہرت کا سبب بنیں۔ ریاضی کے استاد ہونے کے باوجود اردو سے رغبت کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف ڈاکٹر رفیق زکریا کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب ’’محمد اور قرآن‘‘ کا اردو میں ترجمہ کیا، جو ملعون سلمان رشدی کی متنازعہ کتاب ’’شیطانی کلمات‘‘ کا مدلل جواب تھا۔ اس کے علاوہ مرکزی زیرانتظام علاقوں میں ریاضی کی تدریس کے لیے تحریر کردہ انگریزی کتابوں کے اردو میں ترجمہ کرکے انہوں نے بیک وقت دونوں زبانوں پر یکساں عبور ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ اردو کے بے شمار شاعروں اور ادیبوں کے کارناموں کو منظرعام پر لاتے ہوئے تحقیقی و تنقیدی مضامین تحریر کیے، جو اورنگ آباد ٹائمز ہی نہیں بلکہ مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے موقع پر میری یہ خواہش تھی کہ ان کے مضامین کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے اور میرے مشورہ پر انہوں نے تمام مضامین کو یکجا کرنا شروع کردیا تھا۔ پتہ نہیں ان مضامین کا کیا حشر ہوا۔ اورنگ آباد سے ترکِ وطن کرکے جامعہ عثمانیہ کی ملازمت سے وابستگی۱۹۹۷ء کے بعد بھی مظہر محی الدین صاحب سے تعلقات کی استواری کا سلسلہ جاری رہا، لیکن جو ربط و تعلق ہمیشہ کے لیے تھا وہ مفقود ہوگیا۔ مرہٹواڑہ کی سرزمین میں دینی، علمی ، ادبی اور مذہبی کارناموں کو اُجاگر کرنے میں مظہر محی الدین کی خدمات لاثانی ہیں اور اُن کی انتظامی صلاحیتوں کی کوئی مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔ وہ ادب، صحافت اور مذہب کا حسین سنگم تھے اور اپنے دور میں ہر نئی اُبھرنے والی انجمن اور تنظیم کی سرپرستی انجام دے کر ثابت کردیا کہ ان کی خدمات ہمیشہ بے لوث رہیں، چنانچہ اورنگ آباد کے نام کی تبدیلی کی کوشش کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کے لیے سپریم کورٹ تک رسائی مسلم اقلیت پر پولیس اور عدالت کے مظالم کے خلاف ان کی مسلسل جدوجہد آج بھی مرہٹواڑہ میں اہمیت کی حامل ہے۔ ہر قسم کی سماجی تنظیموں کو سرمایہ اور انتظامیہ فراہم کرنے میں مظہر محی الدین کی سرگرمیاں لائق ستائش تھیں۔ ان کی رحلت کی وجہ سے مرہٹواڑہ کی سرزمین میں خدمات اور سرگرمیوں کو پیش کرنے والے وجود کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اِس خلا کو پُر کرنے کے معاملہ میں خدا کی طرف سے مزید دیر ہورہی ہے، مگر مسلم اقلیت یہ توقع رکھتی ہے کہ ان کی خدمات اور صلاحیتوں کو مزید بلندی تک لے جانے والے افراد ضرور پیدا ہوں گے۔ سماجی خدمات کے ذریعہ سارے مرہٹواڑہ کو فیض پہنچانے والی ایک اہم شخصیت کی حیثیت سے ڈاکٹر مظہر محی الدین کی خدمات ہر وقت یادگار کا درجہ رکھتی ہیں۔
One thought on “ڈاکٹرمظہرمحی الدین کی خدمات ۔@۔ پروفیسرمجید بیدار”
علامہ اقبال ایک سچے پکے اسلامی کو روح کی کی پہچان رکھنے والے مسلمان تھے
جن کا نظریہ تھا
باطل دوئ پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانئہ حق و باطل نہ کر قبول
اور ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب مرحوم دراصل یہ ناخلف اولاد تھی انہیں اسلام بیزاری تھی جو کہ اپنے باپ کی بیش بہا قیمتی سرمایہ کو ملا و صوفی کا سرمایہ سمجھ کر برباد کر دیے اور کہتے ہیں کہ میرا باپ اگر اتنا کام انگلش میں کیا ہوتا تو ہمیں بہت فائدہ ہوتا یہ کیا ہے اس اردو سے ہمیں کیا ملا
ڈاکٹر اقبال صاحب نے صحیح فرمایا ہے
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو