کتاب : احساس و ادراک
شاعر : ڈاکٹرمقبول احمد مقبول
مہاراشٹرا اودے گیری کالج ۔اودگیر۔ضلع لاتور۔ مہاراشٹرا
موبائل :09028598414
صفحات : ۱۵۸ ۔ ۔ ۔ قیمت : ۲۰۰ روپیے
پبلشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوز۔ نئی دہلی
ڈاکٹر مقبول احمد مقبول ایک جواں سال ادیب و شاعر ہیں۔ان کاپہلا شعری مجموعہ ’’آدمی لہو لہو‘‘شائع ہوکرمقبول ہوچکا ہے۔ اس سے قبل تنقیدی مضامین کا مجموعہ’’نقد و نظر‘‘اورتحقیقی مقالہ ’’مضطرمجاز۔ شخصیت اور فن‘‘شائع ہوچکے ہیں۔گزشتہ دنوں احساس و ادراک کے نام سے دیوانِ رباعیات شائع ہوچکی ہیں۔ بقول ڈاکٹر یحیٰ نشاط کہ’’مقبول احمد نے اپنی رباعیات میں سہل زباں‘ تراکیب سے اجتناب اور سریع الفہم خیال آرائی پر خصوصی توجہ دی ہے ۔پیچیدہ اور دورازفہم خیالات کو انھوں نے اپنی رباعیوں میں جگہ نہیں دی۔ان کی رباعیوں کے موضوعات میں سامنے کے واقعات اور شنیدہ و دیدہ چقائق شامل ہیں۔سہل انگاری کے اس وصف نے ان کی رباعیات میں اثر آفرینی کو بڑھا دیا ہے۔۔۔۔۔۔ غرض کہ مقبول احمد کا یہ دیوانِ رباعیات اس کے مشمولۂ مضامین اور فن کے لحاظ سے ایک اہم شعری اثاثہ بن گیا ہے۔آج جب کہ سہل پسندی عام ہو چکی ہے‘ مقبول احمد نے رباعی جیسی مشکل صنف پر طبع آزمائی کو ترجیح دی ہے اور رباعیوں کا ایک دیوان اردو کے قارئین کے سپرد کر دیا۔
وحید واجد کا خیال ہے کہ مقبول نے ’’احساس و ادراک‘‘ میں رباعی کے مقررہ 24 اوزان استعمال کئے ہیں ۔ان کی ہمہ رنگ رباعیوں کو مضمون و فن کے اعتبار سے بیشتر اہم رباعیوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔رباعیات کا نفسِ مضمون صوفیانہ‘ ناصحانہ ‘ عاشقانہ اور عالمانہ ہے جبکہ وحدانیت و عرفانیت کلام کی خصوصیت ہے ۔۔۔۔۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ مقبول احمد مقبول نے زندگی کے مختلف اور متفرق مسائل پر مؤثررباعیات کہی ہیں ۔ مبالغہ آمیزی کہیں نہیں۔زبان و بیان کے لحاظ سے فصاحت و بلاغت کا نمونہ بھی ہیں اور متنوع مضامین کی قوسِ قزح بھی ۔
پروفیسر سید وحید اشرف کا کہنا ہے کہ شعراۓ رباعی عام طور پر کافی کہنہ مشقی کے بعد لکھتے ہیں لیکن مقبول نے بہت جلد رباعی کے اوزان پر دسترس حاصل کرلی اور ایک دیوان تیار کر لیا ۔ انہوں نے رباعیاں متعدد اوزان میں کہی ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرف انہوں نے کافی توجہ مبذول کی ے۔یہ کوئی آسان کام نہیں۔۔۔۔ ابھی یہ پہلا دیوانِ رباعیات ہونے کے باوجود اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر پوری طرح رباعی کا مزاج آشنا ہے ۔۔۔۔۔ اخلاقیات ‘ حکمت و تدبر ‘ جہد و عمل سیاست اور اہلِ سیاست ‘ محبت و انسانیت وغیرہ اہم موضوعات پر شاعر نے اپنے صالح افکار اور دلکش جذبات کے جلوے بکھیرے ہیں۔
نمونہ کلام
لیڈر ہو کہ افسر ہو کہ چپراسی‘آج
ہر کوئی چلاتا ہے بس اپنا ہی راج
اس دیش کو مضبوط بناے گا کیا
رشوت کے جراثیم سے بیمار سماج
ہم سا نہیں ہوگا کوئی اتنا معتوب
سارے غلط الزام ہیں ہم سے منسوب
مخفی رہے اوصافِ حمیدہ سارے
اس طرح دکئائی گئی تصویرِ عیوب
ہو فکر و عمل غلط‘غلط ہو منہاج
امراض کا جس کے ہاں‘نہ ہوکوئی علاج
اس قوم پہ ایک روز آے گا زوال
پھر ایک دن وہ ہوگی تباہ و تاراج
شرمندہ ہونے سے بچاتا ہے عروض
توقیر بھی شاعر کی بڑھاتا ہے عروض
اک درجہ بڑا دوسروں سے ہوتا ہے
شاعر وہ ‘جسے کامل آتا ہے عروض
مقصود ہے بس‘دولت و شہرت اب تو
معدوم ہوا جذبہ ٔ خدمت اب تو
آلودہ ہوا غرض سے اک ایک عمل
ہر بات میں شامل ہے سیاست اب تو
تہذیب و تمدن کی وراثت نہ ملی
تعظیم و تکرُّم کی دولت نہ ملی
جس نے کبھی اوروں کی عزت ہی نہ کی
اس کو کسی محفل میں عزت نہ ملی