وقت کا پیغام طلباء کے نام -@- مہتاب عالم فیضانی

Share
وقت ۔ مہتاب فیضانی
مہتاب فیضانی

وقت کا پیغام طلباء کے نام -1

مہتاب عالم فیضانی- احمد آباد گجرات
شعبۂ اردو- اردو یونیور سٹی ۔ حیدرآباد

وقت کا رویہ، اسکا ہمارے ساتھ سلوک، اور اسکے ساتھ ہمارا برتاؤ کیا ہے یہ شاید مجھے بتا نے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنے قدردانوں کا بڑا قدرداں اور اپنے غیر متعلقین کا سب سے بڑا مخالف و سب سے بڑا دشمن ہے۔ اہل دانش حضرات نے وقت کے ایک ایک لمحہ کو دنیا کی سب سے بڑی دولت سمجھ کر اسکو استعمال میں لاکر بڑے اور بہت بڑے بن گئے۔ انہو ں نے ایک ایک گھڑی پڑھنے میں صرف کی ایک ایک پل کو فائدے کی چیزوں میں لگایا، اسلئے عربی ایک کہاوت ہے ’’ کہ وقت تلوار کے مانند ہے اگر تم اسکو نہیں کاٹو گے تو وہ تمکو کاٹ دیگا،، اور ایک جگہ کہا ہے۔ ’’الوَقْت کذَََََََّہبِ،،کہ وقت سونے کی طرح قیمتی ہے۔ یعنی وقت سونے کی طرح قیمتی ہے بلکہ میں تو کہوں گا کہ وقت کی کوئی قیمت ہی نہیں لگا سکتا۔ایک واقعہ ہے کہ کوئی بزرگ راستے جا رہے تھے تو چند لوگوں کو آپس میں بیجا گفتگو کرتے دیکھا تو انہوں نے کہاکہ کاش وقت کو خریدا جا سکتا تو میں انکو بھاری قیمت دیکر ان سے وقت خرید لیتا۔ ذیل میں وقت بچانے کے چند طریقے بیان کئے جا رہے ہیں۔ جس پر عمل کر کے آپ اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

نظام الاوقات بنائیے
شب و روز کے اوقات کے لئے ایک نظامِ عمل متعین کریں۔آنے والے وقت کے لئے ایک مخصوص عمل کا پروگرام بنائیں۔ اور زندگی کے تمام اوقات کے لئے کاموں کی ترتیب وتشکیل کے عمل کو نظام الاوقات کہا جاتا ہے۔اوقات کا یہ نظام بناتے ہوئے کاموں کی تقدیم و تاخیر کی ترتیب میں وقت اور کام دونوں کی کیفیت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ کونسا عمل کس وقت زیادہ بہتر طریقہ سے ادا ہو سکتاہے ۔اور کونسا وقت کس عمل کے لئے زیادہ سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔جو کام زیادہ نشاط،طبیعت کی تازگی،اور ذہن ودماغ کی توجہ کا تقاضا کر تا ہو اس کی ادئیگی کے لئے وقت کا انتخاب بھی ایسا ہونا چاہئے جب انسان کی طبیعت میں تازگی اور نشاط ہو۔
مثلاً:صبح کی وقت انسان کی قوتوں اور صلاحیتوں کی فضا پر تازگی اور رعنائی چھائی ہوئی ہوتی ہے۔اسلئے اس میں تقرر ایسے کام کا ہونا چاہئے جو اس نوعیت کا متقضی ہو اسی طرح شب وروز کے دیگر اوقات کے لئے بھی کاموں کے انتخاب میں وقت کااور کام دونوں کی کیفیت ،نوعیت اور فطری ماحول و مزاج کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ تاریخ میں جتنی عملی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے عظیم تصنیفی،تالیفی،سائنسی،طبی، کارنا مے انجام دئیے ہیں اور اپنے انوکھے کارناموں سے دنیا کا دل جیت لیا ہے ان کے نظام الاوقات کی پابندی ضرب المثل ہے وہ ایسی ہی نہیں کامیابی کی بلندیوں پر پہونچ گئے ۔اہوں نے اپنے ایک ایک گھڑی اپنے مقصد اور اپنی منزل کو حاصل کرنے میں لگادی اتنا ہی نہیں بلکہ وہ کھانا کھانے میں صرف کئے وقت بھی پشیمان ہوتے تھے کہ اتنا وقت کھانا کھانے میں ضائع کردیا۔تب جاکر اہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اوردینا انکی مثال دیتی ہے اور انکے نام کو بڑے فخراور عزت سے لیتی ہے ۔اور یہی اوقات کی پاسداری اور اسکا صحیح استعمال انکی کامیابی کھلی دلیل ہے۔
صحت کا خیال رکھیئے
صحت جسمانی ‘خداکی ایک زبردست نعمت ہے ذہن ودماغ کی صحت اسی وقت بر قرار رہتی ہے۔جب جسم صحت کی نعمت سے مالا مال ہو اور وقت کی رفتار سے بھر پور فائدہ زندگی کا صحت مندہونے ہی کی صورت میں ممکن ہے۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ ’وقت اور صحت‘خدا کی طرف عطا کردہ بہت قیمتی تحفہ ہے ہر شخص کو اسکو صحیح جگہ اور صحیح موقع پر استعمال کرناچاہئے۔ایک انسان کے پاس کبھی جب ہوتا ہے تو صحت نہیں ہو تی ہے اور اگر صحت ہو تی ہے تو وقت نہیں ہوتا ہے۔اس لئے ہم کو اپنی صحت کا خیال رکھنا چائے تاکہ ہم اپنے وقت کا صحیح سے استعمال کر سکیں۔
انسان اگر امراض اور بیماریوں کا شکار ہوجائے،جسمانی افسردگی کی آفت میں مبتلا ہو ،دل کا چمن مر جھا یا ہو تو زندگی کا لطف جاتا رہتاہے۔یہ جان ودل امانت ہیں اور ہرامانت حفاظت کا حق رکھتی اور اس کی ادائیگی کا جائزاور اس کی ادائیگی کا جائزمطالبہ کرتی ہے حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے۔اِنَّ لِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقاًّوَاِنّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقاًّوَاِنَّ لِاَھْلِکَ عَلَیْکَ حقاًّ،فَأَعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقَّ حَقَّہُ(بے شک تجھ پر تیرے رب کا حق ہے اور تیرے نفس اور تیرے اہل وعیال کا حق ہے پس ہر حق والے کو اسکا حق دیا کر)۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ امیر المْؤمنین حضرت عمر ابن عبدالعزیز آرام فرما رہے تھے ان کے صا حبزادے کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے ’’ابا جی آپ سو رہے ہیں اور لوگ آپ کے دروازہ پر آکر کھڑے ہیں،،تو حضرت عمر ابن عبدالعزیز نے فرمایا’’ اے بیٹے میری جان میری سواری ہے۔مجھے اندیشہ ہے کہ حد سے زیادہ اس پر بار ڈالوں گا تو چل نہ سکے گا،، اس لئے وقت اور زندگی سے تعمیر ی کام لینے کے لئے جسمانی صحت کی حفاظت اور اس کا خیال رکھنا ایک فطری اور ضروری امرہے۔آج لوگ مال وزر کمانے میں دن رات محنت کرتے ہیں نہ آرام کا خیال ہوتا ہے نہ کھانے پینے کا۔ہو شخص جنتا کما رہا ہے اسکو وہ کمائی کم پڑ رہی ہے اس لئے اور زیادہ محنت کرتاہے اور اس چکر وہ اپنی صحت کا خیال رکھنا بھول جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اسکی صحت خراب ہو جاتی ہے وہ بیمار ہوجاتا ہے ۔پھروہی پیسے جسکواسنے اپنی صحت خراب کرکے کمایا تھا اب انہیں پیسوں کو صحت واپس حاصل کرنے کے لئے خرچ کر رہا ہے۔اور حاصل یہ نکلتاہے کہ اسکے پاس نہ مال وزر رہتاہے اور نہ صحت رہتی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اوقات کو کام میں لانے کے ساتھ اپنی صحت کا بھی خیال رکھیں۔
احتساب کیجئے
اب ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے نظام الاوقات کے مطابق گزارے ہوئے دن کا احتساب کریں کہ کیاہم نے اپنے بنائے ہوئے شڈول کے مطابق دن گزارا ہے یا نہیں اور پورے دن میں کیا حاصل کیا ہے؟احتساب ایک ایسا لفظ ہے کہ انسان اگر اسکے معنیٰ اور مفاہیم سے کما حقہ واقف ہو جائے تواسکو کبھی نقصان اور خسارے کا ڈر نہیں ہوگااسکو کبھی گھاٹے کا منہ نہیں دیکھنا پڑے گا، اور وہ ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا جائیگا۔کیا کھویا اور کیا پایا؟کتنا فائدہ ہوا اور کتنا نقصان؟ اس کے پرکھنے کی کسوٹی احتساب کا عمل ہے چاہے وہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی اسٹیج پر۔وقت کے متعلق احتسابی عمل سے گزرنے کے بعد دل میں اگر زندگی کی کچھ اہمیت ہے تو شب وروز ضائع ہو جانے والے اوقات پر ایک حسرت پیدا ہو جاتی ہے ،اور داغ اکثر نشانِ منزل ہوتے ہیں،انسان آئندہ اپنے اوقات کو ناپ ناپ کر اور تول تول کر خرچ کرتا ہے۔اور کوشش کرتا ہے کہ جو قیمتی وقت بیکار چلا گیاآئندہ وقت میں ایسے قدم اٹھائے کہ جن سے اُن نقصانات کی تلافی اور بھرپائی ہو سکے۔ جو اس نے نادانی میں ضائع کردیا ہے۔

Share

۲ thoughts on “وقت کا پیغام طلباء کے نام -@- مہتاب عالم فیضانی”

Comments are closed.

Share
Share