مکہ مسجد ، حیدرآباد
Makkah Masjid, Hyderabad
ڈاکٹر عزیز احمد عرسی ورنگل
09866971375
مکہ مسجد شہر حیدرآباد کے شہرہ آفاق چارمینار کے دامن میں جنوب مغربی جانب صرف سو دیڑھ سو گز کے فاصلے پر واقع ہے یہ ایک خوبصورت اور باوقار مسجد ہے جس کا تاریخی نام یعنی بہ لحاظ ابجد ’’بیت العتیق‘‘ ہے ،مکہ مسجد شہر کی قدیم مساجد میں شمار ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہندوستان کے مشہور ٹی وی چیانل این ڈی ٹی وی ،انڈیا کی جانب سے معلنہ سات عجائبات آندھراپردیش میں اس عظیم الشان مسجد کو بھی شمار کیا گیا ہے جو اس کی شہرت اور تعمیری خوبیوں کو ظاہر کرتی ہے۔
ہندوستان میں مجھے تین مساجد زیادہ پسند ہیں، میں اس پسند کی وجہہ نہیں بتا سکتا کیونکہ یہ مساجد مجھے اس زمانے سے پسند ہیں جب میں صرف دس سال کا تھا، میں حیدرآباد کا متوطن نہیں ہوں چونکہ بہت سارے رشتہ دار حیدرآباد میں آباد ہیں اسی لئے بارہا اس شہر کو آنا جانا ہوتا ہے،حیدرآباد آنے والے ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پہلے چارمینار دیکھے اور اس کے بعد مکہ مسجد ۔میں جب عروس البلادحیدرآباد پہلی مرتبہ آیا تو وہ رمضان کا زمانہ تھا اسی لئے میں نے پہلے مکہ مسجد میں نماز کی ادائیگی کا پروگرام بنایا ، وہ سنہ 1967ء کی قدر کی رات تھی ، میں نے نماز عشا ء شاہ علی بنڈہ کی ایک مسجد میں ادا کی اور تراویح پڑھنے کی غرض سے مکہ مسجد چلا آیا،نماز تراویح شروع ہوچکی تھی، میں اور میرے ایک رشتہ دار جلدی جلدی وضو کرکے نماز میں شامل ہونے کے لئے بھاگنے لگے بہت دیر تک بھاگنے کے بعد ہم صف میں شامل ہوگئے ، پہلے مجھے گمان تھا کہ وضو خانے سے محراب تک کا طویل فاصلہ طے کرنے میں کہیں امام صاحب سلام نہ پھیر دیں، لیکن یہ اللہ کا فضل تھا کہ نماز ختم نہیں ہوئی اور ہم نماز میں شامل ہوگئے، اس کے بعد میں بڑی دیر تک امام صاحب کے حکم کا منتظر رہا کہ کب تکبیر کہیں گے اور ہم کب رکوع میں جائیں گے ،میں پہلو بدل بدل کر کھڑا رہا اور سونچنے لگا۔یا اللہ۔ اتنی لمبی نماز، ایک تو میں شہر میں نووارد اور دوسر ا مکہ مسجد میں میری پہلی نماز، اسی لئے میرے دل میں یہی بات بار بار آ تی رہی کہ شاید جتنی بڑی مسجد ہوتی ہے اسی قدر لمبی نماز پڑھائی جاتی ۔ (مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ یک شبی شبینہ تھا)۔ اس دن سے میں مکہ مسجد کا گرویدہ ہوں ، میں نے دنیا میں بہت ساری مساجد دیکھی ہیں لیکن میں مکہ مسجد کی’’ وہ‘‘ یک شبی شبینہ والی تراویح اور رات کی جگمگ کرتی روشنی میں چمکتی مکہ مسجد کی خوبصورتی کو آج تک بھلا نہیں پایا۔
مکہ مسجد ہندوستان بلکہ دنیاکی ایک خوبصورت مسجد ہے جس کی بنیاد خود بادشاہ محمد قلی قطب شاہ نے رکھی تھی کیونکہ بنیاد رکھنے کے لئے رکھی گئی شرط پر صرف بادشاہ ہی اترتا تھا کہ اس نے 12سال کی عمر سے کبھی نماز قضا نہیں کی تھی۔ اس مسجد میں بطور تبرک مکہ مکرمہ سے لائی گئی مٹی سے بنائی گئی اینٹوں کو درمیانی کمان میں نصب کیاگیا ہے جس کی وجہہ سے اس کا نام مکہ مسجد رکھا گیا۔مسجد میں کئی مقامات پر قرآنی آیات بھی کندہ ہیں۔قطب شاہی سلطنت کے چھٹے حکمراں سلطان محمد قطب ؔ شاہ کے دور میں اس مسجد کے کام کا آغاز ہوا ، اس مسجد کا تعمیری کام عبداللہ قطب شاہ اور ابولحسنؔ تانا شاہ کے دور میں بھی چلتا رہا۔ بالاخر 1694 میں اس مسجد کا کام اورنگ زیب عالمگیر ؔ کے عہد میں مکمل ہوا۔اس مسجد کی تکمیل میں 77برس لگے، جب مسجد شروع کی گئی تھی تو ماہرین نے اس کا جملہ تخمینہ 3 لاکھ روپیے بنایا تھا اور اس کی میناروں کو چار مینار کی میناروں سے بھی دو گز اونچا رکھا تھا اور اسی پلان اور تخمینے کو دربار قطب شاہی سے منظوری ملی تھی لیکن جب حالات بدلے تو تعمیری اخرجات بھی بڑھ گئے ، قطب شاہی حکومت ختم ہوگئی اس کی جگہ مغل حکومت نے لے لی تو مسجد کی تکمیل کے لئے ایک لاکھ کا تخمینہ بنایا گیااور برائے منطوری اس دور کے بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر ؔ کے سامنے پیش کیا گیا لیکن اورنگ زیبؔ نے مسجد کی تکمیل کے لئے صرف تیس (30) ہزار روپئے سکہ رائج الوقت منظور کئے اورساتھ ہی یہ شعر لکھ دیا جو تاریخ کے صفحات پر آج بھی محفوظ ہے کہ
کار دنیا کسے تمام نہ کرد – ہر چہ گیرید ،مختصر گیرید
مکہ مسجد کی تعمیر کا کام محمد قطب شاہ کے عہد میں 1617 ء میں شروع ہوا تھا ، مسجد کے کام کی نگرانی میر فیض ا للہ اور رنگیاؔ کے سپرد تھی جنہوں نے اس کو بخوبی نبھایا۔مسجد کی اونچائی 75فٹ ، چوڑائی 220فٹ اور لمبائی 180 فٹ ہے۔ گرانائٹ سے بنائی گئی یہ عظیم عمارت اپنے اندر ایک وجاہت اور تقدس رکھتی ہے۔مسجد کی اونچائی دیکھنے والے کے ذہن و دل کو متاثر کرتی ہے اور اس کی آنکھوں کو نورانیت سے بھر دیتی ہے اور ان افراد کو کامیابی کی نوید سناتی ہے-’’جو اپنے رب کی بات کو قبول کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔‘‘ (الشوریٰ۔ 38) ۔
مسجد کا مشرقی حصہ پانچ کمانوں پر مشتمل ہے جس میں درمیانی کمان قدرے بڑی ہے ،اصل مسجد کو 15 کمانیں سہارا دی ہوئی ہیں یہ کمانیں پانچ پانچ کی ترتیب میں موجود ہیں مسجد کے دونوں کناروں پر ہشت پہلو اونچے ستون ہیں جن کو اعلیٰ صفت پتھر میں تراشا گیا ہے، نیچے سے اوپر کی جانب اٹھتے ان ستونوں کے پتھروں کو اس خوبی سے جوڑا گیا ہے کہ یہ ایک ہی پتھر میں ترشے دکھائی دیتے ہیں ،جس کو دیکھ کر شہرہ آفاق ’’ماچو پچو‘‘ کی یاد آجاتی اس طرز تعمیرکو Ashlar کہا جاتا ہے، یہ خوبصورت پتھر میں ترشے ستون اوپر جاکر گنبد جیسی ساخت میں تبدیل ہوجاتے ہیں جن پر کلس لگا ہوا ہے ، یہی اونچے خوش وضع ستون اس مسجد کے مینار ہیں،جودور اورنگ زیبی میں فنڈس کی کمی یا حیدرآباد کے تئیں احساس تنگ نظری کے باعث سکڑ کر رہ گئے ،ورنہ جس بادشاہ نے لاہور کی بادشاہی مسجد کے میناروں کو آسمان سے باتیں کرتا ہوا176فٹ اونچا بنوایا تھا اس کو حیدرآباد کا آسمان نچلا کیسے نظر آگیا ، اس کے باوجود چونکہ ان میناروں کی بنیادوں میں حیدرآبادیوں کا خلوص شامل تھا اسی لئے یہ چھوٹے مینار بھی مجھے آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں اور دیکھنے والے کے دل کو اللہ کی محبت سے بھر دیتے ہیں، یہ میرا احساس ہے کہ ناظر جب الفت بھرا دل لئے گھر لوٹتا ہے تو یہ منظر کبھی بھلا نہیں پاتا کیونکہ یہ منظر اللہ سے ہمیشہ رابطہ قائم کرنے کی کوشش میں اس کے دل میں اذان بن کر گونجتا رہتا ہے۔
مکہ مسجد میں داخل ہوتے ہی ایک وسیع صحن آپ کا استقبال کرے گا جہاں تقریباً درمیان میں ایک خوبصورت پانی کا حوض ہے، یہ دراصل وضو گاہ ہے جہاں وضو سے فارغ ہوکر نمازی مسجد میں پہنچتے ہیں،داخلے کے فوری بعد اگر دہنے جانب مڑ جائیں تو چند ایک قدم چلنے کے بعد چار مینار نظر آتا ہے ، اس مقام سے چار مینار کا حسن اور وجاہت دیکھنے کے لائق ہوتی ہے۔
صحن کے جنوبی جانب آصف جاہی خاندان کے حکمرانوں کی قبور ہیں ، اسی احاطے کے قریب ایک کمرہ ہے جہاں کچھ تبرکات رکھے ہوئے ہیں۔ ان تبرکات میں موئے مبارکؑ اور دوسری مقدس اشیاء وغیرہ شامل ہیں، ان تبرکات کی ماہ ربیع الاول میں زیارت کروائی جاتی ہے۔عقیدت مند جوق در جوق زیارت کے لئے مسجد آتے ہیں اور زیارت سے مشرف ہوتے ہیں۔