نکاح میں حائل تمد ن کی جھڑ بیریاں
نعیم جاوید۔۔ دمام سعودی عرب
Email:
وہ اُمت جو زندگی کی تنظیم ایک وحدت ِ خیال پر کرچکی۔ جس کی خانگی زندگی کے چشمہ سے پوری خارجی زندگی کی آبیاری ہوتی ہو وہ کس طرح کسی مسئلہ کو سمجھنے میں ناکام ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اساسی نظریات پر جو قوم متحد ہے ۔جس کے نزدیک پوری کائینات ایک اکائی ہے۔ ”حیات“ اور ”موت“ سفر کی منزلوں کے نشان سے زیادہ کچھ نہیں۔
اب آئیے یہ دیکھتے ہیں وہ تمدّنی معاہدہ جسے ہم ”عقد ِ نکاح“ کہتے ہیں وہ کس اعتبار سے اوروں کے تمدنی معاہدے کی
اساس پر جی سکتا ہے۔جبکہ دنیا کے اس تہذیبی جنگل میں تمدنی لٹیروں نے نظریاتی میدان کی کئی چوکیاں ہم سے چھین لی ہیں۔ اسکی تہذیبی یلغار کی زد پر ہماری آخری چوکی ہمارا گھر ہے۔جسکے بعد ہماری شناخت مٹ جائیگی۔ہمارے اس آخری ٹھکانے پر حملہ ہوچکا ہے۔ جہاں ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے سروں سے حیا کی چادریں سرک رہی ہیں اور وہ چلاچلا کر ہم سے تحفظ مانگ رہی ہیں۔۔۔اسی رفتار سے حیاباختہ تہذیبی ٹولہ حملہ کررہا ہے۔۔۔ایسے میں کیا صرف کوئی ایک باحمیت اور غیرت مند دستہ ، دشمن کی فوج کے آگے بچھ کرراستہ روک دیگا۔۔
نہیں۔۔۔ہر گز نہیں۔۔
ایک دستہ اس بڑی جنگ کو تھام نہیں سکتا بلکہ ہم اپنی تہذیبی سرحد کی آخری چوکی کے تحفظ میں پوری فوج کو کٹ کٹا کر گرتے رہینگے ۔اور اس چوکی کا انفردی تشخص باقی ر کھیں گے ۔
ہمارے معنوی وجود کو مٹانے والی جنگ کی فضا میں اب ذرا اپنی قوم و ملت کے رنگ ڈھنگ دیکھئے۔۔
حرص کے بندے نکاح کو منڈی و بازاروں تک کھینچ لے آئے۔ پھیری والوں کی طرح ڈاکٹر ، انجینیر و ہنر مند گھومتے ہیں کہ ۔۔کوئی ہے۔۔معیاری شادی کرنے والا۔۔ہے کوئی جو اپنے جگر گوشہ کوجہیز میں سونا ، ہیرے، پیسے ، کپڑے اورگاڑی سے سجا کر بارات روانہ کردے ۔۔۔ ہمیں صرف خوشی سے دیا جائے ۔شرع کی آرزو کو ذر ا رہنے دو ۔۔۔ ذرا دنیا کا چلن اور بدلتے معیار پر نظر رکھو۔۔۔نا نانا۔۔۔۔۔۔
یہ موقع نہیں ہے اسلام کے ذکرکا۔۔۔نہ آپ پوری طرح پابند ہیں اور نہ ہم ۔۔۔ارے۔۔رے۔۔ براداری میں ناک کٹ جائیگی۔۔سادگی کے نام پرشادی کو موت کی طرح خوفناک اور ویران نہ کرنا۔۔ہاں ! ہاں!! مولوی سے فتویٰ لے لو۔
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو بھی جہیز دیا گیا تھا۔۔۔جی ۔۔ہاں۔۔شادی کا کھانا لڑکے والے کھلاینگے۔۔اُف۔۔اوہ ۔۔ خدارا یہ مت کہیئے کہ سارے کنبے اور ہمارے چاہنے والوں کو بھی دعوت نہ دیں۔۔۔کیا کوئی چوری چکاری ہورہی ہے۔۔۔برسوں کے یارانے ہوا ہوجائینگے۔۔ارے ہم نے بھی انکی دعوتیں اڑائی ہیں۔۔۔دیکھیے آپ تو کنجوسی اور بخالت کو مذہبی سادگی کا نام دے رہے ہیں۔اوہ۔۔ہو۔۔وہ زمانے لد گئے جہاں شادی آسان کام تھا۔۔۔چلو تمہاری ہر بات سچ۔۔۔۔ کیا ہم ہی رہ گیئے ہیں شادی کی خوشیوں کو اجاڑنے اور ویران کرنے کیلئے۔
نکاح کی عالیشان تمدنی عمارت کا یہ زیریں تہہ خانہ ہے جس میں یہ شرطیں طے ہوتی ہیں اور پھردونوں فریق سج دھج کر بالائی عمارت پرآجاتے ہیں۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا حوالہ دینے والے اپنے دور کی فاطمہ کا غم بھی نہیں سمجھتے۔۔جس کی سسکیاں معاشرتی دھمال میں دب جاتی ہیں۔۔۔اور اسکو اپنی چپ اور حیا کی بہت بڑی قیمت ادا کرتی ہے۔۔۔طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس cancer کا مہلک جرثومہ خود عورت ہے۔۔جسکے روپ مختلف ہیں۔۔۔کہیں لڑکے کی ماں۔۔کہیں بہن۔۔کہیں خالہ۔۔اور کبھی توکوئی رشتہ دار۔
شادی کو کہیں بڑی آرزوؤں اور خواہشوں سے جوڑ دیا گیا ہے۔۔۔ کہیں پر تو جوڑے جہیز کی منڈی میں ردّ عمل اور بدلے کا جواز فراہم ہوتا ہے کہ ”ہم نے بھی اپنی بیٹیوں کو خوب دیا ہے پھر ہم کیوں نہ لیں “۔کہیں پر لالچ رال ٹپکاتا ہوا ہانپتے کتوں کی مانند اس نکاح کی سادگی کو بھنبھوڑنے لگ جاتا ہے۔۔کہیں لڑکی کے والدین کا خوف ”غنڈہ ٹیکس“ دینے پر راضی ہے۔۔۔کہتے ہیں۔۔داماد کو دیئے جانے والا خراج مظلوم بیٹی کے سکون کی قیمت ہوتی ہے۔ورنہ بیٹی کی زندگی سسرال میں مٹی کے تیل سے مہک کر آگ کے شعلوں میں چمک اٹھے گی۔
رشتو ں کے محاذ پر تاجرانہ ذہنوں نے حیا، پاکیزگی اور سادگی کی بہت کم قیمت لگائی ہے۔رشتوں کا پورا تقدس داؤ پر لگ گیا۔
عورت کی حیثیت بے دام ٹہری۔۔نیکی بے وزن ہوئی۔۔دینی بشارتیں موہوم ایمان پر گراں گذریں۔۔اور آخر کار ابلیسی فرمان نشر و نافذ ہوگیاکہ ”نکاح کو اتنا مشکل کردو کہ گناہ آسان ہوجائے“۔
ایک طرف گھروں کی چلمنوں کی اوٹ میں شدید غم کا کہرا ہے۔ ٹھٹھری ہوئی بے زبان لڑکیاں حسر ت و یا س سے بھائیوں کے مضبوط دست و بازو سے گتھیاں سلجھانے کی اُمید کرتی ہیں۔ سرپرستوں کی اقدامات کی منتظر ہیں۔ ہمارے معاشرے کی یہ توانا فصیلیں مادیت کے گولہ بارود کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔ اور جب یہ شہر پناہ کی دیواریں ٹوٹیں گی تو نہ معلوم کیا قیامت برپا ہوگی۔۔۔دوسر ی طرف کچھ انوکھے منظر ہیں۔۔۔
کہیں بھائیوں نے ہجرتیں کیں تو کہیں خود دلہنوں(خلیج کی نرسیں)نے ہجرتیں کیں تاکہ اتنا پیسہ جوڑ سکے کہ کہار اسکی ڈولی اٹھا کر اسکو اپنے پیا کی گلیاروں اور اسکی دہلیزتک لے جاسکے ۔سب نے اپنے کنبے کو روتا دھوتا چھوڑا اورگھروں سے نکل پڑے۔۔اجنبی شہروں میں۔۔اجنبی صحراؤں میں۔۔۔برِصغیر کے دیومالائی دنیا میں ہوس کی دیوی نےجہیز کے نام پر کئی نسلوں کی کڑی جوانیوں کی بھینٹ مانگی ہے۔۔۔سب اپنے حصہ کی قربانی دے رہے ہیں۔۔۔بھائیوں کی کڑیل جوانیاں لٹ گئیں۔۔۔سرپرستوں نے توانائیں نچھاور کیں لیکن ہوس کی دیوی مطمئن نہیں ہوئی۔ اور ان مہاجر وں کی تنہا آرزو یہ ہے کہ انکی بیٹیاں آباد ہوجائیں۔۔۔انکی بہنیں گھرہستی کا سکھ پائیں۔
رسم ورواج کی یہ عجیب چمک دھمک ہے جو بزعم خود توحید پرستوں کی زندگی کو فروزاں کرنے کیلئے شیوالوں سے مانگ کر لائی گئی ہے۔جسکے بغیر اسلام کی سادہ طرز زندگی انھیں اجاڑ اور پھیکی نظر آتی تھی۔۔۔۔ہاں! دیکھو تو! !اب رنگ آیا۔۔رسموں کے شنکھ بجے ۔۔ بے حیائی کے رنگ پھیلے۔۔لغویات نے آرتی اتاری۔۔اور منہ زور طبیعتوں نے محفل کو رنگ و نور سے آباد کردیا۔۔ایسے میں پوری فضا چیخوں سے گونج اٹھتی ہے۔۔کہ کہاں ہے وہ جیالوں کا دستہ جس نے اپنے حسن ِ عمل سے دنیا کو جینے کے انداز سکھائے تھے۔۔۔کبھی جس قافلے کے ایک ایک سپاہی نے پوری انسانی بستیوں کو حیران کردیا تھا۔۔
جس میں ایک نام محمد بن قاسم بھی تھا ۔۔ جس نے سندھ کے صاحل پر امت کی بیٹوں کے تحفظ میں پورا سمندر عبور کرکے اترا اور فتحیاب لوٹا تھا۔۔۔اور کہا ں ہے وہ مرد مومن جس کی ذات کی تشکیل پر ابلیس کی چیخوں کو محسوس کیا گیا ؎
الحذر آئینِ پیمبر سے سو بار الحذرحافظِ ناموس زن مرد آزما مرد آفریں
تہذیب کی اس جنگاہ میں دنیا منتظر ہے کہ اسی قافلہ سخت جان سے۔۔اسی وادئ امکاں سے چند جیالے کسی جانب سے اٹھینگے اور اس مشکل گھڑی سے ہم سب کو نکال لینگے۔۔وہ جیالے ہم کیوں نہیں۔۔۔آؤ اس شوروغول کے بیچ حقیقی خوشیوں کے مفہوم کو سمجھیں۔۔جمالیات کی نئی تعبیر کریں۔۔اپنے حوصلوں سے دنیا کو امن اور گرہستی کے سکھ چین کی خیرات کریں۔۔
نکاح کو آسان کرکے۔۔قیدی امت کی بیٹیوں کو رہا کریں۔۔۔۔اس سے پہلے کہ بوڑھے سرپرستوں کی سسکیاں و آہیں عرش الہٰی پرکہرام مچادے۔۔نیکی کو آزاد کروادیں۔۔۔اب نیکی مشروط نہ رہے۔۔زرپرستوں کی مسرفانہ اداؤں پر۔
ذرا سوچیئےکبھی انسانوں نے کم عمر لڑکیوں کو زندہ در گور گیا تھا۔۔لیکن آج کی اس مشکل نے لاتعداد باشعور لڑکیوں کو زند ہ در گور کرنے کو رواج دیا ہے۔۔۔
آیئے ہم سب ملکرانھیں بچا کر پوری انسانیت کو حیات ِ تازہ عطا کردیں۔