ہائے کمبخت !تو نے پی ہی نہیں!
از۔ ابوالکلام آزاد
چائے چین کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کے مطابق پندرہ سو برس سے استعمال کی جا رہی ہے‘ لیکن وہاں کبھی کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جوہرِ لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جا سکتا ہے۔ جن جن ملکوں میں چین سے براہِ راست گئی ‘ مثلاً روس ‘ ترکستان‘ ایران وہاں بھی کسی کو یہ خیال نہیں گزرا مگر سترھویں صدی میں جب انگریزاس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی ‘
انہوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی اور چونکہ ہندوستان میں چائے کا رواج انہیں کہ ذریعے ہوا اس لئے یہ بدعتِ سیہَ یہاں بھی پھیل گئی ۔ رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ لوگ چائے میں دودھ ڈالنے کی جگہ دودھ میں چائے ڈالنے لگے۔اب انگریز تو یہ کہہ کر الگ ہو گئے کہ زیادہ دودھ نہیں ڈالنا چاہیے ۔لیکن ان کے تخمِ فساد نے جو برگ و بار پھیلا دیے ہیں ‘ جنہیں کون چھانٹ سکتا ہے لوگ چائے کی جگہ ایک طرح کا سیال حلوہ بناتے ہیں ‘ کھانے کی جگہ پیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔ان نادانوں کو کون کہے کہ :
ہائے کمبخت !تو نے پی ہی نہیں!
غبارِخاطر سے اقتباس