افسانہ : ڈیتھ سر ٹیفکیٹ
بلراج بخشی
۳/۱۳، عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی، ادہم پور- ۱۸۲۱۰۱(جموں کشمیر) Mob: 09419339303
email:
حالانکہ دفتر ایٔر کنڈیشنڈ تھا پھربھی وہ پسینے سے تر ہونے لگا تھا۔
میز کے پیچھے بیٹھا ہوا کمشنر کوئی رحم دل شخص لگتا تھا کیونکہ اس کی حالت دیکھ کر اس نے اس سے بیٹھ جانے کی پیشکش کی تھی۔ اس نے سنبھالا لیااور یہ دکھانے کی کوشش میں کہ وہ ڈرا ہوا نہیں ہے، کچھ مضحکہ خیز لگنے لگا۔لیکن وہ شکریہ ادا کر کے بیٹھ گیا اور ادھر ادھر نظر دوڑائی۔
یہ ایک سرکاری دفتر تھا۔ بطور ٹریولنگ سیلزمین اسے کئی نجی کمپنیوں کے دفاتر میں جانا پڑتا تھا جن میں ہمیشہ پر تکلف تزئین و آرایٔش کا التزام رکھا جاتا ہے تاکہ یہاں آنے والے آرام دہ اورآسایٔشی ماحول میں بہتر طریقے سے کاروباری سرگرمیاں انجام دے سکیں۔لیکن سرکاری دفاتر کی طرز تعمیر میں آسایٔش سے زیادہ حکومت کے رعب و اقتدار کا برملا اظہار ملحوظ رہتا ہے تاکہ آنے والا کسی حد تک خایٔف ہو جائے ۔اسی لیے وہاں دانستہً سادہ کوشی کے ساتھ غیر معمولی صفات کی حامل تواریخی شخصیتوں کی تصاویر آویزاں کی جاتی ہیں تاکہ انہیں دیکھ کر عام آدمی مرعوب ہوکر اپنی کم مائیگی سے آگاہ ہو جائے اور احساس کمتری میں مبتلا ہوکر کرسی نشین افسر کے حکم کو تسلیم کرلے۔
کمشنر نے فائل پر سے نظر اٹھا کر چشمہ اتارا، فائل میں سے ایک دو صفحے نکالے اور اسے دکھا کر کہنے لگا:
’ یہ وزارت داخلہ کی رپورٹ ہے۔ پچھلے سال جو حکومت مخالف جلوس نکلے تھے تم ان میں پیش پیش تھے․․․ہم م م م․․․․یہ لکھا ہے․․․․تم اچھل اچھل کر نعرے لگا رہے تھے․․․․ ‘
اسے یاد آیا کہ ایشیا کے کئی ممالک میں غیر مسلح انقلابات سے حکومتوں کے تختے الٹ گئے تھے۔گزشتہ سال یہاں بھی ملک بھر میں مہنگائی، کورپشن ، دہشت گردی اور زیرزمیں متوازی معیشت کے خلاف غیر سیاسی عوامی تحریک زور پکڑ گئی تھی۔ افواہ تھی کہ حکومت ملکی دستور کو معطل کر کے جمہوری حقوق سلب کرنے والی ہے۔ وہ متاثر ہو گیاکہ ملک کی کروڑوں کی آبادی میں حکومت اس جیسے ایک معمولی آدمی کی سرگرمیوں سے بھی واقف تھی۔
’ لیکن ․․․․․․ ‘ وہ سوکھتے ہونٹوں کولعاب سے تر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا ’․․․وہ تو․․․․وہ تو غیر سیاسی تحریک تھی․․․․ ‘
’ یقینا․․․․ ‘ کمشنر میز پر ہاتھ مار کر دہاڑا ’ اور اسی لیے خطرناک تھی․․․․․سیاسی تحریکوں کو تو موڑا توڑا جا سکتا ہے ․․․․ کیونکہ ان کے مفادات حکومت سے مختلف نہیں ہوتے․․․ مگر عوامی غم و غصے والی تحریکوں کو دبانا مشکل ہوتا ہے․․․ آج تک یہاں صرف مذہب کے نام پر تشددہوتا رہا ہے جس میں دونوں فرقے آمنے سامنے صف آرأ ہوتے ہیں․․․․ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں ․․․ دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہوتے ہیں․․․ لیکن پچھلے سال پہلی بار ایسا ہوا کہ جمہوریت ․․․ شہری حقوق․․․ کورپشن․․․․ اور․․․ دہشت گردی جیسے abstract مدعوں پرسبھی لوگ سڑکوں پر نکل آئے․․․چاہے وہ کسی بھی مذہب کے تھے ․․․اس تحریک میں دشمن مبہم اور غیر واضح تھا ․․․․․یعنی بطور دشمن کسی کی بھی نشاندہی نہیں کی جا سکتی تھی․․․ ․ یہ․․․ بہت خطرناک صورتحال تھی․․․ملک میں انارکی پھیل سکتی تھی․․․ تشدد پھیل سکتا تھا․․․ اور․․․․اور تم اس میں شامل تھے․․․․ ‘
’ لیکن انارکی ہوئی تو نہیں ․․․ تشدد بھی نہیں ہوا․․․․․ ‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’ ہم نے نہیں ہونے دیا․․․․ ‘ میز پر ہاتھ مارکرکمشنر پھر گرجا۔ ’ ․․․ یہ حکومت کی حکمت عملی تھی کہ ہم نے تشدد نہیں ہونے دیا․․․ بروقت کاروائی سے حالات کو سنبھال لیا گیا․․․ ‘
ایک مسلح گارڈ نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔
’ کچھ نہیں ․․․․جاؤ․․․ ‘ کمشنر نے بیزاری سے ہاتھ ہلا کر اسے منع کیا۔
حالانکہ کمشنر کو یہ لمبی چوڑی تقریر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن وہ اسے یقین دلانا چاہتا تھا کہ حکومت سوئی نہیں رہتی۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ اسے پتہ تھا کہ باہر جا کر وہ کئی لوگوں سے اس کے سخت رویے کا تذکرہ کرے گا۔ انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں سے ایک سرکاری افسر کی رپیوٹیشن بنتی ہے کہ وہ قاعدے اور قانون کے اطلاق میں نرمی اور کوتاہی نہیں کرتااور یہ باتیں حکام بالا تک پہنچ ہی جاتی ہیں۔
’ اور دوسری بات․․․․․تمہارے حلقے کی ووٹر لسٹ میں تمہارا اندراج نہیں ہے․․․․کیا تم کبھی ووٹ نہیں ڈالتے؟ ‘
’ میرا خیال ہے جناب ․․․․میں نے شاید ہی کبھی ووٹ ڈالا ہو․․․‘
’ کیا میں تمہارے اس غیر جمہوری طرزعمل کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟ ‘
’ کس کو ووٹ ڈالتا․․․ ‘ اس نے تلخ لہجے میں کہا ’ اپنی ہوش میں تو میں نے کوئی ڈھنگ کا امیدوار آج تک نہیں دیکھا․․․․ ‘
’ چ چ چ․․․․ ‘ کمشنر نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پرتاسف لہجے میں کہا ’ ․․․ یہ ایک ناقابل فہم جمہوریت مخالف طرز فکر ہے ․․․ خیر ․․․․ اس کی وجہ ؟ ‘
’ وجہ ؟ ‘ وہ پھٹ پڑا ’ ․․․ پولنگ بوتھ میں غنڈے کھڑے ہوتے ہیں ․․․ یا پولیس․․․ یا ․․․ پھر ملٹری ․․․․ سبھی دھمکاتے ہیں کہ یہاں مہر لگاؤ ․․․․ وہاں لگاؤ․․․ اور کبھی کبھی تو ایک ہی امیدوار کھڑا ہوتا ہے ․․․ باقی کے ڈر کر یا تو امیدواری سے دستبردار ہوچکے ہو تے ہیں․․․ یا․․․ ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دئیے جاتے ہیں․․․ اس لیے میں جاتا ہی نہیں ․․․ ‘
وہ کمشنر کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگا لیکن کمشنر بڑی دیر سر جھکائے کچھ سوچتا رہا اور وہ کرسی میں بیٹھے بیٹھے بے چینی سے پہلو بدلنے لگا۔
’ اچھا ․․․مذہب کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ ‘
’ میں بہت مذہبی آدمی ہوں ․․․ جناب ․․․ ۔ ‘
’ گُڈ ․․․ اتنی دیر میں تم نے پہلی کام کی بات کی ہے․․․ ‘ کمشنر نے خوش ہو کر کہا اور آگے جھک کر رازدارانہ انداز میں پوچھا ’ ․․․کتنے مذہبی فساد وں میں ․․․ حصہ لیا ہے ؟ ‘
’ نہیں جناب ․․․ میں نے کہا نا ․․․ میں مذہبی آدمی ہوں․․․ دوسروں کے مذہب ․․ ․․․اور مسلک کا احترام کرتا ہوں ․․․ ۔ ‘
کمشنر یکدم سیدھا ہو کر اسے درشت نظروں سے گھورتا ہوا بولا :
’ ہماری بین الاقوامی پالیسی کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہو ․․․ تو بتاؤ․․․ ‘
’ بس یہی کہ ․․․ہم کھلے طور پر مغرب نواز ہیں ․․․ ۔ ‘
’ لیکن وہ ہمیں اربوں کھربوں ڈالر سالانہ کی امداد دیتے ہیں ․․․ ۔ ‘
’ تاکہ ہم خود کچھ نہ کریں اور ان کے حاشیہ بردار بنے رہیں ․․․ ۔ ‘
’ ہوں ں ں ں ․․․ ‘ کمشنر نے طویل سانس لے کرپرتیقن لہجے میں کہا ’․․․ کچھ اور ہونہ ہو․․․ یہ طے ہے کہ تمہیں کسی بھی صورت میں پاسپورٹ تو دیا ہی نہیں جا سکتا ․․․ خیر ․․․ تمہاری رپورٹ میں لکھا ہے کہ تم باغیانہ خیالات رکھتے ہو اور یہ بھی کہ نظریاتی طور پر تم موجودہ نظام کے خلاف ہو․․․․ کیا تم تشدد کے حامی ہو ؟ ‘
’ میں تشدد کا حامی نہیں ہوں جناب․․․ ‘ اس نے لاچاری سے کہا ’ ․․․ لیکن آئیڈنٹٹی کارڈکے لیے میری درخواست سے میرے سیاسی نظریات کا کیا تعلق ؟‘ اس کے لہجے میں صاف اکتاہٹ تھی۔
اس کی کم فہمی پر کمشنر کچھ دیر اسے ترحم آمیز نظروں سے دیکھتا رہا۔پھر وہ بالآخر بولا:
’ آئیڈنٹٹی کارڈ محض کاغذ کا ایک ٹکڑا نہیں ہے جو کسی ردی فروش کی دکان سے بہ آسانی مل جائے گا․․․․ افسوس کہ تم جیسے لوگ حکومت کے جاری کردہ دستاویزات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے․․․․ ‘
’ لیکن جناب ․․․میں آپ سے صرف آئیڈنٹٹی کارڈ مانگ رہا ہوں․․․․ جس میں صرف میرے نام اور صورت کی تصدیق کی گئی ہو گی․․․۔ ‘ اس نے جرأت کر کے کہا۔ وہ جھلا گیا تھا۔
’ پہلے کبھی کیوں نہیں مانگا ؟ ‘
’کیونکہ پہلے کبھی ضرورت نہیں پڑی․․․․ ‘
’ جب اتنی عمر بغیر آئیڈنٹٹی کارڈکے گزر گئی تو اب اچانک کیا ضرورت آن پڑی․․؟ ‘
’ جیسا کہ میں جناب والا سے گزارش کر چکا ہوں ․․․میں ایک ٹریولنگ سیلزمین ہوں․․․اکثر سفر میں رہتا ہوں․․․اور آج کل آئیڈنٹٹی کارڈ کے بغیر ہوٹیل میں کمرہ تک کرائے پر نہیں ملتا․․․․․ ‘
’ دیکھا تم نے؟ ‘ کمشنر نے درشت لہجے میں کہا ’ ․․․ دیکھی اس سرکاری دستاویز کی اہمیت؟ ․․․․․آئیڈنٹٹی کارڈ․․․ لیکن یہ دستاویزجاری کرناہمارے دفتر کی ذمے داری ہے․․․․․اور تمہارے پاس تمہاری․․․تمہاری شناخت․․․ آئیڈنٹٹی کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے․․․․․یہاں تک کہ ہمارے دفترکی فہرست میں درج․․․ شہر کے ذی حیثیت معززین․․․ جنہیں ہم قومی تقریبات پر ہر سال باقاعدگی سے مدعو کرتے ہیں ․․․ ان میں سے دومعتبر حضرات کا حوالہ بھی تم مہیا نہیں کر سکے جو یہ بیان دیں کہ وہ تمہیں واقعی جانتے ہیں․․․․․ ‘
’ جیسا کہ میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں جناب․․․․کہ․․․میں ٹریولنگ سیلزمین ہوں․․․کئی سال سے سفر ہی میں ہوں․․․․․اور پھر ہو سکتا ہے آپ کے دفتر کی نظر میں جو معتبر معززین ہیں ․․․ میں انہیں سرے سے معزز ہی نہ سمجھتا ہوں․․․․ اس لیے کہ ان میں سے کئیوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں․․․ ‘
’ کسی کو معزز یا غیر معزز قرار دینے کی نہ تو تم میں اہلیت ہے اور نہ ہی اختیار․․․․سمجھے مسٹر ٹریولنگ سیلزمین․․․․․ غیر ضروری بیانات سے احتراز کرو․․․․․ ‘ کمشنرکا لہجہ تیزابی تھا۔
’ سچ تو یہ ہے جناب․․․․․ کہ ویسے بھی میں یہاں کے معززین سے کم ہی متعارف ہوں․․․ ‘اس نے اپنی کم مائیگی کا اظہار کر کے موقع سنبھالنے کی کوشش کی۔
’ یا وہ تم سے متعارف نہیں ہیں․․․ ‘ اس نے زہریلے لہجے میں کہا ’ ․․․ ٹریولنگ سیلزمین․․․․ ہینہہ ․․․ کیا بیچتے ہو جگہ جگہ گھوم کر ؟․․․ انقلابی خیالات ؟ ‘
’ دیکھیے جناب․․․ میرے سیاسی نظریات کا مضحکہ اڑانے کا آپ کو کوئی اختیار نہیں ․․․․ ‘
اور اسے احساس ہوا کہ وہ کچھ زیادہ ہی گستاخ ہو گیا ہے۔
کمشنر اسے خونخوار نظروں سے گھورنے لگا۔ پھر وہ چلایا:
’ میں تمہیں بتاؤں کہ میرے اختیار میں کیا ہے ؟․․․ تم ․․․․نالی کے کیڑے․․․․گندگی کے ڈھیر․․․ معمولی انسان․․․تمہاری آئیڈنٹٹی ہی کیا ہے ذلیل سؤر․․․ ‘ وہ ہانپنے لگا ’․․․ گارڈز․․․․گارڈز․․․ ‘
’ نہیں جناب․․․․ ‘ وہ خوفزدہ ہو کر کرسی سے کھڑا ہو گیا ’ میں معافی چاہتا ہوں ․․․․دراصل میں بہت پریشان ہوں․․․ ‘
اتنے میں تین مسلح گارڈاندر گھس آئے اور سوالیہ نظروں سے کمشنر کو دیکھنے لگے۔
وہ کانپنے لگااور کمشنر کے پیروں پر گر پڑا۔کمشنر پہلے تو اپنے سانسوں پر قابو پاتا رہا پھر معمول پر آنے کے بعدسرکاری دفتر میں عدم تمباکو نوشی قانون کی خلاف ورزی میں اس نے سگریٹ سلگایا، دو تین لمبے لمبے کش لے کر منہ اور ناک سے دھوئیں کا اخراج کیا ۔کانپتے گڑگڑاتے سائل کو دیکھ کرکمشنر کو کچھ اطمینان ہوا اوروہ ڈھیلا پڑنے لگا۔ دراصل وہ نسبتاً ایک نرم طبیعت کا آدمی تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے گارڈز کی طرف دیکھا۔
’ کچھ نہیں ․․․․ واپس جاؤ․․․․ ‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
اسے اشتہائی نظروں سے دیکھ رہے گارڈجب مایوسی سے واپس گئے تو اس کی جان میں جان آئی۔وہ جانتا تھا کہ کمشنر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اشارہ ملتے ہی گارڈشکاری کتوں کی طرح اس کا تیا پانچہ کر دیتے۔
کمشنر معمول پر آ گیا۔
’ کوئی بھی سرکاری فیصلہ لیتے وقت وجوہات و شواہد کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔ لیکن تمہارا کیس کتنا پیچیدہ ہے․․․․․ تمہیں پتہ ہی نہیں ․․․ ‘ اس نے فائل الٹی کر کے اس کی طرف بڑھائی ــ’․․․․ یہ دیکھو․․․․․ تمہاری تاریخ پیدایٔش بھی درست نہیں ہے۔ میونسپلٹی کے برتھ سرٹیفکیٹ میں کچھ اور ہے ․․․․اور یونیورسٹی کے ریکارڈ میں کچھ اور․․․․جس سے صورتحال مشکوک ہو جاتی ہے․․․․․اچھا ․․ ․ ایک اوربڑی بات․․․ راشن کارڈ․․․․ وہ تو ہے ہی نہیں․․․ ‘
’ جناب․․․․میں ابھی اسکول ہی میں تھا کہ میرے والدین ایک ایجی ٹیشن کے دوران مارے گئے․․․میں کبھی کہیں ․․․․ کبھی کہیں رہا․․․․کسی نے راشن کارڈ بنوایا ہی نہیں․․․․اور مجھے ان باتوں کا پتہ ہی نہیں تھا․․․․ ‘
’ ہیں یں یں یں․․․․․ ایجی ٹیشن میں مارے گئے ؟ ‘ حیرت سے کمشنر کی بھویں ماتھے پر چڑھ گئیں’․․․ تو ․․․․یعنی کہ ․․․․ تمہارا حکومت مخالف رویہ پشتینی ہے․․․․․ایں ․․․․کیس مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے․․․․ ‘
’ نہیں جناب․․․․ میرے والدین اپنے گھر میں تھے․․․․باہر ایجی ٹیشن ہو رہی تھی․․․ پولیس ایک مشتعل ہجوم پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی ․․․․ٹیئرگیس کا ایک گولہ کھڑکی کے راستے آ کر میرے والدکے سر پر لگا․․․․وہ وہیں ختم ہو گئے․․․․والدہ دمے کی مریضہ تھیں ․․․․ چھوٹے سے کمرے میں اتنی گیس نکلنے سے ان کا دم گھٹ گیا․․․․․ ‘
’ اور تم بچ گئے․․․‘کمشنر نے ہونٹ سکوڑ کر طنزیہ لہجے میں کہا ’․․․ظاہر ہے تم ابھی پیدا بھی نہ ہوئے ہوگے․․․ ‘ ّّ
’ میں اس وقت اسکول میں تھا ․․․ ‘
’ حالآنکہ ایجی ٹیشن والے دن ہم اسکولوں میں چھٹی کر دیتے ہیں تاکہ طلبا اس قومی مشغلے میں حصہ لے سکیں ․․․ ‘
’ اصل میں یہ ایجی ٹیشن اچانک ہو گئی تھی․․․حکومت کو بروقت پتہ ہی نہ چل سکا ․․․․بات یہ تھی کہ ایک ندی کا پانی اچانک میٹھا ہوگیا ․․․کچھ لوگ کہنے لگے بھگوان کی مایا ہے ․․․کچھ کہنے لگے اﷲ کا معجزہ ہے․․․ بعد کو پتہ چلا کہ ڈایریکٹر محکمہ فوڈ سپلائیز اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کے درمیان کچھ غلط فہمی ہو گئی․․․اور․․․ راشن کی چینی کی بلیک پکڑنے کے لیے پولیس نے کئی ریڈ کیے․․ ․کچھ لوگ پکڑے گئے․․․ایک دکاندارکو بروقت پتہ چل گیا اور اس نے چینی کی چالیس پچاس بوریاں ندی میں پھینک دیں․․․ ‘
’ اچھا ․․․ ‘ کمشنر نے اسے ترحم آمیز نظروں سے دیکھا ’ ․․․ چینی کی پچاس بوریاں ندی میں پھینک دی گئیں ․․․ اور حکومت کو پتہ ہی نہیں چلا ؟ ․․․لگتا ہے حکومت کے بارے میں تمہاری معلومات انتہائی ناقص ہیں ․․․حکومت کو سب پتہ ہوتا ہے ․․․ کیس پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے․․․خیر ․․․ تمہارے والدین کی موت کا معاوضہ تو تمہیں ملا ہی ہو گا ؟ کیونکہ ایجی ٹیشنوں میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والوں کے لواحقین کی مالی مدد کرنا ہماری قومی ذمہ داری بنتی ہے ․․․ ‘
’ نہیں جناب ․․․ ‘
’ نہیں؟ کیوں ؟ ‘
’ اس لیے ․․․ کیونکہ وہ پولیس فائیرنگ میں نہیں مرے تھے ․․․اور وہ ایجی ٹیشن میں بھی حصہ نہیں لے رہے تھے ․․․ انکوائیری ہوئی ․․․ اور ان کی موت کو حادثاتی موت ․․․یا کیا کہتے ہیں ․․․․ آسمانی آفت․․․ یعنی Accident of Godقرار دیا گیا․․․ ‘
’ خیر ․․․ تمہارے والدین کی وجہ وفات کی مفصل رپورٹ بھی فائل میں لگانی پڑے گی․․․․‘۔
’ لیکن․․․․لیکن․․․اس میں تو مہینوں لگ جائیں گے جناب․․․․تب تک تومیرا بیرون شہرجانا مشکل ہو جائے گا․․ ․ ‘
’ میں اس میں کچھ نہیں کر سکتا․․․ ‘ کمشنر نے کندھے اچکائے۔ ’ ․․․ضابطے کی کاروائی تو بہر حال پوری کرنی پڑے گی ․․․․اچھا․․․․․کوئی دو ایسے گواہ ہیں تمہارے پاس جوتمہیں بیس سال سے زائد عرصے سے جانتے ہوں اور جو تمہارے نیک چال چلن کی ضمانت دے سکیں․․․․ ‘
’ نہیں جناب․․․․پچھلے بیس برسوں میں مجھے اپنی جائے سکونت کئی بار بدلنا پڑی․․․ ‘
’ پھر بتاؤ میں کیا کروں․․․․کمشنر نے مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے کہا ’ مشکل ہے․․․میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا․․․․ حالانکہ لوگ جعلی شناخت نامے بھی حاصل کر لیتے ہیں․․․․جھوٹی گواہیاں ․․․جھوٹے کاغذات دے کر․․․ مگر میں اس سلسلے میں بہت سخت ہوں․․․ اصل میں آئیڈنٹٹی کارڈ ایک بنیادی دستاویز ہے جو ایک شہری کی علاقائی ․․․ لسانی․․․ مذہبی․․․․ ثقافتی شناخت․․․ اور․․․․اور ․․․․ بلڈ گروپ کا ثبوت ہوتا ہے․․․․ ‘
’ لیکن جناب․․․․مجھے یہ سب نہیں بلکہ صرف اپنے جسمانی وجود کا ثبوت چاہیے کہ یہ میں ہوں اور یہ میرا نام ہے ․․․۔‘
’ تمہارے وجود کے اسی ثبوت کو آئیڈنٹٹی کارڈ کہتے ہیں جو تمہیں اس مہذب معاشرے کا رکن ہونے اور اس عظیم ملک کا شہری ہونے کا افتخاربخشتا ہے․․․ ‘ کمشنر کا لہجہ خشک تھا۔
’ مجھے پتہ ہے جناب․․․ ‘اس نے جھوٹ بولا حالآنکہ اسے بالکل بھی احساس نہیں تھاکہ اس ملک کا شہری ہونا رشک آمیز ہے۔ وہ ان سکہ بند وطن پرستانہ اصطلاحوں سے سخت متنفر تھااوران دفتری ضابطوں کو بھی ناگزیر تضیع اوقات سمجھتا تھا۔
’ مجھے افسوس ہے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ․․․ ‘ کمشنرنے ان سنی کر کے کہا ’․․․لیکن مجھے یقین ہے کہ یہاں سے باہر جا کر تم یہی کہو گے کہ میں نے ہر طرح تمہاری مدد کرنے کی کوشش کی․․․․مگر تمہارے پاس ہی․․․․ضروری دستاویزات نہیں تھیں․․․․اور یہ غلط بھی نہیں ہے․․․․ خیر اب تم جا سکتے ہو․․․․ ‘
وہ تھوڑی دیر تک مایوس کھڑا رہا پھر جانے کے لیے مڑنے لگا۔
’ ٹھہرو․․․․ ‘ کمشنر نے کہا۔
وہ رک کر مڑا۔
’ بالواسطہ یا بلاواسطہ․․․․ تمہارا نام پہلے ہی دو ایجی ٹیشنوں سے جڑرہا ہے․․․․تمہارا یہ مسلسل حکومت مخالف رویہ تمہارے لیے پریشان کن ثابت ہو سکتا ہے․․․میرا مشورہ ہے کہ آیٔندہ محتاط رہو ․․․ ‘ کمشنر نے تنبیہی لہجے میں کہا اورایک بار پھردفتر میں عدم تمباکو نوشی کی قانون شکنی میں سگریٹ سلگانے لگا۔
وہ کچھ لمحے خاموش کھڑا رہا۔ پھر بولا:
’ تو یہ طے ہے کہ مجھے آئیڈنٹٹی کارڈ نہیں مل سکے گا․․․․․ ‘
’ دیکھو ․․․کسی بھی طرح․․․ تمہارے ․․․ ہونے کا․․․․ کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ملتا․․․ اس لیے جب تک تم ثبوت و شواہد فراہم نہیں کرتے․․․ تب تک نہیں․․․․ مجھے افسوس ہے․․․ ‘
’ تب پھر․․․․ یقینا آپ میرا ایک کام تو کر ہی سکیں گے جناب․․ ․ ‘ اس نے کہا۔
’ مجھے خوشی ہوگی․․․تم ایک گمراہ․․․ لیکن ․․․․․باشعور شہری ہو․․․بات سمجھتے ہو․․․کہو․․․․ ‘
’ کیا جناب والا مجھے ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی عنایت کر سکتے ہیں؟ ‘
’ کیا مطلب ؟ ‘
’ میرے دو بچے بھی ہیں جناب․․․کل انہیں بھی اسی قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے․․ ‘ اس نے لجاجت سے کہا۔ ’ میں نہیں چاہتا کہ انہیں بھی کبھی اس اذیٔت سے گزرنا پڑے․․چونکہ مطلوبہ ثبوت مہیاکرنے میں ناکام رہنے پریہ ثابت نہیں ہوسکاکہ میں ـ․․․ہوں․․․․اگر ․․․․․ڈیتھ سرٹیفکیٹ مل جائے تو․․․بعد از مرگ تومیری آئیڈنٹٹی بہ آسانی ثابت ہو جائے گی․․․کہ ․․․ میں کبھی․․․ تھا․․․اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ ․․․ ایک سرکاری دستاویز․․․ ہو سکتا ہے ان کے کسی کام آ جائے․․․ ‘
۔۔۔۔۔۔۔۔
One thought on “افسانہ : ڈیتھ سر ٹیفکیٹ — بلراج بخشی”
زبردست افسانہ…. کیا طنز ہے. مبارک