چارمیناروں والی مسجد ، حیدرآباد
Charminar Mosque, Hyderabad
(چار مینار، حیدرآباد)
ڈاکٹر عزیز احمد عرسی ورنگل
09866971375
حیدرآبا ہندوستان کا ایک مشہور شہر ہے ۔جو نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں شہرت رکھتا ہے اس کی شہرت کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اکثر مورخین کی نظر میں اس کی شہرت کی اصل وجہہ1591ء میں محمد قلی قطبؔ شاہ کا بنوایاہوا چارمینار ہے ۔ مورخین اس نادر زمانہ عمارت کی تعمیر کے پیچھے ایک وجہ بتاتے ہیں کہ محمد قلی قطب شاہ کے دور حکومت میں ریاست گولکنڈہ میں اچانک طاعون کی وبا پھیل گئی تھی،تب بادشاہ نے دعا کی کہ اگر میرے شہر سے طاعون کی وبا ختم ہوجائے تو میں بطور شکرانہ ایک’’ مسجد ‘‘ تعمیر کروں گا جب طاعون کی وبا ختم ہوئی تو بادشاہ نے اپنی منت کی تکمیل کی اور اس عظیم الشان چار میناروں والی مسجد کو تعمیر کروایا ۔ جوش عقیدت میں بادشاہ نے ’’چار میناروں والی اس مسجد‘‘ کو زمین کی بجائے سطح زمین سے اونچا اٹھا کر تعمیر کرنے کی سونچی تاکہ اللہ کا قرب حاصل کیا جاسکے ، تقدس کے ہر پیمانے کو ملحوظ رکھ کر بنائی گئی یہ مسجد آج سیاحوں کی نظروں میں صرف ایک خوبصورت اور پر شکوہ عمارت بن کر رہ گئی ہے لیکن میں اس عمارت کو بیشتر مورخین کی طرح صرف چارمینارنہیں کہتا بلکہ ’’چار میناروں والی مسجد‘‘ہی کہتا ہوں۔ان چار میناروں کی توضیح کرتے ہوئے کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ محمد قلی قطب شاہ نے اس مسجد کو چار میناروں والی اسی لئے بنایا کہ ا ن کے دل میں ان چار میناروں کی ڈیزائینگ سے چار خلفائے راشدین کی طرف اشارہ مقصود تھا ۔ ویسے یہ کہنا مشکل ہے کہ چارمینار ڈیزائن کرنے والے کے دل میں ان میناروں کی کیا توضیح تھی لیکن یہ ضرور حقیقت ہے کہ وسیع آسمان کی جانب اٹھے ہوئے ان چار میناروں کو میں جب بھی دیکھتا ہوں تو ایسا محسوس کرتا ہوں جیسے یہ آ سمان رحمت کی جانب دراز ہوکر پھیل گئے ہیں اورحق تعالی کے حضور دست بہ دعا ہوکر اپنے بنانے والے اور اس شہر کے افراد کے لئے امن و سلامتی مانگ رہے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ چارمینار اسلامی فن تعمیر کا حسین مرقع ہے، جس کی میناریں ، کمانیں ، گنبدان ایک خاص ترتیب اور ایک دوسرے کے درمیان مکمل ہم آہنگی کے ساتھ تعمیر کی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ایک سنجیدہ ناظر اس کو دیکھ کر یہی کہتا ہے کہ اس کی تعمیرجنوبی ہند کے منادر سے متاثر ہوکر کی گئی ہے اور یہی قطب شاہی طرز تعمیر کی خصوصیت ہے اسی کو Indo-saracenic طرز تعمیر بھی کہا جاتا ہے۔ جو چار مینار کی تعمیری خصوصیت
ہے۔
چار میناروں والی مسجد کا اصل مصلیٰ عمارت کی چھت پر مغربی جانب واقع ہے جس کی کاریگری دیکھنے کے لائق ہے۔پھول اور بیلوں کے نباتیMotifs (یعنی آرائشی ڈیزائنس کی تکرار کو دیواروں پر ابھارنا )کو نہایت سلیقگی سے بنایا گیا ہے ، دو صفوں پر مشتمل اس مسجد اور اس کی دو چھوٹی میناروں کی زیب و زینت اور نقش و نگار کی دلفریبی بڑا متاثر کرتی ہے۔ بلندی پر بنی مسجد کی اس اونچائی کو ہم مسجد کی کرسی متصور کریں تو شاید اس سے اونچی کرسی ہندوستان کی کسی مسجد میں دیکھنے کو نہیں ملے گی ،اس مسجد میں لگ بھگ 50 افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ قدیم دور میں اگر نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہوگی تو اصل محراب کے سامنے کے صحن تک نمازیوں کی صفیں پھیل جاتی ہونگی ۔ میرا اندازہ ہے کہ مسجد کے اس صحن میں دو سو(200) سے کچھ زائد نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں۔میں جب چارمیناروں والی اس مسجد کے ماضی میں جھانکتا ہوں تومجھے کئی ایسے روز جمعہ نظر آتے ہیں جہاں نمازی اپنا دامن پسارے خدائے رب العزت سے رحم کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں اور یہ مسجداللہ کے دربار میں اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کر رہی ہوتی ہے ، اسی لئے ممکن ہے بادشاہ نے چارمینار مسجد کی تعمیر کے صرف چھ سال بعد چارمینار کے دامن میں ایک اورجامع مسجد بھی تعمیر کروائی تاکہ نمازیوں کی سہولت ہوسکے اور ضعیف احباب اوپر چڑھنے کی زحمت سے بچ جائیں۔ ویسے مسجد چار مینار میں ان دنوں نماز کا اہتمام نہیں کیاجارہا ہے۔کیونکہ یہ عمارت حکومت کے کنٹرول میں ہے اور وہی اس مسجد کے رکھوالے ہیں حالانکہ ما کان للمشرکین ان یعمرو امساجد اللہ شاھدین علی انفسھم بالکفر۔ (9-17) ۔میں کبھی کبھی سونچتا ہوں کہ جب تاج محل کی مسجد میں باضابطہ نمازوں کا اہتمام ہوتا ہے اور ہر جمعہ نہ صرف مسلمان بلکہ ہر اس شخص کو مسجد کے اندر مفت داخلہ مل جاتا ہے جو اپنے سر پر ٹوپی پہن لے تو پھر چارمیناروں والی اس عظیم الشان مسجد کو مسلمانوں کے لئے کیوں نہیں کھول دیا جاتا، تاکہ شہریان حیدرآباداس آرائش و زیبائش سے مرصع دلکش مسجد میں سجدہ ریز ہوسکیں جو ممکن ہے زمین سے اونچا اٹھ کر ہواؤں میں بنائی گئی دنیا
کی پہلی مسجد ہے۔
مسجد چارمینار کے اصل مصلےٰ تک پہنچنے کے لئے اوپری منزل تک چڑھنا پڑتا ہے ، اوپری جانب مشرقی حصے میں وسیع ورانڈا ہے جسکے درمیان میں چھوٹی اور بڑی کمانیں بنی ہوئی ہیں۔ چار مینار چار منزلہ عمارت ہے جس کی پہلی منزل پر خوبصورت بالکونی بنی ہوئی ہے جس سے خوبصورت شہر کا دلچسپ نظارہ کیا جاسکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں پہلی منزل میں ایک مدرسہ چلایا جاتا تھا ، دوسری منازل پر بھی بنے ہوئے کچھ کمروں میں ضرورت کے مطابق
امام و موذن کی رہائش ہوتی تھی اور بعض حجروں میں تعلیم و تعلم کا انتظام بھی ہوتا رہتا تھا۔
چار میناروں والی مسجد حیدرآباد کا رسم صوری (Pictogram) ہے،جس طرح مجسمہ آزادی کے بغیر نیویارک اور کریملن کے بغیر ماسکو کا تصور نہیں کیا جاسکتا اسی طرح حیدرآبادکا بھی ہم چارمینار کے بغیرتصور نہیں کرسکتے۔ اسی لئے بعض ماہرین اس کو مشرق کا Arc de Triomphe (قوس النصر یا تاق پیروزی ) بھی کہتے ہیں، چونے اور پتھر سے بنائی گئی یہ عمارت حیدر آباد کی شان ہے اس کی ڈیزائنگ Indo-saracenic طریقے پر کی گئی ہے۔ اسی لئے اس کو ڈیزائن کرتے ہوئے معماروں نے کئی تہذیبی روایات کو اس میں شامل کر دیا ہے بالخصوص اسلامی اور ہندو طرز تعمیر کو ایک دوسرے میں سمو کر حسین امتزاجی کیفیت پیدا کی گئی ہے، ان ہمہ رنگی خصوصیت کے باوجود چار مینار ایک خوبصورت مسجد ہی ہے جس کو محض مسجد کی حیثیت سے بنایا گیا تھا لیکن گذرتے وقت کے دھارے نے اس کی مسجد والی حیثیت کو لوگوں کے ذہنوں سے بھلادیا۔ جس کی دوسری کئی ایک وجوہات کے ساتھ اس عمارت کی بے پناہ خوبصورتی اور تعمیری فنی خوبیاں بھی ہیں جس نے اس مسجدکو عام سیاحوں کی نظر میں مسجد کم اور انڈو اسلامک فن تعمیر کا حسین مرقع زیادہ بنادیا ہے۔ چار میناروں والی یہ مسجد ملک کی تعمیرات میں افسانوی شہکار کی حیثیت رکھتی ہے ، اس عمارت کی تعمیری خوبیوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس عمارت کو ڈیزائن کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں رکھی گئی اور ایک ایسی عمارت کی بنا ڈالی گئی جس کا کوئی مماثل دنیا میں نہیں، عمارت کی کاریگری دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کے معماروں کی محنت میں خلوص تھا اور ان فنکاروں کی صلاحیتیں اپنے عروج پر تھیں ۔ماہرین کے مطابق چارمیناروں8 والی مسجد کو بنانے کے لئے Cazia طریقہ اپنایا گیا ہے یعنی اس عمارت کو چونے اور گرانائیٹ سے بنایا گیا ہے۔ یہی طریقہ تعمیر Cazia style of architect کہلاتا ہے۔ اس عمارت کے اوپری منزل پر موجود مصلےٰ کو ہم حیدرآباد کی حسین ترین مسجد کہہ سکتے ہیں بلکہ ہم اس پانچ دوہری کمانوں سے مزین بیل بوٹوں سے سجی،قوسوں کی شکل میں بہار دکھلاتی،کونوں میں بنے دو چھوٹے میناروں سے نور کی بارش برساتی اس مسجد کو کام کی نفاست و نزاکت اور فنی پختگی کے لحاظ سے ہندوستان کی خوبصورت ترین مساجد میں بھی شمار کر سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چار مینار کا جنوب مغربی مینار تقریباً 300 برس قبل بجلی کی زد میں آکر گر گیا تھا
جس کو پھر سے تعمیر کیا گیا لیکن اس حادثے میں اصل مصلےٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔
180فٹ اونچی مسجدِ چارمینار دکنی تہذیب کی حقیقی ترجمان ہے،یہ مسجد تقریباً مربع زمین پر بنائی گئی ہے ، اس مربع عمارت کا ہر کونا 20میٹر لمبا ہے ،مربع عمارت کی ہر جانب20 میٹر اونچی اور پر شکوہ کمانیں ہیں،فرش سے ہر کمان کی اونچائی 20 میٹر اور چوڑائی 11 میٹر ہے، ہر کمان کے اوپر مزید چار کمانیں نظر آتی ہیں اور ان کمانوں کے اوپر مزید چھوٹے چھوٹے کمان بنے ہوئے ہیں جن کی جملہ تعداد 32 ہے ،چارمینار کی چھت کے چاروں کونوں سے میناریں بلند ہوتی ہیں ، چھت سے مینار کی اونچائی 24میٹر ہے ، مینار کی اونچائی پر گنبد نماشکل بنی ہوئی ہے جس پر کنول کے پھول کی پنکھڑیوں کی مانند ساختیں بنی ہوئی ہیں۔ اس گنبد نما حصے کے اوپر پیتل کا کلس لگا ہوا ہے یہ مینار اسلامی طرز تعمیر کا اعلی نمونہ ہے،۔ یہ مینار اپنے اندر بڑی اہمیت رکھتے ہیں ،کیونکہ یہی وہ مینار ہیں جو نہ صرف حیدرآباد کی شان ہیں بلکہ اس کی پہچان بھی ہیں کہ ان میناروں سے اکثر حیدرآبادیوں کی کئی امنگیں اور نیک خواہشات وابستہ رہتی ہیں کہ یہ مینار دن کے آٹھوں پہر حیدرآبادیوں کے ہاتھ بن کر صبح کی اوس کے ساتھ شہر فرخندہ بنیاد پر رحمت کے برسنے کی دعا کرتے رہتے ہیں اور چار میناروں والی مسجد کی چھت ان نیک دل حیدرآبادیوں کے لئے پھیل کر ردائے محبت بن جاتی ہے الذین ھم علی صلاتھم دائمون۔ (70-23)یعنی جو اپنی نمازوں کی پابندی کرنے والے ہوتے ہیں اور حق بات یہ ہے کہ اس محبت آمیز خلوص کے سائے میں پہنچ کر ہر حیدرآبادی کے عزائم جوان اورخیالات کشادہ ہوجاتے ہیں، چار میناروں والی مسجد کے بیرونی میناروں کو اصل عمارت سے متصل یعنی اصل عمارت کے ساتھ ہی بنایا گیا ہے۔ مینار کے اندر گول گھومتے ہوئے اوپر جانے والی 149 سیڑھیاں ہیں، جن کے ذریعے مینار کی بلندی تک پہنچا جاسکتا ہے ۔ فرش سے لے کر مینار کی انتہائی اونچائی تک عمارت کی بلندی 48.7میٹر ہے ۔ ہر مینار چار منزلہ ہے جن کو خوبصورت بالکونیوں سے مزین کیا گیا ہے اور ہر منزل پر ایک عالی شان بالکونی بنی ہوئی ہے ان بالکونیوں کو بھی چھوٹے چھوٹے کمانوں سے مزین کیا گیا ہے،جن پر نازک اور دل کو لبھانے والا کام کیا ہوا ہے۔ ان بالکونیوں پر کھڑے ہوکر ہم مختلف بلندیوں سے شہر کا بہت دور تک نظارہ کرتے ہوئے دیر تک لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مکمل مینار پر خوبصورت ترین نقوش ابھارے گئے ہیں، جس کی نزاکت انسان کے جمالیاتی احساس کو تسکین پہنچاتی ہے۔ خصوصاً رات کے وقت جب کہ چارمینار برقی قمقموں سے جگمگا رہا ہو، بہت دلفریب منظر پیش کرتا ہے اس منظر کو عرصہ دراز تک بھلایا جانا بہت مشکل ہوتا ہے ، اسی لئے آج چار مینار حیدرآباد کی شناخت اور اس کی تہذیب کا نشان بن گیا ہے ۔
Dr. Azeez Ahmed Ursi
۲ thoughts on “چارمیناروں والی مسجد، حیدرآباد۔@۔ ڈاکٹرعزیزاحمدعرسی”
ایک بہترین مضمون !!
میں ابھی تک اس بات سے نا واقف تھا کہ چار مینار فی الحقیقت ” چار میناروں والی مسجد ” ہے۔ امسال حیدرآباد دورے کے وقت چار مینار کے قریب ایک ٹھیلہ والے نے بتایا کہ اوپر مسجد ہے فوراً وکیپیڈیا پر تلاش کیا تو چار مینار سے متعلق بہت ساری معلومات حاصل ہوئی۔ اس مضمون کو پڑھ کر مزید علم میں اضافہ ہوا البتہ قلی قطب شاہ کے شیعہ ہونے کی وجہ سےاس نظریہ کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے کہ ” محمد قلی قطب شاہ نے اس مسجد کو چار میناروں والی اسی لئے بنایا کہ ا ن کے دل میں ان چار میناروں کی ڈیزائینگ سے چار خلفائے راشدین کی طرف اشارہ مقصود تھا”۔
وکیپیڈیا میں انگریزی اخبار ہندو کے حوالے سے صاف طور پر یہ بات لکھی گئی ہے کہ چار مینار سے لگ کر متنازعہ ڈھانچہ پہلے موجود نہیں تھا۔
بہت بہت شکریہ جناب