’’بچپن کی بادشاہت ‘‘(دکنی پھلوں اورغذاوں کے نام)
نعیم جاوید….دمام .سعودی عرب
email:
پردیس میں جب جب ہم اپنے من چاہے سالن کھاتے ہیں تو کتنے ہی منظر چٹخارے لیتے ہوے ہمارے ذوقِ انتخاب سے سرگوشیاں کرنے لگتے ہیں۔ ذوقِ خوش خوری ٗپر خوری تا دیر خور ی میں ایک شعر کی صحت کی پرواہ کے بغیر اعلان کرنا چاہوں گا
خاموش نہ بیٹھے گا دستر پہ جنوں میرا………….یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ میزباں چاک
جب جب دکن کے سوندھے سوندھے سالنوں کی مہک یادوں کے وسیع دستر خوان سے اُٹھنے لگتی ہے تب کہیں یاد کی روشن سطع پر ہانڈی میں طویل انتظارکے بعد پکنے والا سوندھا سالن اچانک عقیدے کا حصّہ بن جاتاتھا۔ تب ہر چیز محترم بلکہ مقدس سمجھی جاتی تھی۔ دراصل ہر علاقے کاپکوان نہ صرف چٹخارے کا موضوع ہے بلکہ متعالقہ خطّہ کا تہذیبی نمائندہ بلکہ مقامی جمالیات کا حسین مرقّعہ ہوتا ہے۔
ہمارے علاقوں کا مَٹیالہ سانولہ رنگ ٗمہکتے ہوے دستر ٗ راستے میں دَم بھر کو سستانے کیلئے چبوترے ٗ خوشبو وں کو حسنِ فطرت کے تازہ تازہ تحفے جیسے چمپا چمبیلی ٗ موگرا ٗ موتیا ٗ گلاب اور مٹی کے صحن کے کسی کونے میں مہکتی رات کی رانی ٗ گرمی کی رُتوں میں پوری شفقّتوں سے پانی کا چھڑکاؤ اور اسکی روح میں اُترجانے والی سوندھی سوندھی بُو۔ کورے برتن سے پجرتا ہو ا پانی جو صرف
لب و دہن کی پیاس نہیں بلکہ روح کے ہنگام کو بھی آسودۂ کردیتا تھا۔ کون ظالم ہوگا جسکو وطن کی نرم و نازک مٹی پر بوریا بچھا کر بزرکوں کی بلائیں لیتی ہوئی دعاؤں میں لیٹنے کے بعد بھی کوئی اورآرزو مضطرب کرکے اُٹھا دیتی ہو۔ بلکہ اِن معصوم منظروں کا چین پانے کی دُھن میں نہ معلوم ہمارے کاندھے ہجرتوں کا بار ڈھوتے ڈھوتے کتنا تھک جائیں گے پھر بھی اُسے نہ پاسکیں گے۔ سچ پوچھو تو ہم غیر شعوری طور پر برگر ا ور شاورما کلچرکا حصّہ بن چکے ہیں۔
ارے ہم وہ لوگ ہیں جو کھٹا کھا کر تلخئ حیا ت کو بھلادیتے تھے۔ کڑی کھا کر کڑی سے کڑی مشکلوں کے آگے سینۂ سپر ہوجاتے تھے۔وہ عالمی سطع پر رسواے زمانہ بیگن جس کو ہم نے سلیقہ سے بگھارکراُسکے تاج کی عظمت بحال کردی۔ جس سالن کو ہم دیوانی ہنڈی کہا کرتے تھے بلکہ شرما کر پیٹ بھرے مہمانوں سے چھپا کر کھاتے تھے ٗ اُس ڈش کو عالمی صحت کے ادارے نے ملی جھلی سبزیوں کی وجہ سے کئ امراض کا طلسماتی علاج ٹہرایا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ دِن جب ہم چند ایک دوست محلہ ’’اﷲبنڈہ ‘‘ (اﷲمیاں کا پتھر) کے بالائی حصّہ پر بلکہ کسی
بالائ بنڈہ پر بیٹھے بقراطی ؔ و افلاطونی ؔ بگھار رہے تھے کہ اچانک کسی جھونپڑی سے نکلنے والی دال کے بگھار کی مہک نے ہمیں
نظریات کے بلند و بالا بنڈے سے اُتارلیا۔ نہ معلوم آج وہ بگھار کی مہک کہاں گئ جبکہ یار لوگوں نے بڑے بڑے موضوعات کو بگھارنے کا فن ایجاد کیا۔جیسے امن مذاکرات ٗ دہشت گرد قوم اور دہشت گردی کا امکانی خطرہ ٗ نیوکلیئ توانائی کی بندر بانٹ اور انسانی حقوق وغیرہ وغیرہ۔
دکن میں ہم روکھی سوکھی کھا کر ربّ کی مُناجاتیں پڑھا کرتے تھے۔ اب سب کچھ کھاتے ہیں مگرمناجات کی جگہ شکوے نے لے لی ہے۔ اسی احساس کے تحت ہم اپنی محرومیوں کا شمار کریں۔ہمارے علاقوں کے مٹی کے مٹکے بلکہ (پیرپے) سے نکلنے والی انبیل اور ہریرہ تو جیسے من و سلویٰ تھا۔ موسموں کے انتظار کے بعد ملنے والے پھل کھاتے تو دُعاوں کے ثمر لگتے تھے۔ بلکہ غزلوں کی شعری فضاؤں سے تراشا ہوا معاشرہ جسمیں محبوب سے محبت ٗ محبوب کا انتظار اور……..غلبہ پاجانے کی آرزو محبوب اور میوں پر مشترک ہوتی ہے ۔….وہ ہری ہری آنکھیں دِکھاتا ہوا پھل جسکا نام اُردو والوں نے اپنے مزاج کے اعتبارسے کسی نور چشمی سلمہا کیطرح ’’شریفہ‘‘ رکھا ہے اورہندی والوں نے دیو مالائی اپسراؤں کی غذا بنا کر اسے ’’سیتا پھل ‘‘ کہکر پاک دامن بنا دیا۔جسے منہ گول گول کرکے کھاتے ۔اسی منظر کو جب باباے اُردو مولوی عبد الحق نے دکن میں قیام کے دوراں جب اختر حسئن راے پوری کی دُلہن محترمہ حمیدہ صاحبہ (بحوالہ کتاب ’’میرے ہمسفر‘‘) کو دیکھا تو بہو سمان دلہن کو پدرانہ شفقت سے ستانے کیلئے چلّا اُٹھے اور کہا ….ہاے ! ہاے !! اختر دیکھ تری دلہن کو لقوا ہو گیا ہے ۔ اسکا منہ دیکھ ..دیکھ ..لقوہ ہے۔لقوہ… اس سیتا پھل کو کھاتے ہوے اُسکے شوخ وچنچل بیج کرتب کا مزہ دے جاتے اور چند ایک دانے منہ کے ذریعہ گم نام جزیروں میں جاپہنچتے۔ گنے کی دس ہاتھ کی لمبی چھڑی جسکو ہم کھاتے کم بلکہ بھنبھوڑتے زیادہ تھے۔ وہ حوصلے آج دانتوں کے امراض کے ہتّے چڑھ گۂ۔ آم کھاتے ہوے ایسا لگتا تھا جیسے حق و باطل کی کشمکش میں گھر چکے ہوں۔ بلکہ دُشمن سے جہاد کررہے ہوں۔اور دشمن کی گردن مروڑ کر غازی کہلاے جارہے ہوں۔خدشہ ہیکہ کسی نے ہمیں آم کی ٹوکری کے ساتھ وہ کچھ کرتے دیکھ لیا ہو جسکی بنیاد پر ہمیں دہشت گرد کہاجارہا ہے۔ہاے ! وہ ایک پھل جو غلط پیاکینگ کی نذر ہوگیا ’’سنگاڑہ‘‘ ایشأمیں افریقہ کا تہذیبی سفیرلگتا ہے۔ وہ مُنجل جو چمپئ رنگ لئ تھرکتے پیکر سا جس کاچکنا چکنا سا بدن ہاتھوں سے چھوٹ چھوٹ جاتا تھا۔ جسکی سوندھی تربتر میٹھاس بیک وقت کھانے اور پینے کا شعور دے جاتی۔
ایک دلچسپ چیز تھی ’’گینگل‘‘نام تھا جسکا جسکی نسیں نہ صرف منہ میں مہک اُٹھتیں بلکہ دانتوں کی صفائی بھی کا مفت میں انتظام ہوجاتا۔مجھے ’’گینگل‘‘ کی پیداوار کی وجہ کبھی سمجھ میں نہیں آئی لیکن میں اُسے کھاتا اس لئے تھا کہ اسکا اور میرا رب مشترک تھا۔ اسلئے کھاتے ہوے اپنے پن کا احساس ہوتا تھا۔بالکل ہماری طرح مغز بھرا غیر تربیت یافتہ۔ سنجیدہ اور علمی حلقوں میں لوگ ’’گینگل‘‘ کا نام لیتے گھبراتے ہیں۔ ہاے ! اچانک کیا چیز یاد آگئ ’’ہری بوٹ‘‘ جب جب کھاتے آس پاس کے مقّدس بکرے عقیدے کے اختلاف کے باوجود ہم نوالہ ہوجاتے جیسے خواجہ کا بوکڑ ہمارے ساتھ ہوجاتا۔ وہ ایک جانب سے کھاتا اور دوسری جانب سے ہم شوق فرماتے۔ تب ہی ہمیں یہ بات سمجھ میں آگئ تھی کہ مسلکی اختلافات کو ختم کرنے کیلئ کم از کم اتنا تو تال میل ضروری ہے جتنا بوٹ کھاتے ہوے ہم میں اور بوکڑ میں تھا۔ بوکڑ کی وسیع المشربی نے ہمیں یہ پٹّی پڑھائی کہ بوٹ کھاتے ہوے غیرموجود کیڑے ڈھونڈنے (یعنی ساختیات و پس ساختیات) والی تنقیدی بصیرت سے کھانے کی فطری تخلیقی رفتاررک جاتی ہے۔ جبکہ شائدبوٹ کھانے کی وجہ سے یار لوگوں کو چبا چبا کر بات کرنے کی عادت ہوگئ ہے۔ بلکہ بڑے عہدوں والی چھوٹی شخصیات کی علمی باتیں سُن کر ایسا لگتا ہے جیسے بُوٹ کھا رہے ہوں۔ ایک اور پھل ’’بیر‘‘ جو خواتین کی داخلی سازش کا شکار ہوگیا۔ نہ جانے کیوں وہ ایک نسوانی پھل ہوکر رہ گیا جیسے ’’زن مرید شوہر‘‘ ۔ایک اور بھوک شکن توپ کے گولے ہوتے تھے ٗ اچھا بھلا نام تھا اسکا’’غپچپ‘‘۔ غپچپ کھاتے اور چپ چاپ ہوا خوری کیا کرتے۔ یار لوگوں نے اس کو پانی پوری کہ کر اُسکے صوتی ہلچل و ہنگام کو چپ کروادیا۔ ساتھ ہی تجربہ کارچٹورے گواہی دینگے کہ بیراور طوطاپری کیری کھانے کی آرزو یکساں ہوتی ہے۔ طوطاپری کے سجیلے ٹکڑے نمک مرچ کو اپنے بدن پر مل کر جب ہمارے منہ کے اکھاڑے میں اترتے ٗتب کھٹے کے دَباؤ سے بھری محفل میں ایک آدھ آنکھ بھی بند ہوجاتی تھی جس پر بعض لوگ ہماری اخلاقی صحت پر شک کرتے تھے۔ بچپن کی بادشاہت میں جتنا آنسوں ٹیکس ہمیں ملتا ہم اسکو کھوپرے کی مٹھائی ٗ ادرک کا مربّہ ٗ ابلے ہوے رتالو وغیرہ پر خرچ کرتے۔کبھی کبھی گولی والا سسکیاں مارتا ہوا سوڈا جسکی آوازپر ہم خوشی سے چیخ پڑتے ٗ کچّی عمر میں سوڈا پیا نہیں جاتا تھا لیکن سوڈے والے کی تیز آنکھوں سے لرزکر گھونٹ گلے سے اُترنے لگتے ٗ غالباً زندگی کے کڑوے گھونٹ پینے کا چسکا اسی عمر میں لگتا ہوگا۔ ایک اور پھل جو باہر سے چٹّان کی طرح سخت اور اندرسے مخمل کا خزانہ تھا۔ہاں ! اُسے کویٹ کہتے تھے ۔ بڑا مومنانہ بلکہ صوفیانہ مزاج تھا اُسکا۔ اُردو کے عظیم شاعروں کے دواوین پڑھ کریوں لگتا ہے کہ اُنھوں نے کویٹ کھا کر ہی شاعری کی ہے۔اِسکے علاوہ تِل کے لڈّو جب کھاتے تو دکنی ڈھولک کی تھاپ اور دل پذیر گیتوں کی دھمک دانتوں سے سُنائی دیتی تھی۔ اُس زمانے میں کھلونوں سے کھیلنے کا نہیں بلکہ کھلونوں کو کھاجانے کا تصور تھا۔ جس کاثبوت وہ ہاتھ گھڑی تھی جسے جب تک چاہا دیکھا پھر گھڑی کے سہارے سے وقت کے لطیف احساس کو اپنے معصوم ذہن میں اُتارا ٗ پھروقت کو مُٹھیوں میں بھینچ لینے کی آرزو میں رنگین گھڑی کی مٹھاس کو چوس لیا۔
دکن کی سطع مرتفع پر بارش کا اپنا ایک فطری حسن ہوتا ہے۔ جہاں ہلکی سے پھوار پر نمکین مونگ پھلی کا اہتمام ہوتا۔ پھلی یوں لگتی جیسے
آج ہی نہا دھوکربزم میں پہنچی ہو۔ رمضان میں اُبلی ہوئی چنے کی دال کھاتے ہوے روزوں کی قبولیت کا احساس ہوتاتھا۔جب کہ آج
سارے دستر خوان بحری ٗ برّی اور فضائی گھیراؤ سے میوزیم نظر آتے ہیں۔لیکن روزوں کی قبولیت مشکوک رہتی ہے۔
مشرقی غذاوں اور مغربی چٹورے پن میں ایک نمایاں فرق معصوم ذہنوں میں جمالیاتی قدروں کا نفوذ ہوتاہے۔اسی سچا ئی کو ہم
بچپن میں ہی پاگے تھے ۔ جب جب کمرگھٹ کھاتے اور کمرِہمت باندھنے کا عزم کرتے۔ دلہن پٹّی کھاتے تو بچوں کو مٹھائی کا مزہ
ملتا اور بڑوں کو نام رعنائی وحرارت سے رال ٹپک جاتی۔ دُعائں دیجئے اُس تجارتی شعور کو جواپنی چیزوں کو قدروں سے جوڑ رکھا ہے۔گلبرگہ کے ماموں کی مٹھائی جب جب کھاتے تب تب اپنے ماموں سے اورمحبت کرنے لگتے۔ یہاں تک کہ وہ گھر سسرال میں تبدیل ہوجاتا۔ بڈھی کا بال کھاتے ٗ گھروں کی بڑی بوڑھیوں پر جان نچھاور کرتے۔ جب جب طبعیت زیادہ شوخی پر اُتر آتی تو کسی مشّاق ہاتھوں کا چاکنہ کھایا جاتا ٗ نہ جانے کیوں اس شوخ ڈش کا سماجی رُتبہ کم ہے۔یہ چاکنہ ہمیں بڑا تڑپاتا تھا۔ یہ ڈش ہمیں وہاں وہاں ملتی تھی جہاں جاکر آدمی خود چاکنہ ہو جاتا ہے۔
ہاے ! ہم سے ہمارا شہر کیا چھوٹا ہمارے بچپن کی بادشاہتیں چھن گئں لیکن اُسے یادوں کے جریزوں میں ہمیشہ آباد رکھیں گے جہاں کسی شناختی کارڈ اوراقامہ کی کوئی شرط نہیں ۔
One thought on “طنز و مزاح : بچپن کی بادشاہت ۔ @۔ نعیم جاوید”
آپ تو خالص حیدرآبادی نکلے ۔ مبارک
تنویر احمد
کرلا