بچوں کی کہانی : جادو کی روٹیاں
محمدعبدالمجید صدیقی
ٹولی چوکی ۔ حیدرآباد۔دکن
کسی زمانے میں ایک گاؤں میں ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام ساجد تھا۔وہ اپنی ماں کے ساتھ ایک چھوٹی سی کٹیا میں گزر بسر کیا کرتا تھا۔اس کی ماں چھوٹے موٹے گھریلو کام کرکے اس کی پرورش کرپارہی تھاجبکہ وہ اسکول کے اوقات کے بعد کچھ محنت مزدوری کر لیا کرتا تھا۔کچھ دن پہلے اس کا باپ ایک حادثے کا شکار ہو کر چل بسا تھا۔
ان دونوں ماں بیٹے کی زندگی بہت زیادہ خوش حال تو نہ تھی۔ساجد گاؤں کے اسکول میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔وہ دل لگا کر پڑھتا اور اساتذہ کا ادب کرتااور کوشش کرتا کہ وہ اچھے درجے سے کامیاب ہو۔جماعت کے دوسرے ہونہار لڑکوں کے ساتھ اس کا شمار ہوتا تھا۔وہ بہت نیک اور اچھے عادات و اطوار کا لڑکا تھا۔ نمازوں کی پابندی کرتا اور پڑوسیوں اور محلے کے دوسرے بزرگوں کی وہ اکثر مدد بھی کیا کرتا تھا۔ کبھی کسی کا سودا سلف لاکر دے دیتاتوکبھی کسی ضعیف اور چھوٹے بچوں کو سڑک پار کروا دیتااور کبھی کسی بزرگ کے خطوط اور دوائیں لے آتا۔اس محلے کے سبھی لوگ اسے بہت چاہتے تھے۔ایک دن اس کے گھرایک سائل آیا تو ا س نے اسے پیٹ بھر کر کھانا کھلایااور اسے سڑک کے دوسری جانب راستہ بھی پار کروادیا۔
پھر اس دن ساجد نے ماں کی بھی بہت خدمت کی اور اس کے کام میں ہاتھ بھی بٹایا۔جب رات کو وہ سویا تو وہ کیا دیکھتا ہے کہ ایک انتہائی نورانی شکل کا فرشتہ اس کے خواب میں آیا ہے اور اس نے ساجد سے پوچھا کہ ’’تمہیں کیا چاہیے‘‘ ۔اس فرشتے نے مزید کہا کہ تم اللہ تعاٰلی کے ایک نیک بندے ہو اور تم اللہ سے مانگو کیا مانگنا چاہتے ہو؟۔ساجد کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس نورانی فرشتے سے کیا مانگا جاے جبکہ وہ اس فرشتے سے کچھ بھی مانگ سکتا تھاجیسے سونا‘ چاندی‘ ہیرے جواہرات مگر اسے اس وقت بہت بھوک لگ رہی تھی‘ اس نے اس فرشتے سے فوری کہا مجھے دو روٹیاں چاہیے۔پھر کچھ ہی دیر میں فرشتے نے انتہائی لذیذ گھی میں تر بتر دو روٹیاں ساجد کو پیش کردیں اور پھر خاموش کھڑا رہا۔ساجد نے اس فرشتے سے پوچھااگر یہ روٹیاں ختم ہو جائیں تو پھر میں کیا کروں۔؟ اس وقت اس فرشتے نے نہایت ادب سے اسے جواب دیا کہ جب وہ روٹیاں تم اور تمھاری ماں کھا چکیں تو تھوڑا سا پانی ایک چھوٹے سے روٹی کے ٹکڑے پر چھڑک دینا اور خدا سے دعا کرنا کہ ’’ اے اللہ تو میرے رزق کا بندوبست کر اور اپنی رحمت سے مجھے اور میری ماں کو پیٹ بھر کھلا۔تب وہ روٹیاں خدا کے فضل سے ثابت وسالم بن جائیں گی اور تم پھر کھا لینا ۔‘‘
اس طرح ساجد اور اس کی ماں کی مالی مشکلات اور رزق کی تنگی آہستہ آہستہ خوشحالی میں بدلتی گئی۔ساجد کے دوستوں اور اس کے عزیز وں میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ آخر ان لوگوں کی خوشحالی کا راز کیا ہے۔ساجد کے دوستوں نے بھی اس سے کئی دفعہ استفار کیا کہ آخر کیا بات ہے آپ لوگ کچھ آہستہ آہستہ خوشحال نظر آرہے ہو۔لیکن ان ونوں نے اس کا کسی کو بھی کچھ جواب نہیں دیا۔
ایک دن ساجد کے دوست عابد نے اسکول ختم ہونے کے بعد چھپ کر ان روٹیاں کی کرامات کو دیکھ لیا اور پھر جس کپڑے میں وہ روٹیاں لپیٹ کر اوپر رکھ دیا کرتے تھے اسے ہی چرانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ایک دن جب ساجد اور اس کی ماں اپنے ماموں کے پاس قریبی گاؤں میں ملنے گئے تھے۔تب عابد اور آصف نے اپنے پلان کو عمل میں لایا ۔ان دونوں نے وہ روٹیاں چرا کر اپنے گھر لالیں اور خوب مزے سے کھا لیں لیکن انہیں یہ خیال نہ رہا کہ ایک چھوٹا سا ٹکڑا چھوڑ کر اس پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جائے اور دعا کی جائے چونکہ یہ بات صرف ساجد اور اس کی ماں کو ہی معلوم تھی۔پھر شام کو جب ساجد واپس اپنی ماں کے ساتھ گھر آیا تو اس نے وہاں وہ روٹی کا توشہ نہ پاکر بڑا پریشان ہوا اور اِدھر اُدھر تلاش کرنے لگا۔
اِدھر ساجد کے دوست پریشان تھے کہ کس طرح شام کی روٹیاں کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ناچار انہوں نے ساری بات ساجد سے آکر کہی اور ساجد سے اس چوری کی معافی چاہی۔پھر ساجد نے اس کپڑے کو لیکر بند کمرے میں دوستوں کو باہر بھجوا کر دعا کی اور کچھ روٹی کے چھوٹے ٹکڑے جو کپڑے پر لگے تھے ان پر پانی چھڑکا‘ پھر اللہ کی رحمت سے اسے دو روٹیاں صحیح و سلامت مل گئیں اور اس نے اپنی ماں اور دوستوں کے ساتھ اسے کھا لیا اور خدا کا شکر ادا کیا۔