قرۃ العین حیدر اور پروین شاکر کے بیچ رنجش
ڈاکٹررؤف خیرؔ
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل :09440945645
اردو ادب میں خاتون قلم کاروں کی پذیدائی جی کھول کر اور بانہیں پھیلا کرکی گئی ہے مگر اس کے لیے ان خواتین کا بے باک ہونا شرط اول ہے ۔عصمت لحاف سے باہر نکل کر ٹیٹرھی لکیر پر چل پڑتی ہیں۔رشید جہاں انگار ے ہاتھوں میں لینے کا حوصلہ رکھتی ہیں وہیں انھی انگاروں سے فہمیدہ اور رضیہ سجا د ظہیر کے ساتھ ساتھ یکے از زیدیان اپنے سگریٹ سلگاتی ہیں اور ان کا ساتھ دینے میں تسلیمہ ’’لجا‘‘محسوس نہیں کرتیں۔کشور کشائی میں اک غیرت نا ہید نے اپنی بری کتھا لکھنے میں کوئی عار نہیں سمجھا یا پھر کوئی بانو اپنے دستر خوان کے ذریعے مشہور و ممتاز سمجھے جانے والے ادیبوں شاعروں ناقدوں کو نان و نمک پیش کرکے ایوان ادب میں داخل ہوتی ہیں،مشاعرہ باز متشاعرات کا ذکر ہی یہاں مقصود نہیں کہ یہ زیر یں لہر صرف متنظمین مشاعرہ اور عوام کو متاثر کرتی ہے اوران کی زلف سخن خاصان’’ نظم‘‘کے شانوں پراورعامیانِ غزل کی آنکھوں پر لہراتی ہے۔
مگر بعض ایسی ٹھوس قلم کا ر خواتین بھی ہیں جنہوں نے اپنے قلم کا لوہا منوایا ہے انھی میں قرۃ العین حیدر اور پروین شاکر بھی ہیں۔قرۃالعین حیدر ۲۰ ،جنوری <۱۹۲ء کو علی گڑھ میں اپنے زمانے کے منفراد یب سید سجاد حیدر یلدرم کے گھر پیدا ہوئیں (ان کی پیدائش کے سال میں اکثر رسائل نے اختلاف کا اظہار کیا ہے کہیں ۱۹۲۶ء تو کہیں ۱۹۲۸ء بھی چھپا ہے )روشن خیال آزادہ رو خاندان کی فرد ہونے کے باوجود انھوں نے اپنے قلم کو شتربے مہار ہونے نہیں دیا ۔مغربی تہذیب کی دلدادہ ہونے کے باوجود نہ وہ ’’اوہ امریکہ‘‘ ․․․․․․کہتی ہیں نہ اپنی عنبریں کی نتھ اترواتی ہیں نہ کسی کردار کو اترن پہنا کر لطیفے کو کہانی بناتی ہیں ان کی چاندنی بیگم چائے کے باغ کے کنارے ہاؤسنگ سوسائٹی میں گردش رنگ چمن پر گہری نظر ڈالتی ہیں توکبھی ستمبر کے چاند کا لطف لینے کے لیے سفینہء غم د ل میں بیٹھ کر آخر شب کے ہمسفر کے ساتھ آگ کا دریا پار کرنے کی کوشش کرتی ہوئی جہانِ دیگر پہنچتی ہیں ۔
اردو ادب میں علامہ اقبال سے زیادہ پڑھا لکھا شاعر نہ پیدا ہواہے نہ ہوگا اسی طرح قرۃ العین حیدر سے بڑی ادیبہ نہ ہوئی ہے نہ ہوگی ۔
قرۃ العین حیدر کی علمیت کا اعتراف نہ کرنا اپنی لاعلمیت کا ثبوت دینا ہے ۔ان کی تعلیم لکھنو ء، سے لے کر کیمرج یونیورسٹی اور لندن کے مایہ ناز اسکولوں میں ہوئی ۔ظاہر ہے یہ سار ا پس منظر ان کا مزاج بنانے میں اپنا حصہ ادا کرتا رہا ہے اور پھر انھیں اپنے معیار پر پورا اترنے والا کوئی فرد
ملا ہی نہیں اس لیے انھوں نے زندگی کا سفر تنہاہی طے کرنے کی ٹھانی ۔اسی لیے مزاج میں خود سری (DOGMATISM)تھی ۔
مکمل مضمون پی ڈی ایف میں پڑھیں
Dr. M.A. RAOOF KHAIR,
9-11-137/1, Moti Mahal,
Golconda, Hyderabad – 500008 A.P.
Contact No. : 09440945645
Email :