ناول نالہ شب گیر سے اقتباس
مشرف عالم ذوقی
تصویرہاتھ میں لیتے ہی میں ہنس پڑی تھی۔ یہ پاپا کے کوئی دوست ہیں کیا…… نہیں، کم از کم جیجو مجھ سے اتنا برُا مذاق نہیں کرسکتے۔ جیجو کے گھر سے باہر آنے کے بعد بھی میں جیجو کے لئے ذرا بھی خفا نہیں تھی۔ یقینا وہ سب سے زیادہ مجھے پہچانتے تھے۔ اور میرے لئے سب سے زیادہ جنگ بھی، وہی لڑتے تھے اور خاص طور پر ایسے موقع پر، جب کمرے میں یکایک کالی کالی بدلیاں چھا جاتیں…… پھر جیسے تیز تیز آندھیوں کا چلنا شروع ہو جاتا۔ نہیں، میں نے تصویر دوبارہ دیکھی…… اور اچانک چہرے کا طواف کرتی آنکھیں داغ کے نشان کے پاس آکر ٹھہر گئیں۔ ہونٹ کے نیچے کا حصہ…… تصور اور خیالوں کی وادیوں میں، بوسے کے لئے سب سے خوبصورت جگہ۔ میں تو اس جگہ کا بوسہ بھی نہیں لے سکتی۔ میں ہنس رہی تھی۔ پاگلوں کی طرح ہنس رہی تھی۔ کمرے میں دھند بڑھ رہی تھی۔ شاید باہر جیجو، بجیا اور نادر بھائی نے میرے ہنسنے کی آوازیں سن لی تھیں……
’صوفیہ۔‘
دروازے پر تھاپ پڑ رہی تھی۔
نادر غصے میں تھے…… ’دروازہ کیوں بند کرلیتی ہو۔‘
بجیا کی آنکھوں میں ایک لمحے کو ناگواری کے بادل لہرائے……’ہم نے ابھی رشتہ منظور کہاں کیا ہے۔ صرف تم سے رائے پوچھی ہے……
’نہیں۔ وہ…… کیڑا۔‘
دروازہ کھولتے ہوئے میری آنکھیں وحشت میں ڈوبی تھیں— جیجو نے سہارا دیا— صوفے تک لائے— کچھ ہی دیر میں مکالمے بدل گئے۔
’مگرکیڑا……‘
نادر نے بجیا کی طرف دیکھا— ’کیڑے بڑھ گئے ہیں۔ کیوں۔ رات بھر کاٹتے رہتے ہیں۔ دوا کا چھڑکاؤ کرو۔ یاگڈ نائٹ لگاؤ۔ مگر کیڑے نہیں بھاگتے……‘
بجیا یعنی ثریا مشتاق احمد نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ ہونٹوں پر ایک طنز بھری مسکان تھی۔
’آپ یقین جانیے،کوئی تھا۔ جو دیواروں پر رینگ رہا تھا۔ ایک دم سے کمرے کی دھوپ اُتر گئی۔ تاریکی چھا گئی …… کمرے میں کہا ں سے بھر گئے اور…… میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر…… میں نے دیکھا…… جیجو آہستہ آہستہ میری طرف دیکھ رہے تھے— پھر اُن کے ہونٹوں پرایک مصنوعی مسکراہٹ داخل ہوئی—
’ایک ستارہ آئے گا……‘
’’ستارے آسمان سے آتے آتے لوٹ گئے……‘‘ یہ بجیا تھی۔
’’ہاں، لیکن گھبراؤ مت، ایک ستارہ آئے گا اور یوں اچھل کر تمہاری جھولی میں جاگرے گا……‘ یہ جیجو تھے— ہونٹوں پر ہنسی۔ پھر وہ تمہاری آنکھوں میں، کبھی ہونٹوں پر آکر چیخے گا…… یہ میں ہوں۔پاگل۔ پہچانا نہیں مجھے۔ تمہاری قسمت کا ستارہ……
’اُس کے چہرے پر دھوپ بہت تھی۔ تم نے دیکھا نا‘—بھائی نظر نیچی کئے بہن کو ٹٹول رہا تھا۔
’’میں جگنو تلاش کرنے گئی تھی۔ راستہ بھٹک گئی—‘یہ وہ تھی۔ اُس کی آواز اندر کے روشن دان سے بلند ہوئی اور اندر ہی اندر گھٹ گئی۔