شوکت علی مظفر سے مکالمہ ۔@-ابن عاصی

Share

شوکت علی مظفر

مکالمہ ۔

شوکت علی مظفرسے مکالمہ

از۔ ابن عاصی

ادبی دنیا میں خاص کر طنز و مزاح کی صنف میں شوکت علی مظفر کا نام کوئی نیا نہیں۔گل و خار، قلم زوریاں، رنگین مزاح، کہانی گھر گھر کی آپ مقبول مزاحیہ کتابیں ہیں۔ ’’گل و خار‘‘ کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کرنے والے مصنف نے ریڈیو کا رخ کیا اور پھر اس کے فوری بعد ٹی وی پر توجہ دی۔ پی ٹی وی پر متعدد دستاویزی فلمیں لکھنے کے علاوہ بکرا عید کا مزاحیہ کھیل’’ہم ہوئے قربان‘‘ اور ڈرامہ سیریل’’قصہ چار جاسوس‘‘ لکھا۔ ان دنوں آپ کا تحریر کردہ سوپ سیریل’’چڑیوں کا چمبا‘‘ ہم ستارے ٹی وی پر آن ایئر ہے۔ آئیے آج اسی حوالے سے شوکت علی مظفر سے گفتگو کرتے ہیں:

س:سب سے پہلے تو یہ بتائیے کا ڈائریکٹر شعیب صدیقی کے ساتھ کام کا تجربہ کیسا رہا؟
ج:اچھے لوگوں کے ساتھ کام کا تجربہ یقینااچھا ہی نکلتا ہے۔ پھر شعیب صدیقی صاحب سینئر ڈائریکٹر ہیں جن کا پچھلے دنوں اُردووَن ٹی وی پر ’’ڈھیلی کالونی‘‘ چلا تھا جبکہ اس سے پہلے بھی لاتعداد پروگرام آپ کے کریڈٹ پر ہیں۔
س: کہانی کے بارے میں مختصر بتائیے ؟
ج: کہانی آئیڈل ازم کے گرد گھومتی ہے کہ اب خوشی کا مقصد محض پیسے کو سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ اگر لائف پارٹنر اچھا ہو تو زندگی اور زیادہ آسان ہوجاتی ہے۔اسی مسئلے کو لے کر کہانی آگے بڑھائی گئی کیونکہ لڑکیوں کی ماں بھی اپنے وقت یہ تجربہ کرچکی اسی لیے چاہتی ہے کہ اس کی بیٹیاں اس مسئلے سے دوچار نہ ہوں۔
س:تو کتنی اقساط کا پر مشتمل ہے یہ ڈرامہ؟
ج:فی الحال تو 100اقساط تک محدود ہے۔ناظرین کی پسند اسے آگے بڑھانے کا فیصلہ کرے گی۔
س:آپ کے ڈرامے میں بھی روایتی ڈراموں کی طرح ہیروئن روتی پیٹتی نظر آئے گی یا کچھ ہٹ کر ہے؟
ج:غم اور خوشی تو سب کی زندگی کا حصہ ہے لیکن ’’چڑیوں کا چمبا‘‘ میں ہیروئن بھی ہنسی مذاق کرتے ، بہنوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے دکھائی دے گی البتہ جہاں اسے مسائل آئیں گے تو وہ یقینا روتی بھی نظر آئے گی البتہ بلاوجہ رونے دھونے سے پرہیز کیا گیا ہے تاکہ ناظرین کو مثبت تفریح کے ساتھ ساتھ پیغام بھی مل سکے۔
س:اب تک کا ریسپانس کیا رہا ہے؟
ج:الحمدﷲ ، میری توقع سے بڑھ کر پذیرائی مل رہی ہے۔ جہاں ڈراموں کا ڈھیر لگا ہو، انڈین ڈراموں کی بھرمار ہو وہاں ناظرین کی بڑی تعداد کو اپنے ڈرامے کی طرف راغب کرلینا ، میں سمجھتا ہوں بڑی کامیابی ہے۔
س:اس میں آپ کا کمال ہے یا پھر اداکاری کو کریڈٹ دیں گے ؟
ج:ڈرامہ ہو یا فلم۔۔ وہ کسی ایک کی کامیابی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے تو اس کی بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔اس میں سب لوگوں کی محنت شامل ہے۔ اداکار بھی محنت کررہے ہیں، ڈائریکٹر صاحب کی بھی گرفت ہے۔
س:اپنی کہانی کا معاملہ گول کرگئے، کچھ تو گڑ بڑ ہے۔؟
ج:گڑ بڑ کوئی نہیں، اب اپنے منہ سے اپنی تعریف کیا کرنا۔ ویسے بھی ڈرامہ درحقیقت کہانی پر ہی مبنی ہوتا ہے۔ کہانی جاندار ہے، جملے شاندار ہیں تو اداکار بھی دل سے کام کرتے ہیں۔
س:کاسٹ میں کون کون ہے؟
ج:ویسے تو کاسٹ کی طویل فہرست ہے لیکن نمایاں ناموں میں راشد فاروقی، صباحت بخاری، عدنان شاہ ٹیپو، حرا شیخ، فضائلہ لاشاری، جویریہ اجمل،انعم عقیل ، رضوان جعفری اور شگفتہ یاسمین وغیرہ ہیں۔
س:بعض لکھنے والوں کو اپنے کچھ کردار زیادہ اچھے لگتے ہیں تو کوئی ایسا کردار جسے آپ تحریر میں خاص اہمیت دیتے ہوں؟
ج:ہوتا ہے، بعض کردار اچھے لگتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی وجہ سے کہانی کو ڈسٹرب کیا جائے۔
س: کالم نگار ی سے ڈرامے تک کا سفر کیسا رہا؟
ج:بہت اچھا۔ ہر جگہ کی اپنی اہمیت ہے جیسے الیکٹرونک میڈیا سے آپ بہت دور تک بات پہنچا سکتے ہیں جبکہ کتاب میں دیر تک بات محفوظ رہتی ہے۔
س:ڈرامہ لکھنا کہاں سے سیکھا؟
ج: باقاعدہ تو نہیں سیکھا لیکن جس طرح اچھا لکھنے کیلئے پڑھنا ضروری ہے اسی کلیے پر ڈرامے دیکھے اور بہت باریک بینی سے دیکھے اور پھر لکھتے لکھتے لکھنا آہی گیا۔ کچھ کمی اور خامیاں تھیں تووہ ساتھ ساتھ دور ہوتی چلی گئیں اور اب بھی میں ڈرامہ نویسی کے فن کو سیکھ رہا ہوں، کیونکہ ابھی یقینا بہت سی ایسی باتیں ہوں گی اس حوالے سے جو میرے علم میں نہیں آئیں۔
س: کیا ’’چڑیوں کا چمبا‘‘ خالص سنجیدہ ہے یا پھر طنزو مزاح پر مبنی ہے؟
ج:مکس ہے۔ ضرورت کے مطابق کہیں مزاح غالب آجاتا ہے اور کہیں سنجیدگی رنگ دکھانے لگتی ہے۔ کوشش کی ہے کہ زندگی کے وہ تمام رنگ دکھائیں جو حقیقت میں ہیں۔ تمام کردار ہمارے اِرد گرد کے ہیں، مسائل ہمارے اپنے معاشرے کے ہیں۔
س:مسائل سے مُراد؟کیا آئیڈل ازم؟
ج: آئیڈل ازم کو اگرچہ اولیت دی گئی ہے لیکن ساتھ میں دوسرے مسائل کو بھی ساتھ ساتھ لے کر چلیں ہیں جیسا کہ بڑی عمر کے افراد کی شادی کو ہمارے ہاں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ کہانی کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ لڑکیوں کی بیوہ ماں(صباحت بخاری) کی شادی لڑکیوں سے پہلے کروائی جاتی ہے اور تینوں بیٹیاں خود چاہتی ہیں کہ ماں شادی کرلے اور اس حوالے سے وہ اپنی ماں کو نہ صرف بھرپور اعتماد فراہم کرتی ہیں بلکہ باپ(راشد فاروقی) کو وہی عزت و مرتبہ دیتی ہیں جیسا کہ سگے باپ کا حق ہے جس سے متاثر ہوکر ان کا سوتیلا باپ حد سے بڑھ کر بیٹیوں کو خیال کرنے والا بن جاتا ہے اور لڑکیوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کا فیصلہ اچھا تھا۔

Share
Share
Share