ڈاکٹرقطب سرشار کا تخلیقی سفر۔@-پروفیسراشرف رفیع

Share
پروفیسراشرف رفیع
پروفیسراشرف رفیع
ڈاکٹرقطب سرشار
ڈاکٹرقطب سرشار

ڈاکٹر قطب سر شار کا تخلیقی سفر- نصف صدی کے تناظر میں

پروفیسر اشرف رفیع
سابق صدر شعبۂ اُردو، جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد

قطب سرشارؔ ، ادیب، شاعر، محقق، نقّاد، مترجم ، ادارہ ساز، مُعلم زبان و ادب ، قرآنی تعلیمات کے ذمہ دار مفسر کی حیثیت سے علمی و ادبی دنیا کے لیے ممتاز و مقبول نام ہے۔اس ہمہ جہت شخصت نے نام و نمود کی پرواہ کئے بغیر زندگی کے بے پناہ نشیب و فراز سے گذرتے ہوئے اپنے آپ کو قلم و قرطاس سے جوڑے رکھا ہے۔بہ حیثیت شاعر ان کے چار شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کے پہلے مجموعے ’’انفس وآفاق‘‘ کے بعد ’’اوراقِ تازہ‘‘، ’’اظہار‘‘ اور ’’اصباح‘‘ کے مطالعہ سے ان کی شاعری ، فکری توانائی خیالات کا تنوع اور الفاظ کے تخلیقی برتاو سے ان کی وہبی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں نہ میر کی آواز سنائی دیتی ہے اور نہ غالب کی بازگشت، نہ اقبال کی گونج، پھر اوروں کا توذکر ہی کیا ! انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں نظمیں بھی ۔ترائیلے اور ہائیکو کو بھی غزل اور نظم ان کے شعری سرمائے کے فطری دھارے ہیں ۔ان کی شاعری تازہ بہ تازہ نوبہ نو رُو نما ہونے والے عصری مسائل کی نقیب ہے۔ ان کی شاعری میں عصری حسّیت ہے، جو دراصل ان کے عملی انداز فکر کی توسیع ہے۔

ہماری زندگی میں رنگ فاقہ
تمہارے پاس سونے کا خدا ہے
بارش سنگِ جہالت ہے عذابوں کا سفر
سرنگوں لگتا ہے دانش کا مقدر دیکھو
بکنے کا ہے شعور نہ ذوقِ خرید ہے
بے سمت زندگی کا ہر ایک پل و عید ہے
قطب سر شار ؔ کے کلام میں درد کی ایک زیریں مگر پُر کشش لہر ملتی ہے۔ اپنوں کے ستم، غیروں کے کرم انسانی تجربات کے آئینے خانہ میں عجیب اور غیر متوقع صورتیں اُبھارتے ہیں،کہتے ہیں:
مشہور تھیں زمانے میں دل کی حرارتیں
کرب طلب نے ساری توانائی چھین لی
کتاب تھامے ہوئے ہے ہر ایک شخص یہاں
میں سوچتا ہوں کسے صاحبِ کتاب کہوں
قطب سرشارؔ غیر معمولی حسّاس انسان ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے لہجے میں طنز کی تیزی اور احتجاجی انداز چونکا دیتا ہے۔ انھیں خود بھی اس کا احساس ہے ، کہتے ہیں:
زبانِ حال سے تو احتجاج کرتی ہے
صعوبتوں کی تماشائی بے زبان کی آنکھ
سوچ کے زہر سے ہے کاسۂ دانش لبریز
کوزہ ٔ دل ہوابے مہر و وفا خالی صدف
جولائی 2012ء میں ماہ نامہ’’شاعر‘‘ممبئی نے قطب سر شار پر ایک خصوصی شمارہ نکالا تھا۔’’فنکار اب بھی مستورہے‘‘ کے معنی خیز عنوان سے مدیر شاعر افتخار امام صدیقی نے قطب سر شار سے انٹرویو لیا تھا۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر قطب سر شار نے ایک بنیادی جذبے کی صداقت اور گرفت پر بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ’’عشق ہر حساس انسان کی خطر ناک کمزوری ہے، آپ کے ہاں عشق سے مرادحسن مقابل سے قلبی رشتہ ہے تو ہم بھی اس طوفان بے پناہ سے گذر چکے ہیں‘‘۔لیکن ان تجربوں کو اپنی شاعری سے دور رکھا پتہ نہیں کیوں۔ شاید اس لیے ان کی یہاں کہنے کو اور بہت کچھ ہے۔ا سی جذبے اور طوفان کا رُخ موڑ کر انھوں نے اسے معتبر اور مقدس بنا دیا ہے۔ اس پاکیزہ انحراف کی کچھ جھلکیاں ملا حظہ ہوں:
بے حجابانہ جہاں حسن کا پیکر دیکھو
مشقِ لذّت نہ کرو حفظِ نظر کر دیکھو
حسن نظارہ نہ آلودہ کہیں ہوجائے
ذوقِ نظّارہ سے پہلے پس منظر دیکھو
اوپر پیش کردہ اشعار کی ردیف سے اس کا قوی امکان ہے کہ شاعر پر واعظ اور ناصح کا لب و لہجہ اُتر آئے مگر پوری غزل اس گراں بار لہجے سے بچ کر انفس و آفاق کے مظاہر کی طرف قاری یا سامع کو متوجہ کرتی ہے۔ یہی ایک غزل نہیں ایسے کئی مقاماتِ فکر وآگہی ان کے کلام میں روشنی بکھیرتے ہیں ، جیسے:
مظہر خوئے بہائم ہے یہ تہذیب نوی
طرح شائستہ حماقت ہے یہاں پر دیکھو
بارشِ سنگِ جہالت ہے عذابوں کا سفر
سرنگوں لگتا ہے دانش کا مقدردیکھو
سرشارؔ کے قلم میں تخلیقی و فور کی آب و تاب ہے۔ وہ لفظوں کے پارکھ ہیں۔ الفاظ کی فنی اور لسانی وسعتوں ، خوبیوں اور خامیوں سے واقف ہیں۔ فارسی اور فارسی سے زیادہ عربی لفظیات ، ضرب الامثال اور تلمیحات ان کے اسلوب کی شناخت کا ایک وسیلہ ہیں۔ صاحب طرز شاعر ہیں۔ اپنے لب و لہجہ اور لفظوں کے انتخاب ان کے دروبست سے ایک معیار بناتے ہیں جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں:
جس گھڑی فکرِ رسا محوِ عبادت سی ہوئی
با ادب پیچھے کھڑی ہوگئی الفاظ کی صف
وسعتِ نظر، مطمح نظر اور خیال آفرینی مضامین کا تنوع انھیں اہم عصر شعراء کی بھیڑ سے الگ کرتا ہے۔ علمی و عالمانہ رنگ ، عرفانی و منطقی ربط نہ صرف ان کی شخصیت کا جز ولا ینفک ہے بلکہ ان کی تحریروں کا طرّۂ امتیاز بھی ہے۔ ماہ نامہ’’شاعر‘‘ کے مدیرنے ان پر ایک خصوصی شمارہ نکال کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ اس شمارے میں قطب سر شار سے مدیر کا محاسبہ ہے جس میں قطب سر شار نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کے اشعار ضرب المثل نہیں ہیں۔ زبان زرِ خاص و عام نہیں ہیں۔ شاعر کے مقام کو مرتبہ کو متعین کرنے کے لیے یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ اس کے اشعار ضرب المثل بن جائیں یا زبان زدِ خاص و عام ہو جائیں۔ ان کا کلام فکر و آگہی کا مخزن ہے اور سخن فہموں کے خاصے کی چیز ہیں۔ سطور بالا میں ایک جگہ یہ کہا گیا ہے کہ ان کے کلام میں عربی الفاظ وغیرہ کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔ یہ دولت انھیں قرآن و احادیث کے گہرے مطالعہ جذب و جدان سے حاصل ہوئی ہے۔ مندرجہ ذیل ہائیکوسے اس کا اندازہ ہوسکتا ہے:
تمیز خیر و شر تم میں کہاں تھی
شعورِ حسن تم کو ہم نے بخشا
تلاش خوب تر تم میں کہاں تھی
سرشار کی غزل کے چند شعر:
نکہت و نور کا مظہر ہوا ایوانِ وجود
جاگزیں جب سے دل و جاں میں ہوئے ذُرّ بخفؐ
حق و الفاف وفا، صدق ہیں آثار سلف
عصر حاضر کے تئیں سکّۂ اصحاب کہف
باطل ہر ایک فلسفہ منطق ہر ایک فضول
فطرت نے جو کہا وہی قول ِ سدید ہے
ان کی شاعری کا ایک اور وسیلہ ٔ اظہارسادگی، زبان و بیان اور شگفتگی ہے، جیسے یہ شعر دیکھیے:
جہاں رہوں میں وہیں روشنی لٹاوں گا
میں آفتاب ہوں میرا نہیں مکاں کوئی
ستارے بانٹتا پھر تا ہے سب میں
وہ جس کے گھر میں مٹی کا دیا ہے
قطب سرشار کے کئی اشعار ایسے بھی ہیں جو دل کو چھولیتے ہیں اور تڑپاتے ہیں ۔یہاں زیادہ نہیں صرف ایک شعر پیش ہے:
وہ چوٹ اک صدی کی نہیں لمحہ بھر کی تھی
یہ درد ایک دن کا نہیں عمر بھر کا ہے
کی اس شعر میں و ہ طاقت نہیں جو ضرب المثل بن سکے؟ قطب سر شار کے مجموعہ ٔکلام پراظہارِرائے دیتے ہوئے فقید المثال نقاد، شاعر، فلسفی، مترجم، فکشن نگار، صحافی، محقق ، عروض و بلاغت کے ماہر، ہم عصر عبقری شخصیت شمس الرحمٰن فاروقی نے لکھا ہے:
’’سرشار صاحب آپ نظم و نثر دونوں کے ایک کامیاب شاعر ہیں جیسا کہ اظہار کے مطالعہ سے اندازہ ہوا۔ آپ کے اس شعر نے مجھے تڑپا دیا:
وہ چوٹ اک صدی کی نہیں لمحہ بھر کی تھی
یہ درد ایک دن کا نہیں عمر بھر کا ہے
واقعی سرشار کو زمانہ یاد رکھنے کے لیے یہ ایک شعر ہی کافی ہے۔‘‘
قطب سر شار نے جب تحقیق کے میدان میں قدم رکھا تو ڈاکٹر خلیق انجم جیسے محقق و ہمہ جہت شخصیت پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ سرشار بنیادی طور پر شاعر ہیں ۔ ایک تخلیق کار کے لیے تحقیق کی سنگلاخ اور صبر آزما راہوں سے گذرنا ایک ہفت خواں طے کرنا ہے۔ انھوں نے یہ کام بھی بخوبی انجام دیا۔ یہی نہیں’’امعان‘‘ اور’’تلگو ادب میں نئے رجحانات‘‘اس بات کا ثبوت ہے کہ قلم کار اور صاحبِ قلم محدود دائروں میں بند نہیں رہتا۔ ویسے بھی تخلیق کار تحقیق و تنقید کے بغیر اچھا تخلیق کار بھی تو نہیں ہوتا۔ ’’امعان ‘‘ان کے تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے، جس میں اقبالؔ پر ان کے مضامین فکری وسعتوں اور امعانِ نظر کا پتہ دیتے ہیں۔ اقبالؔ کے علاوہ غالبؔ اور نثر میں مولانا آزاد پر بھی ان کے مضامین قابل توجہ ہیں۔ ان مقالات کی علمی و تحقیقی قدر وقیمت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
سرشار لفظوں کے مزاج آشنا ہیں۔ ان کی گہرائی اور گیرائی کے رمز شناس ہیں۔ان کی یہ رمز شناسی اقبالؔ کی تخلیقی جہتوں کو پرکھنے کے کام آتی ہے۔ ان کے موضوعات کی توانائی کو گرفت میں لینے کے لیے انھوں نے دلائل و براہین سے کام لیا ہے۔ قلم میں ایک توازن بر قرار رکھا ہے۔ مرعوب نہیں ہوئے معترف ہوئے ہیں۔ ان مضامین سے سرشار کے تبحر علمی و فکری اساس کی پختگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اقبالؔ پر اتنا کچھ لکھے جانے کے باوجود سرشار کے یہ مضامین تلاشِ اقبالؔ کے لیے نئی جہات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ’’غالبؔ کے اشعار میں لفظوں کے معنوی ابعاد‘‘ والے مضمون سے میرے اس خیال کی تائید ہوسکتی ہے کہ سرشار نے لفظوں نہیں قطروں میں سمندر گھول دیا ہے۔ وہ لفظوں سے آگے کی بات کرتے ہیں۔ بقول سرشار:
ع۔ ہوتا ہے بس تغیر ابعاد معنوی
’’تلگو ادب میں نئے رجحانات‘‘ میں جدید تلگو ادب کے ارتقائی سفر سے بات شروع ہوتی ہے تو ماضی بعید کی فتوحات کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔ تلگو ادب کے گونا گوں فنی تجربوں اور تخلیقی ابعاد کا بھر پور تجزیہ کیا ہے۔ ترجمہ کرنا اور وہ بھی دراوڑی زبان سے آریائی زبان میں کار گزاراں ہے۔ سرشار صاحب تلگو زبان کے بحر زخار کے کامیاب غواص ہیں ۔ انھوں نے نہ صرف تلگو سے اُردو میں ترجمے کئے بلکہ اُردو سے بھی تلگو میں ترجمے کا مشکل کام بھی کیا ہے۔ انھوں نے فلمی مکالمے بھی لکھے ہیں۔ منظوم ترجمہ خواہ کسی بھی زبان سے ہو بڑی عرق ریزی کا کام ہے۔ تلگو زبان اُردو زبان سے کہیں مطابقت نہیں رکھتی۔ اُردو زبان و ادب کی تہذیب تلگو زبان و ادب کی تہذیب سے شمال و جنوب کا فاصلہ رکھتی ہے۔ اُردو زبان میں شعری اظہار کے وسائل جدا ہیں۔ تلگو میں وہ تقریباً ناپید ہیں۔ ایسے میں ترجمے کے فرائض انجام دینا وہ بھی کامیاب منظوم وغیرمنظوم ترجمے کرنا ع تانہ بخشد خدائے بخشندہ والی بات ہے۔
’’تلگو ادب میں نئے رجحانات‘‘پر گفتگو ایک علاحدہ مضمون کا متقاضی ہے لیکن اس کتاب کا ایک مضمون’’ اقبالیات تلگو میں‘‘
تحقیق، تنقید، تعریفِ تحسین اور تحلیل و تجزیہ کی معیار بندی کرتا ہے۔ سرشار نے تلگو کے چند شعرا جیسے سی نارائن ریڈی، ڈاکٹر گنٹور سشیندر شرما اور سری لتا کی تلگو شاعری کو اردو شاعری کے پیکر میں تراش کر ثابت کردیا ہے کہ انھیں دونوں زبانوں پر کتنا عبور حاصل ہے۔ سری لتامعاصر نسائی شاعری میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ تلگو کی بعض شاعرات اردو کی بھی بعض مشہور شاعرات نے حرف برہنہ کو آزادیٔ نسوان یا نسائی جذبات کے برملا اظہار کا نام دیا ہے۔حالانکہ نسائی فطرت اور تہذیب نسائی سے یہ ایک انحراف ہے۔ اردو زبان میں اتنی وسعت اور اتنے وسائل اظہار ہیں کہ ایسے خطرناک حرف برہنہ کو بڑے سلیقے سے پیش کیا جاسکتا ہے۔ غالباً تلگو زبان میں ان وسائل کی کمی ہے ۔بہر حال سرشار نے جو ترجمے کئے ان پر اصل بلکہ طبع زاد کا گما ن ہوتا ہے اور یہی اچھے ترجمے کی پیچان ہے۔
قطب سرشار نے اشتراکیت ، جدیدیت، قومیت اور علاقائیت جیسی نظریاتی تحریکوں کے عروج و زوال کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کی۔ ان کا حسنِ انفرادیت لائق داد ہے۔ وہ خداشناس ہیں اور خود شناس بھی ہیں۔ اس لیے اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زنداں میں ہے کہ مصداق اپنی شاعری نثر نگاری میں اخلاقی، تہذیبی اور فنی قدروں کی خود آبیار ی کی ہے۔ کہتے ہیں:
ہر ایک تقلید سے دامن بچا کر
میں اپنے پیچھے پیچھے چل رہا ہوں
آسمان ِ ادب پر کچھ جگمگاتے ستارے پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ ان میں ایک قطب سر شار بھی ہیں، جو ستارے نہیں ہیں سیّاروں کی مانند جگمگاتے رہیں گے۔
written by :Prof Ashraf Rafi
Hyderabad

Share
Share
Share