بے آشیانہ پرندے
از۔: یٰسین احمد
موبائل : 09848642909
اُس وقت جب نیلگوں آسمان پر سفید بادلوں کے کارواں رواں دواں رہتے ہیں‘ جب شبنم میں نہائے ہوئے درختوں سے ٹکراکر ہوائیں بوجھل ہوجاتی ہیں ‘جب رزق کی تلاش میں اپنے آشیانوں سے نکلنے سے پہلے پرندے حمد وثنا میں چہچہاتے ہیں ‘جب منادر کی گھنٹیاں بجتی ہیں اور مساجد سے اذان بلند ہوتی ہے‘ تب اُن کے بائیکس کی آواز جنگی طیاروں کی مانند فضا میں گونجتی اور سارا ماحول دہل سا جاتا تھا۔
بائیکس کی تعداد کبھی چار ہوتی اور کبھی پانچ۔ان بائیکس کو دوڑانے والے سب کے سب نوجوان تھے۔ان کی قیمتی اسپورٹس بائیکس اور حلیہ غماز تھا کہ ان کا تعلق متمول گھرانو ں سے ہے۔تقریباً ہم عمر تھے۲۴‘۲۵ سال کے درمیان۔بائیکس دوڑانے کے وقت جو نوجوان درمیان ہوتا وہ اُن کا ہیرو معلوم ہوتا۔اس کے بائیک کا رنگ بھی الگ تھا۔اس ہیرو سے کبھی کبھی ایک عدد چھپکلی بھی چمٹی ہوئی رہتی وہ فلک شگاف قہقہے اور نعرے لگانے میں ان کا ساتھ دیتی۔اُس کے جسم پر انتہائی چست لباس ہوتا۔ٹی شرٹ کا گریبان اتنا بڑا ہوتا تھا کہ آدھی گولائیاں باہر اُبل آتیں‘جینز کمر سے بہت نیچی ہوتی وہاں پر جہاں سے بھوری لکیریں نمایاں ہوجاتی ہیں۔چھپکلی ساتھ ہوتی تو ان کا جوش وخروش اور بھی بڑھ جاتا۔گاڑیوں کی رفتار ہوا سے باتیں کرنے لگتیں۔
نیشنل ہائی وے پر وہ ریس کرتے کرتے وہ کبھی کھلے میدان میں نکل آتے۔کھلے میدان میں بڑے بڑے چکرلگاتے۔ مختلف قسم کی کرتب بازیاں دکھاتے۔کوئی ہینڈل سے دونوں ہاتھ اُٹھا کر فضاء میں پھیلادیتا۔کوئی بائیک پر کھڑا ہوجاتا یا لیٹ جاتا۔بائیک کی رفتار کم نہیں ہوتی ۔بلکہ دوسرے ساتھی اس کو اور جوش دلاتے رہتے۔کمزور اعصاب کے لوگ اگر یہ منظر دیکھ لیں تو جان نکل جائے لیکن اُن پر رتی برابر بھی خوف طاری نہ ہوتا۔وہ ایسی کرتب بازیوں کا مظاہرہ کرتے جو عموماً سرکس میں دیکھنے میں آتی ہیں۔
اُن کی ان حرکتوں کو دیکھ کر ندیم انصاری کو بڑی کوفت ہوتی ۔یہی وہ وقت ہوتا تھا جب وہ اور بمل پانڈے مارننگ واک کے لئے نکلا کرتے۔وہ دونوں تنہائی پسند تھے۔شور شرابہ ‘چیخ وپکار اور بھیڑ بھاڑ سے ندیم انصاری کو الرجک ہوتی۔ان کی یہی تنہائی پسندی شہر سے چودہ پندرہ کیلو میٹر دور اس مضافاتی علاقہ میں لے آئی تھی۔جب انہوں نے اس کالونی میں پلاٹ خریدا تھا تب یہ علاقہ غیر آباد تھا لیکن حکومت نے جب اس طرف ائیر پورٹ تعمیر کروایا تو اس علاقہ کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔جگہ جگہ فلائی بریج بن گئے سڑکیں کشادہ ہوگئیں ان ہموار مسطح سڑکوں پر ڈرائیونگ کا لطف اٹھانے والوں کی تعداد بڑھتی گئی اور اس شاہراہ کو اوٹر روڈ سے جوڑ دیا گیا تمام ہیوی ٹرکس اسی سڑک سے گزرتے تھے اس کے باوجود صبح کے اوقات ٹریفک کا بہاؤ نسبتاً دوسرے اوقات میں کم ہوتا۔
ریٹائرڈ منٹ کے بعد ندیم انصاری نے اس کالونی میں مکان تعمیر کروایا تھا ۔تعمیر کے دوران ہی اُن کی ملاقات بمل پانڈے سے ہوئی تھی۔بمل پانڈے نے بھی اپنا مکان وہیں تعمیر کروایاتھا۔کالونی اب بھی غیر آباد تھی۔ گنتی کے کچھ مکانات تعمیر ہوئے تھے۔لیکن جو مکانات تعمیر ہوئے تھے وہ سب عالیشان تھے۔دراصل اس کالونی میں جتنے لوگوں نے پلاٹ خریداتھا اُن کا شمار دولت مندوں میں ہوتا تھا۔بیشتر این آر آئی تھے۔ ایسے علاقے میں ایسے ہی لوگ مکان تعمیر کرواسکتے تھے جن کے پاس کاریں ہوں،نوکر ہوں، رکھوالی کے لئے چوکیدار اور کتیّ ہوں۔روز مرہ کی ضروریات کی تکمیل کے لئے دو تین کیلومیٹر دور جانا پڑتا تھا ۔
اس علاقہ میں آکر ندیم انصاری نے بڑا سکون محسوس کیا۔خوشگوار آب وہوا تھی۔پولیشن کا نام ونشان تک نہیں تھا۔مختصر سی فیملی تھی ۔وہ اور اُن کی بیوی۔ایک بیٹا اور بہو۔بیٹا اور بہو دونوں ایک سافٹ ویر کمپنی میں ملازم تھے۔مکان پرچوکیدار مامور تھا ۔دونوکر تھے۔جن پر سودا سلف لانے اور گھر کے سارے کام کاج کی ذمہ داری تھی ۔اس لئے انصاری صاحب کو غیر آباد علاقہ میں کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔
لیکن جب سے چار پانچ نوجوانوں کا قافلہ ریس کے لئے اس طرف آنے لگا۔ ان کو الجھن سی محسوس ہونے لگی تھی۔سوچنے لگے کہ مستقبل میں یہ علاقہ بھی شور شرابہ میں کہیں ڈوب نہ جائے۔ علی الصبح وہ اور بمل پانڈے چہل قدمی کے لئے نکل جایا کرتے آدھے پون گھنٹے کی چہل قدمی اُن کے مزاج میں تازگی بھردیتی۔پسینے میں نہا جاتے لیکن تھکن کا احساس نہیں ہوتا۔اُس دن وہ دونوں چہل قدمی کررہے تھے کہ اتنے میں دور سے بائیکس کی آواز یں سنائی دینے لگیں۔آہستہ آہستہ آوازیں قریب ہوتی گئیں۔ندیم انصاری اور بمل پانڈے سڑک سے بہت ہی کنارے کنارے چل رہے تھے کہ ایک نوجوان نے اپنی بائیک کو اُن کے بہت ہی قریب لاکر تیزی سے آگے نکل گیا۔
ندیم انصاری تو اپنی جگہ پر کھڑے رہے لیکن بمل پانڈے کنارے ہونے کی کوشش میں لڑکھڑا سے گئے اُن کی آنکھوں سے عینک نکل کر گر پڑی۔ندیم انصاری نے دیکھا کہ اُن دونوں کو ستانے کے لئے جس نوجوان نے اپنی بائیک قریب سے نکال لے گیا تھا وہی ہیرو تھا۔ آگے جاکر اس ہیرو نے ایک قہقہے لگایا اور چلا کر اپنے ساتھیوں سے کہا۔
’’ان دونوں کو دیکھو اب بڑھاپے میں صحت بنانے کے لئے نکلے ہیں۔‘‘
ندیم انصاری کا خون کھول اُٹھا بے ساختہ وہ چلائے۔’’رُکو بد……‘‘
ندیم انصاری کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی بدمعاش ہیرو نے اپنی بائیک تیزی سے روکی تھی سامنے پیچھے دیکھے بغیر اُس نے اپنی بائیک ٹرن کی تھی ۔سامنے سے آتا ہوا ٹرک ڈرائیور اگر اپنا ٹرک موڑ نہ لیتا توحادثہ کا ہونا یقینی تھا۔ ہیرو تیزی سے اُن کے قریب آیا ۔اُجڈ لہجے میں پوچھا۔’’کچھ کہا مجھ سے؟‘‘
ندیم انصاری اپنی بات دہرانا چاہتے تھے لیکن بمل پانڈے نے اُن کا ہاتھ دبا دیا۔بمل پانڈے محکمہ تعلیمات سے وابستہ رہے تھے وہ بچوں کی نفسیات سے خوب واقف تھے اور پھر صبح کی ان خوشگوار ساعتوں میں الجھنا نہیں چاہتے تھے۔
بمل پانڈے نے نرمی سے کہا۔’’بیٹا! ہائی ویز پر اس طرح گاڑیاں ریس کرنا اچھا نہیں۔خود آپ کی جان کو خطرہ رہتا ہے۔‘‘
وہ بُرا سا منہ بناکر بولا۔’’ہائی ویز پر واکنگ کرنا بھی اچھا نہیں بوڈھو! کسی پارک میں جاو۔‘‘
ندیم انصاری کے جسم میں پھر ایک بار غصے کی لہر دوڑ گئی۔وہ ایک طویل عرصے تک اعلیٰ عہدے پر فائز رہ چکے تھے جہاں بڑے سے بڑا آفسر ان سے مودبانہ لہجے میں گفتگو کرتا تھا۔وہ اس لہجے کے عادی نہیں تھے۔مگر وہ چپ رہے مگر ان کا دل غصے اور نفرت سے بھر گیا۔ہیرو نے جھٹکے سے اپنی بائک ٹرن کیا اور آگے بڑھ گیا۔وہ دونوں ایک دوسرے کا منھ تکتے رہے گئے۔واپسی پر بمل پانڈے نے ان سے کہا۔’’انصاری صاحب! یہ سب دولتمند ماں باپ کے بگڑے ہوئے نوجوان ہیں۔ان کو تعلیم ملی ہے‘ تربیت نہیں۔ان کے سرپرست کسی اور دُنیا میں گم رہتے ہیں اور یہ نوجوان کسی اور دُنیا میں…..!‘‘
اس واقعہ کے بعد ان دونوں نے اپنے پروگرام میں تبدیلی کردی۔چہل قدمی کے لئے کچھ دیر سے نکلنے لگے تاکہ ان نوجوانوں کا سامنے کرنا نہ پڑے۔آج بھی وہ دونوں دیر سے نکلے تھے۔ کچھ دور چلے تھے کہ اگلے چوراہے سے پہلے اُن کو بائک کی آواز سنائی دی۔پھر یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کہ وہ سامنے سے اپنی گاڑیوں پر اس انداز میں آرہے تھے جیسے یوم جمہوریہ کے موقع پر جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں۔یعنی سامنے دونوجوان بائک پر بیٹھے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رکھے تھے اورپیچھے دو۔درمیان میں وہی ہیرو ۔بائک کی رفتار میں کمی نہیں ہوئی تھی۔
ان کو دیکھ دوایک ٹرک ڈرائیوروں نے گھبراکر اپنے ٹرک کو ایک سائیڈ میں کرلیا تھا۔بائک پر سوار نوجوان بلند قہقہے لگاتے اپنی اسپورٹس بائیکس کو اسی رفتار سے دوڑاتے رہے۔
نہ جانے کیا ہوا تھا کہ اچانک ہیرو کا توازن بگڑا تھا۔بائک اس کے قابو میں نہیں رہی اور ڈیواڈر سے جاٹکڑائی۔اس کے پیچھے کا نوجوان بھی اپنی بائک کو کنٹرول نہیں کرسکا تھا۔وہ ہیرو کی بائک سے جاٹکرایا۔دونوں گیند کی طرح فضاء میں اچھلے اور سڑک پر گر پڑے۔سب کچھ اناً فاناً میں ہوگیا تھا۔
سڑک پر گری ہوئی دونوں گاڑیوں کے انجن شور مچارہے تھے۔ نوجوان نے فوراً اٹھ کر اپنی بائک سیدھی کرلی تھی۔لیکن ہیرو زمین سے نہیں اٹھ سکا۔وہ بری طرح گھائل ہوچکا تھا اور زمین پر تڑپ رہا تھا۔
ندیم انصاری نے ایک نظر بمل پانڈے پر ڈالی اور پھر تیزی سے ہیرو کی طرف لپکے ۔ہیرو کو غیر معمولی چوٹیں آئی تھیں۔ہیلمٹ کے نیچے سے خون بہہ رہا تھا۔ندیم انصاری نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا حادثہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔سڑک سے گزرنے والی گاڑیاں رکنے لگی تھیں۔
’’بمل پانڈے! آپ پولیس کوفون کیجئے۔‘‘ ندیم انصاری نے کہا اور تیزی سے ہیرو کے قریب پہنچ گئے۔ایک لمحے کے لے ان کو یوں لگا جیسے وہ اپنیزندگی کی آخری سانس لے رہا ہے۔انہوں نے فوراً ہیرو کے نبض پر ہاتھ رکھا۔نبض چل رہی تھی اُس پر بے ہوشی طاری ہورہی تھی۔
ندیم انصاری نے نرم لہجے میں ہیرو سے پوچھا۔’’بیٹے اپنے والدین کا نام اور فون نمبر بتاو میں ان کو اطلاع دوں گا۔‘‘
ہیرو نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھو ں کو کھولا۔اس کی آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی کیفیت تھی۔وہ دھیرے دھیرے کچھ بڑبڑارہا تھا۔ندیم انصاری اپنا کان اس کے منھ کے قریب لے آئے۔وہ اپنے ماں باپ کا فون نمبر تو نہیں بتاسکا تھا لیکن نام بتادیا تھا۔
نام سن کرایک لمحے کے لئے ندیم انصاری پر سکتہ طاری ہوگیا۔وہ ایک نامور گھرانے کا چشم چراغ تھا۔اس کے باپ کے پاس دولت تھی‘شہرت تھی۔جس کو نہ صرف یہ شہر ‘یہ ملک بلکہ ساری دنیا جانتی تھی۔کیونکہ وہ ایک نامور کھلاڑی تھا۔عرصہ پہلے اس نے اپنی بیوی کو جو ایک بچے کی ماں تھی طلاق دے کر ایک ٹی وی آرٹسٹ سے شادی کرلی تھی۔میڈیا والوں نے اس خبر کو خوب اُچھالا تھا۔
ندیم انصاری کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ ہیرو کھلاڑی کی سابقہ بیوی کا بیٹا ہے۔بمل پانڈے نے پولیس کو اطلاع دے دی تھی۔پولیس آرہی تھی۔ندیم انصاری چاہتے تھے کہ ہیرو کے گھر والوں کو بھی اس حادثہ کی اطلاع دے دیں۔ ندیم انصاری اُس کے ساتھیوں سے ہیرو کے گھر کا فون نمبر پوچھنا چاہا۔انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا۔اُس کے ساتھ ندارد تھے۔اُن پر ایسی گھبراہٹ طاری ہوئی تھی کہ بھاگنے میں ہی عافیت نظر آئی۔
ندیم انصاری نے بے ہوش ہیرو کی جیبیں ٹٹولیں تاکہ موبائل مل جائے تو اس کے گھر والیوں کا نمبرمعلوم کرسکیں۔ اس کے گھر والوں کو اطلاع دیں۔موبائیل جیب میں موجود تھا‘موبائیل کی فہرست میں ’Home‘کا نمبر بھی مل گیا۔انہوں نے ہوم کا نمبر ملایا۔دیر تک رینگ ہوتا رہا پھر کسی خاتون نے بھرّ ائی ہوئی آواز میں’ہلو‘ کہا تھا۔ندیم انصاری نے بائک اور نوجوان کے حلیہ کا حوالہ دیتے ہوئے حادثہ کی اطلاع دے دی تھی۔دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی ،پھر اُس خاتون کی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی شاید وہ ابھی مکمل طور پر نیند سے بیدار نہیں ہوئی تھی۔
’’اُن کے فادر شہر سے باہر ہیں‘ میں ان کو اطلاع دے دوں گی براہ مہربانی آپ پولیس کو اطلاع دے دیں۔میں بھی آجاوں گی۔‘‘
خاتون کی بات سن کر انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔خاتون کے لہجے میں وہ تڑپ وہ بیتابی نہیں تھی جو ایسے موقع پر ایک ماں میں ہونی چاہیے شاہد وہ ہیرو کی سوتیلی ماں تھی؟
پولیس کی جیب کی آواز سنائی دی۔
انہوں نے فون ہیرو کے جیب میں رکھ دیا اور وہاں سے اٹھ گئے۔پولیس کو دیکھ کر وہاں کھڑے ہوئے لوگ چھٹ رہے تھے ندیم انصاری کے دل میں ہیرو کے لئے جو غصہ اورنفرت تھی وہ یکلخت ختم ہوگئی۔انہوں نے بمل پانڈے سے کہا۔
’’بمل جی جن بچوں کو ماں کی ممتا نہیں ملتی،باب کی شفقت نہیں ملتی وہ ان پرندوں کی مانند ہیں جو آشیانہ سے بھٹک گئے ہیں۔
Short story: Be aashiyan parinde
Written by Yaseen Ahmed