فراق گورکھپوری کی جمالیاتی کائنات- از۔:ڈاکٹرمسعود جعفری

Share
فراق گورکھپوری
فراق گورکھپوری

فراق گورکھپوری کی جمالیاتی کا ئنات

از۔: ڈاکٹرمسعود جعفری
ٹولی چوکی ۔ حیدرآباد
موبائل : 09949574641

انسان ابتدائے آفرینش ہی سے حسن و عشق کے جذبات کی پیکر تراشی کر تا رہا ہے۔فنون لطیفہ اس کا نگار خانہ رہے ہیں۔پتھروں کے غاروں کی تصویریں تصور جمال کی نشاندہی کرتی ہیں۔موسیقی ،رقص ،سنگ تراشی ،مصوری اور شاعری میں عورت کے حسن و جمال کا جادو دکھائی دیتا ہے۔میر و غالب سے لے کر فراق تک عارض و لب اور قدو قامت کا سلسلہ ملتا ہے۔بقول شخصے
ذکر جب چھیڑ گیا قیامت کا
بات پہونچی تری جوانی تک

عشق ایک جذبہ صادق ہے۔اسی سے حیات و کا ئنات میں رنگ و آہنگ پا یا جا تا ہے۔اس کی رفتار کبھی دھیمی ہو تی ہے اور کبھی تیز۔لیکن اس کی حشر سا ما نیاں ہر رت اور ہر موسم میں ہو تی ہیں۔محبت ہی بے نوری میں نور ،بے رنگی میں رنگ بھرتی ہے۔زہر زندگی کو جانفزا مشروب بنا دیتی ہے۔جس شاعر نے رو ما نوی احساسات کی تر جمانی کی۔دل کی دھڑکنوں کو زبان عطا کی۔وہ کو ئی اور نہیں رگھوپتی سہائے فراق گورکھ پوری تھا جس نے اردو شاعری کے سر ما یہ میں اپنے رنگا رنگ تصورات سے اضافہ کیا۔اس میں افلا طونیت کے بجائے ارضیت بھر دی۔مجازی نہیں حقیقی با تیں کیں۔گنگ و جمن کے دھاروں کو اپنی غزلوں میں بہنے دیا۔حسن عجم کی نغمہ سرائی کی۔ہندوستانی تہذیب و فلسفہ کو شعروں کے قالب میں ڈھال دیا۔شاعری کی علمی سطح کو بلند کیا۔اس میں تفکر ،گہرائی و گیرا ئی پیدا کی۔اسے چیز دیگر است بنا دیا۔اسی لئے ہم جب بھی اس کے شعر گنگنا تے ہیں تو دل و دماغ ترو تازہ ہو جا تے ہیں۔ایک انجانی خوشبو سے مہک اٹھتے ہیں۔سماعتوں میں رس گھلنے لگتا ہے۔نطق زبان کے بو سے لینے لگتا ہے۔لا شعور کے تہہ خانے میں روشنی پھیل جا تی ہے۔روح ہولے ہولے وجد کر نے لگتی ہے۔
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہا نیاں یاد سی آکے رہ گئیں
اس شعر میں غضب کی کسک اور آنچ ہے۔لفظ سی سے جان نکلی جا تی ہے۔سی قیامت ڈھا ر ہا ہے۔ ایک اور تا ثراتی لہر دیکھئے۔
تم نہیں آئے اور رات رہ گئی راہ دیکھتی
تاروں کی محفلیں بھی آج آنکھیں بچھا کے رہ گئیں
فراق کو پرانی یادیں ستاتی رہتی ہیں۔انہوں نے ان یادوں کو گرہ میں باندھ رکھا ہے۔انہیں سے زندگی کا لمبا سفر سہل سا ہو جا تا ہے۔ ہمیں فراق کے اس تصور سے رو شناس ہو نا ہو گا۔
یہ زندگی کے کڑے کوس یاد آتا ہے
تری نگاہ کرم کا گھنا گھنا سا یہ
فراق اس کافر ادا معشوقہ کو بھول نہیں سکے۔اس کا عکس ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔غم زمانہ میں کھو کر بھی اسے بے طرح سو چتے رہے۔ انہوں نے ا س کا اعتراف شا عرانہ انداز میں یوں کیا ہے۔
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
فراق اپنے چا ہنے والے کے انداز دلربائی کو اپنے حافظہ میں محفوظ رکھتے ہیں۔اسی سے ان کے دل کے نہاں خانے میں بہاریں رہتی ہیں اور وہ دنیا کی جفاوں کو سہہ لینے کی طاقت جٹا پا تے ہیں۔وہ محبوب کے نقش قدم پر گا مزن رہتے ہیں۔اس سفر میں وہ راہ کی دشوا ریوں کی پر واہ نہیں کرتے۔وہ اپنی جما لیاتی کا ئنات میں کھوئے رہتے ہیں۔ البیلے خیالات کی قوس قزاح ملا حظہ کیجئے۔
تو پاس سے گزرا کہ لپٹ مشک کی آئی
بجتی ہو ئی نظریں تھیں کہ آہو تھے گریزاں
ائے دوست مہکتی ہیں ابھی تک وہ فضا ئیں
جن میں تھا کھلا تیرے تبسم کا گلستاں
عارض کی جھلک ہے کہ چھلک جا تے ہیں ساغر
ما تھے کی دمک ہے کہ طلوع مہہ تا باں
ابرو کی لچک ہے کہ لپک جا تی ہے شمشیر
گیسو کی لٹک ہے کہ گھٹائیں ہیں خرا ماں
فراق نے حسن و جمال کی بھر پور عکاسی کی ہے۔اس کی خوبصورت تشبیہات ،دلکش استعار ے اور نادر تمثیلیں قلب و ذہن پر امٹ نقوش چھوڑ جا تی ہیں۔فراق کی غزلوں کی غنایت نغمگی،بانکپن،شو خیاں ،الھڑ پن سے جینے کی امنگ بڑھ جا تی ہے۔دیدہ و دل کے نجات کا سا ماں مل جا تا ہے۔فراق حقیقی معنوں میں ایک ایسا شاعر ہے جس نے عرفان و آگہی کے چراغ جلائے۔شاعری میں آفاقیت کا پہلو اجاگر کیا۔اپنی شناخت بنائی۔ان کا رنگ سخن سب سے جدا اور سب سے منفرد ہے۔وہ میر سے متا ثر رہے۔مکمل میریت کی راہ پر چلے نہیں۔البتہ یہ دعوی ضرور کیاْ –
غالب و میر و مصحفی
ہم بھی فراق کم نہیں
فراق کو اپنے عجمی پس منظر پر بھی ناز تھا۔عرب اہل عجم کو گونگا کہتے تھے۔فراق نے اپنی بڑائی کا بر ملا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔ان کی تعلی قابل دید ہے۔
ائے اہل عرب آو یہ جا گیر سنبھا لو
میں مملکت لوح و قلم با نٹ رہا ہوں
فراق کی جمالیاتی حس اس وقت نقطہ عروج پر پہونچ جا تی ہے جب انہوں نے ایسی سبک و حسین رباعی کہی اور محبوب کے ملکوتی حسن کو خراج تحسین دیا ۔ یہ خیال ،یہ تخیل ،یہ سوچ ،یہ احساس فراق کو ابدیت کی سر حد پر کھڑا کر دیتا ہے ۔
لہروں میں کھلا کنول نہائے جیسے
دو شیزہ صبح گنگنائے جیسے
یہ روپ یہ لوچ یہ سج دھج یہ نکھار
بچہ سو تے میں مسکرائے جیسے
معصوم طفل کی خوابناک آنکھوں اور نازک لبوں پر تبسم کی ہلکی سی لکیر فراق کے تخلیقی وفور کی دلالت کر تی ہے۔یہ رباعی بڑی شاعری کی علامت ہے۔فراق کی فکر رسا کی جڑیں ہندوستانی فلاسفی میں پیوست ہیں اس لئے اس کے نقش ہائے رنگ رنگ دلکش اور نشاط انگیز ہیں۔اس کی شاعری میں ایرانی حسن ،غمزہ و عشوہ و ادا کے بجائے دیار ہند کی صنف نازک کی قیامتیں ملتی ہیں۔ان کے ہاں صداقت خالق اور خالق ہی حسن مجسم کے خیال کی لو فروزاں دکھائی دیتی ہے۔فراق صنف رباعی کو افلاک ،جنت و دوزخ سے نکال کر روئے زمین پر لے آئے ۔امجد اور جذب عالم پوری نے تصوف،نصیحت آمیز مو ضوعات کو رباعی کے ما تھے کا جھومر بنا یا تھا۔فراق نے محبوب کے سراپہ کے مختلف رخوں کو رباعی میں جذب کیا اور اسے لا زوال کر دیا۔کچھ عرصہ بعد جاں نثار اختر نے گھر آنگن کے نام سے ر با عیات کا مجموعہ تخلیق کیا۔اختر نے فراق کے چراغ سے روشنی لی۔فراق کے شعروں میں روح ہند بو لتی ہے۔اس نے ملکی روایتوں،رتوں،رسوم اور کلچر کو ادب میں پیش کیا۔اس کی رباعیات کا مجموعہ روپ دنیائے شاعری میں اضافہ کی روشن مثال ہے۔روپ پڑھنے کے بعد کسی کو اجنتا، ایلورہ کے Frescoes دیواری تصویریں دیکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ۔فراق کا شعری کینوس وطن کی مٹی سے بنا ہوا ہے۔اس کی غزلیات ذہن سے نہیں وجدان کے سر چشموں سے با لیدگی و توانائی پا تی ہیں۔اس کی فکریات کے خدو خال نئے ،انوکھے،پر اثر اور بے نظیر ہیں۔اس کے شاعرانہ تجربے کامیاب ہیں۔ان میں صدیاں سانس لیتی ہیں۔زمانے کے دل دھڑکتے ہیں۔وقت کی چاپ سنائی دیتی ہے۔جھٹپٹے کی جا ذبیت ،شام کے جگنو اور شبوں کی مستی و طلسماتی سا عتیں ملتی ہیں۔اب ہم فراق کی چند رباعیوں کا ذ کرکرتے ہیں جن میں ندرت خیا ل اور جذ بہ و احساس کی چنگاریاں دبی دبی ہیں۔فراق ستاروں پر کمندیں پھینک رہے ہیں۔
حمام میں زیرآب جسم جا ناں
جگمگ جگمگ یہ رنگ و بو کا طو فاں
ملتی ہیں سہیلیاں جو مہندی رچے پاوں
تلو وں کی گدگدی ہے چہرے پہ عیاں
حسن خوابیدہ میں بھی ایسی سج دھج
زنجیر ہو بجلیوں کی جیسے کچھ کج
یہ بستر نرم و صاف پہ جسم کی جوت
تکیوں پر با دلوں کے جیسے سورج
ان اشعار کا مرکزی تھیم جدید سے جدید تر ہے۔فراق نے تخیلات کی نئی دنیا بسا ئی ہے۔فراق کے وہ متفرق اشعار د یکھتے ہیں جن سے روح اپنی پیاس بجھا تی ہے۔
کون سکون دے سکا غم ذدگان عشق کو
بھیگتی را تیں بھی فراق آ گ لگا کے رہ گئیں
چھیڑ دیا غزل میں آج میں نے وہ نغمہ زمیں
اٹھ گئے گھو نگھٹ ائے فراق زہرہ و مشتری کے بھی
مری نظر میں ہیں سب جلوہ ہا ئے ظلمت و نور
نہ ہر اندھیرا اندھیرا نہ ہر چراغ چراغ
دیکھئے زندگی کا تاج محل
ہر طرف مکڑیوں کے جا لے ہیں
گرنے وا لوں کو یہ خبر بھی نہیں
کس بلندی سے گرنے وا لے ہیں
کیا رہا مے کدے میں بعد فراق
چند ٹوٹے ہوئے پیالے ہیں
فراق نے خود کو کبھی دہرایا نہیں۔ہر پل نئے خیالات کی سو غا ت دیتے رہے۔ان کی پرواز تخیل بلندیوں کو چھو تی رہی۔انہوں نے اپنے افکار عا لیہ سے اقلیم سخن کو سدا بہار کر دیا۔انہیں گیان پیٹھ انعام سے نوازہ گیا تھا۔انہیں تو گرو دیو کی طرح نوبل اوارڈ دیا جا نا چا ہیئے تھا۔فراق جیسے تخلیق کار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ان کے وجود کو متاع بے بہا سمجھا جانا تھا۔ہندوستان کی تمام جا معات میں فراق چیر کا قیام عمل میں لایا جا نا وقت کی اہم پکار ہے۔فراق کی وراثت گو نا گوں تصورات میں مضمر ہے ۔ان کی فلاسفی کو محفوظ رکھنا ہو گا۔اگر ناولوں میں پریم چند Icon ہیں تو شاعری کے میدان میں فراق ایک عہد آفریں شخصیت کے ما لک ہیں ۔فراق نے جوش کو شاعر اعظم تسلیم کر کے اپنے بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔فراق کا علمی تبحر ،ان کی بصیرت لا ثانی تھی۔فراق ہمیشہ شاعری کے افق پر تابناک ستارے کی طرح چمکتے رہیں گے۔

مسعود جعفری
ڈاکٹرمسعود جعفری

Dr.Masood Jaffri
TowliChowki , Hyderabad

Share
Share
Share