علامہ فضلِ حق خیرآبادی اور مرزا غالبؔ
سیّد تالیف حیدر
موبائل :09540321387
ابنِ عبداللہ بیگ، نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ اپنے زمانے کی نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔مرزا جتنے عظیم شاعر تھے اتنے ہی اعلیٰ معیارِ علم و ادب احبابِ زمانہ انھیں میسّر ہوئے ۔ اکبر آباد سے قلعہ معلی تک ان کی صحبتوں کا معیا ر بدلتا رہا۔غالبؔ کی زندگی کا اک بڑا حصّہ دہلی میں گزرا اور دہلی کی خاک سے ابھر کر ہمیشہ کے لئے اسی کے ہو کر رہے اس لئے دہلوی مشہور ہوئے ،دہلی جو سر زمینِ شعر و سخن ،مجلسِ علم وادب اور مرکزِ روحانیت ہے۔اس شہر میں مرزا نوشہ کو جہاں کئی علماو فضلائے بے بدل نصیب ہوئے وہیں دو ایسے حضرات سے ان کی رسم و راہ ہوئی جو علومِ عقلیہ و نقلیہ کے ماہر، منقولات و معقو لات کے جلیل القدر اساتذۂ اکرام تھے ۔علامہ فضلِ حق خیرآبادی اور صدرالصدور مفتی صدرالدین آزردہؔ ان دونوں حضرات سے مرزا غالبؔ کے بہت قریبی دوستانہ مراسم تھے ۔علامہ فضلِ حق خیرآبادی اوراسداللہ خاں غالبؔ میں ایک بات یہ بھی مشترک تھی کے یہ دونوں صاحبان ہم سن تھے اور ۱۷۹۷ ء کو اس جہانِ فانی میں آئے جب کہ مفتی آزردہ ؔ ،غالبؔ اور علامہ فضلِ حق سے نو سال بڑے تھے۔ہم عصر اور ادبی و شعری ذوق کے لحاظ سے ہم مزاج و ہم معیار ہونے کی وجہ سے ایک دہائی کا فرق اکثر نظر انداز ہو جاتا ہے اوریہی مفتی آزردہؔ اور کے ان دونو ں دوستوں کے درمیان ہوا۔غالبؔ کے علاوہ دہلی میں موجود دوسرے بڑے شاعروں کے بھی آزردہ سے دوستانہ مراسم تھے ۔ذوقؔ ، مومن ؔ اور شیفتہؔ وغیرہ کو ان میں شمار کیا جا سکتا ہے مگر علامہ فضلِ حق خیرآبادی کے ساتھ غالب ؔ کے روابط وتعلقات زیادہ مستحکم تھے۔ علامہ فضلِ حق خیرآبادی کے سوانح نگار مولانا عبدالشاہد شیروانی علی گڑھ (متوفی ۱۴۰۴ھ؍۱۹۸۴) اپنی مستند اور معروف کتاب ’’باغی ہندوستان‘‘میں لکھتے ہیں:
’’مرزا غالب ؔ سے علامہ کے پر خلوص اور گہرے تعلقات تھے اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ دونوں بالکل ہم سن تھے۔دونوں ۱۲۱۲ھ مطابق ۱۷۹۷ ء میں پیدا ہوئے تھے ۔مفتی صدالدین خاں آزردہؔ ’’ثالثِ ثلٰثہ‘‘تھے۔تینوں ایک جسم کے لئے اَبعادِ ثلٰثہ (طول ، عرض،عمق)کا حکم رکھتے تھے۔ جس طرح جسم اپنے اَبعاد کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتااسی طرح ان تینوں کو جسمِ خلوص و محبت سے علیحدہ نہیں کیاجاسکتاہے‘‘(۱)۔اس بات سے قطعِ نظر کہ ان تینوں حضرات کے باہمی تعلقات کس حد تک استوار تھے، میں صرف علامہ فضلِ حق اور غالبؔ کے متعلق گفتگو کروں گا۔
مشّاطہ را بگو کہ براسبابِ حسنِ یار
چیزے فزوں کند کہ تماشا بما رسید
دہلی میں علما کی دو جگہ نشست تھی۔ایک علامہ کے یہاں دوسری مفتی صدرالدین خاں آزردہؔ کے دولت کدے پر ۔علامہ کے علمی دربار میں آٹھویں روز شعر ائے دہلی کا بھی اجتماع ہوتا تھا۔مرزا غالبؔ دہلوی علامہ فضلِ حق خیرآبادی کے علمی مقام و مرتبے سے کس قدر آگاہ اور معترف وقدرداں تھے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب علامہ فضلِ حق ریزیڈنسی کمشنری سے مستعفی ہوکر نواب جھجھر (پنجاب)کی دعوتِ اصرار پر دہلی سے رخصت ہونے لگے تو ولی عہد سلطنتِ مغلیہ بہادر شاہ ظفرؔ نے بوقت روانگی اپنا ملبوس دوشالہ علامہ کو اوڑھاکر کہا’’چوں کہ آپ جانے کو تیار ہیں اس لئے میرے پاس بجز اس کے کوئی چارۂ کار نہیں کہ میں بھی اسے منطور کروں مگر خدا عظیم ہے کہ لفظِ وداع زبان پر لانا دشوار ہے‘‘(۲)۔(ترجمہ از فارسی) ۔اس جدائی سے مرزا غالبؔ نہایت مضطرب ہوئے اور اخبار آئینہ سکندر میں اشاعت کے لئے مولوی سراج الدین کے نام لکھے گئے اپنے ایک خط میں مرزا غالبؔ رقم طراز ہیں۔’’ واضح رہے کہ حکام کی قدر شناسی نے یہ رنگ دکھایا کہ فاضلِ بے نظیر و المعیِ یگانہ مولوی فضلِ حق نے سر شتہ داریِ عدالت دہلی سے مستعفی ہوکرخود کو اس کے ننگ و عار سے آزادی بخشی۔حقیقت یہ ہے کہ مولوی فضل حق کے پایۂ علم و فضل و دانش و بینش کی متاع کے سو ٹکڑے کئے جائیں اور عہدۂ سرشتہ داریِ عدالت سے اس کے ایک کم تر جز اور ٹکڑے کا موازنہ کیا جائے تب بھی وہ عہدہ اس کم تر جز و حصے کے مقابلے میں ہیچ ہوگا‘‘(۳)۔(ترجمہ از فارسی) ۔ علامہ فضلِ حق خیرآبادی کے متعلق میں ان کے تعارف کے طور پر سر سید احمد خان کی معرکہ ء آرأ تصنیف ’’آثار الصنادید‘‘کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جو انھوں نے علامہ فضلِ حق کے لئے تحریر کیا ہے۔لکھتے ہیں:
’’مستجمع کمالات صوری ومعنوی جامع فضائل ظاہری و باطنی ،بنّاء بنای فضل وافضال بہارآرائی چمنستان کمال،متکی ارایکِ اصابت رای مسند نشین دیوان افکارِ رسای،صاحب خلق محمدی مورد سعادات ازلی وابدی ، حاکم محاکم مناظرات،فرمان روای کشور محاکمات،عکس آئینہ صافی ضمیری،ثالث اثنین بدیعی وحریری،المعی وقت و لوزعی آدان، فرزدق عہدولبیددوران ،مبطل باطل ومحقق حق مولانا محمد فضلِ حق‘‘(۴)۔
مندرجہ بالا عبارت میں القاب وآداب سے مولانا کی عظمت اور ان کے رتبے کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،سر سید کے حصولِ علم کا رشتہ بھی علامہ فضلِ حق کے خانوادے سے جڑتا ہے اور علامہ کے والد فضلِ امام خیرآبادی رشتے میں ان کے دادا استاد ہوتے ہیں،الغرض یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ مولانا فضلِ حق اپنے عہد کے جیّد علماء میں شمار کیے جاتے تھے ،اور اب تک ان کی علمی عظمت و حیثیت اہلِ علم کے نزدیک مسلم ہے ۔علامہ تیرہ برس کی عمر میں تمام مروجہ علومِ عقلیہ و نقلیہ سے فارغ ہوگئے تھے اور چار مہینے کچھ دن میں انھوں نے قرآن شریف حفظ کر لیا، بعد ازاں اپنے والد فضلِ امام خیرآبادی سے تحصیلِ علوم و فنون کے ساتھ آپ کے شاگردوں میں سے اپنی عمر سے بعض بڑے طلبہ کو درس بھی دیاکرتے تھے۔علامہ نے تکمیل علوم کے بعد مختلف ادوار میں مختلف مقامات کے اعلیٰ مناصب پر فائز رہ کر بھی درس و تدریس و تصنیف و تالیف کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھا۔یہی وجہ ہے کہ ملک کے متعدد مشاہیر علماے کرام آپ کے شاگرد ہوئے اور تصنیفات کا ایک قابلِ قدر ذخیرہ بھی آپ نے چھوڑا۔ عربی زبان میںآپ کے رسالے اور کتابوں کی کل تعداد سولہ ،سترہ ہے ۔ ھدیہ سعیدیہ اور شاہ اسمٰعیل دہلوی کی کتاب ’ ’تقویت الایمان‘‘ کے جواب میں ’’امتناع النظیر‘‘جیسی مشہورِ زمانہ کتابیں علامہ نے تحریر کیں۔امتناع النظیر کے مسئلے پر علامہ نے غالبؔ سے بھی ایک مثنوی رقم کروائی۔ یہ سارے مسائل و معاملات آگے ترتیب سے مذکور ہوں گے۔بہر کیف میرؔ نے یہ شعر علامہ جیسی شخصیات کے لئے ہی کہا ہوگا جو انسانیت کے لئے باعثِ افتخار ہیں۔
مت سہل ہمیں جانو ،پھرتا ہے فلک بر سوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
مرزا اسد اللہ خاں غالب ؔ کے متعلق یہ بات بہت مشہور ہے کہ مرزا اپنے عہدِ طفلی سے ہی اشعار کے معاملے میں مشکل پسند واقع ہوئے تھے اور رومیؔ ،سعدیؔ ،خسروؔ ،حافظؔ ، جامیؔ ،عرفیؔ ، فیضیؔ ، نظیریؔ ، ظہوریؔ ، اور بیدلؔ کے طرزِ شاعری کو اہمیت دیتے تھے۔ ان میں سے کچھ سے تو وہ اتنے متاثر ہوئے کہ مرزا کی شاعری پر انھیں کا رنگ غالب ہوگیا جس میں مرزا عبدالقادر بیدل ؔ عظیم آبادی کا نام سب سے زیادہ نمایاں اور اہم ہے۔جن کے کلام کا پچھتّر فیصد رنگ غالبؔ کے ابتدائی اشعار میں جھلکتا ہے۔ہندوستان میں فارسی شاعری کے حصّے میں انھیں صرف حضرت امیر خسروکے کلام نے ہی اپنی طرف راغب کیا ،باقی سب کو مرزا ہیچ گردانتے تھے ۔ہاں اگر خسروؔ کے بعد تھوڑی بہت اہمیت فارسی دانی میں مرزا کے وسیلے سے کسی کے حصّے میں آئی تووہ شیخ مبارک کے لڑکے اور مغل بادشاہِ وقت اکبر کے دربار کے ایک رتن فیضیؔ ہیں۔اس طرز وروش کی وجہ سے مرزا کے متعلق یہ بات مشہور تھی کہ مرزا مشکل پسند ہیں او ریہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مرزا کی اس مشکل پسندی کو اُن کے عہد نے نہیں اپنایا۔ مرزا غالبؔ کی عمر جب تیرہ ،چودہ برس کی رہی ہوگی تو نا خداے سخن میر تقی میرؔ جو مرزا کے آبائی علاقے سے ہی تعلق رکھتے تھے ،انتقال کر گئے،خواجہ الطاف حسین حالی ؔ اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’’یاد گارِ غالب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ، مرزا کے بچپن کے دوست نواب حسام الدّین حیدر خان کے والد ناظر حسین نے مرزا کاکلام میرؔ کو دکھا یا تھا جس پر میرؔ نے میرزا کے متعلق اپنا یہ تاثر بیان کیا کہ:
’’اگر اس کو کوئی کامل استاد مل گیا ، اور اُس نے اس کو سیدھے راستے پر ڈال دیا تو لا جواب شاعر بن جائے گا ،ورنہ مہمل بکنے لگے گا‘‘(۵)۔خواجہ حالیؔ نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ بات خود مرزا کی زبانی سنی گئی ۔ میرؔ جیسے شاعر نے یقیناایسا کچھ تو مرزا کے کلام میں ضرور دیکھا ہوگا جو کئی پردوں کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا اورنا خدا ے سخن کو اس بات کا اندازہ ہوگیا ہوگا کہ آنے والے عہد کا مفکر یاشاعر بھی مرزا کی شاعری پر پڑے اتنے پردوں کو ہٹانے کی لیاقت شائد نہ رکھ سکے کہ مرزا کے اشعار کی تہ تک پہنچ سکے۔وہ جتنے پردے ہٹا تا جائے گا اتنے اور پردے اس کے سامنے آتے جائیں گے اور تھک ہار کر مرزا کی شاعری کو مہمل قرار دے دیا جائے گا۔لہذٰا اگر ابھی اس بات کا احساس مرزا کو دلا دیا جائے کہ ’مدعیٰ عنقا ہے ان کے عالمِ تقریر کا ‘ تو شائد کچھ سدھار ہوسکتا ہے۔
Syed Taleef Hyder
F-8,Cosmo appt,Street no 12,
Zakir Nagar,Okhla, New Delhi,
Pin : 110025
Mobile : 0935031100
مکمل مضمون پی دی ایف میں پڑھیں
Click to access Allama-Fazl-e-Haq-khairabadi-or-Mirza-Ghalib_convert-Notepad.pdf