یادگارِغالب(سوانح) کی تلخیص
مہتاب عالم فیضانی (احمد آباد گجرات)
شعبۂ اردو مانو یونیورسٹی حیدر آباد
اسداللہ خاں غالبؔ کا خاندان ترکی کے’’تورانی،، خاندان سے تعلق رکھتا تھا، انکے دادا ترکی سے ہندوستان آئے تھے اور پھر یہیں پر سکو نیت اختیار کرلی۔ انکے والد کچھ دنوں تک حیدرآباد میں مقیم رہے پھر ’’ فیض آباد ،، کو اپنا دائمی مسکن بنا لیا۔غالب کی شادی کم عمری میں ہی فیض آباد میں ہو گئی اور یہ گھر جمائی بن کر رہا کرتے تھے۔لیکن انہوں نے دہلی کو اپنا جائے مسکن بنا یا اور ہمیشہ کے لئے دہلی چلے گئے۔چونکہ انکے والد دربارسے وابستہ تھے اس لئے انکے انتقال کی بعد غالب کو پنشن ملنا شروع ہو گیا جس کے سہارے انکے گھر کا حقہ پانی چلتا تھا، لیکن غدر میں ان پر بغاوت کا الزام لگنے کی جہ سے پنشن بند ہو گئی اور تین سال تک بند رہنے کے بعد جب یہ الزامات سے بَری ہو گئے تو ان کی پنشن پھر سے بحال ہو گئی۔
اگر غالبؔ کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ مرزا کی زندگی ہمیشہ پریشانیوں میں گھری رہی ہے ،کچھ انکی اپنی حرکتوں کی وجہ سے تو کچھ سماوی اور قدرتی آفتوں کی وجہ سے۔ جہاں ایک طرف پنشن بند ہونے کی وجہ سے پریشان تھے وہیں دوسری طرف اپنے بھائی’’مرزا یوسف،، کی مجنو نیت نے انکو پریشان کر رکھا تھا۔اسی طرح انکے مزاج میں نفاست ہونے کی وجہ سے انکو دربار سے دور رہنا پڑا،اور پھر انکی اپنی انا نیت نے انکو ملازم بن کر مدرسہ میں پڑھا نے سے روک دیا۔حالانکہ ایسے مواقع مرزا ؔ کو بہت ملے کہ انکی زندگی خوشحال ہو سکتی تھی لیکن شاید وہ اپنی دھن کے پکّے تھے۔اور اسی وجہ سے انہوں نے دہلی کالج میں پڑھا نے سے منع کردیا۔اسکے علاوہ انکو دربار میں عزت نہ ملی،جیل کے چکر لگائے، کوئی اولاد باقی نہ رہی،جس بھتیجے سے بے حد محبت کرتے تھے وہ بھری جوانی میں چل بسا،بغاوت کا الزام لگا، پنشن بند ہو گئی ،یہاں تک کہ غالبؔ پریشانیوں سے تنگ آکر مرنے کی دعا کرنے لگے۔
لیکن ان تمام پریشانیوں کے باوجود مرزاؔ کی طبیعت میں حد درجہ شوخی پائی جاتی تھی اور ظرافت انکی فطرت میں داخل تھی اسی لئے تو حالیؔ نے غالبؔ کو ’’حیوانِ ظریف ،، کہا ہے۔اسلئے غالبؔ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ پر ہنستا ہے۔غالب ؔ اپنی پریشانیوں پر سر نہیں پیٹتے ہیں بلکہ اسکو لطیفہ بنا کر خودہنستے ہیں اور دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں۔حالیؔ لکھتے ہیں کہ غالبؔ جب شطرنج کے جرم میں سزا کاٹ کر آئے تو کسی نے انکو رِہا ہونے کی مبارکبادی دی تو جواب میں کہتے ہیں’’کون بھڑوا قید سے چھوٹ کر آیا ہے پہلے گورے(انگریزوں)کی قیدمیں تھا اب کالے کی قیدمیں ہوں،،(غالب ؔ کالے خاں کے مکان میں رہا کرتے تھے)۔اسی طرح جب انکی پنشن بند ہو گئی تو احباب ان سے خط میں پنشن کے بند ہونے پر افسوس جتاتے تھے۔تو غالبؔ اسی طرح کے مضون کے خط کے جواب میں لکھتے ہیں’’کچھ کھانے کو نہ ملا تو غم تو ہے،،یہ انکی ہمت کی بات تھی کہ وہ اپنے دُکھ درد کا رونا نہیں ورتے تھے اسکو چُٹکُلا بنا کر خودبھی ہنستے تھے اور دوسروں کوبھی ہنساتے تھے۔
اکثر انکی زبان لطیفے سے تر رہا کرتی تھی،یہاں صرف ان لطیفوں کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے جسکو حالیؔ نے’’ یادگارِ غالب،، میں بیان کیا ہے۔جیسے:’’رَتھ،، مؤنث ہے یا مذکر؟۔اسی طرح ایک انگریز نے ان سے سوال کیا کہ تم مسلمان ہو یا ہندو؟ تو جواب دیتے ہیں:شراب پیتا ہوں سُوّر نہیں کھاتا ہوں۔اسی طرح ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں:گالی بھی نہیں دینے آتی بوڑھے آدمی کو بیٹی کی گالی دینی چاہئے۔اسی طرح ایک جگہ کہتے ہیں: رمضان کے مہینے میں شیطان کو یہں پر قید کیا جاتا ہے جہاں ہم ’’چوسر،، کھیل رہے ہیں۔مذکورہ بالا کے علاوہ اور بھی بہت سے لطیفے ہیں جنکو طوالت کی وجہ سے چھوڑنا پڑ رہا ہے۔
مرزاؔ علم و فن کے اعتبار سے یکتائے روز گار تھے، انکو اپنی فارسی زُبان دانی پر بڑاہی ناز تھا،اور وہ اپنے اس دعویٰ میں سچے بھی تھے۔غالبؔ اپنی فارسی شاعری پر فخر کرتے تھے،اور وہ کہتے بھی تھے کہ’’ میری فنکاری دیکھنا ہے تو میرا فارسی کلام پڑھو،،۔لیکن اردو میں بھی انہوں نے جو خدمات انجام دئے ہیں وہ بھی قابلِ رشق ہیں۔کہا جاتاہے کہ اگر غالبؔ سے ملنا ہے تو انکی فارسی کلام کو پڑھو،لیکن اردوکلام کو بھی پڑھنے سے ہم غالبؔ کو جان سکتے ہیں۔اتنی پربشانیوں اور تکلیفوں میں گھرے رہنے کے باوجود انہوں نے’’بادِمخالف،،جیسی مثنوی لکھی’’مہر نیم روز،، اور’’ ماہ نیم ماہ،،لکھی اور ’’قاطع برہان،،کے ذریعہ تو انہوں نے بحث و مباحثہ کا ایک دروازہ ہی کھول دیا، یہا ں تک کہ انکی اس کتاب کے خلاف کئی رسالے نکالے گئے۔جہاں ایک طرف ’’دستنبو،،جیسی کتاب تصنیف کی وہیں دوسری طرف اپنے خطوط کو ایک نئے فن کے طور پر متعارف کروایا، اور اسکے ذریعہ ’’مراسلہ،، کو ’’مکا لمہ،،میں بدل دیاجسکو ادب کے لوگ سرِ خم تسلیم کرتے ہیں۔الغرض جہاں انہوں نے اپنی سُخن دانی کا لوہا منوایا وہیں اپنے قرطاس کے جادو سے لوگوں کو مسحوربھی کیا۔
مرزاؔ کے اخلاق بہت ہی وسیع تھے،ایک بار ملنے والا ان سے بار بار ملنے کی خواہش کرتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ انکے دوست صرف دہلی میں نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں تھے۔انکی دوستی میں ملّت ومذ ہب امیری وغریبی کی وجہ سے کوئی روکاوٹ نہیں ہوا کرتی تھی۔اسکا ثبوت وہ ڈھیر سارے خطوط ہیں جسکا جواب لکھنے میں وہ اپنی بیماری کو بھی بھول جاتے تھے۔اور مرض الموت میں بھی وہ خطوط کا جواب پابندی سے دیا کرتے تھے،وہ خود کہتے ہیں کہ’’جب کسی کا خط آتا ہے تو مجھے لگتاہے،وہ شخص سے ملنے آیاہے۔
غالبؔ میں فراخ دلی اتنی تھی کہ کوئی سائل انکے درسے خالی نہیں جاتاتھا، چاہے وہ فقیر ہندو ہو یا مسلم ہو،اور یہ حال غدرسے پہلے خوشحالی کے دنوں میں تھااور غدرکے بعد بدحال کے ایام میں بھی رہا۔حالانکہ مرزاؔ کی پوری زندگی پر نظر ڈالی جائے تو بہت زیادہ کشادگی نہیں تھی ،پھر بھی مرزاؔ کی مرغوب غذا’’گوشت،، تھی، اور’’آم،،کے بھی بہت شوقین تھے،مرزاؔ میں خودداری بھی بہت زیادہ تھی،انکی پوری زندگی تنگ دستی میں گزر گئی لیکن انہوں نے علانیہ طور پر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔البتہ.پنشن کے لئے انہوں نے کافی دوڑدھوپ کی اور اسکی بحالی کے لئے کوشاں رہے،اور یہ اسلئے کہ انکا حق تھا ورنہ اسکو بھی چھوڑ دیتے،اگر کوئی ان سے ملنے آتا تو یہ بھی جاتے اور نہیں آتا تو یہ بھی نہیں جاتے پھر چاہے وہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو۔
غالبؔ کے مذہب کے بارے میں لوگوں نے الگ الگ رائے دی ہے۔بعض انکو شیعہ کہتے تھے اور بعض سُنی مسلمان کہتے تھے،اور یہ معاملہ انکے مرنے کے بعد بھی حل نہ ہو سکا(آج بھی کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے)،اسلئے انکی وفات کے موقع پر شیعہ وسُنی میں مبا حثہ ہو گیا کہ جنازہ کی نماز کس طریقہ پر پڑھائی جائے۔لیکن حالیؔ نے کہا ہے کہ غالبؔ پکے مسلمان تھے اور دلیل بھی دی ہے، اور یہ کہا ہے کہ مرزاؔ نے تمام فرائض وعبادات اور واجبات میں صرف دو چیزیں لیں(۱)توحیدوجودی(۲)نبی اور اہلِ بیت کی محبت۔
یہ بہت ہی اہم بات ہے کہ غالبؔ میں راست گوئی کوٹ کوٹ کر بھری تھی،کوئی کچھ بھی کہے کتنابھی بڑا آدمی ہو،سچ بات کہہ کر ہی رہتے تھے۔بہت سے لوگ مرزاؔ سے کے پاس تقریظ لکھواتے تھے تاکہ انکی تصنیف مقبول ہو،لیکن مرزاؔ جو سچ ہوتا تھا وہی لکھا کرتے تھے،وہ کسی کو تعریفی کلمات سے جلدی نہیں نوازتے تھے۔لیکن اگر کسی میں قابلیت ہوتی تھی جو انکو متأثر کردیتا تو اسکی تعریف ضرور کیا کری تے تھے،جیسا کہ انہوں نے اپنی مثنوی’’ورودِ داغ،، کے ایک مصرعہ کو’’مکرانی،،کے کہنے پر بدل دیا،اور ’’منشی بنی بخش،، کے لئے کہتے تھے کہ ’’اللہ پاک نے آدھی سُخن فہمی انکو دی ہے،، اور باقی آدھی میں پوری دنیاہے۔انکے زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہیکہ انہوں نے کسی کی ہَجو نہیں جبکہ شاعروں کا اکثر کام دوسروں کی ہَجو کرنا ہوتاہے۔صرف ایک شخص کی ہجو کی وہ بھی’’ہجوِ ملیح،، جو نہ کے درجہ میں ہے،چونکہ ’’ہجوملیح،، کا مطلب ’’میٹھی بُرائی،،ہے،یا آٹے میں نمک کے برابر بُرائی کو کہتے ہیں۔
آخری عُمرمیں مرزاؔ کی حالت بہت دیگر گوں ہو گئی تھی، اپنے بستر سے اٹھ بھی نہیں پاتے تھے، کھانا پینا سب ایک ہی جگہ ہوتا تھا، اور حالیؔ نے یہ بھی لکھا ہے کہ’’غالبؔ اپنی آخری عُمر میں موت کی تمنا کرنے لگے تھے۔شایداسلئے کہ انکی پوری زندگی پریشانیوں میں گزری تھی،اور شاید انکے پاس جینے کی کوئی وجہ بھی نہ بچی تھِی،جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انکی کوئی بھی اولاد زندہ نہ ہی تھی،آخری ایک لمبے عرصہ تک مرض الموت میں مبتلا رہنے کے بعد۷۳ سال کی عُمر میں ۱۸۶۹ ء میں رحلت فرما گئے۔
لیکن اس ۷۳ سال کی عُمر میں انہوں نے جوکر دکھایا تھا،زمانہ آج بھی اسکی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔اوربڑے بڑے ادیب انکے اشعار کی گتھیوں کو سلجھانے میں لگے ہیں لیکن صرف ایک شعر کونہ سلجھا سکے جو انکے دیوان کا پہلا شعر ہیت حالا نکہ بہت سے لوگوں نے اپنے مطابق اسکی تشریح کردی ہے:
نقش فریادی کس کس شو خئی تحریر کا کاغذی ہے پیر ہن ہر پیکرِ تصویر کا۔
اور گویا غالبؔ شادؔ کے اس آنے والے شعر کو اپنے لئے کہتے گئے ہیں:
ڈھونڈوں گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کو نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جسکی حسرت وغم اے ہم نفسوں وہ خواب ہیں ہم
۔