افسانہ : آخر ی سفر
شاہ نواز شاہ
موبائل : 09949204759
ٹرین نکلنے میں صرف پانچ منٹ باقی تھے۔روی ابھی تک اسٹیشن نہیں پہنچ پایا تھا‘میں اُس کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا ‘وہ وقت پر نہیں پہنچ پایا تو میں بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکوں گا کیونکہ میرا ٹکٹ بھی اُسی کے پاس تھا‘جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا تھا‘ ویسے ویسے میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جارہی تھیں۔اچانک روی لوگوں کے ہجوم کو چیرتا ہوامیرے سامنے ہانپتا کانپتا آیا اور کہنے لگا۔
’’ ارے یار ارشد ‘ شہر میں اتنی ٹرافک بڑھ گئی کہ وقت پر کہیں پہنچنا مشکل ……..‘‘
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’اب چلو بھی‘ ساری کہانی یہیں سناؤ گے تو ٹرین چھوٹ جائیگی۔‘‘
روی نے اپنی پھولتی ہوئی سانس کو قابو میں کرتے ہوئے کہا۔’’ہاں ‘ہاں.. چلو بھئی…میں نے کب منع کیا۔‘‘
ہم جلدی سے ٹرین میں سوار ہوگئے۔ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ٹکٹ ماسٹر آیا اور ٹکٹ دکھانے کو کہا۔ہم نے ٹکٹ دکھلایا ۔
ٹکٹ ماسٹر کہنے لگا۔’’آپ لوگ غلط سیٹ پر بیٹھ گئے‘ آپ لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ آپ کے ٹکٹ پر کونسا بوگی نمبر درج ہے۔‘‘
میں نے کہا۔’’ نمبر تو یہی ہے‘‘
ٹکٹ ماسٹر کہنے لگا۔’’آپ کا نمبریہاں نہیں بلکہ بازو والی بوگی میں ہے۔‘‘
ہم نے غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ بوگی نمبر غلط ہے۔ہم لوگ جلد بازی میں دوسری بوگی میں بیٹھ گئے تھے۔ میں نے روی سے قدرے ناراضگی سے کہا۔’’روی! یہ سب تمہارے وقت پر نہ پہنچنے کا نتیجہ ہے۔‘‘
ٹکٹ ماسٹر نے کہا۔’’آپ لوگ اگلے اسٹیشن پر بازو والی بوگی میں چلے جائیں۔‘‘ ہم لوگ اگلے اسٹیشن پر اپنی بوگی میں جاکر بیٹھ گئے۔
ٹرین اپنی پوری رفتار کے ساتھ رات کی تاریکی میں سرد ہواؤں کے سینے کو چیرتی ہوئی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ رات کے تقریباً نو ساڑے نو کا وقت ہوگا ‘سب لوگ کھانے کی تیاری کررہے تھے۔میں نے بھی روی سے کہا۔
’’یار ہم بھی کچھ کھالیں۔‘‘
روی نے کہا’’ہاں ہاں !ارشد ‘کیوں نہیں ضرور‘‘
ہم دونوں کھانے سے فارغ ہوکر باتوں میں مصروف ہوگئے۔تھوڑی ہی دیر میں ایک اسٹیشن آیا۔پلیٹ فارم پر کئی آوازیں بلند ہونے لگی‘ایک چائے والے نے ہمارے ڈبہ کے قریب آکر آواز لگانے لگا۔
’’ چائے گرماگرم چائے‘ چائے کافی سگریٹ‘‘ ایسی ہی کئی اور آوازیں گونجنے لگیں۔
میں نے کہا۔’’روی سردی بہت ہے ‘ چلو چائے پیتے ہیں۔‘‘ ابھی ہم نے چائے کے دو گھونٹ حلق سے اُتارے ہی تھے کہ اچانک ایک زودار چیخ سنائی دی۔ہم نے پلٹ کر دیکھا ‘ایک خاتون جو کھڑکی کے پاس بیٹھی ہے اپنے دونوں ہاتھوں سے کھڑکی کے اندر آئے ہوئے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑی ہوئی ہے اور زور زور سے چلارہی ہے بچاؤ بچاؤ۔
در اصل چور اس خاتون کے زیورات اُڑانے کی کوشش میں جیسے ہی گلے پر ہاتھ ڈالا‘خاتون نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔چور کے حوصلے پست ہوگئے‘ وہ اپنی جان بچانے کی فکر کرنے لگا۔جب لوگوں نے دیکھا کہ چورخاتون پر حملہ آور ہے تو اسٹیشن پر کھڑے ہوئے لوگوں نے اس کو پکڑ لیا اور پولیس کے حوالے کردیا۔ نہ جانے چور اس خاتون کے زیورات پر کب سے نظر جمائے ہوا تھا ۔جب ٹرین چلنا شروع ہوئی تو اچانک چور اس خاتون پر جھپٹ پڑا تھا۔لیکن خاتون کی بروقت ہوشیاری سے چور کے منصوبہ پر پانی پھر گیا۔
ٹرین اسٹیشن چھوڑ چکی تھی۔لوگ آپس میں چیمہ گوئیاں کرنے لگے کہ عورت نے بہت ہی دلیری سے چور کا مقابلہ کیا ‘ورنہ چور اپنے ارادہ میں کامیاب ہوجاتا وغیرہ۔ ہم لوگ سونے کی کوشش کررہے تھے لیکن اس حادثہ کے بعد نیند ہم سے کوسوں دور ہوگئی۔ٹرین اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔جیسے جیسے رات جواں ہوتی جارہی تھی ویسے ویسے سردی اپنے شباب کو پہنچ رہی تھی۔سردی سے بچنے کے لئے میں نے اپنا محرومہ اور جاکیٹ نکالاجاکیٹ پہن لی اور محرومہ سرپرلپیٹ لیا۔روی نے بھی جاکیٹ پہن لیا‘ میں نے روی سے کہا۔
’’یار تم بھی مفلر سر پر لپیٹ لو ورنہ سردی ہوجائیگی۔‘‘
روی نے جواب دیا۔’’نہیں ارشد‘ مجھے ابھی اتنی سردی نہیں ہورہی ہے جب ٹھنڈ لگے گی تو دیکھا جائے گا۔‘‘
رات کے پچھلے پہر سرد ہوا کے جھونکے بند دروازوں اورکھڑکیوں کی سانوں سے داخل ہورہی تھی جو سردی کا احساس دلا رہی تھی ۔
کچھ ہی دیر میں سردی اپنے شباب پرپہنچ گئی تو روی نے کہا۔ ’’یار مجھے سر میں بہت درد ہورہا ہے شایدسردی کی وجہہ سے۔‘‘
یہ سنتے ہی میں نے اپنا محرومہ روی کے سر پر لپیٹ دیا۔اب روی آرام سے اپنے برتھ پر سورہا تھا۔
کچھ وقت گذرا تھا کہ اچانک ٹرین میں کھلبلی مچ گئی‘ خبریں آنے لگیں کہ شہر میں دنگے بھڑک اُٹھے ہیں۔چاروں طرف دہشت کا ماحول نظر آنے لگا تھوڑی ہی دیر میں ٹرین ایک اسٹیشن پر پہنچ چکی تھی۔لوگ ٹرین سے اُترنے لگے۔ اسٹیشن پر دل دہلادینے والی خوفناک آوازیں بلند ہونے لگی۔بچاؤ بچاؤ‘ وہ دیکھو بھاگ رہا ہے ‘پکڑو اسے پکڑو‘ ماروں اُسے چھوڑو مت‘ کاٹ ڈالو اُسے…..!!
عورتیں ‘بچے مرد سب ہی پریشانی کے عالم میں بھاگ رہے تھے۔ اتنے میں کچھ تیغ بکف بلوائی ٹرین کے اندر داخل ہوئے اور قتل و غارت گیری کا بازار گرم کرنے لگے۔روی گہری نیند میں سورہا تھا میں نے اسے اُٹھایا اور حالات سے آگاہ کیا۔روی اور میں اپنا سامان سمیٹ کر نیچے اترنے والے ہی تھے کہ کچھ بلوائی ہماری طرف بڑھے۔ روی کے سر پر محرومہ دیکھ کر بغیر کسی سوال کئے اس پر حملہ آوار ہوئے میں نے مزاحمت کی لیکن بے سود‘ مجھے ڈھکیل دینے کی وجہہ سے میرا سر کھڑکی کی سلاخوں سے اس قد ر زور سے ٹکرایا کہ میں بے ہوش ہوگیا جب مجھے ہوش آیا تو روی خون میں لت پت پڑا ہوا تھا۔چاروں طرف سے کربناک آہوں کا شور سنائی دے رہا تھا‘ بلوائی اپنا کام کرچکے تھے‘میں نے وہاں کے لوگوں سے مدد لی اور روی کو قریبی ہاسپٹل لے گیا۔اس کی حالت بہت ہی نازک تھی۔ڈاکٹروں نے چوبیس گھنٹے کا وقت دیا۔میں نے روی کے گھر فون کرکے ساری تفصیل بتادی۔
روی نے چند سکنڈ اپنی آنکھیں کھولیں اور بند کرلیں۔میں اس کے پاس ہی کھڑا تھا ‘وہ میری طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو۔
’’میں ابھی مرنا نہیں چاہتا ہوں‘‘
میں بے بسی سے اُسے دیکھتا رہ گیا۔ڈاکٹروں کی ٹیم نے معائنہ کرنے کے بعد میری جانب اس طرح دیکھا کہ میں سمجھ گیا کہ روی اب اس دُنیا میں نہیں رہا۔
چند گھنٹے بعد روی کے ماں باپ وہاں پہنچ گئے‘اپنے بیٹے کی لاش دیکھ کر روپڑیں ‘روی کی ماں صدمہ کو برداشت نہ کرتے ہوئے زمین پر گرپڑی۔میں نے سہارا دیتے ہوئے کہا۔’’ جو ہونا تھا ہوگیا‘ روی نے میری موت اپنے سر لے لی‘ لیکن آپ لوگ فکر نہ کریں ‘روی اس دُنیا میں نہیں ہے تو کیا میں آپ لوگوں کا سہارا بنوں گا۔ تب روی کی ماں نے مجھے اپنے سینہ سے لگاکر بے ساختہ رونے لگی۔
میں صدمہ سے نڈھال کھڑا سوچتا رہا ۔
کاش! روی ٹرین چھوٹ جانے کے بعد آیا ہوتا تو مجھ سے جدا نہ ہوتا اور یہ اُس کاآخری سفر نہ ہوتا…..!
SHAHNAWAZ SHAH
H. No. 9-10-241, Risalabazar,
Golconda Fort, Hyderabad-500 008. (India. )
Cell: 9949204759 , 8341707561 (Office: 040-66329588
E-mail: –