جرمن شاعرجان وولف گانگ گو ئٹے
نظم ’ نغمۂ محمدیؐ ‘ کے تین تراجم: ایک تجزیہ
خان حسنین عاقبؔ
علامہ اقبال ٹیچرس کالونی، مومن پورہ، واشم روڈ، پوسد۔ ۴۴۵۰۰۴۔
. 09423541874
جان وولف گانگ گوئٹے Johann Wolfgang Von Goethe عیسوی سنہ 1749 میں جر منی کے شہر فرینکفرٹ میں پیدا ہوا اس نے اہلِ علم کے خاندان میں آنکھیں کھو لیں وہ یوں کہ اس کا باپ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اور اس کی ماں حا کمِ شہر کی بیٹی تھی۔ گوئٹے جرمن ادب کا سب سے عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ ابتداء ہی سے، بلکہ اپنی نو جوانی ہی سے گوئٹے کو اسلام اور مشرق سے بے حد دلچسپی تھی۔ اسی لئے اس نے عربی زبان بھی سیکھی تھی۔ گوئٹے کے خیال میں نئی ثقافتوں کی دریافت کے لئے ادب اور مذہب سے زیادہ کار آمد کو ئی اور ذرائع نہیں ہوسکتے اس لئے اس نے مشرقی ادب میں رومی ؔ اور حافظؔ کی شاعری کا اور ساتھ ہی ساتھ مذاہب کے ذیل میں زرتشت کی تعلیمات اور دینِ اسلام کا مطا لعہ کیا ۔مشرق اور اسلام سے گوئٹے کی دل چسپی اور مطالعہ کا دورانیہ ۱۸۱۴ سے ۱۸۲۷ عیسوی تک محیط ہے ۔ گوئٹے کی معر کۃالآرا ء کتاب ’ دیوانِ مغرب ‘ جس کا جرمن نام Divan West-246stlicher ہے، اسے جرمن ۔فارسی عہد کا ایک آغاز ہی کہا جاسکے گا جس کی ابتداء ۱۸۱۴ میں ہوئی جب اسے دیوانِ حافظؔ کی جرمن زبان میں آسٹر یائی مستشرق جوزف وون ہیمار پرگستال کی ترجمہ کردہ دو جلدیں مو صول ہوئیں۔جوزف کے تراجم اور تبصروں نے جرمن عوام کی دلچسپی مشرق کے مطالعہ میں بڑھانے میں بے حد اہم کردار ادا کیا۔ دیوانِ حافظ کے مطالعے نے جہاں ایک جانب گوئٹے کے
جوش میں اضافہ کیا وہیں اس نے مشرق کے ساتھ فکری transaction and dialogues کی راہیں بھی ہموار کیں۔ گوئٹے نے اپنی اس کتاب کے کئی عنوانات بدلے لیکن ہر عنوان میں اس نے لفظ ’دیوان‘ بر قرار رکھا، یہ اس کی علمیت اور شخصیت پر حافظؔ کے اثرات کا عکاس ہے۔ اس دیوان میں سو نظمیں ہیں جو جرمن زبان میں لکھی گئی ہیں کہ یہی گوئٹے کی مادری اور تخلیقی زبان تھی۔ گوئٹے کے اس دیوان کو مشرق و مغرب کے ادب کا حسین امتزاج کہا جاتاہے۔ اس کتاب میں کئی ابواب شامل ہیں اور ہر باب کے لئے فارسی اور جرمن ، دونوں زبانوں میں متبادلات دئے گئے ہیں۔ زیرِ مطالعہ نظم ’ نغمۂ محمدیؐ ‘ گوئٹے کی شہرۂ آفاق نظم ہے جس نے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ چونکہ گوئٹے کو جر منی کے قومی شاعر جیسی اہمیت حاصل تھی، اور اسے سارے عالم میں بڑی قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اس لئے اس کی اس نظم نے ایک بڑے طبقے کو اپنے دامِ اثر میں لے لیا۔ اس نظم کے کئی زبانو ں میں تراجم ہوئے ۔ یہ نظم گو ئٹے نے غالباً ۱۷۷۲ یا ۱۷۷۳ میں لکھی تھی جوسب سے پہلے G246ttinger Musenalmanach میں ۱۷۷۴ میں شائع ہو ئی تھی۔ اس نظم میں ایک نا بغۂ روزگار شخصیت، حضرت محمد ؐ کے لئے ایک’ جوئے آب‘ کی علامت اور استعارہ استعمال کیا گیا ہے جسے دھیرے دھیرے ایک عظیم دریا کی شکل اختیار کر تے دکھایا گیا ہے۔ یہ نظم در اصل آپ ؐ کی سیرت پر گوئٹے کے ایک غیر مطبوعہ ڈرامے کا حصہ تھی جسے پلے کر نے کا اس کا ارادہ تھا۔ لیکن وہ ڈرامہ اسٹیج ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، نظم نے ٖضرور گوئٹے کے اخلاص کو شرفِ قبولیت بخش دیا۔ اور اسے نہ صرف یہ کہ عالمگیر شہرت عطا کردی بلکہ اگلے وقت میں اسے عموماً مشرق اور خصو صاً علامہ اقبال ؔ سے نزدیک کر دیا۔ وولف گانگ گو ئٹے جرمنی کا وہ عظیم شاعر ہے جس کی تصنیف ’ پیغامِ مغرب‘ کے مطالعے نے اقبالؔ کو غور و فکر پر مجبور کیا اور پھر جواباً اقبالؔ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’ پیامِ مشرق‘ تخلیق کی۔اقبال ؔ نے گو ئٹے کے بارے میں کہ مشہور جملہ بھی کہا ہے کہ گو ئٹے ’’ نیست پیغمبر ولے دارد کتاب‘‘۔ اقبال نے گوئٹے کی نظم ’ Mohamet’s Gesang‘ کا آزاد ترجمہ بعنوان ’ جوئے آب‘ کیا ہے۔ پھر دوسرا ترجمہ اردو میں شان الحق حقی ؔ نے کیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہم آ پ کو جر من زبان کے فوراً بعد انگریزی میں لیسلی نو رِس کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں تا کہ آپ اس شہرۂ آفاق نظم کا لطف چار زبانوں میں لے سکیں۔ سب سے پہلے اصل جرمن زبان میں یہ نظم ملاحظہ کیجئے۔
MAHOMET’S GESANG
Johanne Wolfgong van Goethe.
Seht den Felsenquell,
Freudehell,
Wie ein Sternenblick;
220ber Wolken
N228hrten seine Jugend
Gute Geister
Zwischen Klippen im Geb252sch.
J252nglingsfrisch
Tanzt er aus der Wolke
Auf die Marmorfelsen nieder,
Jauchzet wieder
Nach dem Himmel.
Durch die Gipfelg228nge
Jagt er bunten Kieseln nach,
Und mit fr252hem F252hrertritt
Rei223t er seine Bruderquellen
Mit sich fort.
Drunten werden in dem Tal
Unter seinem Fu223tritt Blumen,
Und die Wiese
Lebt von seinem Hauch.
Doch ihn h228lt kein Schattental,
Keine Blumen,
Die ihm seine Knie umschlingen,
Ihm mit Liebesaugen schmeicheln:
Nach der Ebne dringt sein Lauf
Schlangenwandelnd.
B228che schmiegen
Sich gesellig an. Nun tritt er
In die Ebne silberprangend,
Und die Ebne prangt mit ihm,
Und die Fl252sse von der Ebne
Und die B228che von den Bergen
Jauchzen ihm und rufen: Bruder!
Bruder, nimm die Br252der mit,
Mit zu deinem alten Vater,
Zu dem ewgen Ozean,
Der mit ausgespannten Armen
Unser wartet
Die sich, ach! vergebens 246ffnen,
Seine Sehnenden zu fassen;
Denn uns fri223t in 246der W252ste
Gierger Sand; die Sonne droben
Saugt an unserm Blut; ein H252gel
Hemmet uns zum Teiche! Bruder,
Nimm die Br252der von der Ebne,
Nimm die Br252der von den Bergen
Mit, zu deinem Vater mit!
Kommt ihr alle! –
Und nun schwillt er
Herrlicher; ein ganz Geschlechte
Tr228gt den F252rsten hoch empor!
Und im rollenden Triumphe
Gibt er L228ndern Namen, St228dte
Werden unter seinem Fu223.
Unaufhaltsam rauscht er weiter,
L228223t der T252rme Flammengipfel,
Marmorh228user, eine Sch246pfung
Seiner F252lle, hinter sich.
Zedernh228user tr228gt der Atlas
Auf den Riesenschultern; sausend
Wehen 252ber seinem Haupte
Tausend Flaggen durch die L252fte,
Zeugen seiner Herrlichkeit.
Und so tr228gt er seine Br252der,
Seine Sch228tze, seine Kinder
Dem erwartenden Erzeuger
Freudebrausend an das Herz.
’نغمہۂ محمدیؐ ‘
ترجمہ اردو۔ شان الحق حقی۔
وہ پاکیزہ چشم
جو ، اوجِ فلک سے چٹانوں پر اُترا
درخشاں ستاروں کی تھی جوت جس کے بدن میں
سحابوں سے اوپر ، بلند آسماں میں پُر افشاں ملائک کی
چشمِ نگہدار کے سائے سائے
چٹانوں کے آغوش میں عہدِ بر نائی تک جوئے جولاں بنا
چٹانوں سے نیچے تھے اترے
وہ کتنے رنگا رنگ انگھر، خزب ریزے
دامانِ شفقت میں اپنے سمیٹے
بہت سے سسکتے ہوئے، رینگتے ہوئے، سست، کم مایہ سوتوں کو
چونکاتا، للکار تا، ساتھ لیتا ہوا خوش خراماں چلا
بے نمو وادیاں جاگ اٹھیں، لہلہا نے لگیں
جس طرف اس کا رُخ پھِر گیا
اس کے فیضِ قدم سے بہار آگئی
اس کے آگے ابھی اور صحرا بھی تھے
خشک لہریں بھی تھیں، اترے دریا بھی تھے
سب اسی سیلِ جاں بخش کے منتظر
جوق در جوق پاس اس کے آنے لگے
شور آمد کا اس کی اُٹھانے لگے
راہ بر ساتھ ہم کو بھی لیتے چلو
کب سے تھیں پستیاں ہم کو جکڑے ہوئے
راہ روکے ہوئے ، پاؤں پکڑے ہوئے
یاد آتا ہے مَسکن پرانا ہمیں
آسمانوں کی جانب ہے جانا ہمیں
ورنہ یوں ہی نشیبوں میں دھنس جائیں گے
جال میں اُن زمینوں کے پھنس جائیں گے
اپنے خالِق کی آواز کانوں میں ہے۔
اپنی منزل وہی آسمانوں میں ہے۔
گرد آلود ہیں ، پاک کر دے ہمیں
آ ! ہم آغوشِ افلاک کر دے ہمیں
وہ رواں ہے، رواں ہے رواں اب بھی ہے
ساتھ ساتھ اس کے اک کارواں ایسا بھی ہے۔
شہر آتے رہے، شہر جاتے رہے
اس کے دم سے سبھی فیض پاتے رہے
اُ س کے ہر موڑ پر ایک دنیا نئی
ہر قدم پر طلوع ایک فردا نئی
قصر اُبھرا کئے، خواب ہو تے گئے
شاہ اور شاہیاں خواب ہوتی گئیں
عظمتیں کتنی نایاب ہو تی گئیں
ہے وہ رحمت کا دھارا مسلسل رواں
از فلک تا ز میں
از زمیں تا فلک
از ازل تا ابد، جاوداں، بے کراں
دشت و در گُلشن و گُل سے بے واسطہ
فیضیاب اس سے
اور خود، کَل سے بے واسطہ۔
مکمل مضمون پی ڈیف میں پڑھیں
One thought on “گو ئٹے کی نظم ’نغمۂ محمدیؐ‘کے تین تراجم: ایک تجزیہ”
نیست پیغمبر ولیکن در بغل. دارد کتاب، یہ اقبال نے کارل مارکس کے بارے میں. کہا تھا، گوئٹے کے بارے میں. اگر کہا تھا تو وضاحت کردیں پلیز