افسانہ-: ویمپائر:۔از۔غزالہ پرویز

Share
غزالہ پرویز
غزالہ پرویز

ویمپائر

غزالہ پرویز
نارتھ ناظم آباد کراچی پاکستان

عاصم کی گھر سے نکلتے ہی سامنے فٹ پاتھ پہ لنگڑاتی سفید کبوتر پر نظر پڑی جس کے پاؤں سے بہتا خون ایک لکیر سا بناتا جا رہا تھا جسے پیاسی مٹی غٹا غٹ پیۓ جارہی تھی ۔۔ اور دوسری نظر اُس بلی پہ پڑی جو تاک لگاۓ چھپٹنے کو تیار تھی آنکھوں میں بھوک کی چمک لیۓ،کُھلے جبڑے سے تیز دانت نظر آتے ہوۓ ۔۔ عاصم نے جھٹ کبوتر کو اُٹھا لیا ۔۔ اور اُلٹے قدموں گھر میں داخل ہوا، ” فاخر جلدی سے فرسٹ ایڈ باکس لاؤ” ۔۔ ” تم جاؤ کالج کی بس نکل جاۓ گی، ہم سنبھال لیں گے ” ۔۔۔ امی نے اُس کے ہاتھوں سے کبوترلے لیا۔۔ ۔۔۔ عاصم نے اپنی انگلی اور ناخن میں اُترے سرخ رنگ اور سفید قمیض پہ لال چھینٹ دیکھتا رہا ۔۔۔ "ساجدہ بھائ کو دوسری قمیض دو،اس پر خون کے دھبے آگۓ ہیں” ۔۔۔ "بیٹا یاتھ دھو لو ۔۔” ۔۔۔
عاصم کالج پہنچا اور نوٹس بورڑ کے سامنے جا کھڑا ہوا ” فوٹو گرافی کا مقابلہ، تین لگاتار کلکز ۔۔ پیش کردہ تصویر، اُس سے پہلے کا منظر اور اُسکے بعد کا منظر۔۔ پہلا انعام ایک لاکھ ، دوسرا ٧٥ ہزار، تیسرا ٥٠ ہزار…” ۔۔ فارم جمع کرانے کی آج آخری تاریخ ، عاصم زیرِ لب بُڑبُڑایا ۔۔ اُسکی آنکھوں میں سفید کبوتر اُبھر آئ، نمایاں تصویر ۔۔۔

وہ آرٹس لابی میں پہنچا ۔۔ "تم آرٹس کے طالب علم تو نہیں ؟” ۔۔ "نہیں سر، میں کامرس میں ہوں ،لیکن تصویریں کھینچنا میرا شوق ہے” ۔۔ "یہ ایک مقابلہ ہے” ۔۔ "جی میں جانتا ہوں، اور مجھے فارم چاہیۓ ” ۔۔۔ میں پہلے تمہاری تصاویر دیکھنا چاہوں گا۔۔” ۔۔۔ "سر کل لادوں گا آج فارم دےدیں آخری دن ہے ۔”
” عاصم تم مقابلے میں حصہ لے رہے ہو ؟؟؟” ۔۔ "ہاں! میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔۔” ۔۔ ” دوست سوچ لو، کیا نیا پیش کرو گے ؟؟ ” ۔۔ "رضوان میں نے سوچ سمجھ کے فارم لیا ہے اور مجھے اس میں تمہاری مدد درکار ہے ، جو میں کہوں، جیسا میں کہوں ، اگر سچے دوست ہو تو ۔۔ اگر جیتا تو انعام کی رقم میں تمہارا بھی حصہ” ۔۔ ” میری جان تیرے لیۓ میرے دوست ۔۔” ۔۔ ” تمہارا نشانہ بازی کا مقابلہ بھی تو ہے ؟ ۔۔۔ ” ارے جگر فکر ہی نہیں وہ تو میں ہی جیتوں گا ، میرا نشانہ پکا ہے، مجھے کوئ نہیں ہرا سکتا ..”
عاصم گھر پہنچا تو دیکھا امی، باجی فاخر سبھی آنگن میں بیٹھے تھے اور سفید کبوتر جس کے پاؤں پہ پٹی بندھی تھی مزے سے دانہ چُگ رہا تھا ۔۔ ” دیکھیں بھائ کتنا پیارا ہے ، ہم اِسے پالیں گے” ۔۔ عاصم نے اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوۓ کہا "نہیں چھوٹے اِسے میں چورنگی پہ جو کبوتروں کی جگہ بنائ ہوئ ہے وہاں چھوڑ آؤں گا۔۔” ۔۔۔ "لیکن بھائ” ۔۔۔ فاخرعاصم کی ٹانگوں سے لپٹ گیا "بھائ پلیزززز۔” ۔۔ ” نہیں میں اسے آذاد کر دوں گا۔۔” ۔۔” فاخر چل چھوڑ بھائ کو، ساجدہ روٹیاں ڈال بھائ کے لیۓ ۔۔۔ جا بیٹا کپڑے بدل لے ۔۔۔” امی نے فاخر کو اسکی ٹانگوں سے الگ کرتے ہوۓ کہا۔
عاصم امی کی گود میں سر رکھ کے لیٹا تھا ۔۔ "افتخار بھائ آۓ تھے، اگلے مہینے ساجدہ کی رخصتی مانگ رہے ہیں” ۔۔ "یہ تو خوشی کی خبر ہے امی” ۔۔ "اگلے مہینے تک پیسوں کا انتظام کیسے ہوگا، بس یہی سوچ پریشان کر رہی ہے ۔ ” ۔۔ "امی مجھے ابا کا کیمرہ دےدیں۔۔ ” ۔۔۔ ” کیوں ؟ تیرے ابا کی وہی نشانی تو رہ گئ ہے میرے پاس، تیرے پاس اپنا ہے تو”۔۔ "امی میں نے فوٹوگرافی مقابلے میں حصہ لیا ہے، اور اسکے لیۓ تصویر ابا کے کیمرے سے لوں گا، آپ بس دعا کریں جیت جاؤں اور انعام کی رقم باجی کے لیۓ” ۔۔ "اللہ تمہیں کامیاب کرے، تو تو میرا فخر ہے” ۔۔۔
صبح کی پہلی سپیدی پہ عاصم اُٹھ بیٹھا ۔۔ امی آنگن کے نلکے کے سامنے پٹری پہ بیٹھی وضو کر رہی تھیں۔۔ "ارے آج تو خود ہی کیسے اُٹھ گیا ؟ خیر تو ہے نا ” ۔۔ جی امی آج جلدی جانا ہے رضوان کے نشانہ بازی کا مقابلہ ہے نا ۔۔” ۔۔۔۔ "بیٹا اُسے سمجھا، اس طرح کے شوق نہ پالے ، یہ نشانہ بازی اچھا شوق نہیں ۔ پتہ نہیں اُسکی ماں کیوں توجہ نہیں دیتی۔” ۔۔ "امی میں چھت پہ جا رہا ہوں ،وہیں نماز پڑھ کر کچھ کبوتر کی تصویریں بناؤں گا۔”
عاصم طلوعِ افتاب کے پس منظر میں زخمی کبوتر کی تصویریں بناتا رہا ۔۔ ہر کلک اسکے اندر کے جذبے کو شدید ترین کرتی رہی ۔۔۔۔
رضوان اور عاصم روز کبوتر کو ساتھ لیۓ مختلف پس منظر میں تصاویر بناتے اور اگلے دن کے لیۓ نۓ مناظر تلاش کرتے۔۔۔ اور آخر عاصم کو وہ جگہ مل گئ جہاں سے کبوتروں کی چورنگی کی تصویر باآسانی لی جا سکتی تھی ۔۔۔۔ "عاصم مقابلے میں تو ایک سے ایک تصویریں ہوگیں ، تمہیں کیسے یقین ہے تمہاری تصویر شامل بھی ہوگی یا نہیں ۔۔”۔۔۔ لیکن جب عاصم نے اُسے اپنا خیال بتایا تو رضوان کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔۔۔ عاصم کو اب انتظار تھا اگلے دن کا جب وہ اپنے ابا کا کیمرہ لیۓ تصویریں لے گا جو اُسکے خوابوں میں آ بسی تھی، شدت سے انتظار۔۔۔
"بھائ اِسے نہیں لے جائیں۔ ” ۔۔ "فاخر تم نہیں چاہتے یہ آذاد ہو جاۓ ؟” ۔۔۔ لیکن عاصم یہ یہاں بھی تو آذاد ہی ہے ” ۔۔ "باجی میں اسےمکمل آذادی دینا چاہتا ہوں َ” ۔۔۔عاصم نے کبوتر پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔ ” ساجدہ، فاخر تم دونوں کو فخر ہونا چاہیۓ بھائ کی سوچ پہ، نہ روکو اِسے ۔۔ جاؤ عاصم اللہ تمہیں کامیاب کرے۔”
ہال اندھیرے میں ڈوبا تھا ، سواۓ بڑی سی اسکرین کے جس پہ باری باری سب کی تصاویر دکھائ جا رہی تھیں ۔۔ اور روشنی کے ہالے میں اسٹیج پہ کھڑے شخص نے اسپیکر پہ اعلان کیا ۔۔ "اور پہلا انعام جن تین تصاویر کو جاتا ہے وہ ہے عاصم رفیق کی ۔۔ اوراندھیرے ہال میں روشن اسکرین پہ نیلا آسمان اورپھڑپھڑاتے پنکھ پھیلاۓ ڈھیروں مٹیالے نیلے کبوتر اور اُبھرتے سورج کی لالی کے عین سامنے سفید براق کبوتر جس کی لال آنکھیں آذادی سے سرشارتھیں ۔۔۔ اور سلائڈ کے ساتھ دوسری تصویر اسکرین پہ ابھری سورج اوپر منہ اُٹھاۓ حیرت سے تکتا ہوا اور سفید پھیلے پروں کے ساتھ کبوتر جس کے بھرے بھرے گداز دودھی
ا سینے سے ابلتی خون کی پچکاری جس کی چھینٹ سورج کی شفق کو مانند کر رہی تھی اور وہ لال آنکھیں جس میں ایک ساتھ خوف اور حیرت کا امتزاج تھا ۔۔ اور تیسری تصویر زمین کو چھوتی کبوتر جس کا سفید رنگ سرخ ہوچکا تھا اور آنکھیں بند تھیں ، پسِ منظر میں سارے کبوتر وحشت ذدہ ۔۔۔
تالیوں کی گونج میں عاصم اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا ، رضوان نے مضبوطی سے اُسکا ہاتھ تھام رکھا تھا ۔۔۔۔ اُس کے کان میں ابھی تک فائر کی آواز بسی تھی، رضوان کا نشانہ کب خطا ہوا تھا۔۔۔
عاصم گھر پہنچا تو آہ و بکا کی آوازیں باہر تک آرہی تھیں ۔۔ وہ ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوا ، امی دوڑتی ہوئ آئیں اور اُسے گلے سے لگا لیا ۔۔۔ "کیا ہوا امی؟ ” ۔۔ "بھائ پشاور کے اسکول میں دھماکہ ہوگیا ” فاخر کی خوفزدہ آنکھیں اور سامنے ٹی وی کی اسکرین پہ ڈھیروں خوفزدہ آنکھیں اور خون کی چھینٹیں ہی چھینٹیں تھیں ۔۔۔ سرخ ہی سرخ۔۔۔
” کون سی مائیں ہیں جو ایسے دہشت گرد پیدا کرتی ہیں ، مجھے دیکھو میرا بیٹا ایک کبوتر بھی زخمی نہیں دیکھ سکتا، مجھے فخر ہے اپنی تربیت پہ۔ ” عاصم کے ہاتھ سے چیک گر پڑا ۔۔ تازہ سرخ خون دیکھ کر اُسکے نوکیلے دانت مسوڑھے سے باہر نکلے جا رہے تھے ۔۔ اور اُسے اُس لمحے یاد آیا کہ گولی چلاتےہوۓ رضوان کے ، اور تصاویر دیکھتے ہال میں بھی سبھی کے نوکیلے دانت تو باہر تھے ۔۔۔۔

Share
Share
Share