افسانہ

Share

حرامی(افسانہ)
ڈاکٹر اختر آزاد (جمشید پور، انڈیا)
میرا باپ کون ہے؟
یہ سوال ہوش سنبھالتے ہی گورا کا پیچھا کرنے لگا تھا۔ اُس کا چہرہ نہ ماں سے ملتا تھا اور نہ ہی باپ سے ۔دونوں کے چہرے سیاہ تھے اور نقش ونگار الگ ۔مزدور کہیں کے بھی ہوں، چہرے ایک سے دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن خون پسینہ نچوڑنے والے ٹھکیداروں کا تعلق کسی قبیل سے ہو وہ اپنے ہاؤ بھاؤ کے باعث دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں …….اب لوگ گورا کو بھی دور سے پہچاننے لگے تھے کہ یہ ’خون ‘ ٹھیکیدار ہے جس نے کام دینے کے بہانے اس کی ماں کو ورغلایاہو گا اور مزدوری کے ساتھ نو ماہ کا بونس گود میں ڈال دیا ہو گا۔
تقریباً پانچ سو گھروں کا یہ جھونپڑ پٹّی والا علاقہ شہر کے بیچو ں بیچ تھا ۔ بڑے ہسپتال کے ٹھیک پیچھے ۔ قریب دس ایکڑ زمین میں آباد۔

بڑی بڑی نالیوں سے گھرا ہوا۔ گذرتے ہوئے ایسا لگتا جیسے شہر کی ساری گندی یہیں آ کر جمع ہوتی ہے۔اندر بھی جگہ جگہ کچی نالیاں سڑتی رہتیں ۔سوّر اورمرغیاں اِنہی گندگیوں سے خوراک حاصل کرتے اور ہر طرف گندگی پھیلاتے نظر آتے……….. درمیان میں ایک چھوٹا سامیدان تھا ۔میدان کے بیچ میں ایک مندر۔مندر کے چاروں طرف ایک ایک نل لگے ہوئے تھے ۔ صبح و شام پانچ سے سات بجے تک ان نلوں میں مزدوروں کا ہجوم لگا رہتا ۔دو میں مرد نہاتے اور دو میں عورتیں ۔ یہیں ہفتے بھر کی کھٹّی میٹھی باتیں سامنے آتیں ۔اتوار کے دن تو میلہ لگ جاتا۔ دن بھر پانی رہتا۔ کچھ لوگ صبح سویرے نہا دھو کر مارکیٹ یا فلم گھروں کی طرف نکل پڑتے ۔ کچھ لوگ آرام سے اُٹھتے ۔ ایک ساتھ بہت سارے لوگ جب نلکے پر جمع ہوجاتے تو ’’ تو تو ،مَیں مَیں‘‘ اور دھکا مکّی بھی ہوتی ۔ جوان لڑکے بہانے سے عورتوں کے نلکے کی طرف جھانک تاک کرتے۔ لڑکیاں بھی رنگ برنگی لباس میں منڈراتی رہتیں ۔بچّے کی چھَٹّی سے لے کرشادی بیاہ اورپوجا پاٹھ سب یہیں ہوتے۔ بڑے بڑے ساؤنڈ باکس لگائے جاتے۔علاقائی ڈانس دن رات جاری رہتا ۔ کیا عورت کیا مرد ۔سب ہاتھ میں ہاتھ دیئے نظر آتے۔پینے پلانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ۔پھوہڑگانوں اوربے ہنگم آواز کو لے کراکثر آس پاس والے تنگ رہتے۔مار پیٹ تک کی نوبت آ جاتی۔پھر شام ڈھلے یہاں نشے کا کاروبار سج جاتا۔ پولس اکثر ریڈ کرتی۔لیکن جھونپڑپٹی کی بھول بھلیّوں میں پولس مات کھا جاتی ۔ شہر کا مافیا ہمیشہ جیت جاتا۔کیوں کہ پولس والوں میں بھی کچھ نشیڑی تھے اور اس کی دلالی کرتے تھے۔
محلّے کے انٹرنس کے ٹھیک سامنے پیپل کا پیڑ تھا اور اس کے چاروں طرف بڑا سا سمنٹیڈ چبوترہ ۔سارے اہم فیصلے یہیں طے پاتے ۔گورا کی پیدائش کے فوراًبعد دائی اُس کے پیکڑ باپ کو دکھانے اِسی چبوترے پر آئی تھی تاکہ فوراً بخشش مل سکے ۔دیکھتے ہی تمام لوگوں نے حیرت سے اس کے باپ کی طرف دیکھا تھا اور طنز سے کہا تھا ’’بیٹا ’گورا ‘ہوا ہے، مٹھائی کھلاؤ۔‘‘مٹھائی پہنچنے سے پہلے ہی ’ گورا ‘کی کہانی گھر گھر پھیل گئی اور وہ اس کے وجود کا حصّہ بن کر نام کے ساتھ چپک گیا ……… اِس طرح اُجلا، اُجلی، سفیدا ، سفیدی،گوری جیسے کچھ اور بھی نام اِسی چبوترے نے پیدا کئے۔ بغل میں ہی چائے پکوڑے کی دکان تھی ۔ٹھیکیدار یہیں سے مزدوروں کو لے جایا کرتے تھے ۔آس پاس کے عاشق مزاج لونڈے بھی موٹر سائکلوں میں بیٹھ کر چائے پکوڑے کا لطف اُٹھاتے دیکھے جاتے ۔ صبح وشام یہاں بھیڑ سی لگی رہتی تھی۔
گورااِسی چبوترے پر ہر دم بیٹھا رہتا ۔
آتے جاتے لوگوں کی نظر اکثر اُس پر پڑ تی ۔ کوئی اِس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتاکہ مزدوروں کی اس نسل سے گوراکا کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ تھا تو ان میں سے ہی ۔ ماں کبھی حقیقی اور غیر حقیقی نہیں ہو سکتی ۔ لیکن باپ کے بارے میں سوال داغا جا سکتا تھا ۔ ایسے کتنے چبھتے سوال تھے جس کا دردگورانے ہوش سنبھالنے سے لے کر جوانی کی دہلیز تک سہا تھا ۔
ایک دن مزدوروں کے بچّوں کے ساتھ وہ چبوترے میں بیٹھا لوڈو کھیل رہا تھا۔ سامنے ایک گاڑی رکی۔ جس میں سے تین چار لوگ چائے کی دکان پر آئے۔ ایک نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دھیرے سے کہا۔ اُس کے کان کھڑے ہو گئے۔
’’دیکھ اِس لونڈے کو کون کہے گا کہ یہ مزدور کی اولاد ہے۔سالا ہم میں سے ہی کسی ٹھیکیدار کا کارنامہ ہو گا ۔‘‘
پھر ایک نے آواز دے کر اپنی طرف بلایا ۔
’’کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘
’’گورا۔‘‘
’’اپنا اصلی نام بتاؤ؟‘‘
اس نے جب راشن کارڈ والا نام باپ کے ٹائٹل کے ساتھ بتایا، تو سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
’’لیکن شکل سے لگتے نہیں ہوکہ تم ان مزدوروں کی اولاد ہو۔‘‘ دوسرے نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’ارے نہیں ہے تو تمہیں کیا؟ ‘‘تیسرا لطف لینے کے موڈ میں تھا۔
’’جانے بھی دو کسی نہ کسی کی اولاد تو ہے۔‘‘چوتھے نے چائے کی آخری چسکی لیتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔پھر طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ سب گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔
اِدھر گاڑی اسٹارٹ ہوئی اور اُدھر اس نے لوڈوپرزور سے لات ماری اورگھر آ کر سیدھے باپ کی گردن پر دونوں ہاتھ رکھ دیا۔
’’سچ سچ بتاؤ ۔ تم کون ہو؟نہیں تو گلا دبا دوں گا۔‘‘
نشے کی حالت میں دھُت کھاٹ پر پڑے پڑے اس نے گورا کی طرف دیکھا اور زور سے ایک چپت لگائی۔
’’سالے تو مجھے نہیں پہچانتا۔تیری ماں کا بھتار اور تیرا باپ ہوں بے۔‘‘
وہ کھاٹ پر ایک بار پھر ادھ مرا سا پڑ گیاجیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو۔
گورا روتے روتے بستر پر اوندھے منہ لیٹ گیا ۔جب شام کو ماں کام سے لوٹی تو اس نے ٹفن اور چھاتا چھینتے ہوئے غصّے میں پوچھا ۔
’’ماں سچ سچ بتاؤ میرا باپ کون ہے؟‘‘
کیوں یہ اُلٹے سیدھے سوال پوچھ رہا ہے تو ………؟‘‘پہلے ماں گھبرا گئی۔ پھر ڈانٹنے لگی ۔’’تیرا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا ۔ یہ جو گھر کے کونے میں کھاٹ پر لیٹا پی کر دن رات سویا رہتا ہے یہ کون ہے ؟‘‘
’’ماں میں نے بچپن سے اِسے ہی باپ جانا ہے۔لیکن ماں میرا چہرہ ذرا بھی نہیں ملتا۔لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں ۔‘‘گورا رونے لگتا ہے ۔
’’دیکھ تیرا چہرہ تو مجھ سے بھی نہیں ملتا ۔ اس کا مطلب میں تیری ماں بھی نہیں ہوں ۔‘‘
’’ لیکن لوگوں کا منہ کیسے بند کروں ؟ ماں پر کسی نے سوال نہیں اُٹھایا اور باپ سے میرا رنگ نہیں ملتا۔ ‘‘
’’دیکھ یہ تو رنگ رنگ کیا لگا رکھا ہے ۔ اِس جھونپڑ پٹی میں تیری طرح کتنے ہی بچّوں کا رنگ گورا ہے ۔ صرف ایک تو ہی تو نہیں ہے نا۔ ؟‘‘
’’ماں تم ٹنکو، پنکو ، چنّو منّو ، اُجلا ، اُجلی اور گوری جیسے بچّوں کی بات کر رہی ہے نا ……..؟ ان سب کے بارے میں بھی لوگ گندی گندی باتیں کرتے ہیں کہ سب ’حرامی ‘ کی اولاد ہیں ۔‘‘
’’اگر وہ حرامی مل جائے تو کچّا چبا جاؤں گی ۔بہکاتا ہے میرے بچّے کو۔دور کرنا چاہتا ہے مجھ سے………‘‘ کہتے کہتے ماں رونے لگتی ۔ سینے سے چمٹالیتی اور سمجھاتی۔ ’’ بیٹا دنیا والوں کا کیا ہے جس کے منہ میں جو آئے کہتے رہتے ہیں۔ اُلٹی سیدھی باتوں میں اپنا موڈ مت خراب کرو ۔تمہیں میری قسم ہے ۔‘‘
لیکن آگے چل کرماں کی اس قسم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔بلکہ اس کے حرکات و سکنات میں اور بھی تبدیلیاں رو نما ہونے لگیں ۔وہ اب جب بھی چبوترے سے لوٹتا ۔ تیور بدلے بدلے سے ہوتے ۔ماں سے ٹھیک سے بات بھی نہیں کرتا ۔بس ایک ہی سوال کرتا کہ’’ میرا باپ کون ہے؟‘‘اب تو ماں کے ہاتھوں کا نکالا ہوا کھانا بھی نہیں کھاتا ۔وہ ان حرکتوں سے تنگ آ چکی تھی ۔پریشان پریشان سے رہنے لگی تھی ۔مولوی ، پنڈت ، اوجھا اور نہ جانے کس کس کے پاس گئی ۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔یہاں تک کہ اس نے اپنی جان تک دینے کی دھمکی دے ڈالی ۔لیکن اس کے باوجود اس کے رویّے میں کوئی سدھار نہیں آیا۔
گوراکے ذہن ودماغ میں یہ بات بس گئی تھی کہ سب کچھ ہو سکتا ہے ،لیکن پی کر سوئے ہوئے اس شخص کی اولاد وہ نہیں ہو سکتا ۔ دونوں کی قد وقامت میں بھی زمین آسمان کا فرق تھا ۔پیر کے انگوٹھے کے بعد والی انگلی جہاں باپ کی بڑی اور بے ڈھب شیپ لئے ہوئے تھی، وہیں اس کی انگلیاں ترتیب وار چھوٹی ہوتی چلی گئی تھیں اور دونوں کو جوڑنے سے آدھادائرہ بناتی تھیں ۔باپ کے دونوں گھٹنوں کے درمیان چھ انچ کا فاصلہ تھا اور راؤنڈجیسادکھائی دیتا تھا وہیں اس کی ٹانگیں بالکل سیدھی تھیں ۔ باپ کا سینا سپاٹ تھا وہیں اس کا انگریزی Vجیسی شان و شوکت رکھتاتھا ۔باپ کاکندھا جہاں نیچے کی طرف جھکا ہوا تھا اورچلنے سے کبڑا لگتا تھا ، وہیں اس کا کندھا اوپر کی طرف اُٹھا ہوا تھااور چال میں وہ تیور تھا کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے تھے۔باپ کی گردن چھوٹی تھی اور اس کے کندھے اور سر کے درمیان کی دوری دُگنی تھی۔ باپ کے اوپر کے دانت باہر کی طرف نکلے ہوئے تھے تواس کے دودھ میں نہائے قرینے سے ایک دوسرے میں پیوست ۔باپ کی مونچھ میں جہاں چند تنکے پھنسے ہوئے تھے اور داڑھی ٹھڈّی کے پاس ڈیرا جمائے ہوئے تھی، وہیں اُس کی مونچھیں گھنی اور داڑھی پورے کلّے میں جلوہ بکھیر رہی تھی۔باپ کی ناک پکوڑے کی طرح پھولی ہوئی اور اس کی لمبی اور چپٹی تھی۔ باپ کی آنکھیں جہاں زردی مائل تھیں وہیں اس کی جاذبیت سے بھر پور سفید رنگت لئے ہوئے تھیں۔ باپ کے کانوں میں جھالر کی طرح لٹکتے ہوئے بال تھے تو اس کے کان جھالروں سے بے نیاز ۔باپ کے مقابلے اس کی پیشانی چوڑی تھی۔ بال لالی پن لئے گھنگھریالے تھے تو اس کے سیاہ اور ریشم جیسے چمکیلے اور سلجھے ہوئے ۔ہاتھ پیر کے ناخُن جہاں چپٹے تھے وہیں اس کے لمبے۔یعنی سرسے لے کر پیر تک وہ اپنا اور جب اپنے باپ کے جسمانی ساخت کا موازنہ کرتا تو حیرت انگیز تبدیلی دیکھ کر کانپ جاتا ۔ یہ سلسلہ ہر روز کسی نہ کسی سطح پر اس کے اندر جاری رہتا اور ہر بار اس عمل سے گذرتے ہوئے اُسے لگتا کہ اگر اس کے جسم کا ایک بھی حصّہ اس کے باپ سے میل کھاتا تواُسے تھوڑی سی تقویت ملتی اور وہ کسی طرح اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ۔لیکن بے چینی تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔کبھی کبھی وہ یہ بھی سوچتا کہ ایسی عورت جو میرے جیسے بچّے کو جنم دیتی ہے اُسے جینے کا کوئی حق نہیں ۔پھر کبھی یہ سوچتا کہ جو عیاشی کی خاطر عورتوں کے جسم سے کھیلتا ہے اور بچّے کو اپنا نام دیناگناہ سمجھتا ہے اس کے خاص عضو کو تراش کر چوراہے پر لٹکا دیا جانا چاہئے۔اورکبھی یہ بھی سوچتا ہے کہ’’ حرامی‘‘ کہلوانے سے بہتر ہے خود کو موت کے حوالے کر دینا ۔
لیکن پھر سوال سامنے کھڑا ہو جاتا کہ وہ خود کو کیوں ختم کرے؟ اس نے کیا کیا ہے؟یہ تو لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ اُسے ’’حرامی ‘‘کہتے ہیں ؟ اس نے کوئی حرام کاری نہیں کی ہے۔جیسے سب اس دنیا میں آئے ہیں ویسے وہ بھی آیا ہے ۔ بس فرق یہ ہے کہ دو جسموں نے غلط طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے حرام کاری کی اور عجیب بات ہے کہ’ ’حرامی ‘‘وہ ہو گیاجو سرے سے منظر نامے میں ہی نہیں ؟
وہ اپنے باپ کی تلاش میں ہمیشہ سرگرداں رہتا ۔ اس لئے نہیں کہ وہ راہل تیواری ایڈووکیٹ کی طرح اپنی ماں کو اس کا حق دلانا چاہتا تھا، بلکہ ا س جگہ لے جا کراس کے پیٹ میں چاقو گھونپنا چاہتا تھاجہاں اس نے عیاشی کا نطفہ ماں کی کوکھ میں ڈالا تھا ۔ ماں کوبھی ایسی ہی سزا دینا چاہتا تھاکہ خود کو بیچ کر اس کے وجود کا سودا کیوں کیا ………؟ گندے خون کی پرورش کرنے سے کہیں بہتر تھا کنویں میں کود جانا۔کیا ضروری تھا اُسے دنیا میں لانا ؟پیدا ہو بھی گیا تھا تو مار دینا تھا ۔زندگی دے کر جو بھول کی ہے اس کی سزا ملے گی ۔ورنہ خود کو مار کر سمجھوں گا کہ میں نے اپنے’ حرامی ‘ماں باپ کو مار دیا ہے۔
گورا کا اب ایک ہی کام تھا۔دن بھر شہر کی کی خاک چھاننا۔جہاں کہیں کام چل رہا ہوتا اس کے گیٹ کے پاس بنے جھگّی نما ہوٹلوں میں بیٹھ کر وہ تمام ٹھیکیداروں پر نظر رکھتا۔اُن کے چہروں کو بغور پڑھتا اور اپنی عمر میں جا کر ماضی کے کیمرے سے اس کی تصویر کھینچتا اورحال کی تصویر سے ملاتا کہ شاید مشابہت کا کوئی زاویہ سامنے آجائے ۔لیکن لاکھ کوشش کے با وجودکچھ ہاتھ نہ آتا۔
اب وہ ماں کی ہر ایکٹی ویٹی پر نظر رکھنے لگا تھا ۔وہ کہاں جاتی ہے ؟ کس کے یہاں کام کرتی ہے ؟ کس سے ملتی ہے؟کب گھر سے نکلتی ہے ؟کب لوٹتی ہے؟فون پر کس کس سے بات کرتی ہے ؟اوور ٹائم کب کب کرتی ہے ؟ماں کیوں رکتی ہے؟اکیلے رکتی ہے یا پھر دوسری ریجا بھی ساتھ ہوتی ہے؟لنچ کے ٹائم اس کے ساتھ کون کون ہوتا ہے؟وہ کس کے ساتھ چائے پینا پسند کرتی ہے ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ چائے کے پیسے کوئی اور دیتا ہے؟ کہیں وہ اُس ٹھیکیدار کا آدمی تو نہیں جس کی وہ ناجائز اولاد ہے؟
’’میں ناجائز نہیں ہوں ۔ حرامی نہیں ہوں ۔‘‘ اب تووہ نیند میں بھی چلّا نے لگا تھا۔ ان حرکتوں سے ماں کی الجھن اور بڑھ گئی تھی کہ بیٹے کایہی پاگل پن ایک دن اُس کی زندگی پر بھاری پڑ جائے گا ۔وہ سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کرتی۔لیکن وہ سنناہی نہیں چاہتاتھا۔ ایک دن ماں اُجلی کو بہلا پھسلا کر اپنے گھر لائی تاکہ پاگل پن پرپیار بھاری پڑ جائے اور بیاہ کا پھندہ اس کے گلے میں پڑ جائے ۔ لیکن پہلے ہی دن گورانے ایسا جھانپڑ مارا کہ اُجلی بے ہوش گئی ۔ کافی ہنگامہ ہوا ۔ لیکن ماں نے معاملہ سنبھال لیا ۔
ماں جانتی تھی کہ اس کی ایک غلطی نے بیٹے کوبد دل کیاہے۔ وہ بات تک نہیں کرتا ۔ باپ کی طرف تو اُسے دیکھنا بھی پسند نہیں ۔ پی کرنیچے گر جائے تو بھی کوئی مطلب نہیں ۔وہ تواُسے ماں کے یار کے طور پر دیکھتا تھا ۔ کئی باراس نے باپ کو گھر سے نکالنے کے بارے میں سوچا۔لیکن بچپنا یاد آ جاتا۔ کاندھے پر سوار ہو کرگھوڑا گھوڑا کھیلنا۔ ضد کر کے کھلونے منگوانا ۔مٹھائیاں کھانا ، ایک بستر پر سونا ، کہانیاں سننا……… کئی ایسے یاد گار لمحات تھے جس کی وجہ سے وہ چاہ کر بھی باپ کو گھر سے باہر نہیں نکال سکا ۔لیکن اب مصلحتاًباپ کی کوٹھری سے نکل کر ماں کی کوٹھری میں اپنابستر بچھا لیا تاکہ ماں اندھیرے میں نکلے تو عاشق کے ساتھ اسے بھی چاقو سے گود دے ۔ اس کے لئے برسوں رات جگّاکیا ۔دوسری طرف منہ کر کے گہری نیند سونے کا ناٹک رچا۔ ماں کی ہر کروٹ پر چوکنّا ہوا۔لیکن کبھی ماں کو پکڑ نہیں پایا ۔
ماں ہر وقت ڈری سہمی سی رہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ گوراکی رگوں میں کس کا خون دوڑ رہا ہے۔ شہر میں صرف ایک ٹھیکہ حاصل کرنے کے لئے اس کے باپ نے ایک ہی رات میں کئی کانٹے نکالے تھے۔یوں تو وہ دوسرے شہر کا رہنے والا تھا اور وہاں بڑے پیمانے پر اس کا کام چلتا تھا۔گورا کی پیدائش کے چار پانچ سال بعد اپنے شہر لوٹ گیا تھا۔ یہاں صرف ایک ٹھیکہ چل رہا تھا جسے اس کے حوالی موالی دیکھ رہے تھے۔ایک دن جب چپکے سے اس نے فون پر بیٹے کے پاگل پن کا ذکر کیا توعاشق ٹھکیدار چلّایا ۔
’’ اس سے پہلے کہ وہ مجھے مارے میں ہی اُسے ختم کر وا دوں گا ۔‘‘
دوپاٹوں کے درمیاں پھنسی ہوئی ماں نے رو رو کر جان بخشنے کی دہائی دی کہ’’ آخر ہے تو وہ آپ ہی بیٹا ۔ کسی کی بھی موت میں نہیں دیکھ سکتی ۔‘‘
’’تو پھر تم ہی بتاؤ کہ میں کیا کروں؟‘‘
’’خالی دماغ شیطان کا۔دن دن بھر آوارہ پھرتا رہتاہے ۔اگر ہو سکے توکہیں کام پر لگوا دو ۔‘‘
’’منشی گری کرے گا وہ……..؟‘‘
’’کئی جگہ سے آفر آیا تھا۔لیکن خون تو ٹھیکیدار کا ہے۔ ٹھکرا دیا اس نے۔‘‘
’’اچھّا ………‘‘ کچھ رُک کر۔’’ توٹھیک ہے میں اسے کہیں ایسی جگہ جہاں پیٹی کونٹریکٹر کا کام دلوا دیتا ہوں جہاں مجھے کوئی نہ جانتا ہو۔ ایک بار کام پر لگ گیا اور شادی بیاہ ہوگیا تو باپ ڈھونڈنے کا سارابھوت اُتر جائے گا۔میرا وہاں ایک خاص آدمی ہے جو سارا لین اپ کر لے گا۔‘‘
پھر منصوبہ بند طریقے سے اس خاص آدمی نے گوراسے دوستی کی اور اُسے ایک جگہ پیٹی کونٹریکٹر کے کام پر لگوا دیا۔
ایک ٹھیکیدار کے طور پر جب پہلی بارگورا نے اپنے سائٹ پر انٹری ماری تو اس کی نظر سانولی سلونی تیکھے نین نقش والی ریجا پر اس وقت پڑی جب وہ سمنٹ سے بھری کڑاہی سر پر رکھ رہی تھی ۔ ایسا کرنے کے دران بندھا ہوا دوپٹّہ اس کے سینے کے کساؤ سے ذرا پرے سرک گیا تھا اور اُبھارتھا کہ جمپر کی سلائی کو پھاڑ کرباہر نکل جانے کے لئے بے چین تھا بے چین تو گورا بھی ہو گیا تھا ۔اس لئے دیر تک وہ کام دیکھنے کے بہانے وہیں کھڑا رہا ۔پھر کرسی منگوا کر آرام کرنے کے بہانے بیٹھ گیا اور مسلسل اُسے دیکھتا رہا ۔ اس بات کا احساس ریجا کوجیسے ہی ہوا کہ نئے ٹھیکیداربابو کی نظر اس کی جوانی پربار بارپڑ رہی ہے ۔ تو وہ مڑ کر کڑاہی اُٹھانے لگی ۔لیکن وہ زیادہ دیر تک خود کو دوسری طرف موڑ کر نہیں رکھ سکی ۔ کیوں کہ گوراتھا ہی اتنا جاذب نظر ۔پھرچوری سے وہ بھی اس کی طرف دیکھنے لگی کہ اگرپہلی نظر میں ٹھیکیدار بابو نے اُسے چُن لیا تو وارے نیارے ہو جائیں گے ۔کام بس نام کا رہ جائے گا ۔اور کام بھی کیا ؟ آفس کی صفائی اوروہی چائے پانی ۔
گورامسلسل اُسے دیکھے جا رہا تھا اور دیکھنے کے اس عمل میں وہ بہت کچھ سوچتا جا رہا تھاکہ اِس عمر میں اُس کی ماں بھی ایسی ہی لگتی ہو گی اور وہ ٹھیکیدار ……….وہ ٹھیکیدارمیری جگہ اِسی طرح بیٹھا ہو گا اور اُس نے چپکے سے اسی طرح ماں کو دیکھا ہو گا ۔ اور پھر اس نے بہانے سے اُسے آفس میں بلایا ہو گا۔
’’تو کیا یہ لڑکی بھی اُس کے بلانے پر آفس آ جائے گی؟‘‘جواب بھی اس نے خود ہی دیا۔’’کیوں نہیں یہ بھی ماں کی طرح ایک ’ریجا‘ہی تو ہے۔‘‘
’’ سُنو !یہاں کہیں پاس میں چائے وائے کی دکان ہے؟‘‘
’’ہاں ہے نا صاحب ! یہیں پاس میں ۔آپ بولیں تو جا کر آپ کے لئے چائے لا دوں ۔‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے پہلے ہاتھ منہ اچھّے سے دھو لو۔‘‘
اور جب وہ کیتلی لے کر جانے لگی تو اُس نے سوچا کہ اسی طرح ایک دن اس کی ماں بھی کیتلی لے کر گئی ہوگی اور جب لوٹی ہو گی تو اُس نے کرسی خالی دیکھی ہو گی اورجب وہ آس پاس کے ریجاقُلی سے پوچھی ہو گی تو اُسے بتایا گیاہو گا کہ ٹھیکیدار بابو آفس کی طرف گئے ہیں۔ اور پھر وہ آفس کی طرف بڑھ گئی ہو گی ۔وہاں ٹھیکیدار بابوپیر پھیلائے ، پیسوں سے بھرا پرس سامنے رکھے ماں کا انتظار کر رہا ہوگا ۔دروازہ کھٹکھٹانے پر اُس کی طرح ہی اُس نے کہا ہو گا ۔
’’ہاں اندر آجاؤ۔‘‘
سانولی سلونی اس ریجا کی طرح اس کی ماں بھی اندر آ گئی ہو گی اور گلاس میں چائے ڈالنے لگی ہو گی تو ٹھکیدار بابونے کہا ہو گا ۔’’بس بس تھوڑی سی چائے اپنے لئے رکھ لو۔‘‘اور پھرچائے لینے کے بہانے اس نے ہاتھ پکڑ لیا ہو گا اور بیڈ پر بٹھا لیا ہو گا اور پیار سے اس کی طرح ہی پوچھا ہو گا۔
’’نام کیا ہے تیرا؟‘‘
’’جھمری۔‘‘
’’ ایک دن کی مزدوری تمہیں کتنی ملتی ہے؟‘‘
’’ٹھیکیدار بابو دینے والے تو آپ ہی ہیں ۔ایک سو پچاس روپئے۔‘‘
’’ اس سے گھر چل جاتا ہے ؟‘‘
جھمری کی طرح ماں نے بھی کہا ہو گا۔’’نہیں۔‘‘
اور پھر ٹھیکیدار بابو نے پیار سے ماں کے ہاتھوں کو سہلاتے ہوئے کہاہوگا ۔’’کتنا کھردرا ہے تمہارا ہاتھ ۔کل سے سِمنٹ بالو چھوڑ کر آفس کی صفائی پر لگ جاؤ ۔ تنخواہ دگنی کر دوں گا ۔ بس دن میں ایک بار چائے پانی پلا دیا کرنا۔‘‘
جھمری کی طرح ماں نے بھی مسکراتے ہوئے پہلے’’ نا ‘‘کیا ہو گا ۔ نخرے دکھائی ہو گی ۔ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی ہوگی ۔ پھر ٹھیکیدار بابو نے ماں کو کس کر پہلو میں بھر لیا ہو گا ۔ اور پھر ………پھر جھمری کی طرح ماں کا بھی روز کا معمول ہو گیا ہو گا ۔ آفس کی صفائی کرنا اور چائے پلانا۔اور پھر جب ایک دن جھمری کی طرح ماں نے بتایاہوگا کہ’’ وہ اس کے بچّے کی ماں بننے والی ہے‘‘ تو ٹھیکیدار بابو نے کہا ہو گا ۔
’’کسی نرسنگ ہوم میں جا کر ابارشن کروا لو۔‘‘
’’نہیں ٹھیکیدار بابو !یہ ہمارے پیار کی نشانی ہے ۔ میں بچّہ نہیں گرواؤں گی ۔‘‘ جھمری کی طرح ماں نے بھی کہا ہو گا ۔
’’ آج نہیں تو کل دنیابچّے کے باپ کا نام پوچھے گی۔ تب تم کیا کروگی؟مجھے بدنامی منظور نہیں ۔ کسی قلی کا نام بتاؤ جس کے ساتھ میں تمہاری شادی کر دوں۔خرچ ورچ سارا میں سنبھال لوں گا۔اور ہاں کل سے تمہیں کام پر آنے کی ضرورت نہیں ۔ہر ماہ تنخواہ کے ساتھ بچّے کا خرچ بھی پہنچ جائے گا ۔لیکن اگر غلطی سے بھی تم نے کسی کے سامنے منہ کھولا تو وہ تمہارا آخری دن ہوگا ۔ سمجھ گئی۔‘‘
اور جس طرح جھمری نے سب کچھ سمجھتے ہوئے نہایت ہی سمجھداری سے’ ’منگرو‘‘ کا نام بتایا تھا اسی طرح سے ماں نے بھی اس کے اس پیکّڑ باپ کا نام بتایا ہو گا جو آج کل ماں کے پیسے سے شراب پی کرگھر میں پڑا رہتا ہے ۔لیکن وہ ماں کا اتنا وفادار ہے کہ لاکھ جھگڑا ہونے کے باوجود اس ٹھیکیدار کا نام زبان پر نہیں لاتا۔شاید زندگی پیاری ہو ۔اس لئے نشے میں بھی وہ ہوش میں رہتا ہے۔
جھمری کو جس طرح نرسنگ ہوم بھیجا گیاتھا ، اُسی طرح ماں کو ٹھیکیدار نے چپکے سے بھرتی کیا ہو گا۔ پھر اس کی طرح چھُپ کر دیکھنے آیا ہو گا۔اُس وقت اس کے پیکّڑ باپ نے بھی منگرو کی طرح ماں کے کان میں چپکے سے کہا ہوگا ۔’’ ٹھیکیدار بابو آئے ہیں ۔‘‘ جھمری کی طرح ماں بھی شرمائی ہوگی ۔ پھر جھمری کے اشارے پر جس طرح سے منگرو اس کی طرف اسٹول بڑھا کر دروازے سے باہر نکلا تھا ، اُسی طرح اس کاپیکڑ باپ بھی باہر نکلا ہوگا، اور تب ماں نے اپنا آنچل ہٹا کرجھمری کی طرح بچّے کو دکھایا ہو گا۔ مسکراتے ہوئے کہا ہو گا ۔
’’تمہارا بیٹا ہوا ہے۔بالکل تمہاری طرح ہے۔‘‘
پھرجب اس کی طرح ٹھیکیدار بابونے جھک کر بچّے کو غور دیکھا ہو گا تویقیناًاُسے بھی اُس نوزائدہ بچّے کے اندر اپنا باپ نظر آیا ہوگا ………..اب پتہ نہیں اس نے اس کی طرح اپنے باپ کو کیوں نہیں ڈھونڈا ؟ لیکن گھر لوٹتے ہی جب گوراناراض ماں سے بے تحاشہ لپٹ گیا اور یہ کہا ۔
’’ آخر میں نے باپ کوڈھونڈہی لیا۔بہت پیارا ہے ماں۔تم اُسے جا کرگھر لے آؤ۔‘‘
ماں کا منہ حیرت سے کھُلا کا کھُلا رہ گیا۔
*********

09572683122
ماخوذ: ماہنامہ ایوان اردو

Share
Share
Share