کوہِ نور کی واپسی
ڈاکٹر سید عباس متقی
حیدرآباد ۔ دکن ۔
موبائل : 09391323968
کتنی تعجب خیز بات ہے کہ ہم ڈھیر ساری چیزوں کا محض نام ہی سنتے آئے ہیں لیکن کبھی ان چیزو ں کو چشمِ سر سے دیکھنے کی نوبت نہیں آئی لیکن اس کے باوجود ہم ان چیزوں کے وجود کے منکر نہیں ۔ہم نے لندن کو نہیں دیکھا ،لیکن ہے ۔کشمیر کی معروف ڈل جھیل نہیں دیکھی لیکن ہے ،اہرام مصر کو نہیں دیکھا لیکن ہے،موت کو نہیں دیکھا لیکن افسوس ہے کہ وہ بھی ہے ،حد تو یہ ہے کہ خدا کو ہر گزنہیں دیکھا لیکن وہ ہے ، بہر حال ہے ،بہر صورت ہے اور ہر جگہ ہے ۔آخر ہم اپنے آپ کو کیوں بھولیں ،ہم بھی تو ہیں ۔ہم یہ اس طرح کہہ رہے ہیں گویا ہم نے اپنے آپ کو دیکھا ہے،لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو بھی آج تک نہیں دیکھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ کوئی ہمارے اندر ہے جسے ہم نہایت اعتقاد و اہتمام سے’’ہم ‘‘کہتے ہیں لیکن جسے ہم ’’ہم‘‘ کہتے ہیں وہ کہاں ہے ،کدھر ہے کیسا ہے آج تک نظرنہیں آیا ،آئینے میں جو نظرآتا ہے وہ ہم کی صورت ہے ہم نہیں-
آمد م برسر مطلب ہم اپنے بچپن سے ’’کوہِ نور ‘‘کا نام سنتے آرہے ہیں اور مسلسل سنتے آرہے ہیں لیکن اسے دیکھا نہیں ہاں یقین ہے کہ وہ کوہ نور ملکہ الزبتھ کا تاج میں پیوست ہے اور ہر ابتلاو آزمائش سے محفو ظ و مامون ہے ۔بعض لوگوں کا تو یہ کہنا ہے کہ کوہ نور اگر ہندوستان میں ہو تا تو اتنا محفوظ و مامون نہیں رہ سکتا تھا ۔بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وہ ہندوستا ن میں ہو تا تو اس کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ہوتے ۔
ہندوستانی جب ہندوستان کی معیشت ،صلابت اور حقیقت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے گریز نہیں کر تے تو کوہ نور کس کھیت کی مولی ہے ۔غرض کوہ نور کو چشم سر سے دیکھنے کی حسرت ہی رہ گئی ۔اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ہم نے کوہ نور کو تو نہیں دیکھا البتہ اپنے بچپن میں بلیک میں ٹکٹ خرید کر فلم کوہ نور ضرور دیکھی تھی اور ہندوستانی فلموں کے بچکانہ شباب پر حیرت بھی کی تھی۔ہالی ووڈ کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور بالی ووڈ ہے کہ جہاں کا وہیں ہے اور یہ اس وقت تک وہیں رہے گا جب تک صورتیں فن پر ترجیح دی جاتی رہیں گی۔
کہا جاتا ہے کہ کوہِ نور قلی قطب شاہ کی سرزمین پراثرار گول کنڈے سے برآمدہوا۔وزیروں کی پگڑیوں ،بلکہ شہزادیوں، وزیر زادیوں اور امیر زادیوں کے محرموں سے گزرتاہواانگلستان جا پہنچا اور وہاں جاکر کچھ ایسا رچ بس گیا کہ مانو وہ کوہ نور نہ ہو،ہندوستان کی انا و غیرت ہو اورپھر کوہ نور نے اپنا مقام ملکۂ انگلستان کے تاج کی کلغی جاہ و جلال میں پید اکرلیا ۔یوں بھی انگلستان جاکر کون واپس آنا چاہتا ہے جو کوہ نور واپس آتا ۔لہک لہک کر ترانۂ ہندی پڑھنے والے بھی جب لندن کی ہوا کھاتے ہیں تو و ہ گھر کا مزہ بھول جاتے ہیں اور لندن کی پر تعیش روش پر ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو قربان کر دیتے ہیں ۔ہمیں ان کے اس رویہ پر حیرت نہیں ہو تی کیوں کہ ہجرت حضرت انسان کا مقدر ہے اب خدا ہی کو معلوم ہے کہ دراصل وہ کہاں سے آ اور کہاں جا رہا ہے اور اس سفر کی منزل مقصود کہاں ہے۔
کوہ نورکی جب لوگ تعریف کر تے ہیں تو ہمیں قدرے برا معلوم ہو تا ہے،اس لئے نہیں کہ وہ ہمارے تاج کی زینت نہیں بلکہ اس لئے کہ وہ ایک خاتون کے تاج کی زینت ہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ تاج صرف مردوں کو زیب دیتا ہے خواہ مرد بے وقوف ہی کیوں نہ ہو ۔عورتو ں کا تاج تو خود ان کے مرد ہوا کر تے ہیں ،ہر شریف عورت اپنے شوہر کو سرتاج کہتی ہے ،یوں بھی صوفی ہمہ دان کا کہنا ہے کہ ہیرا اگرچہ کوہ نور ہی کیوں نہ ہو بیرونی کرنوں کا محتاج ہو تا ہے جب کہ ریڈیم ،تھیوریم اور یورانیم ایسی اشیا ہیں جو بیرونی کرنوں کی محتاج نہیں ہوتیں بلکہ سیاہ راتوں میں بھی اپنی چمک دمک سے آنکہوں کو خیرہ کرسکتی ہیں اور جو اپنی چمک دمک کے لئے دوسروں کا محتاج ہو اسے شہنشاہوں کے تاج میں جگمگانے کا کوئی حق نہیں۔ہم تو بہر حال اس چیز کے متمنی و متلاشی ہیں جو خود چمکے ،خواہ وہ یورانیم ہو یاقلب مومن ،یہ اور بات ہے کہ یورانیم سے دنیا تباہ ہو تی ہے اور مومن کے دل سے دنیا آباد بلکہ آخرت بھی ۔جب ہم دنیا کا ذکر کرتے کرتے آخرت کا ذکر کرنے لگتے ہیں تو بعض لوگوں کی جبینوں پر ھمہ اقسام کی گرہیں پڑنے لگتی ہیں اور ہم اس امر کو نادانی کے مترادف گردانتے ہیں کہ منزل سے بے نیاز ہو کر محض راستوں پر ٹہرے رہیں ۔
کوہ نور ہندوستان کا وہ مایہ ناز لیکن بے وفا ہیرا ہے جو برطانیہ کی ایک عورت کے تاج میں پیوست ہندوستان کے مردوں کا منھ چڑھارہا ہے ،گویا کہہ رہا ہو کہ ہے کوئی مائی کا لعل جو اپنے کوہ نور کو واپس لے لے ۔ہیرے کو ہیرا اسی لئے کہتے ہیں کہ اس کی سرشت میں بے وفائی ہو تی ہے ۔جو اس سے غایت درجہ کے محبت کرتا ہے وہ اسے نیست و نابود کر تاہے ،جس نے اسے منھ لگایا ،موت نے اسے گلے لگایا ۔نہ بھوک مٹا تا ہے نہ پیاس نہ کوئی اور ضرورت پوری کر سکتا ہے،نہ آرام ہی دے سکتا ہے نہ اطمینان بلکہ مدام باعث فساد و وجہہ تشدد ہو تا ہے۔شاید یہی وجہہ ہو کہ اتنی قیمتی شے ہو نے کے با وصف اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ،لیکن آدمی ہے کہ اس کی محبت میں سرگرداں اس کے حصول کے لئے اپنا بلکہ دوسروں کا بھی خون بہانے سے گریز نہیں کرتااور عین ممکن ہے کہ وہ ہیرے کے سبب ہی داعی اجل کو لبیک کہے ۔ہانکنے والوں نے ہیرے سے متعلق ایسی ایسی ہانکی ہیکہ ان کی عقول نابالغہ پر شدت سے ماتم کر نے کو جی چاہتا ہے ۔کسی نے کہہ دیا کہ قدر جوہر شاہ بداند یا بداند جوہری اب جب کہ ساری دنیا سے شاہی و شہنشاہی کا خاتمہ ہو چکا ہے اور جوہری لوگ ہیرے کو پرکھنے کا کام چھوڑ کر اپنی اپنی قبروں میں اپنے کرتوت پرکھ رہے ہیں تو اب ہیرے کو کون پہچانے اور کون ہیرے کا مول لگائے ۔ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ملکہ الزبتھ اپنی خاندانی شرافت اورنسلی دیانت کو کام میں لاتے ہوئے اگر ’’کوہ نور‘‘اپنے مبارک تاج سے نکال کر ہمارے سپرد کر دے تو ہم اسے اپنی لکھنے کی میزپر رکھیں گے اور پیپر ویٹ کے طور پر استعمال کریں گے اور ہمیں اطلاع ہی نہ ہوگی کہ جس چیز کے نیچے ہمارے پنسل سے لکھے ہو ئے مضامین دبے پڑے ہیں وہ دنیا کا ایک تاریخی و بیش بہا ہیرا کوہ نور ہے۔
پتا نہیں کوہ نور میں ایسی کیا بات ہے کہ ہر قوم کوہ نور کے نام سے دلچپسی رکھتی ہے ۔پرفیوم کی کمپنی ہو کہ مرغیوں کا پولٹری فارم انڈوں کی دوکان ہو کہ رائس مل ،حجام کا حجامت خانہ ہو کہ دودھ کی ڈوڈی ہر جگہ اس نام کے چرچے ہیں ۔حد تو یہ ہو ئی کہ ایک دن ہم نے ایک خوب صورت لڑکی کو دیکھا اور جب نام دریافت کیا تو اس نے کہا کوہ نور۔پھر اس نے جواباً ہمارا نام پوچھا تو ہم نے کہا محترمہ دنیا فقیر کو ملکہ الزبتھ کہتی ہے۔اس نے مسکرا کر ارشاد فرمایا کہ حضرت کہیں فقیروں کا نام بھی ملکہ الزبتھ ہو تا ہے ،ہم نے کہاہاں ! فقیروں ہی کانام ہی ملکہ الزبتھ ہو تا ہے،یوں بھی جو دوسروں کی چیزوں پر اتراتے پھریں وہ فقیر ہی تو ہو تے ہیں۔ہمیں افسوس ہے کہ وہ ہیرا ہمارے تاج میں پیوست نہ ہو سکا کیوں کہ ہمارے تاج میں پہلے سے ایک ہیرا پیوست ہے ۔غرض بچپن سے کوہ نور ہمارہمارے جذبات ،خیالات اور احساسات پر حاوی ہے ۔درجہ اول سے ہم کوہ نور پنسل سے لکھا کر تے ہیں ۔والد بزرگوار جس دوکان پر ہماری حجامت بنوایا کر تے تھے اس کانام ہی کوہ نور ہیر کٹنگ سیلون تھا ۔جس دوکان سے ہم مٹھائی خرید ا کر تے تھے اس دوکان کا نام کوہ نور سویٹ ہاوز تھا ۔کوہ نور لائبریری میں ہم کتابیں پڑھا کر تے تھے اور کوہ نور بک ہاوئز سے کتابیں خریدا کر تے تھے ۔اب آپ سے کیا چھپائیں کہ کوہ نور پیالس ہی میں ہماری پہلی شادی ہو ئی تھی اور جب کہ ہندوستان غذائی صورت حال کے سبب وقت سے پہلے بوڑھے ہوگئے ہیں تو یہ دیکھنے میں آرہاہے کہ جیالے ہندوستانی جانب انگلستان سر اٹھائے سُر لگا رہے ہیں کہ
دے دے مائی دید ے تو کوہ نور دے دے یہ ہندوستانی شے ہے ہم کو ضرور دیدے
یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ ایک نہ ایک دن انگلینڈ سے کوہ نور ہندوستان آئے گا اور ایران سے تخت طاؤس اور یقین ہے کہ اگر ہندوستان کو کوہ نور مل بھی جائے تو یہاں ایک اور اسکینڈل کھڑا ہو جائے گا جسے صحافت ’’کوہ نور اسکینڈل‘‘کانام دے گی ۔جب اس دیش کے نیتا جانوروں کے چارے کو ہضم کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں توکوہ نور جیسے مایہ افتخار شے کی تحصیل کسی اسکینڈل کے بغیر ہو یہ شاید ممکن نہیں ۔چونکہ ہم حیدرآبادی زمانۂ دراز سے پادشاہی کے مبارک ایام دیکھتے اور سنتے آرہے ہیں اس ضمن میں اپنے باپ دادوں سے ہیرے جواہرات کے خواص اور انہیں دل سے لگائے رکھنے والوں کی خصلتیں بھی خوب سنی ہیں ۔چنانچہ نیلم ،پکھراج ، زمرد ،یاقوت اور لعل وغیرہ کے بارے میں اتناسنا ہے کہ فطری طور پر ان کے دیدا ر کی ہوس مدتوں دل میں بیدار رہی کہ آخر ہیرا ہو تا کیسا ہے ؟ہم نے ہیرا تو دیکھا نہیں البتہ ہیرالال کو ضروردیکھا ہے جو ہندوستانی فلموں میں ویلن کا رول کیا کر تا تھا ۔
جہاں دیدہ و دانشور اصحاب علم و دانش نے ان انمول پتھروں کی تہی دامنی ،نحوست اور بدنصیبی کے بارے میں کچھ ایسا اور اتنا کہا ہیکہ دل نے اس ایقا ن پر دم لیا کہ ہندوستان کو کسی لعل کی ضرورت ہے نہ جواہر کی البتہ جواہر لعل کی ضرورت ہے ،لیکن بھارت کا ایسا مقدر کہاں کہ دوسری بار جواہر لعل کو پاسکے ۔اب جونا عاقبت اندیش اور حریص ،بے ایمان اور لالچی افراد لعل و جواہر کا روپ ڈھار کر قوم و ملت کے روبروآرہے ہیں اور گرائنیٹ کے بے ترتیب ،منحوس اور لغو ٹکڑے ہیں یہ جب تک دھرتی پر ہیں دھرتی پر بوجھ ہیں دھرتی کے اندر ہیں تو دھرتی کے دل پر داغ ہیں۔
پتا نہیں ہماری منجھلی بیگم پر جنون کی اعلیٰ ترین کیفیات کیوں طاری ہو جاتی ہیں ڈاکٹر استھما کا علاج تو کر سکتے ہیں لیکن طمع کا علاج ان کے بس کا روگ نہیں ،کہنے لگیں کہ مجھے بازار سے کوہ نور لادو۔ہم نے التجا کی کہ کوہ نور بازار میں نہیں ملتا اس کے لئے ہمیں لندن جانا پڑے گااور میرے پاس اتنے روپے ہیں نہیں کہ میں لندن جاسکوں ،پس ایڑیاں رگڑنے لگیں کہ پیدل جائیے لیکن جائیے اور کوہ نور مجھے لادیجیے۔ہم نے ہاتھ جوڑے لیکن بے سود ضدی خواتین بھی کہیں شریف مردوں کی سنتی ہیں ۔راج ہٹ اور بال ہٹ کی طرح تریا ہٹ بھی تو ایک چیز ہے۔ہم نے ہتھیار ڈال دئیے اور بازار کی راہ لی بلکہ لارڈ بازار کی ،یہیں تو ہیرے، جواہرات،لعل و زمرد دکھائی دیتے ہیں ۔ایک سے ایک عمدہ نگینہ یہیں تو ملتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ ان نگینوں کے ساتھ ساتھ ناگ بھی نظر آجاتے ہیں ۔ہمیں ناگ سے کیا سروکار ،ہمیں تو نگینے درکارہوتے ہیں ۔شاید آتش نے لارڈ بازار ہی میں یہ مصرع کہا تھا ،سانپ کو مار کے گنجینۂ زر لیتا ہے ۔غرض ایک دوکان سے پلاسٹک کا ہیرا لے لیا اور لال کاغذ میں سلیقے سے رکھ کر منجھلی بیگم کے حضور پیش کردیا اور عرض کیا کہ لیجئے ! کو ہ نور حاضر خدمت ہے ۔اسے حفاظت سے رکھنا کہیں پھر کوئی ڈلہوزی،تمہارے ہاوز میں نہ گھس جائے اور تمہارا یہ کوہ نور نہ اٹھالے جائے ۔وہ کوہ نور پاکر بہت خوش ہوئیں ۔عموماًخواتین ہر نا معقول بات پر بہت خوش ہو جایا کرتی ہیں ۔مثلاً شوہر اگر وقت سے ذرا پہلے گھر آجائے ۔یہ خوش ہو گئیں ۔بچے نے توتلے منھ سے ممی کہدیا یہ خوش ہوگئیں۔سڑک چھاپ فرہاد نے جھوٹی تعریف کردی یہ خوش ہو گئیں ۔ہمارے شہر کے بعض مرد بھی عورتوں سے کم نہیں ہم نے ایک مشہور شاعر کو دیکھا خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں ،وجہہ پوچھی تو جواب پاکر حیران رہ گئے ،کہنے لگے آج ایڈیٹر صاحب نے مجھ حقیر فقیر ناچیز کو بیٹھنے کے لئے کہا ۔پاؤ صدی میں انہوں نے پہلی بار ایسا کہا ہے ،انہیں فرصت ہی نہیں ہو تی ہے کہ کسی کو بیٹھنے کے لئے ارشاد فرمائیں ۔جب موصوف نے پاؤ صدی میں پہلی بار،پاؤ صدی میں پہلی بار ،دوچار بار کہہ دیا تو ہم نے کہا کہ حضرت آپ نے تو مصرع کہہ دیا ہے ،فرمایا تو پھر گرہ لگا دیجیے تو ہم نے حسب موقع گرہ لگائی ،
پاؤ صدی میں پہلی بار آئی ہے کانٹوں پہ بہار
فرمایا ڈاکٹر صاحب! واللہ! گرہ تو خوب ہے ،ہم نے کہا، جی ہاں ! ذر ا محجوب ہے۔
ایک سچے ہندوستانی کی طرح ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہندوستان کوکوہ نور مل جائے لیکن اخبارات سے معلوم ہو تا ہے کہ ابھی کوہ نور کے ہاتھ لگنے کی کوئی امید نہیں ،کیوں کہ ہمارا کوہ نور جس کے ہاتھ لگا ہے اس کے ہاتھ قانون سے لمبے واقع ہو ئے ہیں۔ہم سوچ رہے تھے کہ آیا کوہ نور کی بازیافت کی کیا صورت ہو سکتی ہے ۔ذہن مجہول میں بہت سی تدابیر نے دادانتخاب چاہی لیکن کوئی تدبیر جچ ہی نہیں رہی تھی۔اسی ادھیڑ بن میں آنکھ لگ گئی کیا دیکھتے ہیں کہ بابائے قوم مہاتماگاندھی ہمارے روبرو ہیں ۔باپو کو جو اپنے سامنے پایا ہماری خوشی کی کوئی حد نہ رہی ۔ہم نے ادب سے کہا باپو ! آپ نے ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کروادیا ہے اب کوہ نور کی آزادی کی تدبیر بتادیجیے۔باپو نے کہا پتر ! تمہیں کوہ نور کی پڑی ہے جب کہ اس سے انمول چیز ہندوستان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے ۔ہم نے حیران ہو کر پوچھاباپو ! کوہ نور سے بھی زیادہ کون سی چیز قیمتی ہو سکتی ہے۔کہنے لگے پریم!میرے خیال میں پریم ،اِس پتھر سے زیادہ قیمتی چیز ہے جش شے ہمارا دیش پرگتی کی اور بڑھ شکتا ہے پرنتو آج یہ بھاؤنائیں تو ختم ہو چکی ہیں ۔آج لباش اور نعروں کی نمائس رہ گئی ہے ۔ہندو مشلمان ،شکھ عیشائی یہ شب قومیں ہندوشتان کے تاج کا کوہ نور ہیں ۔تم اُش کوہ نور کی فکر چھوڑو اِش کوہ نور کی فکر کرو۔اش کوہ نور کو ٹوٹ کر بکھرنے شے بچاؤ۔شدت جذبات سے مہاتما کی آواز بھر آگئی اور ان کی آنکھ سے آنسو ٹپکنے لگے ۔ہم بے تاب ہو کر آگے بڑھے اور ان آنسوؤں کو اپنے دامن میں لے لینا چاہتے تھے جو کوہ نور سے زیادہ قیمتی ہیں لیکن شومئ تقدیر کہ اسی وقت ایک بوڑھے کھوسٹ کی کرخت اور نا پسندیدہ آواز نے ہمیں نیند سے بیدار کردیا ۔کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو ٹھیلے والا مکروہ آواز لگا رہا تھا ’’غپ چوپ ،غپ چوپ ،کوہ نور غپ چوپ ‘‘۔