جشنِ اقبال ودوسراسالانہ عالمی مشاعرہ

Share

عالمی مشاعرہ

جشن اقبال

مشاعرہ

جشنِ اقبال ؒ و دوسرا سالانہ عالمی مشاعرہ
’’سوغاتِ حجاز ‘‘ کی رسمِ اجرا

رپورٹ ۔: صفی حیدرجنتی
Email:

ادارہ’’ ھدف‘‘ جو فکرِ اقبالؔ کی اساس پر شخصیت سازی کاادارہ ہے اس کے زیر ِ اہتمام بعنوان’’ شاعرِ انسانیت و دانائے رازجشن ِعلامہ اقبالؒ‘‘ کا دوسرا عالمی مشاعرہ ؛ سعودی عرب کے منطقہ شرقیہ جو خلیج عرب کے کنارے شہر الخبر میں واقع ہے منعقد ہوا۔جہاں اِس مشاعرہ گاہ کے رنگ و نور کےعظیم الشان پنڈال میں ایک تاریخ بنائی۔ پردیس کے ترسے ہوئے ذہنوں کو ایک معیاری مشاعرے کی ضرورت تھی جس کو ھدف نے کمال ہنر مندی سے مہیا کیا۔ہندو پاک کے زندہ دلوں نے اُردو کی محبت میں جلسہ گاہ کو اس شوق سے پُر کیا کہ شہر کا شہر شاہی ایوان سا خیمہ نما ہال میں کھنچا چلا آیا پھر اولین لمحوں سے آخری ساعت تک مشاعرے کو جی کھول کر عوام نے سنا۔
شرکائے مشاعرہ میں معززین ِشہر ؛ مہم ساز اداروں کے قائدین، نمایاں ترین شخصیات اور کشادہ دل افراد بھی تھے۔سامعین کا یہ خوش رنگ اجتماع در اصل شائقین شعر و ادب کے منفرد چاہنے والوں سے چمک اُٹھا۔

ذکرِ ربانی کی سعادت قاری مطیع الرحمن کو ملی ۔ نائب صدر جناب جاوید مسعود نے پرُکشش زبان میں خطبہ استقبالیہ دیتے ہوئے کہا کہ’’ ہم سب واقف ہیں کہ مشاعرےہماری فکر کو فروزاں رکھتے ہیں۔ شعر سے دُکھی دلوں کو آسودگی ملتی ہے۔ شعر ، شعور زندگی کے راہیں روشن کر تا ہے۔

خطبہ استقبالیہ کے بعد بحریہ کی ایک معروف شخصیت جناب کیپٹن نعیم صدیقی نے شعرا کو شہہ نشین پر قہقہہ بردوش انداز میں بلایا اور لوگوں نے ان کی تحریک پر ’’اُردو زندہ باد۔۔انسانیت پائندہ باد‘‘ کے بے ساختہ نعرے بلندکئے۔
پھر رنگ منج پر جناب صفی حیدر جو گورننگ کونسل کے ممبر ہیں انھیں نے معانین مہم اور شعراکو جناب انور مسعو کے ہاتھوں فرداً فرداً اعزازت دیئے جو صدر مشاعرہ بھی تھے۔نعیم جاوید قائد تحریک ھدف نے صدر مشاعرہ انور مسعود کے ہاتھوں یاد ر گار مجلہ ’’سوغات ِ حجاز‘‘ کا رسم اجر کروایا ۔ ھدف کی اشاعتی مہم کو جناب رضا المرتضیٰ صاحب نے اپنے جمال رنگ فنی شعور کو اس طرح سے سجایا کہ جشن ِ اقبال میں ؛ تصّور سے تصویر تک ۔جابہ جا حسن کے پڑاو نظر آتے ۔ میگزین ’’سوغاتِ حجاز ‘‘ تو یوں لگتا ہے جیسے ورقی سوغات نہیں بلکہ اطلس و دیبا و حریر و ریشم و کمخواب کی پوشاک پہن رکھی ہو۔ یہ کام صرف محبت سے ممکن تھا۔جناب رضا المرتضیٰ صاحب جس کے مدیر اعلی تھے۔ اور یہ مجلہ پورے مشاعرہ گاہ میں مفت تقسیم کیا گیا۔
ادارے کے نائب صدر جناب محمد اصغر الدین نے اپنی تقری میں کہا کہ ’’چاند اپنا کلنک اپنے پاس رکھتا ہے اور چاندنی تقسیم کرتا ہے‘‘۔اس طرح ہم نے اپنی ہزار کمزوریوں کے باوجود ۔۔۔آپ کے پیار اور ایثار سے ادارہ ھدف کو نور کا کارواں بنائے رکھا۔آپ کے سہاروں کی قندیلیں ہیں؛ جس کے اُجالے میں ہم چل پڑے ہیں ۔ ہم ھدف کو انسانیت کی فلاح کے کام پر مامور کرچکے ہیں۔ھدف کی اولین مہم ؛حسنِ تربیت ہے ۔اس مہم کو؛ھدف کی گورننگ کونسل کی مدد سےجناب نعیم جاوید صاحب مستقل لکچرز اور ورکشاپس کےشاندار پروگرامس منعقدکرتے ہیں۔ ۔۔سیرتِ رسول ﷺ پرتوسعیی لیکچرکا سلسلہ جاری ہے۔جس میں خصوصی طور پر معلومات آفریں؛ پاور پائینٹ پریزنٹیشن بھی شامل ہوتا ہے۔۔ پھر شخصیت سازی یعنی پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کے محاذ پر ہندوستان کے متعدد شہروں اور خلیج میں آپ کے لکچرز ہورہے ہیں۔ماہ جولائی اور اگسٹ میں ، حیدرآبا ددکن ، کرناٹک ، مہاراشٹر میں ورکشاپس آپ کے منتظر ہیں۔
ادارہ ھدف نےحکومتی سطح پر پبلک سیکٹر میں نوکری کے ایک اہم محاذ کو ابھی ابھی مکمل کیا۔۔جہاں چار سو(400) اُمیدوارں کی سرکاری نوکری سے جڑی تربیتی مہم میں ہم نے ایک موقر ادارے کو مالی مدد پہنچائی۔ تاکہ ایک فرد کی نوکری سے ایک گھرانے کی مدد کا ھدف مکمل ہوجائے۔ علم و عہدہ کی سب سے مشکل منزل ہندوستا ن میں سیول سرویسز ہے۔ جہاںIAS, IPS, IFS جیسے امتحانا ت سے معاشرے کو سنوارا جاسکے۔ ھدف نے منتخب لیکن ضرورت مند طالب علم کو شہر کے سب سے اچھی ٹرینگ دلوائی جس کے نتیجہ میں اس کی صلاحیتوں میں زبردست اضافہ ہو۔جس پر کئی لاکھ خرچ ہوئے۔
ھدف کی تازہ ترین مہم میں ایک منتخب اسکول جہاں 500 م طلبا زیر تعلیم ہیں جو ہیں تو انگریزی میڈیم کے لیکن اُردو والے اور اُردو پڑھنے والے محتاج بچے ہیں جن کو یونیفارمس، ان کے اساتذہ کی تنخواہیں ، اور کتابوں کی فراہمی میں سالانہ دیڑھ لاکھ روپئے کی ضرورت ہے۔ اُمید ہے آپ سے کہ ہم اس سال ان بچوں کی مدد کرسکیں گے اور ساتھ ساتھ اس مدد کادائرہ ہم وسیع کرسکیں گے۔
دوستو! مسائل ہمہ گیر ہیں اور وسائل کو ریزہ ریزہ کرکے جوڑنا ہیں۔آپ کا ساتھ ہوگا تو ہم لوگ چند نتیجہ خیز راستوں پر چل پڑیں گے۔ جس میں ایک انسٹیٹیوٹ آف ایکسلینز کا قیام بھی ہے۔
اس پروگرام میں جناب انس الدین نےبہت خوبصورتی سے کلمات تشکرادا کئے جو ھدف کے ممبر ہیں۔
پہلے مرحلے میں نعیم جاوید نے تقریر کی ’’ اقبال کی مشفقانہ پکار، پرعزم جوانوں کے نام‘‘
نعیم جاوید کے سحرطراز تقریر کے بعد پروفیسر انور مسعود نے فکر اقبال پر فارسی اشعار کی روشنی میں یادگار تقریر کی۔
اس افتتاحی جشن اقبال کے بعد مشاعرے کی باری آئی۔
جناب نعیم جاوید صاحب نے مشاعرہ کی یادر گار نظامت بھی کی ۔جن کےحسن ِ نظامت کا کمال یہ ہے کہ وہ فارسی اشعار، دکنی مزاحیہ اشعاراور شعر نثر پاروں سے مشاعرے کو علمی اور عوامی دونوں رنگ دے دیتے ہیں۔مشاعر ے کا بھر پور آغاز ہوا۔بقول اقبال ؎
پھر بادِبہار آئی اقبالؔ غزل خواں ہو۔۔۔غنچہ ہو اگر گل ہو، گل ہے تو گلستاں ہو۔
انور مسعودکے مشاعرہ گا ہ کو زعفراں زار بنایا۔ کبھی تو ہنستے ہنستے لوگ ان کی منتخب نظمیں جیسے ’’ماں‘‘ پر جھر جھر آنسوں سے رونے لگے۔ اُردو کے علاوہ انھوں نے پنجابی نظموں کا انتخاب بھی سنایا۔
ہے آپ کے ہونٹوں جو مسکان وغیرہ
قربان گئے اس پہ دل و جان وغیرہ
بلی تو یونہی مفت میں بدنام ہوئی ہے
تھیلے میں تو کچھ اور تھا سامان وغیرہ
کس ناز سے وہ نظم کو کہہ دیتے ہیں نثری
جب اس کے خطا ہوتے ہیں اوزان وغیرہ
شہرِ بھٹکل ہندوستان سے تشریف لائے ڈاکٹر جناب حنیف شباب ؔ نے اپنی عالمی شہرت یافتہ نظم ’’اور لائن کٹ گئی ‘‘سنائی جس میں اسقاط ِ حمل سے قتل ہونے والی بچی جنت سے ماں سے مکالمہ کرتی ہے۔ اس خوبصورت نظم کو سنتے ہوئے لوگوں پر سکتہ طاری تھا۔
ساگر ترپاٹھی نے حسن عقیدت سے نعت پڑھی، ماں کی موضوع پر دل کو چھونے والے اشعار سنائے، زندگی کی
شعلہ پوش مسائل کو اپنے اشعار سے سجا کر پیش کیا، جس کا کچھ انتخاب پیش ہے۔
ضرورت کب کہیں مجھ سے کہاں میراپیچھا چھڑاتی ہے
میں جب گھر لوٹ آتا ہوں تو وہ بھی ساتھ آتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس دکان کے کھلتے ہی جھوٹ سارے بک گئے
ایک تنہا سچ لئے میں شام تک بیٹھا رہا
اک ہم ہیں کہ محبت سے جی نہیں بھرتا
اک وہ ہیں کہ عداوت میں مرے جاتے ہیں
اعلانِ صبح آپ نے کرہی دیا ہے جب
اُٹھیئے کہیں سے ڈھونڈ کر سورج بھی لائیے
شام کل ڈوبا ہے سورج پھر لہو کے حوض میں
نوک پہ نیزے کی پھر سے آگئی ہے روشنی
دھنک میں رنگ گلوں میں جو تیری بو نہ رہے
میں اس خیال سے ڈرتا ہوں جس میں تو نہ رہے۔
ناظم ِ مشاعرہ جناب نعیم جاوید صاحب نے اپنی مشہور مزاحیہ نظم ’’اقامہ ‘‘ سنائی جو قہقہہ زار ماحول میں بے پناہ داد وصول کی :
چلے ہو عرب کو خرامہ خرامہ ۔۔۔۔یہاں کی ضرورت ہے تازہ اقامہ
ہوچاہے اسامہ کہ چاہے ابامہ ۔۔بچا اک وہی جو بچائے اقامہ
جو سیدھا چلو تو ہے عجوہ کھجوریں ۔۔ذرا چال بگڑی دمادم غرامہ
یہ ناڑا نہ ہو تو کہا ں ہو پجامہ۔اقامہ، اقامہ ، اقامہ ،اقامہ
پھر جناب صاد ق کرمانی نے اپنی خوش گلوی سے سماں باندھا۔ جن کے چند شعر ؎
ہر طرف جنگ ہے جنگ ہے
آدمی دنگ ہے دنگ.  ہے
دل پہ صادقؔ ہو کیسے اثر
جب چڑها زنگ ہے زنگ ہے
امریکہ سے مشاعرے میں تشریف لائے جناب ڈاکڑ نوشہ اسرار نے اپنی نظموں سے افسوں پڑھ دیا۔ جس میں زلزلہ ، اور دیگر منتخب اشعار۔ علامہ اقبال پر حسبِ ذیل قطعہ ملاحظہ فرمائیے:
علم کا دریا کہوں یا آسماں افکار کا یا کہوں تجھ کو دریچہ گنبدِ انوار کا
فلسفہ اور آگہی غازہ تیرے اشعارکا آج بھی ہے رہنما ہر غازی ﻋ کردار کا
شاعرِ مشرق کہوں اقبال کی توہین ہے شاعرِ اعظم ہے وہ شاعر ہے وہ سنسار کا
مدیرِمجلہ سوغاتِ حجاز جناب رضا المرتضیٰ جو بہت خوبصورت انداز سے شعر پڑھتے ہیں۔ انھوں نے مشاعرے میں جان ڈال دی:
لبِ جادو اثر باقی نہیں ہے
تبسم کا ہنر باقی نہیں ہے
میں نکلا تھا تو دنیا ہمسفر تھی
میں لوٹا ہوں تو گھر باقی نہیں ہے
رضا راہیں کہاں لے آئیں ہم کو
کہ کوئی ہم سفر باقی نہیں ہے
عبد القدیر توپچی شہر ِ گلبرگہ کے نوجوان شاعر ہیں جو ادبی حلقوں میں عروضی مہارت کی شناخت رکھتے ہیں۔ جن کے شعر پڑھنے کا انداز بھی دلوں کی دنیا لوٹنے والا ہے۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے مشاعرے پر چھاگئے۔ انھوں نے تحت سے داد و تحسین سمیٹی اور ترنم سے تازگی بخشی:
پھر طبیعت بجهی بجهی ہے کیا
زندگانی سے بے رخی ہے کیا
روز و شب مستقل عذاب قدیرؔ
نام اس کا ہی زندگی ہے کیا
مشاعرہ رات کی آخری پہر تک جناب انور مسعود کے مزاحیہ شاعری سے قہقہہ افروز رہا۔۔اتنی تازگی رہی کہ لوگ مدتوں ھدف کے اس عالمی مشاعرے کو اس کے حسن ترتیب کو فراموش نہیں کرسکیں گے

Share
Share
Share