عادتوں کے غلام انسان
از: پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو ، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد
انسانی جسم میں روح کو منتقل کرنے کے ساتھ ہی خدا نے اس کے جسم کو مختلف عادتوں کا پروردہ بنا دیا ہے۔ چند عادتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں فطری قرار دیا جائے گا۔ ان فطری عادتوں سے فرار ممکن نہیں۔ دنیا کے کسی بھی مذہب یا رنگ و نسل کا انسان کیوں نہ ہو ، اس میں چند فطری عادتوں کا موجود ہونا خود اس کی زندگی کی علامت ہے، جیسے پیدا ہوتے ہی نومولود رونے کے ذریعہ اپنی زندگی کی علامت ثابت نہ کرنے تو بلاشبہ یہ عمل فطری عادت کے خلاف ہوگا۔ سانس لینا، چھینکنا، مختلف حرکات و سکنات، جسمانی اعضاء سے کام و کاج کی تکمیل ، اس کے علاوہ جسم کے مختلف حصوں سے مختلف چیزوں کا اخراج ، یہ ایسی بنیادی عادتیں ہیں جنہیں خداوند قدوس نے انسان کی فطرت میں ودیعت کرکے اسے دنیا میں بھیجا ہے۔ یہ عادتیں فطری ہیں اور ان فطری عادتوں کا ظہور دوسری مخلوقات میں بھی موجود ہے۔ بعض فطری عادتوں پر تہذیب اور اخلاق نے بھی اپنی پابندی کی ضرب لگائی ہے۔ تہذیبی اور اخلاقی عادتوں پر لگائی گئی پابندی سے انحراف کیا جائے تو پھر انسان اور جانور میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔
چھینک کا آنا، پیشاب یا پاخانہ کا خارج ہونا یا پھر ہوا کا خارج ہونا لازمی طور پر فطری عادتیں ہیں، لیکن ان عادتوں پر انسان کو قابو پانے کی تاکید کی جاتی ہے، تاکہ وہ محفل میں ان فطری عادتوں کو ظاہر کرنے سے پرہیز کرے۔ ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قدرت کی جانب سے انسان کو ودیعت کردہ بعض عادتیں ایسی بھی ہیں جن پر قابو پایا جائے تو ہی ایک انسان مکمل انسان قرار دیا جاتا ہے، ورنہ انسان اور جانور میں کوئی تمیز باقی نہیں رہے گی۔ دنیا میں انسان کو مہذب اور ترقی یافتہ زندگی گذارتے ہوئے اپنے وجود کا ثبوت دینا ہے تو بلاشبہ اسے بے شمار عادتوں میں سے فطری عادتوں پر بھی تہذیبی اور اخلاقی پابندی عائد کرنا پڑے گا۔ ان فطری عادتوں کے علاوہ دنیا میں ظہور پذیر ہونے والی غیرفطری عادتوں پر روک لگانا بھی انسانی زندگی اور اس کی نسل کی توسیع کے لیے لازمی ہے، ورنہ انسان ہی نہیں بلکہ اس کی انسانیت بھی خطرہ میں پڑ جائے گی۔ خلوص، ہمدردی، بھائی چارگی، دوستی ، پڑوسی کے حقوق ، ایک دوسرے کا پاس و لحاظ اور ایسے ہی بے شمار انسانی زندگی کے مرحلے ایسے ہیں جنہیں اختیار کرتے ہوئے انسان اگر مثبت رویوں کو اختیار کرے تو اس کی عادتیں قابل ستائش ہوتی ہیں۔ اس کے بجائے منفی عادتوں کا علمبردار بن جائے تو اس کی عادتوں پر اہل دنیا کی طرف سے اختلاف کیا جائے گا، تاکہ وہ بری عادتوں سے دور ہوجائے۔ ان مثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کو صرف عادتوں کا غلام ہونا نہیں ہے، بلکہ اسے عادتوں پر قابو پانے کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ ایسا جذبہ پیدا کرنے اور اس کو زندگی میں وسعت دیتے ہوئے فطرت کا حصہ بنانا ہو تو نہ صرف جسمانی محنت اور ذہنی مشقت اٹھانی پڑتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ہی عملی طور پر بھی انسان کو کوشش کرنا پڑتا ہے، تاکہ وہ بری عادتوں سے دور رہے اور اچھی عادتوں کو اختیار کرکے معاشرہ میں بلند مقام حاصل کرنے کا علمبردار بن جائے۔
عادتوں کا تعلق سماج اور معاشرہ کے اصول اور قوانین سے بھی انتہائی گہرا ہے۔ جو انسان جس معاشرہ میں پرورش پاتا ہے، اسی معاشرہ کے اصول و قوانین کی پابندی کی وجہ سے بے شمار مثبت اور منفی عادتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ خوبیوں سے وابستہ جتنی عادتیں ہوں گی انہیں مثبت عادتوں کا نام دیا جائے گا۔ اس کے بجائے خرابیوں سے وابستہ جتنی عادتیں ہوں گی انہیں منفی عادتوں کی حیثیت سے شناخت کیا جاتا ہے۔ یوروپی معاشرہ میں شراب نوشی، جوا بازی، برہنگی، جسم کی نمائش، عیش پرستی، عریانیت ، بیہودگی اور عام جنسی اختلاط کو مثبت عادتوں کی حیثیت سے قبول کیا گیا ہے، جب کہ ایشیائی معاشرہ میں یہ تمام عوامل منفی عادتوں کے نقیب ہیں، جس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ ہر ملک ، قوم ، جغرافیائی حالات، معاشی اور معاشرتی رسم و رواج کی بنیاد پر انسان نہ صرف عادتوں کا غلام بنتا ہے یا پھر بری عادتوں سے دوری اختیار کرنے کے بارے میں ذہن تیار کرتا ہے۔ عادتوں کو اختیار کرنا بھی انسان کی فطرت میں شامل ہے اور بری عادتوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش بھی انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ جہاں تک عادتوں کو اپنی شخصیت سے دور رکھنے کا معاملہ ہے ، اس سلسلہ میں انسان کو اپنے جسم پر کئی پابندیاں عائد کرکے فطرت کے خلاف کام کرنا پڑتا ہے، تب کہیں جاکر وہ کسی بری عادت کو انسان اپنے جسم سے دور کرسکتا ہے، جب کہ اچھی عادتوں کو قبول کرکے فطری طور پر انسانیت کی فلاح و بہبود کا کام انجام دے سکتا ہے۔
اخلاق اور تہذیب کی ترقی نے انسان کو سنوارنے اور اس کی خرابیوں کو دور کرنے کا ذمہ اپنے سر لے کر انسان کی انسانیت کی بقا کے لیے کوشش کی ہے۔ اِس خصوص میں دنیا کے ہر خطہ میں مختلف اصول رائج ہیں۔ انسان کے بنائے ہوئے کسی قانون کے خلاف کوئی انسان اپنی عادت کا اظہار کرتا ہے تو بلاشبہ قانون اسے سزا دیتا ہے۔ عادتوں کی مثبت روش کو بڑھانے اور منفی روش کی روک تھام کے لیے تو تہذیب و اخلاق نے اہم خدمات انجام دی ہیں۔ اس کے ساتھ دستور اور قانون نے بھی اپنا حق ادا کیا ہے۔ یہ تمام طریقے موجود ہونے کے باوجود بھی انسان کی فطرت بھی عجیب طرفہ تماشہ ہے کہ وہ برائیوں کی طرف للچاتی اور اچھائیوں سے دور بھاگتی ہے۔ یہی ایک بنیادی معیار ایسا ہے کہ جس کی وجہ سے انسان بری عادتوں کا غلام اور اچھی عادتوں سے دور بھاگتا ہے۔ مذہبیات کے فلسفہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کو بری عادتوں سے قریب کرنے کی طاقت شیطان میں ہوتی ہے اور جو شخص بری عادتوں کا غلام ہوتا ہے وہ شیطانی حرکات انجام دینے کا سزاوار ہے۔ مذہب کے یہ اصول ایشیائی ممالک ہی نہیں بلکہ یورپی ممالک میں بھی جاری و ساری ہیں۔ انسان کی آزادی پسند طبیعت نے بہت سی غیراخلاقی اور غیرتہذیبی خصوصیات کو بھی عادتوں کا ذریعہ بناکر دنیا میں پیش کیا۔ مصیبت، پریشان حالی، نکبت اور بے سروسامانی کے موقع پر جب انسان کے صبر کا دامن چھوٹ جاتا ہے تو وہ بلاشبہ غیراخلاقی حرکات اور عادات کا غلام ہونے لگتا ہے۔ کوئی غریب ، غربت سے نجات حاصل کرنے کے لیے شراب پیتا ہے، کوئی انسان مالدار بننے کے لیے جوے کے اڈے چلاتا ہے ، کوئی اپنی پریشان حالی کو دور کرنے کے لیے چوری اور ڈاکہ زنی اختیار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار اخلاقی بے اعتدالیاں دنیا میں موجود ہیں، جن پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تہذیب و اخلاق ہی نہیں ، بلکہ مذہب کے اصولوں سے بے نیازی اختیار کرنا بری عادتوں کو دعوت دینا ہے۔ اس کے بجائے اخلاقی، روحانی، تہذیبی اور مذہبی خصوصیات کو اختیار کرنے کی عادت ڈالنا درحقیقت مثبت عادتوں کو فروغ دینے کے مماثل ہے۔ دنیا میں انسان کو بھیج کر خدا نے اختیار کا مرحلہ اس کے ذمہ رکھ دیا ہے، جس طرح ایک چاقو کے ذریعہ انسان پھل کاٹے تو اس کا یہ عمل مثبت عادت کی دلیل بن جائے گا۔ اگر اس کے بجائے چاقو سے کسی کو ضربات پہنچائے یا کسی کا قتل کردے تو ایسا عمل بری عادت کا پیش خیمہ قرار دیا جائے گا۔ دنیا میں انسان کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ وہی انسان دنیا میں کامیاب زندگی گذارنے کا علمبردار قرار دیا جائے گا جو ثابت قدمایسے رویوں کے ذریعہ ہی کوئی انسان منفی عادتوں سے پیچھا چھڑا کر مثبت عادتوں کا نمائندہ بن سکتا ہے۔
آج کے دور میں کئی مسائل میں اُلجھ جانے کی وجہ سے انسان یہ چاہتا ہے کہ ذہن کو پیچیدہ مسائل سے دوری اختیار کرے، تاکہ وقتی سکون میسر آجائے۔ ایسے وقتی سکون کی تلاش وہ وہ کئی بے جا عادتوں کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ دنیا میں بہت سی بے جا عادتیں ایسی ہیں جنہیں اختیار کرنے یا چھوڑ دینے پر انسان کو پورا اختیار حاصل ہے۔ یعنی وہ اگر مصمم ارادہ کرلے تو ہر غیرضروری عادت سے خود کا پیچھا چھڑاسکتا ہے، لیکن خود کو کسی نہ کسی عادت کا پروردہ بتانے یا پھر معاشرہ میں مقام و مرتبہ کو بلند رکھنے کی غرض سے بے شمار غیرضروری عادتوں کا شکار ہوکر انسان بے بسی کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ خدا نے دنیا میں انسان کو مجبور اور بے بس بناکر نہیں بھیجا، بلکہ اس کے ہاتھ میں تدبیر کا تیشہ حوالے کرکے بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک مجبورِ محض بھی بنائے رکھا ہے۔ ایسے تمام معاملات جو خدا کی طرف سے انجام دیئے جاتے ہیں، لیکن انہیں انسان اپنی اختیارانہ صفت کے باوجود بھی دور نہیں کرسکتا۔ اختیار رکھنے کے باوجود کام پورا نہ ہونے کی وجہ سے اس کی حیثیت مجبور انسان کی ہوجاتی ہے۔ وہ بہت کچھ کرتے ہوئے بھی کسی مسئلہ کا حل برآمد نہ ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ایسے انسان کو مجبورِ محض قرار دیا جاتا ہے۔ زندگی، موت، بیماری ، حادثات، خوشی اور غم کے معاملات کو حاصل کرنا یا انہیں ترک کرنا انسان کے اختیار میں ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ جو مقدر کردیتا ہے، اسی پر اکتفا کرنے کے سوا انسان کے لیے کوئی اور چارہ نہیں، بعض اوقات، مشقت اور جدوجہد سے وہ ناممکن کو بھی ممکنات میں تبدیل کرتا ہے۔ بے شمار اختیارات رکھنے کے باوجود بھی چند معاملات میں انسان بے بسی محسوس کرے تو ایسے اختیارات کے ساتھ مجبوری کا شامل ہوجانا انسان کو مجبورِ محض بنادینے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ غذا حاصل کرنے اور اسے کھانے کا اختیار اللہ تعالیٰ نے انسان کو دے رکھا ہے، لیکن عمدہ اور غذائیں سامنے رکھ دی جائیں، اس کے باوجود بھی بیماری کی وجہ سے کوئی انسان ان غذاؤں سے استفادہ نہ کرسکے تو بلاشبہ اختیار رکھنے والا انسان بھی ایسے مرحلہ میں مجبورِ محض قرار دیا جائے گا۔ انسان مجبور ہونے کے ساتھ ساتھ بااختیار بھی ہے۔ خواہشات کا غلام ہوکر وہ مختلف عادتوں کو اپنی فطرت کا وسیلہ بنا دیتا ہے، جیسے کسی کو پان کھانے کی عادت ہے تو کوئی گھٹکا کھاکر سکون محسوس کرتا ہے، کسی شخص کو ٹھنڈی مشروبات سے فائدہ اٹھانے کی اتنی خواہش ہے کہ وہ اپنی محنت کی کمائی کو ٹھنڈے اور دل کش مشروبات سے وابستہ کرکے حق حلال کی کمائی کو بے جا صرف کرتا ہے، اسی طرح کسی شخص کو پان میں تمباکو استعمال کرنے سے اطمینان ہوتا ہے، کسی کو سگریٹ نوشی کے بغیر سکون حاصل نہیں ہوتا۔ یہ تمام عادتیں انسان کی اپنی اختیار کردہ ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت یا قدرت نے انسان کو ایسی عادتوں کے اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا، پھر بھی وہ شوق کی تکمیل یا اپنے معاشرہ میں اپنے موقف کو واضح کرنے کے لیے بے جا عادتوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسی بے جا عادتیں بھی خدا کے دربار میں ناپسندیدہ ہیں، کیوں کہ انسان کو دنیا میں روانہ کرکے خدا نے انسان کی ذات میں موجود صلاحیتوں کو خدا کے شکرانہ کی ادائیگی کا موقع دے کر دنیا میں بھیجا ہے۔ اگر انسان خدا کی شکر گذاری کے بجائے اپنی ذات کو خواہشوں کا غلام بنالے تو بلاشبہ ایسی عادتیں اختیار کرنا بھی خدا کی ناراضگی مول لینے کے مترادف ہے، کیوں کہ خدا نے اپنی آمدنی کو خود پر خرچ کرنے کے علاوہ محتاجوں اور مسکینوں کی مدد کرنے کے لیے بھی استعمال کرنے کا حکم دیا ہے، جب کہ ایک انسان گھٹکا، پان ، تمباکو، زردے کے استعمال، مشروبات، مختلف قسم کے چاکلیٹس اور وقتی خوشی دینے والی جائز چیزوں کا بے جا استعمال کرکے خدا کے حکم کی پابجائیی کے ساتھ مثبت عادتوں کو اختیار کرے اور منفی عادتوں سے اپنے آپ کو دور رکھنے کی کوشش جاری رکھے۔سے اپنے آپ کو دور کرلیتا ہے، اس لیے جائز عادتوں کو بھی شوقیہ اختیار کرکے آمدنی کا حصہ اس پر خرچ کرنا خدا کی نافرمانی کے برابر ہے۔
عادتوں کا ایک حصہ وہ بھی ہے جسے مذہب، اخلاق اور رسم و رواج نے جائز اور ان کے استعمال کو برا تصور نہیں کیا۔ شوق کے لیے اختیار کی جانے والی تمام عادتیں اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ بلاشبہ پان کھانے سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا، تمباکو اور گٹکھا استعمال کرنے سے خود انسان کی ذات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، مشروبات اور چاکلیٹس کے استعمال سے کاروباری کمپنیوں کو فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن انسانی دانت اور جسم اعضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ شدید ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ سگریٹ نوشی کو بھی جرم کا درجہ نہیں دیا گیا ہے، لیکن ہر سگریٹ کے پیکٹ پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ سگریٹ نوشی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس انتباہ کے باوجود بھی دنیا کے بے شمار انسان سگریٹ نوشی اور تمباکو خوردنی کے عادی ہوتے جارہے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سماج میں رہتے بستے ہوئے اچھی چیزوں کو اختیار کرنے کے بجاے مکروہات کو استعمال کرنے کی طرف مائل ہیں۔ انسان کی ایسی عادتیں جو اس کی ذات تک محدود ہیں، لیکن سماج میں انہیں برا نہیں سمجھا جاتا۔ ان عادتوں کو اختیار کرنا بھی بے جا اور مکروہات میں شامل کیا گیا ہے۔ جن چیزوں کو ناجائز اور مذہبی اساس پر برا تصور کیا گیا ہے، انہیں عادت کے طور پر اختیار کرنا بھی بہت بڑا جرم ہے۔ شراب نوشی، جوا بازی ، حرام کاری، عیش پرستی ، جنسی تسکین کے لیے فحاشی کا اختیار کرنا، ایسے رسائل و جرائد کا مطالعہ یا فلم بینی کہ جن کی وجہ سے انسان پر حیوانی جذبے طاری ہوتے ہیں اور وہ درندگی کا شکار ہونے لگتا ہے، ان تمام مراحل کو مذہب و اخلاق کے علاوہ تہذیب نے بھی غلط قرار دیا ہے، لیکن موجودہ ترقی یافتہ معاشرہ میں کلب، ڈانس روم، رکرنگ روم اور پیڈ روم کے توسط سے ایسے معاشرہ کی بنیاد رکھی جارہی ہے جو غلط عادتوں کو پروان چڑھانے اور ان کی ہمت افزائی کرنے کا مرتکب ہوتا جارہا ہے۔ یوروپ کے معاشرہ میں ایسی بے جا عادتوں کا رواج بہت زیادہ ہے۔ بیک وقت کئی مردوں کے ساتھ عورت کے جنسی تعلقات قائم رکھنے کے علاوہ ایک مرد کا وقفہ وقفہ سے بیویوں کو تبدیل کرنے اور ہم جنسیت میں ملوث ہونا جیسے گھناؤنی جرائم رفتہ رفتہ مغربی معاشرہ کے انسانوں کی عادتوں میں داخل ہوتے جارہے ہیں۔ ایسی تمام عادتیں جنھیں تہذیب ، اخلاق اور مذہب نے ناجائز قرار دیا ہے، ان کو اختیار کرنا تو کجا ان کا ذکر بھی بے جا ہے، لیکن معاشرہ میں ایسی عادتوں کے پنپنے اور ان کو بڑھاوا ملنے کے وسائل پر بھی روشنی ڈالنا ضروری ہے، تاکہ انسان کو روشنی کا احساس دلایا جاسکے۔ وہ اگر اندھیرے سے واقف ہوگا تو ہی روشنی کی خصوصیت سے استفادہ کرسکے گا۔
مجبوری کے طور پر اختیار کی جانے والی ایسی عادتیں جو انسان کو معاشرتی بندشوں میں آزادی کا احساس دلاتی ہیں، انہیں اختیار کرنے کے معاملہ میں بھی پرہیز کیا جانا چاہیے، حالانکہ ایسی عادتیں تہذیب، اخلاق اور مذاہب کے دائرہ میں جائز ہیں، ان کی نشاندہی کرنے کے لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ آج کے معاشرہ میں مختلف مسائل کو جوجھتا ہوا انسان مکروہات کو ہی عادتوں میں شامل نہیں کررہا ہے، بلکہ جان عادتوں سے پرہیز لازمی ہے، انھیں علم اور تعلیم کی دولت سے مالا مال ہوکر بھی اختیار کرکے اپنی ناسمجھی کا ثبوت پیش کررہا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود کردار کی برتری کو ثانوی حیثیت دی جارہی ہے، جس کی وجہ سے انسان بڑے عہدوں پر ترقی کرنے کے باوجود اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوکر حد درجہ پسماندگی کے گہرے کنویں میں اُترتا جارہا ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کی بداخلاقی، بے راہ روی اور سرمایہ حاصل کرنے کے لیے بڑھتی ہوئی بے ہودہ عادتیں دن بہ دن معاشرہ میں توازن کو بگاڑنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ تعلیم حاصل کرنیکے باوجود باکردار اور اچھی عادتوں کے مالک انسان پیدا ہونے کا سلسلہ بند ہوگیا ہے، بلکہ تمام بری عادتوں کے شکار اور بدکرداریوں سے وابستہ فرد جب اعلیٰ عہدے پر فائز ہوجائے تو لازمی طور پر اس کا انجام یہی ہوگا کہ برائیوں کو بڑھاوا ملے گا اور بری عادتوں کو فروغ دینے کے لیے اعلیٰ عہدہ پر فائز انسان کوئی نہ کوئی ایسی سبیل ضرور نکال لے گا جس کو وسیلہ بناکر کریہہ عادتوں کو بھی اختیار کرنے کا جواز پیدا کیا جائے۔ ایسے تمام امور جو عادت کے حساب سے اخلاقی و مذہبی طور پر ہی نہیں، بلکہ سماجی اور تہذیبی اعتبار سے جرائم میں داخل ہیں ان کو زندگی کا وسیلہ بناکر دوسروں کو اختیار کرنے کی ترغیب دے گا، جس کے نتیجہ میں اعلیٰ طبقہ کی حد درجہ بری عادتیں ادنیٰ طبقوں میں منتقل ہوں گی اور فیشن کے طور پر برائیوں کو اختیار کرنے کا طویل سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ہندوستان کے معاشرہ میں ہی نہیں، بلکہ ساری دنیا میں یہی کھیل رچایا جارہا ہے کہ انسان کو کسی نہ کسی واسطے سے جائز یا معقول یا پھر غیرمعقول عادت کا غلام بنایا جائے، تاکہ وہ اپنا غم غلط کرنے کے لیے یا پھر مسائل میں گرفتار رہ کر تھوڑے وقفہ کے لیے مسائل سے دوری اختیار کرنے کی خاطر ایسے طریقے اختیار کرے اور موقتی سکون کی خاطر ہمیشہ کی عذاب کی زندگی میں مبتلا ہوجائے۔ دنیا کے مختلف معاشروں میں انسان ایسے ہی معاملات میں مبتلا ہوکر بری عادتوں کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ مادّی ترقی اور معاشی حالت سدھارنے کے علاوہ سماجی موقف کی برتری کے باوجود بھی انسان عادتوں کا غلام بن کر بے بسی اور مجبوری کا شکار ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہر انسان کو دنیا کی حرص و ہوس نے بے بس کرکے رکھ دیا ہے۔ اس کی زندگی میں صبر و شکر شامل ہونے کے بجائے ہوس کارانہ صلاحیتیں تیزی سے مختلف شوق کا غلام بناتی جارہی ہیں، جس کے نتیجہ میں وہ اعلیٰ کردار، بااخلاق اور صالح رویوں کا علمبردار ہونے کے بجائے بدتمیزی، بداخلاقی ، بے اصولی، بدتہذیبی اور جائز و ناجائز کے فرق کو ختم کرنے کی طرف مائل ہوتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے انسان کسی نہ کسی بری عادت کا غلام ہوکر اچھی عادتوں کو ترک کرنے یا پھر انھیں نظرانداز کرنے کا طریقہ اختیار کرچکا ہے۔ قدرتی نظام کا یہ بھی پہلو ہے کہ برائیوں کو سر اُبھارنے کا موقع بھی خدا کی طرف سے فراہم ہوتا ہے۔ جب تمام برائیاں اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ جاتی ہیں تو پھر ان کے خاتمہ کے لیے بھی قدرت کی طرف سے ہی انتظام ہوتا ہے۔ انیسویں صدی میں انسان کی بری عادتیں کم تھیں اور بیسویں صدی میں زیادہ برائیاں منتقل ہوئیں۔ بیسویں صدی سے اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہوئے انسان نے بے شمار بری عادتوں کو اپنی شخصیت اور فطرت کا حصہ بنا لیا ہے، جس سے صاف ظاہر ہونے لگا ہے کہ اکیسوں صدی ، تہذیب و اخلاق اور مذہبی اصولوں کو ہی نہیں بلکہ انسان کو بھی تباہی کی طرف لے جانے والی صدی ہے، جس میں سودخوری عام ہوگئی ہے۔ انسان اپنی محنت کی آمدنی کے بجائے اضافی آمدنی کو اہمیت دینے لگا ہے ۔ اس کے علاوہ تہذیبی اور اخلاقی قدریں پامال کرکے خوش ہوتا ہے۔ یہ تمام معاملات بری عادتوں کو فروغ دینے کا ذریعہ بن رہے ہیں، اس لیے برائیوں کی روک تھام اور خراب عادتوں کو انسان کی شخصیت اور فطرت سے الگ کرنے کے لیے مختلف تربیتی مراکز بھی قائم کیے جارہے ہیں، تاکہ انسان کی طبیعت میں منتقل ہونے والی بری عادتوں سے اسے دور کرکے اچھی عادتوں کا علمبردار بنایا جاسکے۔ غرض بری عادتوں کو جس تیزی سے پھیلنے کا موقع مل رہا ہے اس تیزی سے اچھی عادتوں کے فروغ کے لیے مواقع فراہم نہیں ہیں۔ اس کے باوجود اتنا ضرور ہے کہ بری عادتوں میں ملوث انسان کا جب احساس جاگتا ہے تو بلاشبہ وہ اچھی عادتوں کی طرف راغب ہونے کا حوصلہ جُٹاتا ہے۔ ایسی بہت سی اہم مثالیں یوروپ کے برے معاشرے میں دیکھی جارہی ہیں۔انسانی احساس رفتہ رفتہ بری عادتوں سے اجتناب اور اچھی عادتوں کو اختیار کرنے کے وصف کو پھیلانے کا ذریعہ بنتا جارہا ہے۔ اس کے باوجود بھی انسانی ذہن نے برائیوں کو پھیلانے کے لیے جتنی چیزیں ایجاد کی ہیں، اچھائیوں کو پھیلانے کے لیے اس قدر اہتمام نہیں کیا گیا۔ غرض ایسے وقت حقیقت پسند مذاہب، اخلاق اور تہذیب کے علمبرداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ باضابطہ تحریک چلا کر انسان کو بری عادتوں سے بچانے اور نیک عادتوں سے قربت دلانے کے وسیلے اختیار کریں، تاکہ اس دنیا میں زندگی گذارتے ہوئے انسان سچائی کا علمبردار اور حقیقتوں کا پیش خیمہ بن جائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ وہ بری عادتوں سے دور رہ کر اچھی عادتوں کو فروغ دینے کا ذریعہ بن جائے۔ غرض عالمی سطح پر تبدیلی کی چاپ سنائی دے رہی ہے اور توقع ہے کہ عالمِ انسانیت پر بہت بڑا تہذیبی، اخلاقی اور مذہبی دباؤ اثر انداز ہوگا۔ انسان خود اپنی شخصیت اور ذات کی پہچان میں منہمک ہے، جس کی وجہ سے وہ جسم، صحت اور دماغ کو نقصان پہنچانے والے عوامل سے واقف کاری حاصل کررہا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بیداری کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ انسان کو اپنی ذات کا عرفان حاصل ہوجائے گا، تب وہ بلاشبہ ہر قسم کی بری عادتوں کو غیرضروری تصور کرتے ہوئے ان سے دوری اختیار کرے گا۔ توقع ہے کہ ساری دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا ہوگا جو انسانوں کو عادتوں کی غلامی سے نکال کر اپنی ذات اور قوم کی بھلائی کی طرف متوجہ کردے گا۔ غرض ایسی تبدیلی درحقیقت انسان کی بری عادتوں کے خاتمے اور اچھی عادتوں کو فروغ دینے کا بہت بڑا وسیلہ بن جائے گی۔ صالح ذہن لوگوں کو ایسی ہی انقلابی صدی اور افراد کا انتظار ہے۔ خدا وہ دن جلد لائے جب کہ انسان عادتوں کے غلام بننے کے بجائے عادتوں پر قابو پانے کی صلاحیت سے مالامال ہوجائیں۔ آمین
One thought on “عادتوں کے غلام انسان -از: پروفیسر مجید بیدار”
محبی پروفیسر مجید بیدار!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
میری نگرانی میں ایم فل کے ایک اسکالر اصنافِ شعر و ادب پر تحقیقی کام کر رہے ہیں، اب تک کی تقریباً تمام مطبوعات اس کے پاس موجود ہیں، اب آپ کی وقیع کتاب کا علم ہوا ہے تو میں چاہتا ہوں، وہ بھی اس کے پیش نظر رہے، تاکہ اب تک کی تمام مطبوعات کا تجزیہ ہو جائے۔ پاکستان میں اس کتاب کے حصول کے لیے مَیں نے کوشش کی ہے، لیکن ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی۔ آپ سے التماس ہے کہ اگر اس کتاب کی پی ڈی ایف فائل مہیا ہو سکے تو مقالے بروقت مکمل ہو سکے گا۔
امید ہے، آپ توجہ فرمائیں گے۔
نیاز مند
ڈاکٹر خالد ندیم
انچارج شعبہ اردو
یونی ورسٹی آف سرگودھا
سب کیمپس بھکر
پاکستان