مولانا شبلی،علامہ اقبال اور عطیہ فیضی ۔از۔ ڈاکٹرخالد ندیم

Share
مولانا شبلی
مولانا شبلی
عطیہ فیضی
عطیہ فیضی
علامہ اقبال
علامہ اقبال
ڈاکٹر خالد ندیم
ڈاکٹر خالد ندیم

مولانا شبلی،علامہ اقبال اورعطیہ بیگم

ڈاکٹر خالد ندیم
استاد شعبۂ اردو،جامعہ سرگودھا (پاکستان)
:ای میل
موبائل :00923214433155

اردو زبان و ادب کی تاریخ میں شبلی(۱۸۵۷ء-۱۹۱۴ء) کا نام کسی تعارُف کا محتاج نہیں۔ سوانح عمری، علمِ کلام، تنقید، تحقیق، تاریخ، سفرنامہ، شاعری اور سیرت ان کے میدانِ تصنیف و تالیف رہے اور علی گڑھ، ندوۃ العلما، حیدرآباد، سراے میر اور دارالمصنفین ان کی علمی و ملّی تگ و تاز کے میدان؛ پھر یہ بھی ہے کہ کتنے ہی شعبے ان کی اوّلیات سے سرفراز ہوئے۔ ایک شاعر، نثر نگار، فلسفی اور حکیم کی حیثیت سے اقبال(۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء) کا مقام و مرتبہ مسلّم ہے۔ شبلی اردو، فارسی اور عربی پر دسترس رکھتے تھے اور ترکی زبان سے بھی انھیں شناسائی تھی؛ جب کہ اقبال پنجابی، اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر دسترس رکھتے تھے اور جرمن زبان سے بھی انھیں کچھ عرصہ تک لگاؤ رہا۔ جہاں تک عطیہ فیضی ‘(۱۸۷۷ء-۱۹۶۷ء) کا تعلق ہے، وہ ترکی کے شہر استنبول میں پیدا ہوئیں، جہاں ان کے والد تجارت کی غرض سے مقیم تھے۔ عطیہ بیگم اپنے دَور میں ان چند مسلم خواتین میں سے تھیں، جنھوں نے یورپ میں تعلیم حاصل کی اور علوم و فنون کی تحصیل کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔

عطیہ فیضی‘ سے شبلی کی پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی، جب عطیہ اور اس کی بہنیں(زہرا فیضی، نازلی رفیعہ سلطان) لکھنؤ کے دَورے میں شیخ مشیر حسین قدوائی کے ہاں قیام پذیر تھیں۔ اس ملاقات کے بعد شبلی کا بمبئی جانا ہوا تو خاندانِ فیضی نے اپنے کسی عزیز کی طرح ان کا استقبال کیا۔ عطیہ فیضی کا بیان ہے کہ ’دوسرے سال (۱۹۰۷ء)ان کے پاؤں میں گولی لگنے کے بعد وہ مصنوعی پاؤں کے انتظام کے لیے بمبئی آئے‘۔۱؂ معلوم ہوتا ہے کہ عطیہ سے شبلی کی مشیر حسین قدوائی کے ہاں ملاقات غالباً ۱۹۰۶ء میں ہوئی۔ اس کے بعد لکھنؤ،بمبئی اور بمبئی سے ایک سو پینسٹھ کلو میٹر دُور جنوب میں واقع ایک مسلم ریاست جنجیرہ (جو غالباً ’جزیرہ‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے) میں ان کی کئی ایک ملاقاتوں کی اطلاع عطیہ فیضی، زہرا فیضی (۱۸۶۶ء-۱۹۴۰ء) اور ایم مہدی حسن(مہدی افادی) کے نام متعدد خطوط سے ملتی ہے، البتہ آخری بار وہ جون ۱۹۱۴ء میں بمبئی گئے اور جولائی کی کسی تاریخ تک وہیں رہے۔ اس دَوران زہرا فیضی انھیں اپنے ہاں کھانے پر بلاتی رہیں، لیکن اس عرصے میں عطیہ سے ان کی ملاقات کی کوئی خبر نہیں ملتی۔
عطیہ سے اقبال کی پہلی ملاقات یکم اپریل ۱۹۰۷ء کو لندن میں ہوئی، پھر لندن اور ہائیڈل برگ میں دعوتوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا، جو ۴؍ستمبر ۱۹۰۷ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد عطیہ کو ہندوستان لوٹنا پڑا، پھر جب عطیہ کو اپنی بہن نازلی رفیعہ سلطان (۱۸۷۴ء-۱۹۶۸ء) اور بہنوئی نواب سر سدی خان (۱۸۶۲ء-۱۹۲۲ء)کی معیت میں دوبارہ یورپ جانے کا اتفاق ہوا تو ۹؍جون ۱۹۰۸ء کو اقبال ان سے ملنے کے لیے گئے۔ ہندوستان پلٹنے کے بعد کئی برس تک دونوں کی ملاقات نہ ہو سکی۔ عطیہ کی طرف سے جنجیرہ آنے کی دعوت کے جواب میں اقبال مسلسل معذرت کرتے رہے۔ یوں لگتا ہے کہ ۱۴؍دسمبر ۱۹۱۱ء کو مراسلت کا سلسلہ منقطع ہو گیا، جو دوبارہ تب بحال ہوا، جب دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے یورپ جاتے ہوئے اقبال بمبئی رُکے۔ ۱۰؍ستمبر ۱۹۳۱ء کو عطیہ نے ان کے اعزاز میں ’ایوانِ رفعت‘ میں ایک دعوت کا اہتمام کیا اور یورپ سے واپسی پر بھی ایسی ہی دعوت کی گئی۔تیسری گول میز کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے اقبال ۱۷؍اکتوبر ۱۹۳۲ء کو بمبئی پہنچے تو انھوں نے کچھ وقت عطیہ اور ان کے شوہر رحمین فیضی کے ساتھ گزارا۔ ۲؂
عطیہ کے نام شبلی کے خطوط کا دَورانیہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۸ء سے ۲۸؍مئی ۱۹۱۱ء تک ہے اور تقریباً سوا تین سال کے مختصر سے عرصے میں شبلی نے عطیہ کو پچپن خطوط تحریر کیے، جو تمام اردو زبان میں ہیں۔ عطیہ فیضی سے اقبال کی خط کتابت کا دَورانیہ مارچ ۱۹۰۷ء سے ۲۹؍مئی ۱۹۳۳ء تک ہے؛ البتہ ۱۴؍دسمبر ۱۹۱۱ء سے آخری خط تک بائیس برس کاطویل وقفہ بھی ہے۔ یہاں عطیہ کا وہ بیان دہرا دینا ضروری معلوم ہوتا ہے، جس کے مطابق، ’بہت سے خطوط جواب دے دِیے جانے کے بعد محفوظ نہ رہے، اس لیے کہ اُس وقت انھیں ان خطوں کی قدر و قیمت کا کوئی اندازہ نہیں تھا‘۔۳؂ عطیہ کے نام اقبال کے دستیاب خطوں کی تعداد گیارہ ہے، جو انگریزی زبان میں لکھے گئے۔اس دَوران شبلی کے صرف ایک خط (مرقومہ ۱۴؍اگست ۱۹۰۹ء)سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اقبال سے عطیہ کی مراسلت سے آگاہ تھے۔ شبلی نے لکھا تھا کہ ’تم نے میرے سوالوں کا تو جواب نہیں لکھا، میری اور مسٹر اقبال کی تعریف میں خط پورا کر دیا‘۔۴؂
شبلی کے خطوں میں عطیہ سے تعلقات کے نشیب و فراز کے ساتھ القاب و آداب میں تبدیلی آتی رہی؛ یعنی ’عزیزی‘، ’عزیزی عطیہ فیضی‘، ’قرۃ عینی‘، ’خاتونِ محترم‘’خاتونِ محترم عطیہ فیضی سلمہا‘اور ’مہد علیا‘وغیرہ۔وہ عام طور پر سلام و آداب کا التزام نہیں کرتے، تاہم چند ایک میں ’سلام علیکم‘، ’سلامِ مسنون‘، ’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘، ’حیاک اللہ‘ کے الفاظ ملتے ہیں۔ اقبال کے خطوں میں بھی باہمی تعلقات کی نوعیت کے ساتھ ساتھ القاب میں تغیرات آتے رہے، مثلاً۔۔۔’مائی ڈیر مس فیضی‘، ’مائی ڈیر مس عطیہ‘، ’ڈیر مس فیضی‘ اور ’مائی ڈیر عطیہ بیگم‘ وغیرہ؛ جب کہ انگریزی زبان میں ہونے کے باعث یہ خطوط آداب و سلام سے بے نیاز ہیں۔
جہاں تک اختتامیوں کا تعلق ہے، شبلی نے چند خطوں میں ’والسلام‘ اور تین خطوں میں’تمھارا خیر خواہ‘، ’خدا حافظ‘اور ’تمھارے کمالات پر حیرت زدہ‘ جیسے الفاظ درج کیے ہیں، جب کہ اقبال کے خطوں کا اختتامیہ بالعموم Yours sincerely یا Yours very sincerely یا پھر Yours ever sincerelyسے ہوا ہے، البتہ ۱۳؍جنوری ۱۹۰۹ء اور ۳۰؍مارچ ۱۹۱۰ء کے خطوں میں Yours ever سے تعلقِ خاطر کو ظاہر کیا گیا ہے۔ ایکمکتوب نگار اپنا نام ’شبلی‘، ’شبلی نعمانی‘ یا ’نعمانی‘ لکھتا ہے تو دوسرا ’اقبال‘، محمد اقبال‘ یا ’ایس ایم اقبال‘ ۔
دونوں اکابر اپنی نظمیں اور تصانیف عطیہ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ ان پر اپنی راے کا اظہار کرے۔ شبلی اپنی تصانیف اور بعض شعری تخلیقات عطیہ کو بھیجنے کے آرزو مند رہتے تھے۔ وہ مختلف مواقع پر عطیہ کو دیوان، سوانحِ مولانا روم، موازنۂ انیس و دبیر یا تہنیت کی غزل بھیجتے ہیں اور کبھی غزلوں کا مجموعہ یا شعر العجم کے مختلف حصے پیش کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔کئی خط ان کی اپنی نظموں، غزلوں یا ان کے متفرق اشعار سے مزین ہیں، بعض خطوں میں موقع محل کی مناسبت سے انھوں نے اپنے اشعار کو جگہ دی ہے اور کبھی کبھار دوسروں کے اشعار بھی درج کیے ہیں۔ اقبال بھی اپنی نظم بھیج کر اس پر عطیہ کے تبصرے کے متمنی ہیں اور کبھی اپنی کتاب (فلسفہ عجم) پیش کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں۔علاوہ ازیں اقبال نے بعض خطوں میں اپنی اردو فارسی نظموں سے اقتباس اورموقع و محل کے مطابق اپنے اشعار بھی درج کیے ہیں۔ چند ایک مقامات پر اقبال نے اپنے اشعار کی تفہیم کے لیے اشعار کے ساتھ ان کا انگریزی میں ترجمہ بھی لکھ دیا،مثلاً۷؍جولائی ۱۹۱۱ء کے خط سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
خندہ ہے بہر طلسم غنچہ تمہید شکست
تو تبسم سے مِری کلیوں کو نامحرم سمجھ
درد کے پانی سے ہے سرسبزیِ کشت سخن
فطرتِ شاعر کے آئینے میں جوہرِ غم سمجھ
For the talisman of the bud, smile is the beginning of the end; regard my buds totally unaware of smile. The field of poetry prospers through the water of suffering the real essence of poet’s nature is suffering. ۵؂
بمبئی آنے کی دعوت عطیہ نے شبلی کو دی تو انھوں نے قبول کر لی، اگرچہ شبلی متعدد مرتبہ جنجیرہ یا بمبئی میں عطیہ کے مہمان ہوئے، لیکن وہ اپنے قومی مقاصد کو کبھی نہیں بھولے؛ چنانچہ ۱۹۰۹ء میں بار بار کی دعوت کے باوجود شبلی بمبئی نہ جا سکے۔ غالباً عطیہ نے گلہ کیا، جس پر شبلی نے واضح کر دیا کہ ’دیر تک ملنے کی امید نہیں۔ مَیں وطن، احباب، آرام، سب چھوڑ سکتا ہوں، لیکن ایک مذہبی اور قومی کام کیونکر چھوڑ دوں، ورنہ بمبئی یا جزیرہ (جنجیرہ) دو قدم پر تھے‘؛۶؂ ایک اَور خط میں شبلی کو وضاحت کرنا پڑی کہ ’میری زندگی کے دو حصے ہیں، پرائیویٹ اور پبلک۔ اگر پبلک کام میرے ہاتھ میں نہ ہوتا تو میری ہمت کا اندازہ کر سکتی‘۔۷؂ اسی طرح اقبال کو بھی جنجیرہ آنے دعوت دی جاتی رہی، لیکن اقبال اپنی ذمہ داریوں کے پیش نظر ایک مرتبہ بھی نہ جاسکے۔ ۹؍اپریل ۱۹۰۹ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں:
I am sorry to hear that you do not believe me when I say that I wish to come to Bombay to see you and their Highnesses who were so very kind to me. I certainly do wish to come over, whether this would be possible, I cannot say at present. No greater relief to me than this.
[مجھے یہ معلوم کر کے نہایت افسوس ہوا کہ آپ کو باور نہیں آتا کہ مَیں آپ سے اور نواب صاحب اور بیگم صاحبہ سے، جو مجھ پر بے حد شفقت فرماتے ہیں، ملاقات کے لیے بمبئی آنے کا آرزو مند ہوں۔ مَیں تو ضرور حاضر ہونا چاہتا ہوں، لیکن آیا یہ ممکن ہو سکے گا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یقین مانیے، آپ لوگوں کی صحبت سے زیادہ تسکین مجھے کہیں میسر نہیں۔]۸؂
عطیہ کے معاملے میں شبلی پورے اعتماد سے بات کرتے ہیں اور عطیہ پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ مولوی مشیر حسین قدوائی نے شبلی کو عطیہ کے اپنے ہاں آنے کی اطلاع دی تو شبلی نے واضح کر دیاکہ ’اگر آپ لکھنؤ آکر کسی اَور کی مہمان ہوں تو مَیں اُس زمانے میں لکھنؤ چھو ڑ کر چلا جاؤں گا‘۔۹؂دوسری طرف، اقبال کسی پر اپنا حق نہیں سمجھتے اور نہ عطیہ کے حوالے سے کسی سے بات کرنا پسند کرتے ہیں، مثلاً ۱۷؍اپریل ۱۹۰۹ء کے خط میں لکھتے ہیں کہ ’عبدالقادر صاحب سے اکثر چیف کورٹ کے کمرۂ وُکلا میں ملاقات ہو جاتی ہے۔ ایک عرصے سے آپ کے متعلق ہماری باہمی کوئی گفتگو نہیں ہوئی‘،۱۰؂ لیکن اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ’میری کم گوئی اب بڑھتی جا رہی ہے‘۔۱۱؂
بعض مواقع پر عطیہ دونوں اکابر سے ناراضی کا اظہار کرتی ہیں۔ شبلی سے شکایت پیدا ہوئی توان کی بمبئی آمد اور قیام کے باوجود خاموشی اختیار کر لی اور اقبال سے ناراض ہوئیں تو لاہور میں انھیں اپنی آمد کی خبر تک نہ دی۔ شبلی و اقبال کے خطوں سے ایک ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
اس ستم ظریفی کو دیکھیے، مہینہ بھر بمبئی میں رہیں اور مطلق خبر نہ دی۔ خبر تھی کہ بیگم صاحبہ بھوپال کے ساتھ ولایت جا رہی ہیں، اس لیے زہرا کو لکھا، وہ بھی چپ رہیں۔ بہت پتا لگایا کہ بمبئی میں تم ہو تو آؤں، کچھ پتا نہیں چلا۔ ۶؍مئی کو زہرا صاحبہ کا خط آیا کہ سب لوگ جنجیرہ آ گئے ہیں۔ اب جا کر یہ خط آیا، سبحان اللہ۔۔۔۔ افسوس! بمبئی میں بہت رہوں گا، لیکن تم سے ملنا محال ہو گیا،سمندر پار ہو۔؂۱۲؂
His Highness was not mistaken in looking upon you as the only authority on my whereabouts. May I suggest that you did not choose to continue to be so; though I have confessed and shall always confess the power of this authority? Some people look upon me as a similar authority about you; but imagine my disappointment when I hear from other people that you had designed to visit Lahore and were already in it! And you did not condescend to drop a line to me! It was sheer chance that I had the pleasure to see you only to make myself more miserable.[ہزہائینس نے بجا طور پر میرے پتے کے متعلق آپ کو سند سمجھا اور یہ کیوں نہ کہوں کہ آپ نے ایسی سند ہونے سے انکار کر دیا۔ مَیں تو اس سند کے اختیارات تسلیم کرنے کو تیار ہوں اور ہمیشہ تیار رہوں گا۔ بعض لوگ اِدھر بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کر آپ کے متعلق مجھے بھی ایسی ہی سند سمجھتے ہیں، لیکن میری مایوسی کا اندازہ کیجیے، جب مجھے دوسروں کی زبانی معلوم ہوا کہ لاہور آپ کے قدومِ میمنت لزوم سے مفتخر ہونے والا ہی نہیں، بلکہ ہو چکا ہے۔ آپ نے تو دو حرفی اطلاع تک سے دریغ فرمایا۔ آپ سے اتفاقیہ ملاقات ہو گئی اور اس سے میرے قلق میں مزید اضافہ ہوا۔]؂۱۳
شبلی روشن خیال بھی تھے اور جرأتِ رندانہ کے مالک بھی، لیکن قومی خدمت کے بعض امور میں وہ ذاتی آرزوؤں کو قربان کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے۔ ندوہ میں بورڈنگ کی تعمیر کے لیے نصف اخراجات بیگم جنجیرہ (نازلی) نے قبول کیے تو عطیہ نے اس کا سنگِ بنیاد انھی کے ہاتھوں رکھنے کی تجویز پیش کی۔ اگرچہ شبلی متفق تھے، لیکن بعض مجبوریوں کے علاوہ انھیں ’عام مخالفت اور مولویوں کی برہمی‘ کا بھی خدشہ تھا۔۱۴؂ وہ واضح کرتے ہیں کہ ’مَیں اگر عوام کی مرضی کا کسی حد تک لحاظ نہ رکھوں تو ایک نہایت مفید تحریک فوراً برباد ہو جائے‘؛۱۵؂ اس کے برعکس اقبال کو عوام کے احترام و عقیدت سے کوئی سروکار نہیں رہا اور نہ وہ کسی کے اختلاف یا مخالفت کے ڈر سے اپنی زندگی کی روش کو بدلنے پر تیار ہوئے۔ عطیہ نے شمالی ہندوستان میں اقبال کی ذات سے عقیدت و احترام کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا تو اقبال نے ایک خط میں انھیں بتایا:
مکمل مضمون پی ڈی ایف فائل میں پڑھیں
Article: Shibli,Iqbal aur Atiya Fٍaizi
Writer : Dr Khalid Nadeem

Click to access Shiblee-Iqbal-Atiya-by-Dr.-Khalid-Nadeem.pdf

Share

۴ thoughts on “مولانا شبلی،علامہ اقبال اور عطیہ فیضی ۔از۔ ڈاکٹرخالد ندیم”

Comments are closed.

Share
Share