میڈیا اور مسلم خواتین
ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز
1897ء میں سوئیزرلینڈ کے شہر بیسل میں یہودی دانشوروں کی کانفرنس ہوئی تھی‘ جس میں 19چیاپٹرس پر متشمل ایک دستاویز تیار کی گئی جس میں انہوں نے دنیا پر حکومت کرنے، پریس کو قابو میں لانے اور تعلیم کے ذریعہ ذہن کی تبدیلی کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ اس منصوبہ پر یہودی 117برس سے کامیابی کے ساتھ عمل کررہے ہیں اور آج دنیا پر ان کی حکومت اس طرح ہے کہ ہے امریکہ میں آباد ڈھائی فیصد یہودی ساڑھے ستانوے فیصد امریکیوں پر حکومت کررہے ہیں۔ دنیا کے 96فیصد ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا کنٹرول ہے‘ عالمی خبر رساں ادارے ریوٹر، اسوسی ایٹیڈ پریس، یونائٹیڈ پریس، فرانس نیوز ایجنسی جیسے عالمی خبر رساں ادارے ان کے زیر کنٹرول ہیں۔ ساری دنیا کے ہزاروں اخبارات، جرائد و رسائل اور ٹیلیویژن چیانلس کو یہی اپنی پالیسی کے مطابق خبریں، مضامین، فیچرس اور تصاویر جاری کرتے ہیں۔ ساری دنیا وہی دیکھتی اور پڑھتی ہے جو یہودیوں کے زیر کنٹرول ادارے پیش کرتے ہیں۔
ہالی ووڈ کی تمام بڑی فلم کمپنیوں کے وہ مالک ہیں جن میں فوکس کمپنی، گولڈن کمپنی، میٹرو کمپنی، وارنر برادرس اینڈ کمپنی اور پیراماؤنٹ کمپنی شامل ہیں۔ ان فلم کمپنیوں نے عالمی معاشرے میں عریانیت، فحاشی، اخلاقی گراوٹ پیدا کی اور ان کا سب سے بڑا نشانہ عالم اسلام اور مسلمان رہے۔ انہوں نے ایسی کئی فلمیں بنائیں جس کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کی تصویر مسخ کی گئی۔ یہودیوں کو مظلوم‘ مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کیا گیا۔ مسلم یا عرب خواتین کو عیاش ا ور ہوس پرست دکھایا گیا۔’’لارنس آف عربیہ ہو یا خرطوم، دریائے نیل کی طغیانی ہو یا نارتھ سوڈان یا پھر جنرل پائن‘‘ جیسی فلمیں ہیں۔ اسی طرح اپنی طویل مدتی منصوبہ کے تحت انہوں نے خبر رساں اداروں، اخبارات اور ٹیلیویژن چیانلس کو اپنے کنٹرول میں کیا۔ یہی حال اخبارات کا ہے‘ سب سے بڑا گروپ روپرٹ مروخ کا ہے جو کئی ٹیلیویژن کمپنیوں کے مالک ہیں اور ان کے گروپ کے تحت سینکڑوں کی تعداد میں اخبارات و جرائد اور رسائل شائع ہوتے ہیں۔ مروخ ایک یہودی نسل ہے اس نے سب سیپہلے پیج3 کے نام سے اخبارات میں عریانیت کو روشناس کروایا۔ آج 95فیصد اخبارات، جرائد اور رسائل اسی نقش قدم پر گامزن ہیں۔ ایسا ہی حال ٹیلیویژن چیانلس کا ہے۔ تقریباً سبھی بین الاقوامی ٹیلیویژن چیانلس یہودیوں کے زیر کنٹرول ہیں جس کے ذریعہ دنیا کو ایک تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔ 24×7 ٹیلویژن چیانلس نے لمحہ بہ لمحہ حالات سے باخبر کرنے کی آڑ میں ساری دنیا کو ایک ایسی اخلاقی گراوٹ کا شکار کردیا جہاں سے اوپر اٹھنا اب ناممکن ہے۔ اے بی سی، ایم بی ایس، سی این این، سی بی سی، پی بی ایس جو اگرچہ کہ امریکن ٹیلیویژن کمپنیاں ہیں مگر یہودی لابی کے زیر کنٹرول ہے جنہوں نے میڈیا کے اس موثر وسیلہ کو دنیا میں نفرت پھیلانے، تشدد بھڑکانے، خواتین کے مقام کو گھٹاتے ہوئے اسے ذلیل کرنے کی کوشش کی حتیٰ کہ میڈیا کے ان ذرائع نے صنف نازک پر اس حد تک ظلم کیا کہ بڑھتی ہوئی آبادی سے دنیا کو درپیش خطرات کا پروپگنڈہ کرتے ہوئے فیملی پلاننگ کو عالمی سطح پر لازمی قرار دینے کی کوشش کی۔ اس عمل سے ایک طرف آنے والی نسل کو روکا گیا دوسری طرف اس یہودی لابی نے مختلف امراض کے وائرس اور مختلف ممالک میں خانہ جنگی کے حالات پیدا کرکے لاکھوں افراد کو موت کے گھات اتروایا اور آبادی پر قابو پانے کی کوشش کی۔ یہودی لابی کے زیر کنٹرول ذرائع ابلاغ نے غیر محسوس طریقوں سے عالم اسلام کو اپنا نشانہ بنایا۔ کارٹون، سیریلس کے ذریعہ بچوں کو اپنا گرویدہ بنایا اور غیر محسوس طریقہ سے ان کارٹونوں کے ذریعہ مشرکانہ عقائد، بداخلاقی کے زہر کو بڑی مہارت کے ساتھ ان کے ذہن نشین کیا گیا۔ عرب خواتین کو غیر محسوس طریقہ سے اسلامی معاشرے کے خلاف بغاوت پر آمدہ کیا جانے لگا۔ ٹیلیویژن پروگرامس کے ساتھ ساتھ یہودی لابی نے وہاں کے اخبارات میں اپنے ہم خیال ایسے خاتون صحافیوں اور مدیران کی خدمات کو یقینی بنایا جو شکر میں چھپاکر زہر پیش کرتی ہیں اس کا تیجہ یہ ہوا کہ آج عالم عرب میں سب سے زیادہ کاسمیٹکس استعمال ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ پرفیومس کا استعمال ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ فیشن یہیں پر کیا جانے لگا ہے۔
بہرحال 117برس پہلے یہودیوں نے جو منصوبہ بنایا تھا اس میں وہ کامیاب ہوچکے ہیں۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کو سب سے بڑا ہتھیار بیادیا چنانچہ اب جتنی جنگیں لڑی جارہی ہیں یا لڑی جائیں گی وہ ہتھیاروں سے زیادہ میڈیا کے ذریعہ لڑی جارہی ہیں۔ سب سے خطرناک اور موثر ہتھیار پروپگنڈہ، افواہ سازی اور لوبےئنگ ہے۔ پہلے کسی کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے پروپگنڈہ اور افواہ سازی کی جاتی ہے۔ پھر اس کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں۔ جیسے پہلی بار سوڈان کے خلاف امریکی فوجی کاروائی کی گئی تو اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل بطرس غالب کے بموجب دس سال تک میڈیا کے ذریعہ رائے عامہ ہموار کی گئی۔ ٹیلیویژن چیانلس اور اخبارات میں تصاویر کے ذریعہ سوڈان کی حالات کی بگڑی ہوئی تصویر دکھائی گئی۔ اور دنیا کو باور کروایا گیا کہ امریکی فوج کا سوڈان میں داخلہ ضروری ہے۔ عراق، افغانستان میں بھی ایسے ہی کیا گیا۔ میڈیا کے ذریعہ پروپگنڈہ کیا گیا کہ عراق اور افغانستان القاعدہ جیسی تحریکات کے مراکز ہیں۔ اور پھر ان دو ممالک کو تہس نہس کرکے رکھ دیا گیا۔ ان دو ممالک میں اکریکہ کے زیر قیادت اتحادی فوج کے کیلئے سب سے زیادہ اہم رول کسی نے اگر کیا تو وہ سی این این کی خاتون صحافیوں نے۔ سی این این جو 1980ء میں قائم کیا گیا اس نے باقاعدہ یہ اعلان کیا کہ آپ ہمیں خبر دیجئے ہم آپ کو جنگ کا میدان دیں گے۔ سی این این کے نامہ نگاروں میں خواتین بھی تھیں‘ جو مختلف شخصیات سے انٹرویو لیتیں‘ سی این این پر لائیو ٹیلیکاسٹ ہوتا وہ ان مقامات کی نشاندہی کرتیں جہاں اہم قائدین ہوتے‘ کچھ دیر بعد اتحادی افواج ان علاقوں پر بمباری کرتے۔ سی این این نے خلیجی جنگ کے دوران ایک ہزار کروڑ ڈالر کا منافع حاصل کیا تھا۔افغانستان کی تباہی میں ایک خاتون صحافی کا بڑا اہم رول رہا جس نے سب کچھ تباہ و تاراج ہونے کے بعد مشرف بہ اسلام ہونے کا اعلان کیا۔
پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ ساری دنیا میں یہودی لابی نے تباہی پھیلائی۔ ان کا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ وہ مختلف قوموں کو میڈیا کے ذریعہ عیش پسندی اور فحاشی میں مبتلا کرتے ہوئے انہیں اخلاقی بحران سے دوچار کرے۔ انہیں اپنے اپنے ملک کے ارباب اقتدار کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے لئے مجبور کرے اور ان کے ذہنوں پر، دلوں پر، دماغوں پر قبضہ کرسکے۔ عالم عرب کے عربی اور انگریزی اخبارات کے ذریعہ خاتون صحافیوں کے ذریعہ ہی برائی کو پھیلایا جارہا ہے ان میں ’’شرق الوسط‘‘ سب سے نمایاں اخبار ہے جو خواتین کی ذہنی تطہیر کرتا ہے۔ اگر ان خاتون صحافیوں کے خلاف اعتراض کیا جاتا ہے تو اسلامی قوانین کو سیاہ قوانین یا ظالمانہ قوانین، خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک، ان کی آزادی پر پابندی کے الزامات نہ صرف عائد کئے جاتے ہیں بلکہ اس قدر پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ ان اسلامی ممالک کو عالمی برادری میں اپنے آپ کو اعتدال پسند ثابت کرنے کے لئے کھلی چھوٹ دینی پڑتی ہے۔پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں میڈیا میں ہر پانچ میں سے ایک صحافی خاتون ہیں۔ تاہم وہاں بھی انہیں اپنے ساتھ امتیازات کی شکایت ہے۔ پاکستان ویمن میڈیا سنٹر کی ڈائرکٹر فوزیہ شاہین کے مطابق میڈیا سے وابستہ خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف وہ مساوات کا مطالبہ بھی کرتی ہیں‘ دوسری طرف بحیثیت خواتین وہ خصوصی موقف بھی چاہتی ہیں۔ پاکستان کایہ المیہ ہے کہ وہاں کی خاتون صحافیوں کی اکثریت کو برین واش کیا گیا ہے۔ دو سال پہلے ساؤتھ ایشین ویمن اِن میڈیا پاکستان چیاپٹر کے زیر اہتمام خاتون صحافیوں کا ایک اجلاس طلب کیا گیا تھا جس میں شریک 110خواتین نے اپنے سینوں پر بیاچس لگائے تھے جس پر لکھا تھا ’’میں ملالہ ہوں‘‘ یہ دراصل ملالہ کے ساتھ یگانگت کا اظہار تھا۔ یہ اور بات ہے کہ کم عمر ملالہ کے نام سے مستقل ڈائری بی بی سی کا نمائندہ لکھتا رہا اور پاکستان کے حالات کو ملالہ کے نام سے دنیا کے سامنے پیش کرتا رہا۔ ایران، قطر، مصر، متحدہ عرب امارات کے معاشرہ کو تباہ کردیا گیا۔ ہندوستان بھلا اس سے کب محفوظ رہ سکتا۔ پہلے پرنٹ میڈیا کے ذریعہ پھر فحش لٹریچر کے ذریعہ، فلموں کے ذریعہ اور انٹرنیشنل ٹیلیویژن چیانلس کے ذریعہ ہندوستانی معاشرے کو یہاں کے مشرقی اقدار کو مغربی تہذیب سے آمیزہ کردیا گیا۔ پرنٹ میڈیا میں فحش لٹریچر ہر زبان میں عام کردیا گیا۔ خواتین کے رسائل کے ذریعہ خواتین کو رہنمائی کے بجائے انہیں گمراہی کی کوشش اب بھی جاری ہے۔ الکٹرانک میڈیا کا حال اور بھی بُرا ہے۔ اسنے خواتین کے حقوق، ان کے مساوات، ان کے آزادی کے نام پر انہیں اس حد تک ذلیل، رسوا کیا کہ خواتین اپنی نظروں سے آپ گرنے لگیں۔پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا نے انہیں بے حیا منادیا۔ شوہروں سے بے وفائی کو کلچر کا حصہ بنادیا۔ مشرقی اقدار اور روایات سے انحراف کو ذہنی انقلاب کا نام دیا گیا۔ نہ تو ایسی فلم ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ٹیلیویژن پروگرام چاہے وہ سیریل ہو یا کوئی نیوز بلیٹن جسے ایک شریف خاندان ایک ساتھ دیکھ سکے۔ کیوں کہ نیوز بلیٹن ہو یا فیملی پروگرامس اس کے درمیانی وقفہ میں اڈورٹائزنگ کے نام پر حیاسوز مظاہرے پیش کئے جاتے ہیں اور رسوا صنف نازک ہی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ خواتین پر جبر و ستم کے واقعات کو عبرت کے طور پر نہیں بلکہ تفریح کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ایک طرح سے خواتین کے استحصال کے نت نئے طریقوں سے واقف کروایا جاتا ہے۔ ہندوستانی میڈیا نے ترقی کے نام عورت کے مقام کو گھٹادیا ہے۔ مختلف انٹرنیشنل ٹیوی چیانلس پر جلوہ گر ہونے والی Female نیوز پرزنٹرس، اینکرس، فیشنل ماڈلس یا کوئی اور انہیں جس طرح سے پیش کیا جاتا ہے وہ آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔ الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے بیشتر اداروں نے صنف نازک کو اپنی تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے‘ ان کی حیثیت کبھی ریوینیو کلکٹرس کی بھی ہے اور سیاسی دلالی کی بھی۔ حال ہی میں راڈیا ٹیپس سے متعلق انکشافات ہوئے تھے جس میں ایک قومی چیانل کی نیوز اینکر کا نام بھی ایک اسکام میں پایا گیا تھا۔
میڈیا کی حالت آپ کے سامنے ہے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم لڑکیاں اور خواتین اسے پیشے کے طور پر اختیار کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ اردو صحافت سے خاتون صحافیوں کی وابستگی کی تاریخ لگ بھگ 106سال قدیم ہے۔ جب 1908ء میں علامہ راشدالخیری نے رسالہ عصمت جاری کیا تھا۔ میں یہاں خواتین کے رسائل، جرائد یا ماضی میں جو مسلم خواتین صحافت سے وابستہ رہیں اُن کے تذکرہ کے بجائے ان کا ذکر مناسب سمجھتا ہوں جو اس وقت عملی طور پر وابستہ ہیں۔
جہاں تک میڈیا میں مسلم خواتین کا تعلق ہے‘ مسلم خواتین کو ہم دو زمروں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک وہ جن کے نام مسلم یا اسلامی ضرور ہیں مگر اسلامی شعائر سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے وہ جو اسم بامسمی ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران زندگی کے ہر شعبے میں خواتین اپنے وجود کا احساس دلارہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کی بدولت یہ سمندروں کی گہرائی میں بھی نظر آئیں گی اور خلاؤں میں بھی ان کا وجود دیکھا جاسکتا ہے۔ ٹیچنگ، میڈیکل پروفیشن میں ان کی تعداد قابل لحاظ ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ میڈیا میں ان کا تناسب کم نظر آتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں کے اعتبار سے خواتین کسی طرح سے بھی مردوں سے کم نہیں‘ یہ اور بات ہے کہ جسمانی طور پر وہ مردوں کی طرح مشقت نہیں کرسکتیں۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے اگر میڈیا میں مسلم لڑکیوں یا خواتین کا جائزہ لیا جائے تو اعداد و شمار مایوس کن ہیں۔ حالانکہ مسلم خواتین نے ہر شعبہ حیات میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔ شعر و ادب ہو یا تحقیق کا فن‘ خواتین کی خدمات سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
اس وقت سرینگر سے سیدہ نسرین نقاش ’’بین الاقوامی صدا‘‘ ادبی رسالہ شائع کرتی ہیں۔ لکھنؤ سے محترمہ شاہدہ صدیقی نے ’’سب رنگ نو‘‘ جاری کیا ہے۔ سہ ماہی ’’انتساب‘‘ کی مدیرہ آسیہ صیفی ہیں۔ سہ ماہی ’’کوہسار‘‘ کی معاون مدیر نینا جوگن ہیں۔ دو ماہی ’’گلبن‘‘ کی معاون مدیرہ ثریہ ظفر ہاشمی ہیں۔ برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال کی کوآرڈینیٹر ڈاکٹر مرضیہ عارف اس وقت ایک فری لانس جرنلسٹ کے طور پر مشہور ہیں ان کے مضامین ہندوستان بھر میں شائع ہوتے ہیں۔ نور جہاں ثروت مرحومہ قومی آواز کی ایڈیٹر رہیں۔ مذہبی ماہنامہ ’’آستانہ‘‘ کی ایڈیٹر بیگم ریحانہ فاروقی ہیں۔ ’’محفل صنم‘‘ دہلی کی ایڈیٹر شہلا نواب اور ’’حجاب‘‘ رامپور کی مدیرہ ام صہیب ہیں۔ پاکیزہ آنچل کی مدیرہ غزالہ فاروقی ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ مسلم خواتین میں اعلیٰ تعلیم اور عصری علوم کا رجحان بیسویں صدی کے وسط سے پیدا ہوا مگر میڈیا پر ان کی توجہ بہت کم رہی۔ جہاں تک انگریزی صحافت کا تعلق ہے قرۃ العین حیدر ’’الیسٹریٹیڈ‘‘ ویکلی کی ایڈیٹر رہ چکی ہیں۔ سیما چشتی، سیما مصطفےٰ، حمیرہ قریشی، جانی پہچانی خاتون صحافی ہیں جو انگریزی صحافت سے وابستہ ہیں۔ رفعت نعیم قادری گجرات سے آن لائن انگلش دہلی ’’بالکل‘‘ کامیابی سے چلارہی ہیں۔ حیدرآباد کی ریاستی حکومت کی ایوارڈ یافتہ راسیہ نعیم ہاشمی سیاست کے انگلش نیوز پورٹل کی ایڈیٹر ہیں۔ حیدرآباد سے شائع ہونے والے انگریزی ماہانہ جریدے ’’یو اینڈ آئی‘‘ کی مدیرہ ہما بلگرامی ہیں جو آئی ایچ لطیف کی بہو ہیں۔ ’’ممبئی میرر‘‘ کی کرائم رپورٹ نازیہ سید ہیں۔ ٹائمس آف انڈیا حیدرآباد سے بشریٰ بصیرت، ہنس انڈیا سے مس عسکری وابستہ ہیں۔ لبنیٰ آصف، ماریا اکرم (ٹائمس آف انڈیا دہلی)، وصفیہ جلالی (پی ٹی آئی) سے وابستہ ہیں۔ جہاں تک الکٹرانک میڈیا کا تعلق ہے‘ بہت کم مسلم خواتین اس سے وابستہ رہیں۔ سلمیٰ سلطان دوردرشن سے 30سال تک (1967 سے 1997ء تک) وابستہ رہیں۔
نغمہ سحر جو سلام زندگی سے وابستہ ہیں‘ جانی پہچانی شخصیت ہیں جو کئی برس سے الکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہیں۔ این ڈی ٹی وی، ایشین ایج اور آج تک سے وابستہ رہیں۔ شگفتہ یاسمین اور سعدیہ خان زی سلام سے وابستہ ہیں۔ سمیرہ خان اے بی پی نیوز کی اینکر ہیں۔ عارفہ خانم شیروانی اور ثمینہ صدیقی راجیہ سبھا ٹی وی سے وابستہ ہیں۔ افشاں انجم این ڈی ٹی وی سے وابستہ ہیں۔ مہ صدیقی، ماہ رخ، سمیع پاشاہ، ہیڈ لائن ٹوڈے سے وابستہ ہیں۔ نفیس فاطمہ، اسریٰ شیری، کنیز اور خیرون ٹی نیوز سے، عرفانہ فاطمہ، غوثیہ فرحانہ، شاہدہ پروین اور نیلوفر وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ منصف ٹی وی سے رضوانہ اینکر، قدسیہ اور سلویٰ نیوز پرزنٹیٹرس ہیں۔ ساکشی سے زینت النساء وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ دور درشن حیدرآباد سے عرفانہ، غوثیہ عرفانہ وابستہ ہیں۔ منور خاتون، صبیحہ تبسم اور ممتاز صنم ادا بھی مختلف چیانل سے وابستہ ہیں۔آج کی ابتدائی اجلاس کی مہمان فرحت رضوی سہارا ٹی وی سے وابستہ ہیں۔اس کے علاوہ محترمہ شمع افروز زیدی جو بیسویں صدی کی بھی مدیرہ رہیں۔ ای ٹی وی اردو سے بھی وابستہ رہیں اور ریڈیو کے لئے بھی وہ کامیاب ثابت ہوئیں۔
ان حقائق اور اعدادو شمار کے باوجود میڈیا میں مسلم لڑکیوں اور خواتین کی تعداد اتنی کم کیوں ہے؟ ڈاکٹر آمنہتحسین جنہوں نے مطالعات نسواں اور نسوانی جہات جیسی معرکۃ الآرا تحقیقاتی کتابیں تصنیف کرتے ہوئے خواتین کی میدان ادب و تحقیق میں خدمات کو دنیا کے سامنے بڑی کامیابی کے ساتھ پیش کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ شعور کی کمی ایک وجہ ہوسکتی ہے مگر اس سے زیادہ اہم وجہ ہیکہ مسلم لڑکیاں بنیادی طور پر مذہب کا پابند ہوتی ہیں اور آن اسکرین میڈیا کیلئے وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو تیار نہیں کرپاتیں۔ اگر ہم آن اسکرین میڈیا کا جائزہ لیں اور ان وے وابستہ خواتین کا جائزہ لیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں وہ اپنی حدیں پھلانگ کر آگئی ہیں۔ آمنہ تحسین کے الفاظ میں پرنٹ میڈیا کے لئے اور الکٹرانک میڈیا کے لئے آف دی اسکرین مسلم لڑکیاں اور خواتین بہتر انداز میں خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بہتر سے بہتر مظاہرہ کرسکتے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ پرنٹ میڈیا سے بھی مسلم لڑکیوں کی بھی کم ہے؟ روشن خیال لڑکیاں بھی کم ہی نظر آتی ہیں‘ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ اس کے جواب میں عائشہ مسرت خانم جو دکن کرانیکل کی کرائم رپورٹر رہیں اور اب کریم نگر میں آر ڈی او ہیں‘ کہتی ہیں کہ خواتین کا استحصال تبھی ہوتا ہے جب وہ خود کو کمزور محسوس کرتی ہیں۔ اس کے لئے میڈیا کو کیوں ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ اس وقت آئی ٹی سیکٹر میں ملازم لڑکیوں اور خواتین نائٹ شفٹ ہی میں کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں سرکاری ملازمت نہ ملتی تو وہ جرنلزم سے ہی وابستہ رہتیں۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار غوثیہ عرفانہ نے کیا جو دور درشن حیدرآباد سے وابستہ ہیں وہ جرنلزم میں ماسٹرس کی ڈگری کی حامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دور درشن ایک سرکاری ادارہ ہے‘ ایہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ کرتی ہیں۔ اپنے کیریئر کے دوران کبھی بھی لڑکی ہونے کی وجہ سے نہ تو احساس کمتری پیدا ہوا اور نہ ہی کبھی عدم تحفظ کا احساس۔ ای ٹی وی اردو سے وابستہ شبانہ جاوید‘ جن کا تعلق بہار سے ہے وہ الکٹرانک میڈیا سے وابستگی پر مسرور بھی ہیں اور مطمئن بھی۔ وہ اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ ان کے شریک زندگی جاوید صاحب اور ان کے سسرالی رشتہ دار ای ٹی وی سی وابستگی سے خوش ہیں۔ شبانہ جاوید ایک مذہبی گھرانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ پنج وقتہ نمازی ہیں۔ وہ صحافتی خدمات کے لئے امریکہ کا دورہ بھی کرچکی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر مسلم لڑکیاں میڈیا سے وابستہ ہونے سے کیوں ہچکچاتی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ بہار اور مغربی بنگال میں بیشتر مسلم لڑکیوں کا ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ اردو میڈیم کی ٹیچرس خود میڈیا کی اہمیت سے واقف نہیں۔ شعور بیدار کرنے کی کوئی تحریک نہیں ہے۔
حیدرآباد کی دو خاتون صحیفہ نگار ایسی بھی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اسلامی آداب‘ حجاب میں رکھتے ہوئے صحافت کا پیشہ اختیار کیا ہے۔ سفینہ عرفات فاطمہ اور راسیہ نعیم ہاشمی۔ دونوں ہی ایم سی جے ہیں اور دونوں ہی اپنی صلاحیتوں کو منواچکی ہیں۔ دونوں ہی منصف سے وابستہ رہیں۔ سفینہ عرفات فاطمہ روزنامہ اعتماد کے خواتین کے صفحات (گوشہ خواتین) کی ایڈیٹر اور راسیہ نعیم ہاشمی روزنامہ سیاست کے انگلش پورٹل کی ایڈیٹر ہیں۔ دونوں نے ہی کئی فیچرس لکھے۔ خواتین کے انٹرویوز لئے۔ خواتین کی سمینار سمپوزیم کی رپورٹنگ بھی کیں۔ اور دونوں ہی آف دی اسکرین خدمات انجام دینے کی قائل ہیں۔جہاں تک مسلم خواتین یا لڑکیوں کا میڈیا میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے کا تعلق ہے‘ بعض نے اس میں کامیابی حاصل کی‘ اپنی شناخت بنائی مگر اپنی اسلامی شناخت سے محروم ہوگئیں۔ اگرچہ کہ ان کے نام وہی ہے جو ان کے والدین نے رکھے تھے مگر مسلم معاشرہ میں ان کا وقار باقی نہیں رہا ان کے نام یہاں ظاہر کرنا مناسب نہیں ہے۔
پرنٹ، الکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشیل میڈیا پر بہت ساری مسلم لڑکیاں اور خواتین اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہی ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ پرنٹ میڈیا اب بھی مسلم لڑکیوں کے لئے ایک معقول شعبہ ہے چونکہ لڑکیوں میں تحریری اور تقریری صلاحیتیں بہتر ہوتی ہیں‘ وہ اپنے یعنی لڑکیوں اور خواتین کے مسائل کو بہتر انداز میں صحافت کے ذریعہ پیش کرسکتی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے لئے آف دی اسکرین خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے‘ ایڈیٹر کی حیثیت سے اور دوسرے تکنیکی ماہرین کی حیثیت سے۔ریڈیو الکٹرانک میڈیا میں مسلم خواتین کامیاب رہیں۔ صداکار، فنکار، اناؤنسر کے ساتھ ساتھ نیوز ایڈیٹر، فیچر نگار کی حیثیت سے وہ کامیاب رہ سکتی ہیں۔
پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا سے وابستہ مسلم لڑکیوں یا خواتین کے تناسب میں کمی کے کئی وجوہات ہیں۔ صحافت‘ خطرات سے اور جوکھم سے بھرپور پیشہ ہے جس سے کچھ عرصہ کے لئے تو مسلم لڑکیاں وابستہ رہتی ہیں مگر معاشرتی مسائل کی وجہ سے زیادہ عرصہ تک اس سے وابستہ رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دیگر شعبہ جات کی طرح صحافت میں لڑکیوں اور خواتین کے لئے ان کی سلامتی ا ور تحفظ کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس کے علاوہ بھرپور صلاحیتوں کے باوجود ان کا معاوضہ مرد صحافیوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ فیچر ایڈیٹر یا مضمون نگار کی حیثیت سے خواتین صحافت میں زیادہ کامیاب رہتی ہیں۔ رپورٹنگ کے شعبے میں بھی وہ کامیاب ہوسکتی ہیں مگر وسائل اور صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لئے جن لوگوں سے رابطہ قائم کرنا پڑتا ہے اس کی وجہ سے یہ اس سے دور رہتی ہیں۔
آن دی اسکرین خدمات جیسے نیوز پرزنٹیشن‘ اینکرنگ ان کے لئے زیادہ مناسب نہیں ہے‘ کیوں کہ گھر کی زینت شمع محفل بن جائے تو ازواجی زندگی متاثر ہونے کے اندیشے رہتے ہیں۔ یہی اندیشے اور احساسات کی وجہ سے خواتین کی تعداد میڈیا میں کم نظر آتی ہے۔
(مشمولہ : اردو میڈیا کل آج کل ۔ مصنف : ڈاکٹر فاضل حسین پرویز)
Dr Fazil Hussain Parwez
Chief Editor Gawah weekly ,Hyderabad
email: