کتاب ۔ جنس درونِ جاں
شاعر : ڈاکٹر محسن جلگانوی
تجزیہ : یٰسین احمد
موبائل : 09848642909
۲۰۱۴ء کے آواخر میں محسن جلگانوی کی تازہ تصنیف جنس ’درونِ جاں‘ منظر عام پر آئی ہے۔اس شعری مجموعے میں مختلف اصنافِ سخن شامل ہیں۔محسن جلگانوی سادگی کے ساگر ہیں حُسن کی سیپیاں تلاش کرتے ہیں۔جس کا اندازہ اس کتاب کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔کتاب میں پیش لفظ ہے نہ انتساب۔کسی مشاہیر کی آراء بھی شامل نہیں۔یہ تساہل نہیں‘رعونت نہیں سادگی ہے۔ابتداء مندرجہ ذیل شعر سے ہوئی ہے
اب یہاں آ کے سمندر کی حدیں ختم ہوئیں
اس سے آگے کی زمینوں کا سفر میرا ہے
محسن جلگانوی کو تعلیمی زمانہ سے ہی شاعری کا چسکا لگا تھا۔ان کا پہلا شعری مجموعہ’الفاف‘۱۹۹۷ء میں شائع ہوا تھا۔اس طویل ریاضت نے ان کے کلام کو جلا بخشی۔کاکل سخن کو سجانے کا سلیقہ بخشا۔زندگی کے کم وبیش سارے مسائل جس سے ہم آپ دن رات جھوجھتے ہیں اُن کی شاعری میں درآئے ہیں۔یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب سینکڑوں رتجگوں کا کرب آنکھوں پر اٹھایا اورجگرکا لہو جلایا جاتا ہے۔ناصرشہزاد کا ایک شعرہے
دور ایک عمر کا کھاجاتی ہے
شاعری دیر کے بعد آتی ہے
محسن جلگانوی نے اپنی عمر کا ایک طویل حصہ اس شاعری کی نذر کیا ہے ۔وہ خود مانتے ہیں کہ لہو جب تک نہ ہو شامل کہاں تخلیق ہوتی ہے۔
لہوجب تک نہ ہو شامل کہاں تخلیق ہوتی ہے
مگر اس بات کو کیسے کوئی بتلائے آزر سے
محسن جلگانوی کا جنم جل گاوں میں ہوا‘ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔پھر حیدرآباد آئے اور یہیں بس گئے۔اس شہر نے اُن کی زندگی کو علم و فن کی روشنی سے منور کردیا۔یہیں اُن کو ادب دوست اور مخلص احباب کی رفاقت ملی۔ یہیں دل و دماغ کو وسعت ملی کہ یہ شہر قلی کا ہے،امجدؔ کا ہے، شادؔ کا ہے،مخدومؔ کا ہے،شفیق فاطمہ شعریٰؔ کا ہے،محسنؔ جلگانوی کی غزل کے یہ شعر دیکھیں
محبتوں کی سرزمین‘ محبتوں کا شہر ہے
یہ میرا شہر درد کی رفاقتوں کا شہر ہے
جڑا ہوا ہے اس طرح قلی کی خاکِ تاب سے
کہ آب و گل درمیاں رفاقتوں کا شہر ہے
جدید ذہن کی نئی ثقافتوں کا ہے امیں
مگر یہ گزرے وقت کا شہر روایتوں کا شہر ہے
یہیں سے میں نے علم و فن کی روشنی اٹھائی ہے
یہ شہر میری زندگی کی عظمتوں کا شہر ہے
’جنس درونِ جاں‘ جو زیر مطالعہ کتاب کا عنوان ہے اُن کی ایک پرانی نظم سے لیا گیا ہے جو الفاف میں شامل تھی۔اُسی نظم کو کچھ ترمیم کے ساتھ اس کتاب میں بھی پیش کیا گیا ہے۔کسی بزرگ یا بڑے شاعر کے رنگ یا زمین میں شعر کہنا اُردو زبان کے بیشتر شعراء کا وطیرہ رہا‘ہر چند کہ یہ کوشش شاعرکی صلاحیتوں کا امتحان لیتی ہے کچھ کامیاب ہوجاتے ہیں اور کچھ شعراء ناکام۔میرؔ کے لہجہ میں مجسن جلگانوی نے جو غزل کہی ہے وہ کامیاب ہے۔
لہجہ وہجہ کاہے کا اور جدت ودّت کاہے کی
چہروں کے بازار میں اپنی شہرت ووہرت کاہے کی
مکتب سے چھوٹے تو سمجھا، لوح و قلم سے چھوٹ گئے
’’حرف و ہنر‘‘ نے باندھ رکھا ہے فرصت ورصت کاہے کی
ہم وہ پرندے ہیں جو اپنی شرطوں پر ہی جیتے ہیں
ہم کو سرحد ورحد کیسی، ہجرت وجرت کاہے کی
محسن جلگانوی کی شاعری میں فلسفہ کی موشگافیاں نہیں ہے۔تصوف کے اسرار پنہا ں نہیں ہے اور نہ انہوں نے جوشؔ ، شفیق فاطمہ شعراء اور عبدالعزیز خالد کی طرح اپنے اظہارِ خیال کے لئے بھاری بھرکم لفظوں کا سہارا لیا ۔اُن کے کلام میں سادگی ہے، تازگی ہے مگر لسانی نازکت ،وسعت خیال اور سلاست بیان سے عاری نہیں ہے۔
ہم نے سینے میں عجیب آگ جلا رکھی ہے
گھر کسی کا بھی جلے اپنا ہی گھر لگتا ہے
راکھ کے ڈھیر میں بارود چھپا رکھی ہے
ہم کو مت چھیڑنا شعلوں کی قبا ہیں ہم لوگ
نام جس شئے کا زندگانی ہے
وہ ملی ہی نہیں کبھی مجھ سے
سادہ لوحی کو کبھی سودا گری آئی نہیں
زندگی کی ہر تجارت میں خسارہ ہوگیا
حسرتؔ نے کہا ہے : شعر دراصل ہیں وہی حسرت* سنتے ہی جو دل میں اُتر جائے۔
ایسے ہی شعر جو سنتے ہی دل میں اُتر جائے محسن جلگانوی کے کلام میں جا بجا ملتے ہیں۔دراصل شاعری کیا ہے؟ شاعری شاعر کی شخصیت کاآئینہ ہے،اُس کے دل ودماغ کی ترجمان ہے، اُس کی فکر، سوچ،خیال اور رنج و غم جب شعری پیکر میں ڈھلتے ہیں تو سچی شاعری کا وجود عمل میں آتا ہے۔ذوق کا ایک شعر ہے
اب تو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
ذوقؔ کے اسی ایک شعر کے بدلے غالبؔ نے اپنا پورا دیوان دینے کی بات کہی تھی۔کلیم عاجز رنج و غم کے سمندر کا سارا متھن پی گئے تو اُن کے کلام میں ایسا تاثر پیدا ہوا تھا جس کو پڑھ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔یہی شاعری ہے،اسی کو شاعری کہتے ہیں۔
محسن جلگانوی کی زندگی کا ایک بڑا حصہ ریلوئے کے محکمے میں گزرا‘ وہاں کے نشیب و فراز کو بہت ہی قریب سے دیکھا۔زیر مطالعہ کتاب میں ایک ایسی نظم شامل ہے جس میں اُن کی ملازمت کی یادیں روشن ہوجاتی ہے۔اس نظم کا عنوان ہے’Hinging Trian‘ اس دُنیا کو دیکھنے کا انداز ہر شاعر کا جدا رہا ہے۔کسی نے دُنیا کی سیر کرنے کا مشورہ دیا ،کسی نے اس دُنیا کو جلادینے پھونک دینے کی بات کہی، کسی کے لئے یہ دُنیا بازیچہ اطفال رہی ہے۔شہاب جعفری نے اس دُنیا کوپاؤں تلے روند دیا۔
چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شئے
نشے کے جھونک میں دیکھا نہیں کہ دُنیا ہے
راجیش ریڈی نے اس دُنیا کو گیند سے تشبیہ دی ہے اور گیند کا مقدر پاؤں کی ضربیں کھانا ہوتا ہے۔
وہ کوئی گیند تھی یا دُنیا پڑی تھی
اندھیرے میں میرے پاوں سے ٹکریا تھا کچھ تو
محسن جلگانوی اس دُنیا سے خوف زدہ ہیں۔
پانو کیا پڑ گیا اس پر کہ مجھے ڈس ہی لیا
یہ نگر تو مجھے سانپوں کا نگر لگتا ہے
مرے خدا مجھے تھوڑا سا آسمان دینا
تیری زمین پہ جب بھی ترا عذاب اترے
اُردو زبان بولنے والے بہت معصوم ہوتے ہیں۔کھلونے لے کر بہل جاتے ہیں،اوٹ پٹانگ قسم کے جلسے،سمینار،مشاعروں میں میں گویے کی طرح دونوں پاوں پھیلائے ہاتھ نچا نچا کر کلام پڑھنے والے شعراء کی شرکت دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ اکیڈیماں خیرات بانٹی ہیں تویہ سمجھتے ہیں کہ اُردو کی خدمت ہورہی ہے ۔جبکہ ٹھوس اقدامات کا فقدان ہے۔جب بنیاد ہی نہیں تو عمارت کیسے پائیدار ہوگی؟ ان حالات نے شاعر کو صدائے احتجاج بلند کرنے پر مجبور کیا۔
دیمک چاٹ رہی ہے محسنؔ اُردو کی بنیادوں کو*سارا تماشہ ایک چھلاوا ،خدمت ودِمت کا ہے کی
آسیب،بونا،کتا،سانپ،سنپولا،بچھو،خطرناک اور موذی جانور ہیں جو محسن کی شاعری میں استعارے بن کر یہاں وہاں ملتے ہیں جس کی وضاحت کی یہاں چنداں ضرورت نہیں۔ان اشعار کو ملاحظہ فرمایئے:
یہ شہر ایک خرابہ ہے اس کی مٹی میں
بغیر چہرے کا آسیب گڑتا رہتا ہے
یہیں خودداریوں کی ملکیت نیلام ہوتی ہے
بہت بونے بہت قدآوری کی بات کرتے ہیں
میرے اس شہر کے چوراستے پر
کوئی آسیب سا بیٹھا ہوا ہے
اندھوں کی سلطنت تھی تو بونوں کے راج نے
قد آوری کے سارے ہی پیکر کٹا دیئے
اندھی گلی میں‘ ہاتھوں میں پتھر رکھنا
پاگل کتے کاٹنے آتے رہتے ہیں
موجودہ صدی خود غرصی کی صدی ہے،ضرورتیں ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آتی ہیں ورنہ دل کی جھولی بے لوث جذبوں سے عاری رہتی ہے۔محسن کہتے ہیں
نہ اُن کا فون آئے گا نہ اب وہ لوٹ آئیں گے
ضرورتوں سے آئے تھے ضرورتوں کے لوگ تھے
شاید ایسے ہی حالات کے تناظر میں اسدؔ بدایوں نے یہ کہا تھا
بے غرض ملنے کی ساری منطقیں جھوٹی ہیں یارو
تو جو آیا ہے تو اب بتلا بھی دے کیا کام ہے
غزل محسن جلگانوی کی پہلی محبوبہ ہے، لیکن آدمی چاہے کتنا ہی شریف کیوں نہ ہو ’’ایک ‘‘پر اکتفاء نہیں کرتا۔اِدھر اُدھر تاک جھانک میں لگا رہتا ہے،یہ جبلی تقاضے ہیں۔ محسن نے بھی وقتاً فوقتاً ثلاثے ،دوہے اور رباعی کو گلے لگایا ہے مگر سارا دھیان تو محبوبہ میں لگا رہتا ہے اس لئے ان طفیلیوں کی طرف دل کھول کر توجہ نہیں دے سکے۔ آخر ی ساعت سے پہلے‘ نظم کے کچھ مصرے پڑھیں اور فیصلہ کریں
کھلا ہی رہنے دو یہ دریچہ/کہ سارے نادیدہ منظروں کو/میں اپنی آنکھوں کی پتلیوں میں سنبھا ل رکھوں
درونِ خانہ اجال رکھو/ہوا کے مقتل میں سانس لیتی/سمن برو سرفراز تتلی/بکھیرتے رنگوں کا سب اثاثہ
ہوا کے ہاتھوں لٹا چکی ہے/وجود اپنا مٹا چکی ہے
ماہیے: چھوٹے ہیں کہ موٹے ہیں/دیکھ لیا محسنؔ /سب نام کے بھوکے ہیں
جب تم سے بچھڑتا ہوں/جلتا ہے بدن میرا/ایک آگ میں جیتا ہوں
اس کے علاوہ کتاب میں بہت کچھ ہے آپ بھی جنس درونِ جاں اٹھایئے جو چیزیں مجھ سے چوک گئی ہیں پڑھیئے اور محظوظ ہویئے۔یوں سمجھیئے کہ محسن جلگانوی ٹرین میں سفر کررہے ہیں ٹرین ایک اسٹیشن پر رکی ہے اور اس اسٹیشن کا نام ہے ’’جنس درونِ جاں‘‘ٹرین رواں ہے، آگے کئی اسٹیشن آئیں گے۔انشاء اللہ
Written by :Yaseen Ahmed