ڈاکٹرمحمد مجید خان نہیں رہے
از۔ دلجیت قاضی
ممتاز ماہر نفسیات اور اردو تہذیب و ثقافت کے علمبردارڈاکٹرمحمد مجید خان کا کل شام یعنی ۱۰ مئی ۲۰۱۵ کوانتقال ہوگیا۔وہ ۸۱ برس کے تھے۔انہوں نے آخری نظام نواب عثمان علی خاں کے دور میں دارالعلوم ہای اسکول سے تعلیم حاصل کی۔عثمانیہ یونیورسٹی سےایم بی بی ایس کے بعدلندن سے ایف آر سی پی کیا اور آسٹریلیا یونیورسٹی سے سائکیاٹری کا خصوصی مطالعہ کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے نطام آباد(تلنگانہ) میں بحیثیت میدیکل آفیسرخدمات انجام دیں پھرعثمانیہ میڈیکل کالج حیدرآباد میں بطورماہرِنفسیات مامور رہے۔اپنا ایک دواخانہ بھی حمایت نگرحیدرآباد میں قائم کیا اوراپنی آخری سانس تک علاج و معالجہ میں مصروف رہے۔
ڈاکٹرمحمد مجید خان ‘عصر حاضر کے ممتاز ماہر نفسیات گزرے ہیں اور ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ملک و بیرون ملک سے مریض ان سے رجوع ہوا کرتے تھے۔ان کا طریقہ علاج بھی منفرد تھا۔انہوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئی سمینار پڑھے۔انہوں نے ہندوستان میں خودکشیوں کی روک تھام کے لیے ایک بین الاقوامی ادارہ قائم کیا جس کے وہ پہلے چیرپرسن مقرر ہوے۔دکن میڈیکل کالج کے سائکیاٹری شعبہ کے بانی و صدر رہے اور ایرٹس فیلو بھی ہیں۔
ڈاکٹرمحمد مجید خان ‘حیدرآبادی تہذیب و ثقافت کے ترجمان اور گنگا جمنی تہذیب کے علمبردارتھے۔اردو کے سچے عاشق تھے۔اردو روزنامے اور رسائل کا پابندی سے مطالعہ کیا کرتے تھے۔وہ ایک صاحب طرزادیب بھی تھے۔ گزشتہ تین دہوں سے روزنامہ سیاست سنڈے ایڈیشن میں ان کے نفسیاتی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔اپنے مخصوص اندام میں وہ کیس کا مطالعہ کرتے۔چوں کہ وہ ماہرنفسیات تھے اس لیے اپنے مریضوں اور اخبار کے قارئین کو اپنا’’دیوانہ‘‘بنانے کا ہنر جانتے تھے۔
انہیں حیدرآباد سے بے پناہ محبت تھی اگر وہ چاہتے تو بہ آسانی لندن یا امریکہ میں سکونت اختیار کرسکتے تھے مگر انہوں نے حیدرآباد میں ہی رہنے کو اولیت دی اور شب و روز نفسیاتی طور پر پریشان حال لوگوں کی خدمات انجام دیں۔اگر کوئی انہیں خط لکھتا اور اپنی نفسیاتی امراض پر مشورہ مانگتا تو وہ اولین فرصت میں نہ صرف خط کا جواب دیتے بلکہ اس کی رہنمائی کرتے ہوے نفسیاتی گتھیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے۔ان کے انتقال سے اہل زبان خصوصاً حیدرآبادیوں کو گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ان کی نماز جنازہ آج بعد نماز ظہر مسجد عالیہ گن فاونڈری‘حیدرآباد میں ادا کی جاے گی۔