مخدوم محی الدین۔ایک تعارف
ڈاکٹرراحت سلطانہ
محبوب چوک۔حیدرآباد۔دکن
مخدوم محی الدین اردو دنیا کے مشہور و معروف ترقی پسند شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کے شیدائی موجود ہیں اور ساری دنیا میں ان کی شاعری بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ ترقی پسند شاعروں میں مجاز، جذبیؔ ، مجروحؔ ، فیضؔ اور مخدومؔ ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں لیکن جو عالم گیر شہرت اور مقبولیت فیض اور مخدوم کو حاصل ہوئی وہ کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔
مخدوم محی الدین کا سلسلۂ نسب مشہور صحابی رسولِؐ حضرت ابو سعید خذریؓ سے ملتا ہے۔ اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ ابو سعید خذری کے بعد کی نسل میں کس نے اور کب ترکِ وطن کرکے ہندوستان میں سکونت اختیار کی۔ مخدوم محی الدین کے پردادا کا نام مخدوم الدین تھا۔ وہ کاشت کاری کے پیشے سے وابستہ تھے۔ اور دادا احسن الدین سررشتہِ مال میں میرِ منشی کی خدمت پر مامور تھے۔ ان کا تقرر حیدرآباد دکن کے ضلع میدک میں ہوا تھا۔ بعد میں احسن الدین صاحب نے اپنے بیٹے اور مخدوم محی الدین کے والد محمدغوث الدین کو اپنی جگہ اہلکار کی ملازمت دلوادی۔
مخدوم کا پورا نام ابو سعید مخدوم محی الدین خذری تھا۔ وہ ضلع میدک کے ایک گاؤں میں 4؍فروری 1908ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان ضلع میدک کے ایک علمی اور دیندار گھرانے کی حیثیت سے مشہور تھا۔ اس خاندان کے زیاد ہ تر افراد معلمی اور درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ تھے۔ اس لئے اس گھرانے کو تلنگانہ کے عوام و خاص، پداپنتلو (Pedda Pantulu) یعنی بڑے پنڈتوں کا خاندان کہتے تھے۔ مخدوم کی ابتدائی تعلیم ضلع میدک ہی میں ہوئی۔ ابھی وہ پانچ سال کے تھے کہ ان کے والد غوث الدین صاحب اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ مخدوم کی والدہ نے دوسری شادی کرلی۔ اور اپنے شوہر کے ساتھ حیدرآباد چلی آئیں۔ پانچ سال کی عمر میں مخدوم کی پرورش ان کے چچا بشیر الدین کے سپرد ہوگئی۔ انہوں نے مخدوم کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان کی ماں نے دوسری شادی کرلی، بلکہ ان سے کہا گیا کہ ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ مخدوم کو ایک عرصے کے بعد پتہ چلا کہ ان کی ماں زندہ ہیں اور ان کے بطن سے ایک لڑکی بھی ہے۔ حیدرآباد میں قیام کے دوران مخدوم نے اپنی والدہ سے ملاقات کی اور انھیں اپنے گھر لے آیا اسی گھر میں مخدوم کی والدہ نے انتقال کیا۔
جہاں تک مخدوم کی ابتدائی اور اعلیٰ درجوں کی تعلیم کا تعلق ہے انہوں نے سنگاریڈی ہائی اسکول سے 1929ء میں میٹر ک کا امتحان کامیاب کیا۔ 1929ء ہی میں انہوں نے چیلہ پورہ کے شبینہ اسکول سے منشی کا امتحان اچھے نشانات کے ساتھ کامیاب کیا۔ مخدوم کے چچا چاہتے تھے کہ وہ ملازمت سے وابستہ ہوجائیں لیکن وسائل کی کمی کے باوجود مخدوم نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1932ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ان کے چچا نے اپنی محدود آمدنی کے سبب مخدوم کی کفالت سے معذرت کرلی اس طرح مخدوم کو مفلسی اور کسمپرسی کے دن بھی دیکھنے پڑے۔ مخدوم کی شادی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے ایک قریبی دوست مرزا ظفر الحسن نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ جب مخدوم بالکل قلاش تھے۔ 48 گھنٹوں سے کچھ نہیں کھایا اور یوں ہی اپنے رشتے کے چچا سمیع الدین سے ملنے چلے گئے۔ جب ان کی چچا زاد بہن نے ان کو نحیف او نزار اور بے حال دیکھا تو ان کے لئے جلدی جلدی روٹیاں پکائیں۔ دستر خوان بچھایا اور کھانا پیش کیا۔ بعد میں مخدوم کی یہی چچا زاد بہن جس کا نام رابعہ تھا۔ ان کی رفیقۂ حیات بنیں۔ 22؍اگست 1933ء کو ان کی شادی ہوئی اور 1934ء میں مخدوم نے جامعہ عثمانیہ سے بی۔اے اور 1936ء میں اردو سے ایم ۔اے کا امتحان کامیاب کیا۔
جہاں تک مخدوم کی ملازمت کا تعلق ہے ایم۔اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے دفتر دیوانی ملکی و مال میں تھرڈ گریڈ کلرک کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔ 1939ء میں سٹی کالج میں لکچرر کی حیثیت سے ان کا تقرر عمل میں آیا۔ دو تین سال اس پیشے سے وابستہ رہنے کے بعد 1941ء میں انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ مخدوم پر حکومتِ حیدرآباد کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا کہ کلاس روم کو وہ کمیونسٹ پارٹی کا پلیٹ فارم بنارہے ہیں۔ 1940ء میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری چنے گئے تھے اور 1943ء میں مخدوم کی رہنمائی میں حیدرآباد میں ترقی پسند مصنفین کی باقاعدہ طورپر ایک انجمن بنائی گئی۔ 1942ء سے 1946ء تک کا زمانہ حیدرآباد کا ایک طوفانی دور کہلاتا ہے۔ شہر میں کمیونسٹ پارٹی کے سربراہو ں، جن میں مخدوم، راج بہادر گوڑ، کے ایل مہندرا، حیدر حسن، جواد رضوی اور غلام حیدر شامل تھے۔ ان لوگوں نے 1946ء میں پارٹی کی طرف سے ’’یوم انسدادِ استحصال‘‘ منانے کا اعلان کیا۔ جس کی وجہ سے ریاستِ حیدرآباد نے کمیونسٹ لیڈروں کو جیل بھیجنا شروع کردیا۔ مخدوم نے اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ روپوشی اختیا رکی ۔ مئی 1951ء میں جب کامریڈوں نے نظام سرکار کے خلاف زور وشور سے جدوجہد کا آغاز کیا تو مخدوم گرفتار کرلیے گئے۔ ملک کی آزادی کے بعد 1956ء میں وہ قانون ساز کونسل کے امیدوار بنے اور مجلس قانون ساز آندھراپردیش میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے۔ 1952ء سے 1955ء تک انہوں نے چین، سویٹ یونین، یوروپ اور آفریقہ کا دورہ کیا۔25؍اگست 1969ء کو ان کا انتقال ہوا۔ ان کی تدفین حیدرآباد کی درگاہِ شاہ خاموش کے احاطہ میں عمل میں آئی۔
مخدوم ایک بلند پایہ اور باکمال شاعر ہونے کے علاوہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ انہو ں نے مضامین اور مقالات بھی لکھے۔ افسانہ نگاری اور ڈرامہ نویسی بھی کی اور انشائیے بھی تحریر کیے۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے مخدوم نے شعر گوئی کا آغاز جامعہ عثمانیہ میں گرائجویشن کی تعلیم کے دوران 1933ء میں کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان گیر شہرت حاصل کی۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’سرخ سویرا ‘‘ کے نام سے 1944ء میں شائع ہوا اور دوسرا ’’گل تر ‘‘کے عنوان سے 1961ء میں منظر عام پر آیا۔ تیسرے مجموعۂ کلام جس میں ان کے ابتدائی دونوں شعری مجموعوں کے علاوہ نیا کلام بھی شامل ہے، بساطِ رقص کے عنوان سے پہلی بار ادبی ٹرسٹ حیدرآباد سے 1966ء میں شائع ہوا اور دوسری بار آندھراپردیش اردو اکیڈیمی کی جانب سے 1986ء میں چھپا۔
مخدوم بہ یک وقت شاعر شباب بھی تھے اور شاعر انقلاب بھی۔ وہ ایک فطری شاعر اور خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ کبھی کسی استاد سخن کے آگے زانوئے ادب تہہ نہیں کیا۔ ان کی پہلی مطبوعہ نظم ’طور‘ اور پہلی نظم پیلا دو شالا تھی جو ایک ہلکی پھلکی اور مزاحیہ تخلیق ہے۔ مخدوم امیر مینائی، عظمت اللہ خاں کے شیدائی تھے اور غالب اور اقبال سے بہت متاثر تھے۔ آخر الذکر دو شعراء پر انہوں نے نظمیں بھی لکھی ہیں۔
مخدوم کی ابتدائی نظموں پر جوش ملیح آبادی، اختر شیرانی، حفیظ جالندھری کے اثرات نمایاں ہیں۔ ان کے ابتدائی دورِ شاعری میں زیادہ تر شبابیاتی اور رومانی رنگ دکھائی دیتا ہے۔ ان کی رومانی نظموں میں ’طور‘ ، ’انتظارہ، ’وہ‘ ، ’لمحۂ رخصت‘، ’جوانی‘، ’آتش کدہ‘ بہترین تخلیقات ہیں جن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی مخدوم نے کسی پری تمثال سے عشق کیا تھا۔ ان کا معشوق تخیلی یا روایتی نہیں بلکہ اسی دنیائے رنگ و بو کا رہنے بسنے والا جیتا جاگتا انسان ہے۔ اختر شیرانی کی طرح انہوں نے اپنے محبوب کا برملا انداز میں صنفِ نازک ہونا ظاہر کیا ہے۔ نظم ’’طور‘‘ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے۔
یہیں کی تھی محبت کے سبق کی ابتدا میں نے
یہیں کی جرأت اظہارِ مدّعا میں نے
اس نظم کا دوسرا بند ملاحظہ کیجئے۔
بہے جاتے تھے بیٹھے عشق کے زرّیں سفینے میں
تمناوں کا طوفاں کروٹیں لیتا تھا سینے میں
جو چھولیتا میں اس کو، وہ نہا جاتا پینے میں
مئے دو آتشہ کے سے مزے آتے تھے جینے میں
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
اس نظم کو سن کر قاضی عبدالغفار نے کہا تھا خدا اس نئی نسل کو پروان چڑھائے جو خدا کے سامنے پیار کرنے سے نہیں جھجکتی اور جس کا خدا بھی اتنا مشفق و مہربان ہے کہ محبت کے اس مظاہرہ پر خوش ہوتا ہے۔ اس زمانے میں مخدوم محی الدین نے جو عشقیہ اور رومانی شاعری کی اس میں ایک طرح کی تازگی اور شادابی کا احساس ہوتا ہے۔ مخدوم کے عشق میں سپردگی اور حوصلے کی ملی جلی کیفیتیں ہیں جنہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا انداز اور انوکھا لب ولہجہ دیا۔ یہ نظمیں عنفوان شباب کی چڑھتی ہوئی دوپہر کی پیداوار ہیں۔ ان نظمو ں میں ندرت ادا بھی ہے اور جمالیاتی کیف و سرور بھی۔ یہی حوصلہ سپردگی وسرمستی اور بے باکی ان کی انقلابی نظموں کا بھی طرۃ امتیاز ہے۔ وہ انقلاب کا انتظار بھی اسی طرح کرتے ہیں جیسے کوئی دلربا محبوب کا انتظار کرتا ہے۔ مخدوم کے کلام میں عنائیت، موسیقیت اور نغمگی کے عناصر کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔ ان کی انقلابی نظموں میں بھی دوسرے ترقی پسند شاعروں کی طرح نعرہ بازی اور پروپگنڈہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس قبیل کی نظموں میں رومان اور حقیقت یا شبابیات اور انقلاب کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو غم ذات اور غم دوراں یا غم عشق اور غم کائنات بھی ایک دوسرے کے ساتھ گھلے ملے دکھائی دیتے ہیں۔ نظم جنگ اپنے عہد کی ایک نمائندہ انقلابی نظم ہے جس میں جنگ کی ہولناکی اور تباہ کاریوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ معاشی طورپر پریشان ان پڑھ نوجوانوں کو ملازمت کا لالچ دے کر، اس زمانے میں جنگ کی آگ میں جھونک دیا جارہا تھا۔ محاذ جنگ پر جانے والا سپاہی اپنے چاہنے والوں اور عزیزوں کی محبت کو سینے میں چھپائے ہوئے ایک ایسے سفر کی طرف روانہ ہوتا ہے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔
جانے والے سپاہی سے پوچھو
وہ کہاں جارہا ہے
کون دکھیا ہے جو گارہی ہے
بھوکے بچوں کو بہلا رہی ہے
لاش جلنے کی بو آرہی ہے
زندگی ہے کہ چلّا رہی ہے
جانے والے سپاہی سے پوچھو
وہ کہاں جارہا ہے
بقول راج بہادر گوڑ مخدوم چوٹی کے شاعر ہی نہیں ، ٹریڈ یونین اور کمیونسٹ رہنما بھی تھے۔ مخدوم کا ہنر ہی یہ ہے کہ وہ قلم کو تلوار میں اور تلوار کو قلم میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ وہ عوام کے مصروف قدموں سے قدم ملاکر چلتے ہیں۔ ان کی لڑائیوں میں شریک رہتے ہیں اور پھر ان ہی تجربوں کو عوام کے ارمانوں کو شعر کے قالب میں ڈھال کر پیش کردیتے ہیں۔