روزنامہ صحافیِ دکن کا کل ہند مشاعرہ@ دلجیت قاضی

Share

کل ہند مشاعرہ

روزنامہ صحافیِ دکن کا کل ہند مشاعرہ

رپورٹ: دلجیت قاضی

روزنامہ صحافیِ دکن کی پہلی سالگرہ کے موقع پر منعقد کئے جانے والے مشاعرے کی اطلاع ہمیں فیس بک کے ذریعے ملی تھی ۔مشاعرے اور ادبی محفلوں میں شرکت کرنے کی ہماری خواہش پہلے سے رہی ہے لیکن جب سے فیس بک کے چند اردو گروپس سے جڑے ہیں تب سے اس خواہش میں شدت آگئی ہے۔ادبی محاذ پر جناب عبدالعزیز کی پوسٹ پر جب محترمہ تسنیم جوہر صاحبہ نے دعوت نامہ شیئر کرکے بنفسِ نفیس مدعو کیا تو ہم نے بھی مشاعرے میں شرکت کے لیےایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔ ہم 10:30 بجے شب مشاعرہ گاہ یعنی قلی قطب شاہ اسٹیڈیم پہنچے ‘حالاں کہ مشاعرہ 8:30 کو شروع ہونے والا تھا ۔پروگرام کے آغاز کی اناوٌنسمنٹ ہورہی تھی۔جناب طیب پاشاہ قادری کے کلام سے مشاعرے کا آغاز ہوا۔یکے بعد دیگرے شعرا کلام سناتے رہے ۔تمام شعراء کا کلام بہت اچھا رہا ۔جوہر کانپوری نے بہت داد حاصل کی۔محترمہ تسنیم جوہر صاحبہ کا کلام بھی بہت خوب رہا ۔ کل ہند مشاعرہ مدیرروزنامہ صحافی دکن جناب ڈی این صابر کی صدارت میں منعقد کیا گیا۔بہت دنوں بعد کل ہند مشاعرہ کا انعقاد‘موسمِ گرما اور شام کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواوں نے لوگوں کو اس جانب کھینچ لایا۔ملک کے مختلف علاقوں سے شعرا کرام بلاے گئے۔ان کے کچھ اہم شعر جس پر جی کھول کر داد دی گئی وہ یہاں نقل کیے جارہے ہیں۔اگر شعر میں کچھ غلطی ہو تو اصلاح فرمائیں۔

جناب حامد بھساولی:
حسد کی آگ جنگلوں میں
یہاں بھی انسان ہے کیا
حاسد لگے ہوئے ہیں اس سراغ میں
آتا کہاں سے تیل ہے اس چراغ میں
نزہت انجم:
محرے پاس آکر بیٹھو مجھ سے منسوب تو ہو
میں تصور سے تمہارے کب تلک باتیں کروں
ابرار کاشف:
یہ خوفناک اندھیرا بھی کم نہیں لیکن
ہوا دیا نہ بجھاتی تو شہر جل جاتا
میرے بچوں کی دعائیں بھی ہیں اس میں شامل
گھر فقط نہیں چلتا ہے میری کمائی سے
تسنیم جوہر:
پھول کانٹوں کے درمیان سے کچھ
اپنے حصے کے چھانٹ لیتے ہیں
سمندر سے میرا جھگڑا بہت ہے
میں قطرہ ہوں مجھے خطرا بہت ہے
زندگی زندگی تھی بسر ہو گئی
ان کا آنا نہ تھا نا آئے مگر
منتظر چشمِ نم در بدر ہوتی رہی
ہم ملے‘گل کھلے‘ اور خزاں چھا گئی
بات آئی گئی مختصر ہو گئی
زندگی زندگی تھی بسر ہو گئی
غم چھپانے کا ہم کو سلیقہ نہیں
ہونٹ ہنستے رہے آنکھ تر ہو گئی
زندگی زندگی تھی بسر ہو گئی
اہتمامِ چراغاں کیا تھا مگر
جانے کیسے ہوا کو خبر ہو گئی
زندگی زندگی تھی بسر ہو گئی
تمیز پرواز
مجھے شوہرسمجھ کے ڈانٹ رئیں ایک گھنٹے سے
غلط نمبر ملانے کو میئنیچ ملا تھا کیا
جوہر کانپوری:
جینے کا یہ ہنر بھی أزمانا چاہیے
بھائیوں سے جنگ ہو تو ہار جانا چاہیے
اپنے عیبوں پہ نظر رکھ سنورنے کے لئے
دوسروں کا عیب دنیا سے چھپانا چاہیے
علینہ عترت رضوی:
ہجر کی رات اور پورا چاند
کس قدر ہیں یہ اہتمام غلط
ایک لمحے کو تیری سمت سے اٹھا بادل
اور بارش کی سی امید لگائی میں نے
ذرا سنبھل کے جلانا عقیدتوں کے چراغ
بھڑک نہ جائیں کہ مسند بھی جل سکتی ہے

ابی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا
ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے
رحیم اختر:
کبھی گرتے تو کبھی گر کے سنبھلتے رہتے
بیٹھے رہنے سے تو بہتر تھا کہ چلتے رہتے
یونہی الجھا نہیں ہے پاؤں میرا
کوئی گرانا چاہتا ہے مجھ کو
راحت اندوری:
کٹ چکی ہے عمر ساری جن کی پتھر توڑتے
اب تو ان ہاتھوں میں کوہِ نور ہونا چاہیے
میری نگاہ میں وہ شخص آدمی ہی نہیں
جسے لگا ہے زمانہ خدا بنانے میں
یہ چند لوگ جو بستی میں سب سے اچھے ہیں
انہیں کا ہاتھ ہے مجھ کو برا بنانے میں
لگے گی آگ تو زد میں آئیں گے مکان اور بھی
یہاں مکاں صرف میرا تھوڑی ہے
یہ لوگ پاؤں نہیں ذہن سے اپاہج ہیں
اُدھر چلیں گے جدھر راہنما چلاتا ہے
وسیم بریلوی:
تھکے ہارے پرندے جب بسیرے کے لئے لوٹیں
سلیقہ مند شاخوں کا لچک جانا ضروری ہے
سلیقہ ہی نہیں شاید اسے محسوس کرنے کا
جو کہتاہے کہ خدا ہے تو نظر آنا ضروری ہے
بہت بے باک آنکھوں میں تعلق ٹک نہیں سکتا
محبت میں کشش رکھنے شرمانا ضروری ہے

Share
Share
Share