صالحہ عابد حسین ۔ ایک تعارف
ہاجرہ زریاب
معلمہ ،گنگا نگر، آکولہ
مولاناخواجہ الطاف حسین حالی کو کون نہں جانتا؟ ۔ان کی ایک نواسی مشتاق فاطمہ جن کی شادی خواجہ غلام الثقلین سے ہوئی تھی۔ خواجہ غلام الثقلین اور مشتاق فاطمہ کی ایک بیٹی تھیں جن کا نا م تھا مصداق فاطمہ ۔ یہی مصداق فاطمہ اپنی اگلی زندگی میں صالحہ عابد حسین کہلائیں۔ صالحہ عابد حسین کو اس رشتے کے لحاظ سے مولانا حالی سے نسبت تھی۔ وہ 18 اگست 1913کو پانی پت، پنجاب ، میں پیدا ہوئیں۔ان کے بھائی بھی بہت مشہور تھے۔ ایک بھائی تو تھے ماہرِ تعلیم خواجہ غلام السیدین اور دوسرے بھائی تھے خواجہ احمد عباس جو مشہور ادیب، افسانہ نگار اور فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ آنجہانی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ خواجہ احمد عباس کے تعلقات بہت گہرے تھے۔ اندرا گاندھی کی سفارش سے ہی امیتابھ بچن کو پہلی مرتبہ خواجہ صاحب نے سات ہندوستانی نامی فلم میں موقع دیا تھا۔
یومِ خواتین کی مناسبت سے صالحہ عابد حسین کا تعارف کروانا اور کے کارناموں کو روشن کرنا ضروری سمجھا۔2013 میں ان کی پیدائش کو ایک صدی پوری ہوگئی لیکن ہم نے ان کی خدمات پربہت کم سیمینار کئے اور نہ ہی نئی نسل کے لیےکوئی اور قابلِ قدر کام انجام دیا ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایک علمی خانوادے سے تعلق کی بنا پر صالحہ عابد حسین کو اپنی کار کردگی اور اپنے اعلیٰ معیار کا ثبوت تو دینا ہی تھا ۔ آخر وہ حالیؔ جیسے عہد ساز شخص کے ساتھ رشتے میں بندھی ہوئی تھیں۔ ادب فاضل اور میٹرک کا امتحان انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔ 17 اپریل 1933 کو بیس برس کی عمر میں ان کی شادی ڈاکٹر سید عابد حسین سے ہوئی۔شادی کے بعد انہوں نے اپنے بھائی خواجہ غلام السیدین اور اپنے شوہر عابد حسین کے ساتھ مل کر اردو ادب کا مطالعہ کیا۔ ویسے بھی انہیں اردو ادب تو مرحوم حالیؔ سے وراثت میں ملا تھا۔ لیکن صالحہ عابد حسین نے بھی اپنی محنت اور ذاتی دلچسپی سے اپنے مطالعہ کو بامِ عروج تک پہچایا۔ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان ، نئی دہلی ، کے مرتب کردہ جامع انسائیکلو پیڈیا میں تحریر ہے کہ ’’صالحہ عابد حسین نے آٹھ ناول لکھے جن میں عذرا، آتشِ خاموش، راہِ عمل، قطرہ سے گُہر ہونے تک، یادوں کے چراغ، اپنی اپنی صلیب ، اُلجھی ڈور، گوری سوئے سیج پر ، اور ’ساتواں آنگن ، شامل ہیں۔ صالحہ عابد حسین نے دوجلِدوں میں ’انیس ؔ کے مرثیے‘ مرتب کئے۔نراس میں آس، درد و درماں، تین چہرے تین آوازیں، سازِ ہستی اور ٹونگے ان کے مجموعوں کے نام ہیں۔ ’نقشِ اول ‘ کے نام سے ان کی کہانیوں اور ڈراموں کا مجموعہ بھی شائع ہوا۔ انہوں نے اپنا سفر نامہ ’سفرزندگی کے لئے سوز و ساز‘ بھی لکھا ہے جو 1982 میں شائع ہوا۔بچوں کے لئے انہوں نے جو کتابیں لکھیں ان میں حالیؔ ، بڑا مزہ اس ملاپ میں ہے، امتحان ، بنیادی حق، وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے ترجمے بھی کئے۔ ان کے ترجموں میں ’کثرت میں وحدت(از گاندھی جی) باپو(بچوں کے لئے) بڑا پاپی : مجمدار (بچوں کے لئے) شامل ہے۔
انہوں نے پچاس سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ ان کی تحریروں میں افسانے، ناول، ڈرامے اور مضامین لکھے۔ انہوں نے مذہبی مضامین بھی تحریر کئے۔ ’سلِکِ گوہر ‘ کے عنوان سے ان کے مذہبی مضامین کا مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بچوں کے لئے کہانیاں، ڈرامے اور ریڈیائی تحریریں بھی قلم بند کیں۔ بہت سی اہم کتابوں کے ترجمے بھی کئے۔ صالحہ عابد حسین بیک وقت مصنفہ بھی تھیں، اور مترجم بھی، سوشل ورکر بھی تھیں اور تعلیمِ نسواں کی علمبردار بھی۔ انہوں نے اپنے پرنانا حضرت مولانا خواجہ الطاف حسین حالی کی حیات پر مبنی ایک کتاب بعنوان ’’یادگارِ حالیؔ ‘‘ لکھی جسے حالیؔ کی زندگی پر لکھی گئی کتابوں میں حوالے کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کی مختلف کتابوں کو ہندوستان کی مختلف اردو اکادمیوں نے انعامات سے نوازا۔ ان کی طویل اور اہم خدمات کے اعتراف میں انہیں باوقارغالبؔ اوارڈ، بہادر شاہ ظفر اوارڈ ، سرسوتی سمّان اور ہندوستانی حکومت کا پدم شری اوارڈ تفویض کیا گیا۔ یہ مختصر مضمون ان کے بارے میں بہت زیادہ تفصیلات کا متحمل نہیں ہوسکتا ، یہ تو صرف ایک اشاریہ ہے صالحہ عابد حسین کی زندگی اور خدمات کا۔ اب یہ اہلِ اردو کا کام ہے کہ ان پرمزید تحقیقی کام کئے جائیں، سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کی جائیں تاکہ ان کی زندگی اور خدمات کی مختلف جہتوں کی عقدہ کشائی ہوسکے۔ تاکہ اردو کی نئی نسل ان کی خدمات سے آگاہ ہوسکے۔آخرِ کار خانوادۂ حالیؔ کی اس دُخترِ علم و فضل یعنی صالحہ عابد حسین 8 جنوری 1988 کو دہلی میں انتقال کر گئیں۔
مرسلہ؛ حسنین عاقب