آہ ! اقبال متین ( ڈاکٹرمحمد عبدالعزیزسہیل کی خصوصی تحریر)

Share
اقبال متین اور عزیز سہیل
جناب اقبال متین اورڈاکٹرعزیز سہیل

ہمارے فن کی بدولت ہمیں تلاش کریں

ممتاز فکشن نگاراور شاعراقبال متین کے انتقال پرخصوصی تحریر

ڈاکٹرمحمد عبدالعزیزسہیل
موبائل:09299655396

نوٹ: جناب اقبال متین کا آج ۵ مئی ۲۰۱۵کی صبح ہی انتقال ہوا ہے۔نماز جنازہ اور تدفین نمازعشا کی بعد عیدی بازار۔حیدرآباد۔دکن میں مقرر ہے۔مزید تفصیلات و تعزیت کے لیے ان کے فرزند نوید سے 09866983356 ربط کیا جاسکتا ہے۔

اقبال متین اردو ادب کے ایک نامور افسانہ نگار ،شاعر، خاکہ نگاراور ناول نگار ہیں ان کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتاہے وہ اردو افسانہ نگاری میں ایک منفرد اور امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ اقبال متین کی شخصیت نے نہ صرف ہندوستان ،پاکستان بلکہ عالمی سطح پر اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑے ہیں۔انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعہ تاریخ کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو ہمارے اردو ادب کے سرمایہ میں اضافہ کا باعث ہیں جن کی تحریروں کے مطالعہ سے زندگی کی حقیقتوں کی وضاحت ہوتی ہے اور ساتھ ہی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے قاری کو واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
اقبال متین2؍فروری1929ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔والد کانام سید عبدالقادرناصراوروالدہ کانام سیدہ آصفیہ بیگم تھا۔ انہوں نے انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم حاصل کی۔ اقبال متین کو بچپن سے ہی ادبی ماحول میسر آیا۔ ان کی پہلی کہانی ’’چوڑیاں‘‘ جو ’’ادب لطیف‘‘ لاہور میں جون 1945ء کو شائع ہوئی۔ رسالہ’’ادب لطیف‘‘ لاہور کے مدیر احمد ندیم قاسمی تھے جو اردو افسانے کے صف اول کے لکھنے والوں میں امتیازی خصوصیت رکھتے تھے اور یہ رسالہ بھی اس دور کے اہم رسالوں میں اپنی منفرد پہچان بنائے ہوئے تھا۔ گویا کہ اقبال متین کی کہانی کا اس رسالہ میں شائع ہونا ان کے لئے تو ایک اعزاز سے کم نہ تھا اور ساتھ ہی ان کے مستقبل کے لئے ایک سند بھی حاصل ہوگئی تھی۔ جس کی بنیاد آج تک قائم و دائم ہیں ۔’’ادب لطیف‘‘ کے بعد ان کی کہانیاں’’ادبی دنیا‘‘’’ نیادور‘‘اور ’’افکار‘‘ میں شائع ہونے لگی تھیں۔

اردو میں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر افسانہ نگاری کو فروغ حاصل ہوا اور پریم چند کو صحیح معنوں میں اردوافسانہ نگاری کا بانی کہا جاسکتا ہے ۔ اقبال متین کا شمار بھی اردو کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ہوتاہے وہ ایک لمبے عرصہ سے اردو افسانہ نگاری کے ذریعہ اردو ادب کے فروغ میں اپنا نمایاں رول اداکررہے ہیں۔ اقبال متین نے اپنے افسانوں کے اسلوب کی انفرادیت اور رومانی انداز کے ذریعہ اپنی منفرد پہچان بنائی ہے ان کے افسانوں کا انداز خود نوشت کا ساہے۔
مخدوم محی الدین اقبال متین کی افسانہ نگاری کی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’اقبال متین اپنے گردوپیش کی زندگی سے واقعات اور کردار چنتا ہے ۔ قدرت بیان اور تیز قوت مشاہدہ کی مدد سے ان میں ایسا رنگ بھرتا ہے کہ معمولی واقعات اور کردار غیر معمولی دلکش بن جاتے ہیں۔’اجنبی‘،’ملبہ‘،’گریویارڈ‘،’گرتی دیواریں‘،’بیمار‘اور دام ہر موج اس کی بے شمار کامیاب اور مشہور کہانیوں میں سے چند ایسی کہانیاں ہیں جن میں زندگی کے حسن اور اس کی ڈھکی چھپی قباحتوں اور فرد، سماج کی کشمکش کی نقاشی اور پردہ کشائی بڑی چابک دستی سے کی گئی ہے۔ اس کی کہانیاں سماجی ناانصافیوں سے نفرت، ہمدردی اور زندگی سے پیار کرنا سکھاتی ہے۔‘‘
(سرورق، اجلی پرچھائیاں1960ء ؁)
زندگی کے گہرے مشاہدے اور انسانی فطرت نفسیات کے عمیق مطالعہ نے ان کے افسانوں میں پختگی اور گہرائی پیدا کردی ہے ۔ اقبال متین پچھلے 5دہوں سے زائد عرصہ سے افسانے لکھ رہے ہیں ان کے افسانوں میں زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہمیں نظر آتاہے اور ساتھ ہی افسانوں کااسلوب بہت ہی سہل اور اثر انداز ہوتاہے اب تک ان کے 7سے زائد افسانوں کے مجموعہ شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکے ہیں جن میں اجلی پرچھائی1960ء، نچا ہوا البم 1973ء، خالی پٹاریوں کا مداری1977ء ، آگہی کے ویرانے 1980ء، مزبلہ1989ء ، میں بھی فسانہ تم بھی کہانی 1993ء ، شہر آشوب2003 ء قابل ذکر ہیں۔
اقبال متین کے تمام افسانوں کو بہت زیادہ مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ’’اقبال متین کے افسانے‘‘ کے عنوان سے انہوں نے اپنے(7)افسانوی مجموعوں سے 62افسانوں کومنتخب کرکے ایک کتابی شکل دی ہے جو سنہ 2009ء میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہے ۔ اقبال متین کے فن پر ہندوستان اور پاکستان کے معتبر رسالوں نے اپنے خصوصی گوشے شائع کئے ہیں جن میں قابل ذکر’’ماہنامہ صبا حیدرآباد1958ء ‘‘، ماہنامہ سب رس حیدرآباد1990ء، ماہنامہ سب رس حیدرآباد1995ء ، ماہنامہ قومی محاذ اورنگ آباد، اکتوبر2004ء ، ماہنامہ حیات دہلی اپریل2006ء اور سہ ماہی بادبان کراچی 2010ء قابل ذکر ہیں۔
ان افسانوں کے مجموعوں اور مختلف رسالوں کی خصوصی اشاعتیں اقبال متین کے فنکارانہ صلاحیتوں کا اظہار ہے ان کی شخصیت پر یہ شعر صادق آتاہے
ہمارے فن کی بدولت ہمیں تلاش کرے
مزہ تو تب ہے کہ شہرت ہمیں تلاش کرے
اقبال متین کے نظریہ سے متعلق سلیمان اریب لکھتے ہیں:
’’اقبال متین فکر کے لحاظ سے رومانی اور عقیدے کے لحاظ سے ترقی پسند ہے لیکن وہ ادب میں کسی ازم کا قائل نہیں۔ اس کا خیال ہے کہ ادب کو پہلے ادب ہونا چاہئے پھر سب کچھ اور جو اچھا ادب ہوگا وہ کسی رنگ کا ہوتے ہوئے بھی سب کے لئے قابل قبول ہوگا۔ اس میں درد مندی بھی ہوگی اور انسان دوستی بھی اور ا س میں غم ذات سے لے کر غم کائنات تک ہر غم کیلئے گنجائش ہوگی۔ اگر ادب کی متذکرہ بالا تعریف کی تائید میں اقبال متین کی کوئی کہانی پیش کی جائے تو آپ کو اس میں اچھے ادب کی بہت سی خوبیاں مل جائیں گی۔
(دیباچہ،اجلی پرچھائیاں1960ء)
اقبال متین کی کہانیاں اورافسانے اپنے مواد ، فن اور تکنیک وانداز بیان کے اعتبار سے اردو افسانوی ادب کا قیمتی سرمایہ ہے ۔
شاعری:۔
اقبال متین کے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے ہوتاہے لیکن انہوں نے شاعر سے زیادہ افسانہ نگار کی حیثیت سے مقبولیت کی منزلیں طئے کی ہیں لیکن ان کی شخصیت صرف افسانوں کے حد تک محدود نہیں رہی بلکہ شعر و شاعری میں بھی ان کو کمال حاصل ہے ۔ اقبال متین کی پہلی نظم ’’کب تلک‘‘ 1942ء ماہنامہ سب رس حیدرآباد میں شائع ہوئی تھی ایک اور نظم ’’کیوں‘‘ جو کہ جون1942ء میں ماہنامہ ’’ارم‘‘ میں شائع ہوئی۔ 1942ء میں ایک نظم ’’تین پیکر‘‘ماہنامہ سب رس حیدرآباد میں شائع ہوئی۔ بہرحال اقبال متین پہلے شاعر ہیں بعد میں افسانہ نگار انہوں نے 1999ء میں ایک حمد لکھی ان کے مجموعہ کلام میں حمد، نعت، غزلیں، پابنداور آزاد نظمیں شامل ہیں۔
حمد، نعت اور غزل کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
حمد کے اشعار
خدایا تو مولا و ملجا و آقائے کل ہے
مرے رب العزت
مرے دل کو دھڑکن عطا کرنے والے
مرے چشم بینا کو باطن عطا کرنے والے
بصارت کو میری بصیرت کرنے والے
نعت کے اشعار
میں کیا کیا آپ سے مانگوں، مرے فن کو جلا دینا
معانی کے گہر دینا، مطالب برملا دینا
جہنم اپنے سینے میں لیئے پھرتا ہے فن میرا
مرے آقا، ترے دامن کے صدقے تو ہوا دینا
غزل کے اشعار
رات خواب میں ہم نے اپنی موت دیکھی تھی
اتنے رونے والوں میں تم نظر نہیں آئے
میں بھی جہاں سے اس طرح اٹھ جاؤں گا متینؔ
جس طرح ترک رکھ کے اٹھا ہوں کتاب میں
رات تیری یادوں نے اس قدر ستایاہے
جتنا مسکرائے ہیں اتنا جی بھر آیا ہے
کل کسی نے رستے میں ہم سے خیریت پوچھی
تو کہاں تھا ایسے میں تو جو یاد آیا ہے
چھپی ہے ایک رسالہ میں کہانی میری
اب اس پہ لوگ رسالے بھی بند کردیں گے
یہ کھڑکیاں تھی، یہ دیوار تھی یہاں در تھا
اس زمین پہ یارو کبھی میرا گھر تھا
اقبال متین کی شاعری میں لہجہ کلاسیکی انداز لئے ہوئے ہوتاہے اشعار میں جو انداز اختیار کیاگیاہے وہ بالکل عام طورپر سادہ اور سہل نظر آتا ہے ان کے اشعار اعلیٰ تخلیق کے نمونے ہیں انہوں نے اپنے مجموعہ کلام میں پابند اور آزاد نظمیں بھی شامل کی ہیں وہ ایک حساس شاعر ہیں جنہوں نے زندگی کو نہ صرف قریب سے دیکھاہے بلکہ اسے بہت انہماک و خلوص کے ساتھ برتا بھی ہے ۔
اقبال متین کا شعری مجموعہ ’’صریر جاں‘‘ 2006ء میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے ۔ صریر جاں کا انتساب تین شخصیتوں کے نام معنون ہیں جن میں رؤف خیر، حسن چشتی اور میرے بھائی عبداللہ ندیم شامل ہیں۔ اقبال متین کے اس شعری مجموعہ میں ان کی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ پروفیسر شہریار اقبال متین کی شاعری سے متعلق رقمطراز ہیں:
’’پچھلی صدی کی چھٹی دہائی میں اپنا ادبی سفر شروع کرنے والوں میں اقبال متین کو اس اعتبار سے ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ انہوں نے شاعری اور نثر دونوں کو ایک ساتھ اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ شاعری میں عام طورسے غزل ان کے تخلیق اظہار کا ذریعہ بنی اور نثر میں فکشن بالخصوص افسانے کی صنف انہیں راس آئی۔ فکشن اور شاعری کی یہی کشمکش ان کے تخلیقی سفر کی داستان پیش کرتی ہے ۔ اقبال متین کی شاعری کے بارے میں جو باتیں خاص طورسے کہی جاسکتی ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ شاعری (۱)خاصPersonalیعنی ذاتی ہے (۲)غموں میں ڈوبی ہوئی ہے اور(۳) زندگی کی تلخی اور ماضی کے عذاب لیئے ہونے کے باوجود خاص مہذب ہے ۔
(سہ ماہی ’’بادبان ‘‘کراچی، اقبال متین نمبر2010ء ؁)
اقبال متین نے افسانے، شاعری کے علاوہ ناول، خاکے، مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان کا ناول ’’چراغ تہہ داماں1976ء‘‘ ، ’’سوندھی مٹی کے بت1995ء‘‘(خاکے)، ’’باتیں ہماریاں‘‘2005ء (یادیں)، ’’اعتراف وانحراف2006ء‘‘(مضامین )، ’’اجالے جھروکے میں 2008ء ‘‘(مضامین ) شائع ہوکر مقبول عام ہوچکے ہیں۔
اقبال متین کا ادبی سفر نصف صدی سے زائد عرصہ پر مشتمل ہیں انہوں نے اس لمبے عرصہ میں اپنے افسانوں اور شاعری کے ذریعہ اردو ادب خاص کر ہندو پاک میں بہت مقبول ہونے والی شخصیت کا اعزاز حاصل کیا ہے ۔ اقبال متین کے فن پر مختلف اداروں کی جانب سے انہیں ان کی ادبی خدمات پر مختلف ایوارڈس و سند عطا کئے گئے جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
(۱) مولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ 5لاکھ روپیئے اور سند 2009ء اترپردیش اردواکیڈیمی کی جانب سے
(۲) مخدوم محی الدین ایوارڈ ایک لاکھ روپیئے اور سند 2003ء آندھراپردیش اردو اکیڈیمی کی جانب سے
(۳) غالب ایوارڈ(برائے اردو نثر) پچاس ہزار روپیئے 2010ء غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کی جانب سے
(۴) سنگت شکاگو ایوارڈ پچیس ہزار روپیئے 2005ء حلقہ ارباب ذوق شکاگو کی جانب سے
(۵) بسٹ اردو اسکالر ایوارڈ دس ہزارروپیئے اور سند 2000ء پٹی سری راملو تلگویونیورسٹی کی جانب سے
(۶) اعترافِ ادبی خدمات ایوارڈ پانچ ہزار روپیئے اور سند 1993ء آندھراپردیش اردو اکیڈیمی کی جانب سے
میرے بھائی عبداللہ ندیم کے اشعار جو انہوں نے اقبال متین کی شخصیت سے متاثر ہوکر تخلیق کئے ہیں ملاحظہ ہوں:
متین کیا کہوں کل سن کے آپ کی باتیں
عجیب فکر سے دوچار ہوگیا ہوں میں
جو زندگی مجھے بھاتی تھی یار کی صورت
اس سے آج تو بے زار ہوگیا ہوں میں
وہ یاد جس کے لئے کل تلک میں یہ دامن
لہو سے اشکوں سے یونہی بھگوتا رہتا تھا
وہ خواب جن کی تعبیر بھی نہ تھی تو میں
انہی کے واسطے دن رات روتا رہتا تھا
خدا کا تیرے کرم ہے متینؔ ذریعہ ہے
ادب کی شاخ پہ کل تک کھلا کہاں تھا تو
اقبال متین کی شخصیت پر لکھنا میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے ،قومی زبان میں پڑھا کہ آئندہ شمارہ افسانوی ادب کی معتبر شخصیت’’اقبال متین‘‘ کے نام سے شائع ہوگاتو مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے اپنے قلم سے چند ٹوٹے ہوئے الفاظ رقم کردیئے ہیں۔ ویسے اقبال متین میرے بھائی کے استاد محترم ہیں اور ان کی شخصیت سے میں بچپن ہی سے واقف ہوں ان کے قیام نظام آباد میں وہ اکثر ہمارے یہاں تشریف لایا کرتے تھے ۔اب حیدرآباد کی رہائش کے دوران بھی بھائی عبداللہ ندیم سے جب بھی ان کی ملاقات ہوتی ہے سنا ہے مجھے ضرور یاد کرتے ہیں۔ لیکن افسوس میں اس محترم شخصیت سے جتنا استفادہ کرنا چاہیے تھا وہ کر نہیں پایا جس کا مجھے آج بھی افسوس ہے ۔جبکہ آج ۵ مئی ۲۰۱۵ کی صبح حیدرآباد کے ایک دواخانے میں ان کا انتقال ہوگیا۔ہم ایک عظیم افسانہ نگار ‘ناول نگار‘ادیب و شاعر اور ان سب سے بڑھ کر ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگئے۔
انّا للہ وانّا الیہ راجعون۔اللہ ان کی مغفرت فرماے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرماے۔
ڈاکٹرمحمد عبدالعزیز سہیل
مکان نمبر:4-2-75مجید منزل
لطیف بازار، نظام آباد 503001(اے پی )
فون نمبر:9299655396
ای میل :

Share
Share
Share