جوش ملیح آبادی کی خوش کلامیاں
از۔ ڈاکٹردلجیت قاضی
جی میل :
اصل نام ‘شبیر حسین خاں اور تخلص جوش ‘5 دسمبر 1898ء کو اترپردیش ہندوستان کے مردم خیز علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کر کے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اپنی مادری زبان اردو میں ید طولیٰ رکھتے تھے بلکہ آپ کوعربی، فارسی، ہندی اور انگریزی پر بھی زبردست عبورتھا۔ اپنی اِسی خداداد لسانی صلاحیتوں کے وصف آپ نےقومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی۔نیز آپ نے انجمن ترقی اردو ( کراچی) اور دارالترجمہ (حیدرآباد دکن) میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ 22 فروری 1982ء کو آپ کا انتقال ہوا۔
جوش ایک شگفتتہ مزاج شاعر تھے۔ مخلتلف دوست و احباب کے ساتھ ان کے کئی ایک دلچسپ واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔یہاں ان کی شگفتہ مزاجی کے کچھ واقعات نقل کیے جارہے ہیں۔نارنگ ساقی نے جوش کے علاوہ بہت سے ادبا و شعرا کے لطائف یکجا کیے ہیں۔
آگ اور پانی
جوش ملیح آبادی کو روزانہ شراب پینے کی عادت تھی۔لہٰذاشام ہوتے ہی ان کی بیگم اندر سے پیگ بنا بنا کر بھجواتیں جنھیں وہ چار گھنٹے میں ختم کردیتے اور پھر کھانا کھاتے۔ایک شام آزاد انصاری بھی ان کے ساتھ تھے‘ بیگم جوش ؔ کو آزاد سے حد درجہ کراہت تھی‘ ان کی موجودگی سے وہ سخت آزردہ خاطر ہو رہی تھیں۔جوشؔ کے تقاضوں کے بعد بیگم نے اندر سے پوری بوتل باہر بھجوادی‘ جوشؔ سوڈا آنے کے منتظر رہے ۔ آدھ گھنٹے بعد بھی جب سوڈا نہ ملا تو بیگم کو باہر طلب کرکے جوشؔ نے نرمی سے یہ شعر پڑھا۔
ع۔کشتئ ئے کو حکم روانی بھی بھیج دو
جب آگ بھیج دی ہے تو پانی بھی بھیج دو
نظم اور داد
ممبئی کے مشاعرے میں جوش ملیح آبادی اپنی تہلکہ مچا دینے والی نظم ’’ گل بدنی‘‘ سنا رہے تھے۔بے پناہ داد مل رہی تھی۔جب انہوں نے اس نظم کا یک بہت ہی اچھا بند سنایا تو کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ نے والہانہ داد دی اور کہا کہ حضرت ملاحظ ہو ۔ایک پٹھان اتنی اچھی نظم سنا رہا ہے۔حضرات یہ بھی ملاحظہ ہو کہ ایک سکھ اتنی اچھی داد دے رہا ہے۔جوشؔ نے برجستہ جواب دیا۔
سنگسار
مولانا مودودی کے جوشؔ ملیح آبادی س ے بہت اچھے تعلقات تھے۔کئی روز کی غیر حاضری کلے بعد ملنے آئے تو جوشؔ صاحب نے وجہ پوچھی۔
’’کیا بتاؤں جوشؔ صاحب پہلے ایک گردے میں پتھری تھی‘ اس کا آپریشن ہوا۔اب دوسرے گردے میں پتھری ہے۔‘‘ مولانا نے جواب دیا۔ میں سمجھ گیا۔جوشؔ صاحن نے مسکراتے ہوئے کہا ۔’’ اللہ تعالٰی آپ کو اندر سے سنگسار کررہا ہے۔‘‘
وجود
عبدالحمید عدم کا کسی صاحب نے جوشؔ سے تعارف کراتے ہوئے کہا :
’’ آپ عدم ہیں۔‘‘
عدم کافی تن و توش کے آدمی تھے ‘جوشؔ نے ان کے ڈیل ڈول کو بغور دیکھا اور کہنے لگے۔’’عدم یہ ہے تو وجود کیا ہوگا ؟‘‘
گھوڑے اور گدھے
ممبئی کی ایک معروف ادب پرور اور بوڑھی مغنیہ کے یہاں محفلِ مشاعرہ منعقد ہو رہی تھی‘ جس میں جوشؔ ملیح آبادی‘ جگر مراد آبادی‘ حفیظ جالندھری اور ساغر نظامٹی بھی شریک تھے۔
مشاعرے کے اختتام پر ایک دبلی پتلی سی لڑکی ‘ جس کی کم سن آنکھیں بجائے خود کسی غزل کے نمناک شعروں کی طرح حسین تھیں‘آٹو گراف بک میں دستخط لینے لگی۔
اس جہاندیدہ مغنیہ کی موجودگی میں یہ نوعمر حسینہ زندگی کے ایک تضاد کو نہایت واضح انداز میں پیش کررہی تھی۔چنانچہ جگر مرادآبادی نے آٹو گراف بک میں لکھا۔
ازل ہی سے چمن بند محبت
یہی نیرنگیاں دکھلا رہا ہے
کلی کوئی جہاں پہ کِھل رہی ہے
وہیں ایک پھول بھی مرجھا رہا ہے
حفیظ صاحب کی باری آئی تو انہوں نے معصوم لڑکی کے چہرے پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے لکھا۔
معصوم امنگیں جھول رہی ہیں دلداری کے جھولے میں
یہ کچی کلیاں کیا جانیں‘کب کِھلنا کب مرجھانا ہے
اس کے بعد آٹو گراف بک دوسرے شاعروں کے پاس سے ہوتی ہوئی جوشؔ صاحب کے سامنے آئی تو انہوں نے لکھا ’’آٹو گراف بک ایک ایسا اصطبل ہے جس میں گدھے اور گھوڑے ایک ساتھ باندھے جاتے ہیں۔‘‘
ننگا
یونس سلیم نے جوشؔ ملیح آبادی سے پوچھاکہ کیا بات ہے ‘آپ آجکل غزل لکھ تو نہیں رہے‘ بلکہ اس کی مخالفت کررہے ہیں حالانکہ ابتدا میں آپ خود بہترین غزلیں کہتے رہے ہیں۔
جوشؔ نے جواب دیا کہ ’’بچپن میں تو میں ننگا رہا کرتا تھا‘کیا سمجھ آنے کے بعد بھی ننگا رہا کروں؟‘‘
آدم اور حوا
یونس سلیم صاحب کی اہلیہ کراچی پہنچیں تو جوشؔ صاحب سے ملنے ان کے گھر تشریف لے گئیں ۔جوشؔ نے پہلے تو یونس صاحب کی خیروعافیت دریافت کی اوراس کے بعد کہنے لگے کہ یونس آدمی تو اچھا ہے لیکن آجکل اس میں نقص پیدا ہو گیا ہے ۔اچھی بھلی صورت کو داڑھی رکھ کر بگاڑرہا ہے ۔اس پر بیگم یونس نے عرض کیا کہ داڑھی رکھنے کا مشورہ تو انہیں میں نے ہی دیا تھا۔
اس پر جوشؔ نے کہا۔’’آدم کو بھی تو حوا نے ہی گمراہ کیا تھا۔‘‘
مردانہ
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ فیض احمد فیضؔ کی آواز میں نسوانیت تھی اور جوشؔ ملیح آبادی کی آواز میں کھنک تھی۔جشن رانے لائل پور کے مشاعرے میں جوشؔ ملیح آبادی اور فیض احمد فیض ؔ الگ الگ گروپوں میں بیٹھے تھے۔قتیل شفائی مشاعرے میں شرکت کے لئے آئے تو فیضؔ صاحب کی طرف جانے لگے ‘ جوشؔ صاحب نے آواز دی ۔’’ قتیل وہاں کہاں جا رہے ہو ۔سیدھے مردانے میں چلے آؤ۔‘‘
نقاد کون؟
جوشؔ ملیح آبادی شام کے وقت شغل مئے نوشی میں مصروف تھے کہ نوکر نے آکر اطلاع دی کہ ایک صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں جو نقاد ہیں۔جوشؔ صاحب نے پوچھا اکیلے ہیں کیا؟
’’نہیں تین چار دوست ان کے ساتھ ہیں‘‘ نوکر نے کہا۔
’’وہ جھوٹ بول رہے ہیں‘‘جوشؔ صاحب نے جوش میں آکر کہا۔ساتھ بیٹھے دوست نے پوچھا ۔آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟
’’جس کے چار دوست ہوں ہوں وہ نقاد ہو ہی نہیں سکتا ‘‘ جوشؔ نے جواب دیا۔