حالیؔ کی شاعری میں لفظیاتی نظام (DICTION)کی تشکیل

Share

حالی

حالیؔ کی شاعری میں لفظیاتی نظام (DICTION)کی تشکیل(بحوالہ مسدس حالیؔ )

خان حسنین عاقب

علامہ اقبال ٹیچر س کالونی، مومن پورہ، واشم روڑ،پوسد ضلع ایوت محل (مہاراشٹر) 445204
جی میل :
موبائل : 09423541874

خواجہ ایزد بخش اور سیدہ امتہ الرسول کے گھر ۱۸۳۷ء ؁ میں ( ۱۲۵۳ھ) ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام الطاف حسین رکھا گیا۔ نانہیال کی جانب سے الطاف حسین کا شبجرہ حضرت فاطمہ الزہرہؓ دختر رسولﷺ اور دادھیال کی طرف سے حضرت ابوایوب انصاریؓ تک پہنچتا ہے۔ الطاف حسین کے لئے اردو ادب کی تاریخ نے ’’حالیؔ ‘‘ کا نام مختص کر رکھا تھا۔ اس لئے نئے عہد کے بچے الطاف حسین کو بھلے ہی فراموش کر دیں لیکن حالیؔ کو بھولنے کی جراء ت نہیں کر سکتے۔ علم کی بھوک حالیؔ کو پانی پت سے نکال کی دہلی کھینچ لائی جہاں علوم دین و جہاں کے سمندر موجود تھے۔ دہلی میں انہیں محمد کرم اللہ خاں شیداؔ ، سید انور، سید ظہیر، نواب مصطفی خان شیفتہ ،مرزا غالبؔ ، داغ ،کلیم و اصل خان صاحب جیسے لوگوں کی مصاحبت نصیب ہوئی۔ نواب مصطفی خان شیفتہ کی وفات کے بعد حالیؔ کو پنچاب گورنمنٹ بک ڈپو لاہور میں ترجمہ نگاری کی ملازمت حاصل ہوئی۔ اس کام سے حالیؔ کو کیا حاصل ہوا خود حالیؔ کی زبانی سنئے۔ ’’ مجھ کو یہ کام کرنا پڑتا تھا کہ جو ترجمے انگریزی سے اردو میں ہوتے تھے ان کی اردو عبارت درست کرنے کو مجھ کو ملتی تھی۔ اس سے انگریزی لٹریچر کے ساتھ فی الجملہ مناسبت پیدا ہوگئی۔ اور نا معلوم طور پر آہستہ آہستہ مشرقی اور خاص کر عام فارسی لٹریچر کی وقعت دل سے کم ہونے لگی‘‘۔ (مختصر سوانح حالی ؔ بحوالہ الطاف حسین حالیؔ و تنقیدی جائزے ، غالب انسٹی ٹیوٹ ۔ نئی دہلی)۔

یہ وہ تمہید ہے جو مجھے اپنے موضوع پر گفتگو کرنے کے عمل سے مربوط کرتی ہے۔ خوش نصیبی سے اس وقت میرے ذاتی کتب خانے میں نامی پریس لکھنو کا حالیؔ کی زندگی ہی میں شائع کردہ مسدس حالی (مدو جزراسلام) کا نسخہ موجود ہے۔ یہ نسخہ مارچ ۱۹۱۴ ؁ء میں شائع ہوا جو مدوجزر اسلام کی چوتھی اشاعت تھی۔ اس نسخہ کی اشاعت کے نو مہینے بعد دسمبر ۱۹۱۴ ؁ء میں حالی سوئے عدم روانہ ہوئے ۔ اس خصوصی اشاعت میں دو دیباجے ، ایک ضمیمہ اور ایک تحریر عرض حال کے عنوان سے شامل ہے۔ یہ تفصیل تذکر ۃًتحریر کر رہا ہوں جس سے ہمیں بحث نہیں۔مدوجزراسلام حالی کی زندگی میں نامی پریس لکھنو سے دس مرتبہ شائع ہو چکی تھی۔ ضمیمے اور اضافی دیپاچے کے ساتھ ۱۹۱۴ ؁ء میں اس کا بار چہارم تھا۔ اس سے اس نظم یعنی مسدس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالی کو اس نظم کی تحریک سرسید سے ملی۔ لیکن خود حالی کے قلب کا سوزوگداز بھی اس کی تخلیق کا محرک ہوا ہے۔ دیباچے (عرض حال )میں حالی لکھتے ہیں۔
’’ اگرچہ اس جانکاہ نظم میں جسکی دشواریاں لکھنے والے ہی کا دل اور دماغ خوب جانتا ہے،بیان کا حق نہ مجھ سے ادا ہوا ہے۔ نہ ہو سکتا تھا۔ مگر شکر ہے کہ جسقد ر ہوگیا اتنی بھی امید نہ تھی۔ ہمارے ملک کے اہل مذاق ظاہرً ا اس روکھی پھیکی سیدھی سادھی نظم کو پسند نہ کرینگے ۔ کیونکہ اس میں یا تاریخی واقعات ہیں یا چندروایتوں اور حدیثوں کا ترجمہ ہے۔ یا جو آج کل قوم کی حالت ہے اس کا صحیح صحیح نقشہ کھینچا گیا ہے۔ نہ کہیں نازک خیالی ہے نہ رنگین بیانی ہے۔ نہ مبالغہ کی چاٹ ہے۔ نہ تکلف کی چاشنی ہے۔ غرض کوئی بات ایسی نہیں ہے۔ جس سے اہل وطن کے کان مانوس اور مذاق آشنا ہوں ۔ گویا اہل دہلی و لکھنو کی دعوت میں ایک ایسا دسترخوان چنا گیا ہے۔ جس میں ابالی کھچڑی اور بے مرچ سالن کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مگر اس نظم کی ترتیبمزے لینے اور واہ واہ سننے کے لئے نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ عزیزوں اور دوستوں کو غیرت اور شرم دلانے کے لئے کی گئی ہے۔ اگر دیکھیں اور پڑھیں اور سمجھیں تو ان کا احسان ہے ورنہ کچھ شکایت نہیں۔
’’ حافظ و ظیفہء تو دعاگفتن ست و بس دربندِ آں مباش کہ نشیند یاشنید۔‘‘
حالیؔ کے مندرجہ بالا بیان کردہ اقتباس کا آخری جملہ اور حافظ کا شعر دونوں اس واقعہ کے غماز ہیں کہ ان کا مقصد ملت کو غیرت و حمیت کا احساس دلاناتھا۔ ساتھ ہی وہ انجام سے بھی کما حقہ واقفیت رکھتے تھے۔ کہ شاید اس نظم کو اہل مذاق شرف قبولیت عطا نہ کریں۔ اسی لئے انہوں نے چڑ کر لکھا کہ ’’ اگر دیکھیں اور پڑھیں اور سمجھیں تو ان کا احسان ہے ورنہ شکایت نہیں۔‘‘
بحرکیف ! اس نظم میں لفظیاتی نظام Diction کا جائزہ لینے سے قبل اس بات کا اعادہ کردینا لازمی محسوس ہوتا ہے کہ حالیؔ سر سید سے متاثر تھے۔ اس لئے ان کی زبان پر سرسید کی زبان کا اثر صاف دکھائی دیتا ہے۔ تہذیب الاخلاق کے شماروں میں سرسید کا جو طرزِ تحریر تھا اس کی تھوڑی بہت لسانی اور ساختیاتی جھلک حالیؔ کی اس نظم میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ دیگر یہ کہ حالیؔ کا گورنمنٹ پریس لاہور میں ترجمہ نگار کی حیثیت سے ملازم ہونا بھی ان کے اکتسابِ علم و زبان کا محرک بنا۔
حالیؔ کی لفظیات Diction :
لفظیات پر گفتگو کرتے ہوئے مجھے مغربی ماہر لسانیات جی۔این۔لیچ G.N.Leech کی بات یاد آرہی ہے۔ جس نے کہا تھا۔
"Literature is the creative use of language, and this, in the context of general linguistic description, can be equated with the use of unorthodox or deviant form of language”
(ادب زبان کے تخلیقی استعمال کا نام ہے جو عمومی لسانی بیان کے حوالے سے زبان کی گوناگوں اور غیر روایتی شکلوں کے ساتھ مساویانہ طرز پر رکھا جا سکتا ہے۔ )مدو جزواسلام یا مسدس حالی ایک Catharsis ہے۔ جس کا تصور ارسطو نے دیا تھا۔ کھتارسس کا مفہوم ہے۔ Tragedy through pity and fear effects a purgation of such emotions. ایک ایسا المیہ جو ترحم اور خوف کے راستوں سے جذبات کی روحانی تطہیر کو متاثر کرتا ہے (ارسطو ، شعریات، باب ششم)
حالیؔ نے اپنے مسدس کا آغاز ایک رباعی سے کیا ہے۔
پستی کا کوئی حد سے گزرتا دیکھے ۔ ۔ ۔ اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے ۔ ۔ ۔ بعد دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
چونکہ مسدس حالی اسلام کے عروج اور زوال کا منظر نامہ ہے اسی مناسبت سے حالیؔ نے اسے مدوجزراسلام کا عنوان دیا۔ لیکن شعر کی ہیتی بندش کے لحاظ سے یہ چھ مصرعوں کے ایک ایک بند میں منقسم ہے۔ اس لئے اسے مسدس بھی کہا جاتا ہے۔ حالیؔ کے لفظیاتی نظام کی پرورش میں دو عوامل کا ر فرمارہے ہیں۔ اولاً تو یہ کہ حالیؔ بنیادی طور پر روایتی تعلیمی نظام کا Productتھے ۔دوم یہ کہ بدلتے سیاسی حالات اور سرسید کی تحریک نے ان کی فکر کو جِلا اور جدت بخشی ۔ بقول نثار احمد فاروقی ۔’’ مولانا حالیؔ بنیادی طور پر قدامت کے پروردہ ہیں مگر ان کو جدت کا اور عہد جدید کانقیب سمجھنا چاہیے۔‘‘ نثار احمد فاروقی مزید لکھتے ہیں۔ ’’اگر حالی اس فرسودہ شاعری کی مخالفت نہ کرتے تو شاید علامہ اقبال بھی پیدا نہ ہوتے اور ان کی شاعری نے جو پیغام ہمیں دیا وہ ہمیں نہ ملتا۔‘ ‘حالیؔ کی شاعری میں عموماً اور مسدس حالیؔ میں خصوصاً یہ بات محسوس کی جاسکتی ہے کہ اقبال ؔ کا مکمل فلسفہ اور ان کی نظم شکوہ اور جواب شکوہ مسدس حالیؔ کے زیرِ اثر ہے۔ لیکن لفظیاتی نظام حالیؔ کا اور ہے اور اقبال کا دیگر۔حالیؔ کے پیش نظر ترسیل اور ابلاغ کے مراحل زیادہ اہم تھے۔ اس لئے انہوں نے رائج الفاظ کا کثرت سے استعمال کیا۔ جہاں اقبال نے فارسی زدہ لفظیاتی نظام کو برتا ہے ۔حالی نے ان سے بہت پہلے عوامی لفظیات کو ترجیح دی۔ جب مسدس حالی لکھی گئی‘ یعنی ۱۸۷۹ ؁ء میں،تو اقبال اس وقت اپنی والدہ کی گود سے بھی نہیں اترے تھے۔ صرف دو برس کے تھے ۔ اقبال کا لفظیاتی نظام الگ سہی لیکن ان کی تربیت پرمسدس کا اثر بہت گہرا تھا۔ یہ حقیقت اس امر سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ ۱۹۱۰ ؁ء کے بعد جب اقبال چیف کورٹ پنجاب میں کل وقتی وکالت کرنے لگے تھے، ان اکثر وقت مرزا جلال الدین ایڈوکیٹ کی معّیت میں گذرتا۔ بعض اوقات اقبال اپنی بگھّی واپس گھر بھیج دیتے تھے۔ اور مرزا جلال الدین کی کار میں بیٹھ کر ان کے دفتر چلے جاتے۔ مرزا جلال الدین کا ملازم ایک خاص طرز سے مسدس حالیؔ ستار پر سُنایا کرتا تھا۔ اس لئے اقبال اس سے اکثر مسدس سُنا کرتے ۔اقبال کی فکری نشونما میں حالیؔ کے خیالات اور افکار کی شمولیت سے پہلو تہی نہیں کی جا سکتی۔
حالیؔ نے مروجہ لسانی روایات سے بغاوت کی اور اپنی نئی لفظیاتی ساخت کو پنپنے دیا۔ حالیؔ کے Diction سے متعلق بابائے اردو مولوی عبد الحق کہتے ہیں۔’’ دو ایک بار جب اردو لغت کی ترتیب کا ذکر ان سے (حالیؔ سے) آیا تو فرمانے لگے کہ اردو لغات میں ہندی کے وہ الفاظ جو عام بو ل چال میں آتے ہیں یا جو ہماری زبان میں کھپ سکتے ہیں بلا تکلف کثرت سے داخل کرنے چاہئیں۔‘‘اور خود حالی نے اپنی شاعری میں بغیر کسی تکلف کے ہر زبان کے الفاظ استعمال کیے۔ مثلاً اشعار دیکھے۔
لبرٹی میں جو آج فائق ہیں سب سے – – – بتائیں کہ لبرل بنے ہیں وہ کب سے (م۔ح۔صفحہ ۳۴)
رجال اور اسانید کے ہیں جو دفتر- – – گواہ انکی آزادگی کے ہیں یکسر (م۔ح۔صفحہ ۳۴)
سیلر نو میں جو ایک نامی مطب تھا – – – وہ مغرب میں عطا ر مشک عرب تھا (م۔ح۔۳۵)
رہے جب تک ارکان اسلام برپا – – – چلن اہل دیں کا رہا سید ھا سادا (م۔ح۔صفحہ ۳۷)
اگر کان دھر کے سنیں اہل عبرت – – – تو سیلون سے تابہ کشمیر و تبت (م۔ح۔صفحہ ۳۹)
خیانت کی چالیں سجھاتی ہے ہم کو – – – خوشامد کی گھاتیں بتاتی ہے ہم کو (م۔ح۔صفحہ ۴۴)
ان اشعار میں لبرٹی ، لبرل، سیلر نو، کلیتا انگریزی الفاظ ہیں ۔ رجال اور اسانید عربی الفاظ ہیں۔ آزادگی فارسی لفظ ہے اور چلن ، سیدھا سادا ، چالیں ، گھاتیں ہندی الاصل ہیں۔ حالانکہ لبرٹی اور لبرل کوئی تلمیحی محاکات نہیں ہیں کہ ان کے اردو متبادلات پیش نہیں کئے جا سکتے تھے۔ اور یہی حال ہندی الفاظ کا بھی ہے ۔ لیکن چونکہ حالیؔ نے اپنا لفظیاتی نظام Diction خود تشکیل دیا تھا اس لئے کسی نقاد یا اہل علم کو جراء ت نہیں کہ وہ ان الفاظ کے متبادلات کے ساتھ مسدس کے مجموعی تاثر کو رکھ کر دکھائے۔ مولوی عبد الحق کہتے ہیں۔
’’ انہوں نے بہت سے ایسے ہندی الفاظ اردو ادب میں داخل کئے جو ہماری نظروں سے اوجھل تھے۔ اور جن کا آج تک کبھی کسی ادیب یا شاعر نے تو کیا ، ہندی ادیبوں اور شاعروں نے بھی استعمال نہیں کیا تھا ۔لفظ کا صحیح اور بر محل استعمال جس سے کلام میں جان پڑ جائے اور لفظ خود بول اٹھے کہ لکھنے والے کے دل میں کیا چیز کھٹک رہی ہے، ادیب کا بڑا کمال ہے اور یہ کوئی حالیؔ سے سیکھے۔‘‘
مولوی عبد الحق نے تو محض ہندی الفاظ کی بات کی ہے لیکن عربی اور فارسی الفاظ کے دھڑلے سے استعمال کرنے کی عام روش سے ہٹ کر اور سرسید کی انگریزی موافق تحریک کے زیر اثر حالیؔ نے انگریزی الفاظ کو بھی اسی وقار کے ساتھ استعمال کیا ہے باوجود اس کے کہ وہ ان انگریزی الفاظ کے اردو مترادفات یا متبادلات پر بھی قادر تھے۔
وہ نیشن جو ہیں آج گردوں کے تارے – – – دھند لکے میں پستی کیپنہاں تھے سارے (م۔ ح۔صفحہ ۲۳)
یہاں لفظ پنشن سے مراد یوروپ و امریکہ کے ترقی یافتہ ممالک ہیں ۔حالیؔ ان کے لئے قوم یا اقوام کا لفظ بھی استعمال کر سکتے تھے۔ لیکن عصری لسانی تقاضوں نے اسی لفظ کو اہم گردانا۔ یہاں یہ بات بھی محل نظر ہے کہ نیشن سے مراد نہ آج کی دوسری جنگ عظیم کے بعد ۱۹۴۶ ؁ء میں بنی United Nations ہے اورنہ ہی پہلی جنگ عظیم کے بعد ۱۹۱۹ء ؁میں بنی لیگ آف نیشنس۔
انگریزی الفاظ کے حوالے سے حالیؔ کا ایک اور شعر ہے۔
ہمالہ کو ہیں واقعات ان کے ازبر- – – نشاں انکے باقی ہیں جبرالٹر پر
یہاں لفظ جبرالٹر کے بجائے جبل طارق نظم کیا جا سکتا تھا اور اگر ایسا کیا جاتا تو بہتر ہوتا لیکن حالیؔ نے جس روانی میں یہ لفظ اپنی انگریزی شکل میں رہنے دیا وہ ان کی فکری تربیت کا نشان دیتی ہے۔ ایک اور شعر دیکھیئے۔
مدار اہلکاری کا ہے اب انہیں پر ۔ ۔ ۔ انہیں کے ہیں آفس انہیں کے ہیں دفتر (م ۔ ح۔ صفحہ ۴۲)
اس شعر میں حالیؔ نے غصب یہ کیا کہ انگریزی لفظ آفس اور اس کا اردو متبادل دفتر دونوں ایک ہی مصرعہ میں استعمال کرڈالے۔ قواعد کی رو سے یہ قابل گرفت ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ انسٹی ٹیوٹ بھی انہی کے ہیں اور ادارے بھی انہی کے تو کیا آپ جیسے اہل علم مجھے بہ آسانی بخش دیں گے؟ لیکن حالی کے اس مصرعہ میں گنجائش یہ نکالی جا سکتی ہے کہ آفس سے مراد تو دفتر یعنی وہ کمرہ جہاں سے انتظام و النصرام چلتا ہے اور دفتر سے مراد فہرست یا کھاتا جیسے دفتر عمل لیا جائے۔ لیکن شائد مصرعہ اولیٰمیں لفظ اہلکاری اس گنجائش کی اجازت نہ دے۔ بہر کیف ! اب ہم انگریزی الفاظ سے دوبارہ ہندی الفاظ کے استعمال کی طرف آتے ہیں ۔ حالیؔ نے کہا۔
تنزل نے کی ہے بڑی گت ہماری- – – بڑی دور پہنچی ہے نکبت ہماری (م۔ ح۔ صفحہ ۴۰)
درگت بھی ہندی لفظ ہے اور لفظ گت کا ہم معنی بلکہ درگت ہی وہ لفظ ہے جو حالیؔ کے مافی الضمیر کی صحیح نمائندگی کر سکتا ہے کیونکہ ہندی میں دُر کا سابقہ منفی یا بُرے مفہوم کے تحت استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے درجن اور درگند وغیرہ۔باوجود اس کے کہ مروجہ لسانی اصولوں سے رو گروانی کی گئی ہے، حالی کے یہاں لفظیات کا جو نظام تشکیل دیا گیا اسے مستحسن کہا جا سکتا ہے۔ مثلاً شعر دیکھئے۔
نہ بھگوان کا دھیان تھا گیانیوں میں ۔ ۔ ۔ نہ یزداں پرستی تھی یز دانیوں میں
وہ بے مول پونجی کہ ہے اصل دولت ۔ ۔ ۔ وہ شائستہ ملکوں کا گنج سعادت
پہلے شعر میں بھگوان ، دھیان اور گیانیوں یہ الفاظ خالص ہندی کے ہیں لیکن جس تناظر میں ان الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے اس پر حرف زنی نہیں کی جا سکتی ۔ لفظ بھگوان کی رعایت سے دھیان کا استعمال فوراً ہماری توجہ بھگوان کی آرادھنا (ریاضت) کی طرف مبذول کرتا ہے اور ایک جٹا دھاری ،کیسری لبادہ کہت پہنے ہوئے اور دھونی رمائے سادھو کی شبیہہ متصور ہو جاتی ہے۔ یعنی دھیان میں مگن ہوکرگیان کا امرت پینے والے گیانیوں میں بھی بھگوان کا دھیان نہیں تھا۔ اگر گیانیوں میں کے بجائے گیانیوں کو رکھا جاتا تو مفہوم بدل جاتا اور دھیان کے معنی عبادت اور آرادھنا سے ہٹ کرتوجہ کے ہو جاتے۔ مصرعہ ثانی میں نہ صرف یزداں پرستی اور یزدانیوں جیسے فارسی الفاظ ہیں بلکہ پورا تصور ہی قدیم ایران میں مذہبی عقائد کی نمائندگی کرتا ہے۔ دوسرے شعر میں بے مول پونجی ہندی الاصل ہے۔ بے مول یا انمول یعنی بیش قیمتی پونجی یا سرمایہ ۔بے مول صفت ہے اور پونجی اسم ۔یہ لفظی ترکیب بھی بہت زیادہ مستعمل نہیں ہے۔ البتہ عدیم المثال بھی نہیں ہے ۔حالیؔ کی شاعری میں ایک طرح کی لسانی جھما جھم بھی ملتی ہے جو جمالیاتی تاثر کو زندہ کرتی ہے مثلاً
ہری کھیتیاں جل گئیں لہلہا کر ۔ ۔ ۔ گھٹا کھل گئی سارے عالم میں چھا کر
ہری کھیتیاں ،لہلہا کر، گھنا کھل گئی اور چھاکر یہ چاروں الفاظ موسم کی مختلف کیفیات کے مظاہر ہیں ۔ہم نے یہاں لفظ جل گئیں کودانستہ نظر انداز کیا ہے کہ ہمیں فی الحال اس نکتہ سے بحث نہیں۔قصہ کوتاہ کہ حالیؔ نے مسدس حالیؔ میں جس لفظیاتی نظام کی تشکیل کی وہ ان کا دانستہ فعل نہیں تھا بلکہ حالیؔ کا یہی لفظیاتی نظام ان کی نثر میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔مسدس حالیؔ کی اولین اشاعت کے چھ برس بعد ۱۸۸۶ ؁ء میں حالی نے اس میں ایک اور دیپاچہ شامل کیا جس کی پہلی سطر میں حالی کہتے ہیں۔’’ مسدس وجزر اسلام اول ہی اول ۱۳۱۶ ؁ء میں چھپ کر شائع ہوا تھا۔ اگرچہ اس نظم کی اشاعت سے شائد کوئی متعد بہ فائدہ سوسائٹی کو نہیں پہنچا۔‘‘حالیؔ نے لفظ سوسائٹی بالکل غیر ارادی طورپر استعمال کیا ہے ۔وہ ملت یا قوم بھی کہہ سکتے تھے۔ لیکن ان کے پیش نظر لفظ کی اصل سے زیادہ خیال کی رسل( پہنچ )اہم تھی۔یہی حال ذاتی خطوط میں بھی روا ملتا ہے۔ اپنے بیٹے خواجہ سجاد حسین کو ۷؍جنوری ۱۸۹۴ ؁ء کو لکھتے ہیں۔ ’’ تمہارا کارڈ جو اسی وقت پہنچا ہے ،
اس کو پڑھ کر نہایت تردد ہوا۔ ‘‘ لفظ کارڈ کے بجائے حالی خط بھی لکھ سکتے تھے لیکن حالی اس جھمیلے میں نہیں پڑتے تھے۔ انہیں جو لفظ آسان اور بر محل اور مناسب معلوم ہوتا تھا، بلاتکلف استعمال کر ڈالتے تھے ۔اسی لئے حالی کی شاعری میں لسانی حسن تلاش کرنے والے کوئی تضع اور بناوٹی جذبہ کو ڈھونڈنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ حالیؔ کے یہاں الفاظ کے معیار سے زیادہ اہم خیال اور جذبہ کا معیار ہے۔
بقول میرؔ
شعر اگر اعجاز باشد ،بلند و پست نیست ۔ ۔ ۔ در یدِبیضا ،انگشت ہایک دست نیست
شعر میں اگر اعجاز اور کمال ہو تو اس کی قدر پیمائی بلند اور پست کے تناظر میں نہیں کی جا سکتی جس طرح ایک ہاتھ کی انگلیاں برابرنہیں ہوتیں۔لفظیات کی تشکیل کے معاملے میں جوردیہ حالیؔ کا غالب اور دیگر اہل علم و زبان شعراء کی موجودگی کے باوجود تھا۔ وہی رویہ سعدی ؔ کا اس معیار زبان کے باوجود نظر آتا ہے جسے حافظؔ ،جامیؔ اوررومیؔ وغیرہ نے اپنایا تھا۔ سعدیؔ بھی سادگی اور تاثر کے قائل تھے۔ بوستان کے اشعار دیکھیئے۔
پدرنیست بد خواہ فرزندخویش کہ دارد بدل مہراز اندازہ بیش
ترا اژ دھاگر بودیار غار۔ ۔ ۔ ازاں بہ کہ جاہل بودغم گسار
مسدس حالی کی اسی اثر آفرینی نے سرسید جیسے مجد د سے کہلوایا۔ ’’جس وقت کتاب ہاتھ میں آئی، جب تک ختم نہ ہوئی ہاتھ سے نہ چھوٹی اور جب ختم ہوئی تو افسوس ہوا کہ کیوں ختم ہوگئی۔اگر مسدس کی بدولت فن شاعری کی تاریخ جدید قراردی جائے توبالکل بجا ہوگا۔‘‘( سرسید احمد خان)
سادہ اور غیر پیچیدہ الفاظ کی وجہ سے یہ نظم مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اس عہد کے غیر مسلم ہندوستانیوں میں بھی بے انتہا مقبول ہوئی۔
بقول رام بابو سکسینہ :
’’ وہ (مسدس حالی) ایک ایسی کتاب ہے جو پیمبروں اور اوتاروں پر نازل ہوتی ہے اور وہ ایسا تارا ہے جو شاعر ی کے آسماں پر چمکا اور ہندوستان میں اس کی وجہ سے قومی اور وطنی نظموں کا لکھنا شروع ہوا۔ ان کے مخاطب صرف ان کے اہل مذہب ہی نہیں بلکہ کل اہل وطن ہیں۔‘‘
یہاں تک کہ اس نظم کی وجہ سیحالیؔ کو شمس العلماء جیسے موقر خطاب سے نوازا گیا۔ حالی ٹہرے درویش صفت آدمی۔ انہیں اعزازات و خطابات سے کیا علاقہ ؟لیکن اس موقع پر حالیؔ پر اعتراضات کرنے والے مولانا شبلیؔ نعمانی انہیں لکھتے ہیں۔ ’’مولانا۔۔ آپ کو تو نہیں ۔۔خطاب شمس العلماء کو مبارکباد دیتا ہوں ۔اب جاکر اس خطاب کو عزت حاصل ہوئی۔ ‘‘یہ ایک جملہ شبلیؔ کی اعلیٰ ظرفی اور حالی کی پاکیزہ سیرت کی آئینہ داری کرتا ہے ۔ حالی کی یہ نظم صرف نظم نہیں بلکہ ایک خطاب ثابت ہوئی جو اخلاقی کیفیات کی عکاس تھی۔اس نظم کی لفظیات کا دھیان آتے ہی مجھے یورونٹرس کی بات یاد آرہی ہے جس نے کہا تھا۔” An implicitly rational poem can be paraphrased in general term. But the poem must present a moral attitude.” ( Vyor winters) اور مسدس واضح طور پر ایک منطقی نیز واقعاتی نظم ہے ۔ جس میں تصور کی لاف و گزاف نہیں بلکہ حقائق کی چشم کشائی ہے اور یہ عصری اخلاقی رویوں کو بھی بہترین طرز پر پیش کرتی ہے ۔فارسی زبان کے عاشق زار غالبؔ مے خوار تک کو حالی ؔ کی لفظیات پر اعتراض نہ ہوا۔بلکہ وہ تو حالیؔ سے یہاں تک کہہ گئے کہ ’’اگر تم شعر نہ کہوگے تو اپنی طبیعت پر ظلم کروگے۔‘‘ حالانکہ یہ بات تاریخ کے علم میں ہے کہ غالبؔ اصلاح وغیرہ اور خراب شاعری کی حوصلہ افزائی کے مصلحت کو ش چکرّوں میں نہیں پڑتے تھے۔بہرکیف ! مسدس حالی ؔ کے لفظیاتی نظام کی وسعت گیری نے اس نظم کو خصوصاً اور حالیؔ کی شاعری کو عموماً صدرۃ المنتہیٰ پر پہنچایا۔ بقول امیر خسروؔ ۔۔
روحِ لیلیٰ آید و آموزد آیت ہائے عشق شعرِ خسروؔ گر رقم بر تربتِ مجنوں کنم
لسانی اعتبار سے حالیؔ کی شاعری کو مختلف جہات کے حوالے سے موضوعِ بحث بنانے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے ہم عصر اہل علم و زبان ا س سمت پیش قدمی ضرور کریں گے۔
ماخذات :
* مسدس حالیؔ : نامی پریس لکھنو (مارچ ۱۹۱۴)
* الطاف حسین حالیؔ :۔ تحقیقی و تنقیدی جائزے ۔ غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی ۲۰۰۲ ؁ء
* حالیؔ : صالحہ عابد حسین ۔ ترقی اردو بیورو نئی دہلی ۔ ۱۹۸۳ ؁ء
* زندہ رود ۔ جسٹس جاوید اقبال ۔ سنگِ میل پبلکیشن ۔لاہور
* New Criticism – Literary Press . Bby 1995
* Aristotle on the art of poetry – P.S. Sastri
Educational Publishers – Agra.
* میرتقی میرؔ : تنقیدی و تحقیقی جائزے ۔غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی ۲۰۰۰ ؁ء
* Standard Twentieth Century Dictionary. Basheer A. Qureshi
Educational Publishing House – Delhi
* Concise Oxford English Dictionary – Judy Pearsall ( Edited by)
Oxford univercity press – New Delhi. 2002
* سنسکرت بوطیقا(چند جہات)۔عنبر بہرائچی۔ استعارہ پبلکیشنز ، نئی دہلی۔

حسنین عاقب
حسنین عاقب

Share
Share
Share