راجہ مہدی علی خا ں: طنزومزاح کا نا مورشاعر

Share
مسعود جعفری
مسعود جعفری

راجہ مہدی علی خاں

از۔ ڈاکٹرمسعود جعفری
موبائل: 919949574641+

فلسفیوں اور حکیموں نے انسان کو حیوان ظریف کہا ہے۔زیر لب تبسم اور قیہقہوں کی صفت انسانی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے۔آدمی کو نطق سے نوازا گیا ہے۔کوئی جا نور متبسم نہیں ہو سکتا۔البتہ وہ رو سکتا ہے۔سنجیدہ مو ضوعات کے ساتھ ادیبوں اور شاعروں نے ظرافت کے بھی شگوفے کھلائے اور ادب کے دامن کو مالا مال کیا۔پطرس بخاری ،شو کت تھا نوی اور اکبر الہ آبادی نے طنز و مزاح کی پھلجڑیاں بکھیر دیں۔شاعر مشرق اقبال نے بھی ظریفانہ شاعری کی ہے۔ان کا ایک قطعہ ملا حظہ کیجئے۔
اٹھا کر پھنک دو با ہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے

اقبال کے یہ اشعارتو زبان زد خاص وعام ہیں۔ایک جگہ وہ مغربی تعلیم کے تصورکا مذاق یوں اڑا تے ہیں۔
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ
یہ ڈرامہ دکھا ئے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
راجہ مہدی علی خاں نے بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مزا حیہ شاعری میں چار چاند لگا د یئے۔ ان کے تخلیقی سفر کا آغاز لا ہور سے ہوا۔وہ آگے چل کر بمبئی آگئے اور اس وقت روشنی یا Limelight
میں آئے جب ان کے فلمی نغمے ہند و پاک کی فضاوں میں گونجنے لگے۔فلم ان پڑھ کی غزل ہوا وں میں نور و نکہت گھولنے لگی۔
آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے
دل کی ا ے دھڑکن ٹہر جا مل گئی منزل مجھے
یہ اور اس طرح کے اور شعروں نے راجہ مہدی علی خاں کو ہزاروں ،لا کھوں لو گوں کا محبوب شاعر بنا دیا۔ان کی مزاحیہ شاعری چیز دیگر ہے۔ان کی زبان جہاں سادہ و سلیس ہے وہیں ان کے تخیلات روز و شب ہونے وا لے واقعات کی ترجمانی کر تے ہیں۔ان کی تضمین غضب کی ہو تی ہے۔مرزا غالب کی غزلوں پر ان کی تضمین ملا حظہ کیجئے۔
سب کہاں کچھ فلم میں جا کر نمایاں ہو گئیں
صورتیں کیا کیا یہاں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
دیکھتی ہے ساری دنیا ان کی بزم آرا ئیاں
ہم بچاری بیٹھی بیٹھی طاق نسیاں ہو گئیں
راجہ مہدی علی خاں نے تہذیب و شا ئستگی کو مجروح ہو نے نہیں دیا۔ان کے ہاں ابتذال نہیں ہے۔ان کی شاعری میں اکبر الہ آبادی کی روا یتوں کا تسلسل ملتا ہے۔فکر و فن کی شگفتگی پائی جاتی ہے۔ان کے اشعار زیر لب تبسم کی منہ بو لتی مثال ہیں ۔جمالیاتی حسن بھی سحر انگیز ہے۔مسکرا ہٹوں کے ستارے غز لیات میں سموئے ہو ئے ہیں۔انہوں نے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی مشہور زمانہ غزل پر تضمین کی ہے۔
لگتا نہیں ہے جی میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عا لم نا پائدار میں
اس میں راجہ کی تضمین دیکھئے۔
بکتا نہیں ہے گھی مرا اجڑے دیار میں
بھوکا مروں گا عالم نا پا ئیدا ر میں
لا ہور سے چرا کے میں لا یا تھا چار ٹن
دو بمبئی میں بک گئے دو مالا بار میں
میں شاعری کو چھوڑ کے بیچوں گا ڈالڈا
گھر گھر پھروں گا بیٹھ کے خوشتر کی کار میں
رکشے میں کھٹ سے بیٹھ کے چلدی وہ مہ لقا
عاشق کھڑے ہی رہ گئے لمبی قطار میں
ہوں وہ گنہ گار کے منکر نکیر نے
پیٹا ہے مجھ کو گھس کے ہی میرے مزار میں
راجہ مہدی علی خاں کی ایک اور نظم ڈاکو ابن ڈاکو ابن ڈاکو ‘طنز و مزاح کی چاشنی لئے ہو ئے ہے۔اس کے کچھ شعر درج کئے جا تے ہیں جنہیں پڑھتے ہوئے بے سا ختہ ہنسی کا فو وارہ چھوٹ جا تا ہے۔اس میں نادر و نا یاب نکات بیان کئے گئے ہیں۔
مرے ما موں کے جعلی نوٹ امریکہ میں چلتے تھے
ہزاروں چور ڈاکو ان کی نگرانی میں پلتے تھے
مرے خالو کہیں نیو یارک میں جیبیں کترتے تھے
لب سا حل وہ چو دہ عورتوں سے عشق کرتے تھے
چچا میرے بہت مشہور تھے فن رذالت میں
مقدمہ ہار کر لنگے وہ نا چے تھے عدالت میں
راجہ مہدی علی خاں نے مثنوی قہر البیان بھی لکھی ہے۔یہ مختلف ابواب پر مشتمل ہے۔ہر باب دلچسپ اور دیوار قیقہہ ہے۔اسے پڑھتے ہوئے ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جا تے ہیں۔اسی طرح ان کی ایک غزل مطلب نکل جانے کے بعد بھی قاری کو لوٹ پوٹ کر دیتی ہے۔اس کے دو تین شعر وں سے لطف اندوز ہو یئے۔
کبھی آنکھیں پھیر لیں مطلب نکل جا نے کے بعد
بات ہی کرتے نہیں ہیں ریوڑیاں کھانے کے بعد
اچھی امی اک دو ہنٹر اس طرف اک اس طرف
مار بھی کھا ئیں گے ہم تو چا کلیٹ کھانے کے بعد
دل میرا جا پاں نہیں تو بم نصیحت کے نہ پھینک
مت لڑائی کر لڑائی ختم ہو جا نے کے بعد
راجہ مہدی علی خاں نے فلموں کے لئے کم و بیش تین سو گانے لکھے اوریہ نغمے بہت چلے اور دوامی شہرت حاصل کی ۔آج بھی وہ سنائی دیتے ہیں تو سماعتوں میں شہد گھولتے ہیں۔دل شاد و آباد ہو جا تا ہے ۔روح رقص کر نے لگتی ہے۔وجد طاری ہونے لگتا ہے۔
راجہ مہدی علی خاں ایک بھولا ہوا شاعر بن گیا ہے۔اس کی شخصیت ،فن اور فکر پر سمینار ہونے چا ہیئے۔اس کی سنجیدہ و مزاحیہ شاعری پر مقالے لکھے جا ئیں۔ان کے ادبی کار نا موں کو واشگاف کیا جائے۔اردو نے ان پر اور انہوں نے اردو پر جو احسا نات کئے ہیں انہیں نئی نسلوں کے سا منے پیش کیا جائے۔راجہ مہدی علی خاں کی علمی و فلمی شاعری کو آب زر سے لکھا جائے۔انہوں نے اس زمانے میں پردہ سیمیں پر ا تنی خوبصورت غزلیں پیش کیں جب ہر طرف شکیل ،ساحر ،مجروح ۔ حسرت جئے پوری اور ایچ ایس بہاری کے نام و کام کا ڈنکہ بج رہا تھا۔ راجہ مہدی علی خاں نے اپنے مدھر اور سریلے گیتوں سے دل و ذہن پر وجد طاری کر دیا۔ہر نکڑ اور ہر چو راہے پر ان کے لکھے ہوئے معصوم و گلفام گانے بجنے لگے۔ان کے ایک ایک مصرعے پر لوگ بے خودی کے عا لم میں سر دھننے لگے۔ان کا یہ شعر تو دلوں پر نقش ہو گیا تھا۔
جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے
تباہی تو ہمارے دل پہ آئی آپ کیوں رو ئے
درد و کرب میں ڈوبا ہوا یہ شعر روح کے آر پار ہو جاتا ہے۔سوز و گداز سے معمور غزلوں نے راجہ مہدی علی خاں کو ہند و پاک کا صف اول کا شاعر بنا دیا۔ان کی مقبولیت کے چراغ جلتے چلے گئے۔انہوں نے اردو غزل کو ایک نیا آہنگ ،نیا ڈکشن اور نیا حسن و جمال عطا کیا۔خیالات کی پاکیزگی ،تصورات کی نیرنگی اور اظہار کی اثر انگیزی نے غزل کو ایک نئی بلندی سے ہمکنار کیا۔اسے آسمانوں کی وسعتیں دیں۔غزل میں نئی آب و تاب آئی۔اسی لئے تخلیقی تجربے کے اتنے طویل وقفے کے بعد بھی ان کی تازگی ،چاشنی اور کیفیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔اسی منزل پہ ہمیں ابدیت کا احساس ہوتا ہے۔فن اور آرٹ کی ہمیشگی کا نظریہ حقیقی لگنے لگتا ہے۔ان کی تخلیقات سدا بہار ہیں۔وقت و حالات کی گرد انہیں میلا نہیں کر پائی۔وہ آج بھی صبا کی طرح سبک خرام ، مہہ و نجوم کی طرح روشن ،ہواوں کی طرح فرحت بخش ہیں۔راجہ مہدی علی خاں کا نام تاریخ ادب میں درخشاں رہے گا ۔راجہ کے فلمی مکھڑوں میں مٹھاس اور شیرنی پا ئی جا تی ہے۔وہ فلمی بھی ہیں اور علمی بھی۔معیار کہیں بھی گرنے نہیں پا تا۔ان کی ادبی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ان میں نغمگی ،غنایت اور رس رنگ ہے۔ان کی غزلوں میں آبشار سا بہاو پا یا جا تا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ Lyricism کی شفق کے وہ آخری شاعر ہیں۔انہوں نے غزلوں کو ایک نئی آب و تاب عطا کی۔وہ غالب کے اس شعر کے ہمنوا معلوم ہو تے ہیں۔
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں نہ ہو رشک فارسی
گفتہ غالب ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں
راجہ کی سنجیدہ و ظر یفانہ تخلیقات لا ریب رشک فارسی ہو چکی ہیں۔راجہ مہدی علی خاں کا دو رنگی کلام ادب کی ترازو کے دو پلڑوں میں رکھا جا سکتا ہے۔دو نوں ہم وزن ہوں گے۔ان کی شخصیت کے دو روپ تھے۔متانت و ظرافت کے حسین امتزاج کا نام راجہ مہدی علی خان تھا۔یہ دو خصو صیات بڑی مشکل سے یکجا ہو تی ہیں۔ان کی ایک ہستی میں تجسیم کرشمہ ہو جا تی ہے۔راجہ صاحب بھی ایک یگانہ روز گار اور کرشماتی شخصیت کے حامل تھے۔ا نہوں نے غزل کی صنف سخن سے کامل انصاف کیا۔انہیں زبان و بیان پر اچھی خاصی قدرت تھی۔وہ عجز بیان کا شکار نہیں ہوئے۔انہوں نے نثری غزل یا آزاد نظم کا سہارا نہیں لیا۔غزل کی جمالیات کو برقرار رکھا۔نظم کے تضا ضوں کو بہ حسن و خوبی نبھا یا۔دو نوں اصنا ف کی لاج رکھی۔روایت کی زلفیں نکھا ریں اور بغاوت کو دور رکھا۔میر و غالب کی وراثت کو آگے بڑھا یا۔فنی رموز و نکات کا پاس و لحاظ رکھا۔کہیں بھی بھولے سے بھی غزل کی نزاکت و رعنائی و بر نائی کو مجروح ہو نے نہیں دیا۔ترسیل و ابلاغ کا بحران پیدا ہو نے نہیں دیا۔شعری صنعتوں سے شعریات کو بو جھل ہو نے نہیں دیا۔جو کچھ کہا وہ براہ راست قاری کے دل میں اتر جا تا ہے۔شاعر و قاری کے تال میل کی بہترین مثال راجہ مہدی علی خان کی شاعری ہے۔اسی وصف سے ان کی عوامی مقبو لیت مسلمہ رہی۔آج بھی بر صغیر کی فضاوں میں ان کی غزلیں لتا کی کو ئل جیسی آواز میں گو نجتے ہیں تو ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جا تی ہے اور روح وجد کر نے لگتی ہے۔جادو وہ جو سر چڑھ کر بو لے کا محاورہ راجہ کی شاعری پر صادق آتا ہے۔

Share
Share
Share