ایتھر ایک معمہ

Share

اس کا یہ خیال کہ خلائی فضا خالی جگہ کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ لوگوں کے ذہن پر دو سو برس تک حاوی رہا۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ جس طرح آواز کی لہروں کو پھیلانے کے لیے ہَوا کی ضرورت ہوتی ہے، یا پانی کے تموج کو آگے بڑھانے کے لیے سمندر ذریعہ بنتا ہے، اسی طرح روشنی کی لہروں کو پھیلانے کے لیے بھی ایک واسطہ یا ذریعہ چاہیے اور یہ واسطہ خلا ہے۔ گویا خلا حقیقت ہے۔ مگر جب تجربے نے ثابت کر دیا کہ روشنی مطلق خالی جگہ سے بھی گزر سکتی ہے تو سائنسدانوں نے ایک فرضی واسطہ ایتھر (یا ایثر) کو تسلیم کر لیا۔ ایتھر کی خصوصیت یہ مانی گئی کہ یہ ایک ایسا واسطہ ہے جوہر شے کے اندر موجود ہے؟

اور خلا میں بھی ہے۔ اس طرح روشنی کے خلا سے گزرنے کی بحث کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ بعد میں انگلستان کے مشہور سائنسدان فیرے ڈے(Faraday) نے برقی اور مقناطیسی قوتوں کی ترسیل کے لیے دوسرے قسم کے ایتھر کا نظریہ پیش کیا۔ پھر جب میکسویل نے اعلان کیا کہ برقناطیسی قوت میں روشنی کی وجہ سے خلل پیدا ہوتا ہے تو ایتھر کے وجود کا نظریہ اور بھی مستحکم نظر آنے لگا۔ مگر ایتھر ہے کیا؟ اس کا جواب کوئی نہیں دے سکا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ ایتھر کا وجود تسلیم کیے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا جا سکتا تھا۔ نیوٹن نے طبیعات کا جو تصوّر قائم کیا اس کا ماحصل یہ تھا کہ کائنات میں کوئی ایسا واسطہ ضرور چھایاہواہے جو بادی النظر میں دکھائی نہیں دیتا، مگر اس کے توسط سے روشنی گزر سکتی ہے، اور اس میں اَن گنت ستارے محوِ خرام ہیں، لیکن جب ایتھر کی بات آگے چلی، تو اس تصور میں الجھنیں پیدا ہونے لگیں۔ سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلہ تو یہی تھا کہ ایتھر ہے کیا؟ 1881 ء میں دو امریکی سائنسدانوں نے ایتھر کے وجود کے مسئلے کو طے کرنے کی خاطر ایک معرکۃ الآرا تجربہ کیا۔ اس کا لُب لباب یہ تھا کہ کرّئہ ارض سورج کے گرد 20 میل فی سیکنڈ کے حساب سے چکر کاٹتا ہے اور روشنی کی رفتار 186282 میل فی سیکنڈ ہے۔ اب اگر روشنی زمین کی رفتار کی سمت میں بھیجی جائے تو اس روشنی کی رفتار 20+1,86,282 یعنی 186302 میل فی سیکنڈ ہو جانی چاہیے اور مخالف سمت میں بھیجی جانے پر اس کی رفتار 186282 یعنی 186262 میل فی سیکنڈ ہو جانی چاہیے۔ چنانچہ انتہائی احتیاط سے بڑے نازک آلات کی مدد سے تجربے کیے گئے۔ جس سے یہ معلوم ہوا کہ سمت کے بدل جانے سے روشنی کی رفتار پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اب سائنسدان چکر میں پڑ گئے کہ آخر ماجرا کیا ہے! اگر تجربے کے نتیجے پر یقین کرتے ہیں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زمین میں کوئی حرکت نہیں ہے۔ یعنی کوپرنیکس (Copernicus) کی بات غلط ہو جاتی ہے کہ زمین حرکت میں ہے۔ گویا ایک طرف ایتھر اور دوسری طرف کوپرنیکس کا نظریہ___ دونوں میں سے کسے تسلیم کیا جائے، کسے رَد کیا جائے! سائنسدانوں کی اکثریت اس خیال کی تھی کہ روشنی یا برقناطیسی لہروں کی ترسیل کے سمجھنے کے لیے ایتھر کے وجود کو تسلیم کر لینا ناگزیر ہے، کیونکہ دوسری صورت یہ تھی کہ زمین کو متحرک ماننے کے بجائے اسے ساکن مان لیا جائے اور یہ کہا جائے کہ ایتھر کی فضا میں زمین کی رفتار صفر ہے۔ (سید شہاب الدین دِسنوی کی کتاب ’’آئن سٹائن:داستانِ زندگی‘‘ سے اقتباس) ٭…٭…

بہ شکریہ روزنامہ دنیا

Share
Share
Share