دکن میں اسلامی ثقافت کے اوّلین نقیب۔ حضرت مؤمن عارف باللہؒ

Share
دکن میں اسلامی ثقافت
پروفیسر مجید بیدار

دکن میں اسلامی ثقافت کے اوّلین نقیب۔ حضرت مؤمن عارف باللہؒ  

از: پروفیسر مجید بیدار۔
سابق صدر شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ حیدرآباد

Mob:09441697072
دو ہزار سال قبل مسیح میں آریاؤں کی وسط ایشیاء ہندوستان میں آمد کے بعد اِس ملک کی قدیم قوم دراوڑی کئی وقفوں کے بعد جنوبی ہند میں ڈھکیل دیئے گئے۔ آریاؤں نے جب چار ویدیں لکھیں اور اِن ویدوں کی وجہ سے ویدک دَور کا آغاز ہوا۔ ویدوں کے مطابق آریاؤں کی آبادی جس علاقہ میں آباد ہوگئی اُسے ’’آریا ورت‘‘ اور دراوڑیوں کی آبادی کے علاقہ کو ’’دکھشن پت‘‘ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے دکھشن پت کو دکھن کا موقف حاصل ہوا اور آخر میں دکن کے نام سے موسوم ہوا۔ عصر حاضر میں اس دکن کے تمام تر علاقہ کو جنوبی ہند کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے۔ قدیم دور سے ہی جنوبی ہند کے علاقے میں ہندو راجاؤں کی حکمرانی رہی۔ پروفیسر ہارون خان شیرونی نے اپنی کتاب ’’دکن کے بہمنی سلاطین‘‘ میں واضح کیا ہے کہ بندھیاچل سے لے کر راس کماری تک کا پہاڑی علاقہ دکن کی حیثیت سے شناخت کیا گیا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے سطح مرتفع، پہاڑی چٹانیں اور پال گھاٹ کے درّے ہی نہیں، بلکہ لاوے کی بنی ہوئی پہاڑی پتھریلی سرزمین دکن کا مقدر رہی۔ انہوں نے دکن کی وسعت کو 20 لاکھ مربع میل رقبہ والی سرزمین کا موقف دیا، جس میں کہیں سیاہ مٹی موجود ہے، تو کہیں پر لاوے کی وجہ سے سرخ مٹی کے میدان بھی موجود ہیں ، جو ریتیلی اور پتھریلی پہاڑیوں سے مربوط ہے۔ غرض دکن کی سرزمین کو حد سے زیادہ زرخیز اور تاریخی نوعیت کی حامل سرزمین

قرار دے کر پروفیسر ہارون خان شروانی نے دریائے نربدا، تاپتی، گوداوری ، کرشنا اور کاویری سے دکن کی سرزمین کو سیراب ہونے کے قدرتی وصف کا اظہار کیا ہے۔ طویل عرصہ تک دکن کا بیشتر علاقہ دراوڑیوں کے قبضہ اور تسلط میں رہا۔ مسلمانوں کی آمد کے وقت گیارہویں صدی میں وجیا نگر پر دیورائے اور ورنگل میں ردرادیو کی حکومت موجود و مستحکم تھی، جب کہ دیوگری میں راجا اگرپال حکمران تھا۔ دکن میں ابتدائی طور پر راشٹرکوٹ خاندان کی حکمرانی رہی اور جب اس خاندان کا زوال ہوا تو ورنگل میں کاکتیہ خاندان اور دیوگری میں یادو خاندان کی حکومت قائم ہوگئی۔ یادو خاندان کا مشہور راجا سنگھانہ اور اُس کے آباء و اجداد دیوگڈھ پر راج کرتے رہے۔ یہی وہ دور ہے جب کہ دیوگری کے غیرمسلم علاقہ میں اسلامی ثقافت کے لازوال نقوش کے ساتھ حضرت مؤمن عارف باللہ نے سکونت کے لیے پسند فرمایا۔ ’’تاریخ دکن‘‘ اور ’’مرقع سلاطین‘‘ کے مطابق یہ ثبوت ملتا ہے کہ مؤمن عارف باللہ نے اسی دور میں دکن کا رخ کیا، تاہم یہ پتہ نہیں چلتا کہ مؤمن عارف باللہ نے دیوگڈھ میں اسلامی باطنی فیوضات کے ساتھ کس سنہ میں ورود فرمایا۔ حضرت مؤمن عارف کس ملک کے باشندے تھے اور کس اللہ والے کے حکم سے دکن کا رخ فرمایا اور ان کے ہمراہ کتنے افراد کا قافلہ تھا اس بارے میں بھی تذکرے خاموش ہیں۔ حضرت مؤمن عارف باللہ کی دیوگڈھ میں موجودگی کا پتہ دینے والی کتاب ’’مرقعِ سلاطین‘‘ الموسوم بہ ’’آثار المتاخرین‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مؤمن عارف باللہ کے ورود کا سلسلہ چھ بادشاہوں کی حکمرانی سے مربوط ہے، جس کے مطابق حضرت نے راجہ مہیپال ثانی (۴۱۷ھ ؁ مطابق ۱۰۲۶ء ؁) راجہ اگرپال (۴۴۳ھ ؁ مطابق ۱۰۵۱ء ؁) پرتھوی راج اگرپال (۴۶۵ھ ؁ مطابق ۱۰۷۲ء ؁) بلدیو چوہان انبلدیو (۴۹۵ھ ؁ مطابق ۱۱۰۱ء ؁) امرگنگو (۴۹۹ھ ؁ مطابق ۱۱۰۵ء ؁) اور کہرپال (۵۰۰ھ ؁ مطابق ۱۱۰۶ء ؁) کے ادوار میں اپنے وجود کو منوایا۔ ان بادشاہوں کا دور سلطان محمود غزنوی، سلطان الشہداء سالار مسعودغازی کا دور ہے۔ حضرت مؤمن عارف باللہ کی مقامِ پیدائش اور آپ کی تربیت کے بارے میں کسی قسم کی معلومات دستیاب نہیں ملتیں اور آپ نے کہاں سے سفر کرکے دکن میں سکونت اختیار کی، اس کا بھی ثبوت نہیں ملتا، البتہ دہلی کے جن راجاؤں کے نام اور ان کے عہد سے حضرت مؤمن عارف باللہ کی ہندوستان میں آمد کا پتہ چلتا ہے، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مؤمن عارف باللہ نے ہندوستان میں آمد کے لیے بالخصوص پہلے دہلی کا سفر کیا اور پھر دہلی سے دیوگری کی طرف پیش قدمی فرمائی۔ اورنگ آباد سے ۱۲ کیلو میٹر کے فاصلہ پر موجودہ قلعہ دولت آباد کے مرکزی داخلہ سے جانبِ مشرق سیدھا راستہ حضرت مؤمن عارف باللہ کے آستانہ تک پہنچتا ہے۔ حضرت مؤمن عارف باللہ کے عہد کے بارے میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے حضرت مؤمن عارف باللہ کا دور ہندوستان میں ابتدائی حملہ آور یعنی محمد بن قاسم کے بعد کا دور ہے، جس نے سب سے پہلے لاہور پر حملہ کرکے اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی تھی۔ آبِ کوثر کے مؤلف شیخ محمد اکرام نے تاریخی شہادتوں کے ساتھ یہ حقیقت واضح کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بحرین کے عرب افسروں نے بھڑوچ اور سندھ پر فوج کشی کی، جن کی سرزنش کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فوج کشی سے منع فرمادیا۔ جب مقامی راجاؤں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا تو محمد بن قاسم نے فوجی حملہ کے ذریعہ ہندوستان کی حکومت کو اپنا تابعدار بنادیا۔ سندھ کی فتح کی تاریخ ۷۱۳ء ؁ بتائی جاتی ہے۔ محمد بن قاسم نے سب سے پہلے دیبل مقام پر راجہ داہر کو شکست دی ، پھر اس کے بعد بہمن آباد کے مقام پر اس کے بیٹے جئے سنگھ کو شکست دی اور آخر میں ملتان کے راجا کو شکست دی۔ اس طرح ۷۱۱ء ؁ سے لے کر ۷۱۴ء ؁ تک صرف چار سال میں محمد بن قاسم نے مسلم سلطنت کو قنوج کے علاقہ تک پہنچا دیا۔ اس پس منظر میں جب حضرت مؤمن عارف باللہ کے دور کا احاطہ کیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ لاہور کے علاقہ میں محمد بن قاسم کی فتح کے زائد از تین سو سال کے بعد حضرت مؤمن عارف باللہ نے دکن کا رخ فرمایا۔ شیخ محمد اکرام نے اس حقیقت واضح کیا ہے کہ محمود غزنوی کے بعد ابراہیم غزنوی نے لاہور پر حکمرانی کا آغاز کیا۔ اس کا دور ۱۰۵۹ء ؁ تا ۱۰۹۸ء ؁ بتایا گیا ہے۔ اس دور کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے شیخ محمد اکرام نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اس دور میں لاہور کو علمی سرگرمیوں کے گہوارہ کا موقف حاصل ہوچکا تھا اور اسی دور میں لاہور کی سرزمین میں سب سے پہلے خانقاہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ۱۰۳۶ء ؁ میں لاہور کی سرزمین سے شہرت حاصل کرنے والے مسعود سعد سلمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فارسی ہی نہیں، بلکہ اردو کے بھی بہت بڑے شاعر گذرے ہیں۔ ان حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مؤمن عارف باللہ کے دہلی پہنچنے اور دہلی کے چھ بادشاہوں کے دور کے بعد دہلی سے دکن منتقل ہونے کے دوران اسلام اور اس کی اشاعت کا سلسلہ صرف اور صرف لاہور سے ملتان کی سرزمین تک محدود تھا۔ اسی سرزمین میں حضرت دانا گنج بخش تشریف لاچکے تھے۔ علمی و ادبی تاریخوں میں مسلمانوں کے ابتدائی دور میں خانقاہ کے قیام کا ذکر نہیں ملتا، بلکہ پہلی مرتبہ شیخ محمد اکرام نے یہ ثبوت فراہم کیا ہے ہ ابراہیم غزنوی کے وزیر ابونصر فارسی نے علم و فضل کی نمائندگی کرتے ہوئے سب سے پہلے لاہور میں خانقاہ کی بنیاد رکھی۔ ۱۰۹۸ء ؁ سے پہلے لاہور میں خانقاہ کے قیام کا ثبوت نہیں ملتا۔ مسلمانوں نے مسلم طبقہ کی عبادت کے لیے مسجد کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی۔ اس کے بجائے پاکی اور طہارت سے عدم واقف غیر مسلموں کو دین کی فطری اور فکری معلومات سے واقفیت دلانے کے لیے مسجد کے بجائے خانقاہ کو تعلیمی و تدریسی درسگاہ کا درجہ دیا۔ اسی خانقاہی نظام کے آغاز کے 185 سال بعد حضرت مؤمن عارف نے ہندوستان کا رخ فرمایا۔ ان کے عہد کے چھ بادشاہوں کے نام اور ان کے دور کی نمائندگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے دہلی کو ۵۸۴ھ ؁ مطابق ۱۱۸۸ء ؁میں فتح کیا۔ اس سے ۷۵ سال قبل حضرت مؤمن عارف باللہ نے دکن میں رحلت فرمائی، یعنی حضرت کی دہلی آمد کے وقت صرف لاہور، ملتان اور اوچھ کے علاوہ قنوج پر مسلمانوں کا قبضہ تھا، باقی تمام ہندوستانی علاقے کفر و باطل کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے تھے۔ غرض یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت مؤمن عارف باللہ کا عہد لاہور کے بادشاہ ابراہیم غزنوی کے انتقال کے بعد کا دور ہے۔ ابراہیم غزنوی نے ۱۰۹۸ء ؁ میں انتقال کیا، جس کے ٹھیک پندرہ سال بعد یعنی ۵۰۷ھ ؁ مطابق ۱۱۱۳ء ؁ میں حضرت مؤمن عارف باللہ نے اِس جہاں سے کوچ فرمایا۔ غرض تاریخی حقیقت اس طرح منظر عام پر آتی ہے کہ حضرت مؤمن عارف باللہ کے دکن میں سکونت اختیار کرنے کے دوران ہی شمالی ہند میں لاہور کے مقام پر خانقاہ کی تعمیر عمل میں آچکی تھی، لیکن دہلی پر مسلمانوں کا تسلط قائم نہ ہوسکا تھا۔
مسلم قوم سپاہیانہ صلاحیت رکھنے کے علاوہ علم و فضل میں بھی اہمیت کی حامل تھی۔ سلطان محمود غزنوی کے دور میں علامہ ابوریحان البیرونی نے ہندوستان اور پاکستان کا دورہ کیا۔ یہ ایسا کھلا ثبوت ہے کہ مسلمان بادشاہ اپنی فوج میں سپاہیوں کے علاوہ علم و فضل کے ماہرین کو بھی بطورِ خاس شامل کیا کرتے تھے، تاکہ سپاہیانہ شان کے ساتھ علم و فضل کو بھی نمائندگی حاصل ہو۔ حضرت سید مؤمن عارف باللہ کی دکن کی سرزمین میں پیش قدمی کی وجہ سے اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے علوم و فنون کا موقع دستیاب ہوگیا۔ شیخ محمد اکرام نے جنوبی ہند کے مشہور علاقہ ترچنا پلی میں سید سلطان نطہرولی کے مزار کا ثبوت فراہم کیا ہے، جن کی رحلت نے ۱۲۲۵ء ؁ میں ہوئی۔ یہ تاریخ حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت سے گیارہ سال پہلے کی نشاندہی کرتی ہے۔ غرض شمالی ہند میں حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی آمد سے قبل ہی دکن میں اسلامی تعلیمات اور رشد و ہدایت کا سلسلہ دراز ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ سرکاری گزیٹر کے حوالوں سے یہ بتایا گیا ہے کہ شمالی ہند میں مسلمانوں کی آبادی سے قبل گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی میں کئی صوفیائے کرام نے دکن میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنا شروع کردیا تھا۔ شیخ محمد اکرام نے یہ بتایا ہے کہ جنوبی ہند میں ہندو راجاؤں کے دور میں ہی مسلم صوفیائے کرام کی جانب سے اسلام کی ترقی و ترویج کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوگیا۔ ایسے ہی اہم بزرگوں میں حضرت مؤمن عارف باللہ کا شمار ہوتا ہے، جن کی وفات کے وقت دہلی میں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی لیکن آپ نے دہلی سے دکن تک سفر کرکے اسلامی شعار کو فروغ دینے کا بیڑہ اٹھایا۔ آپ کی دکن میں آمد کی تاریخ اور ان کے مقامِ پیدائش کے بارے میں تفصیلات دستیاب نہیں، البتہ یہ ثبوت ضرور ملتا ہے کہ آپ نے ۵۰۷ھ ؁ مطابق ۱۱۱۳ء ؁ میں وفات پائی۔ حضرت مؤمن عارف باللہ کے سوانحی حالات پردۂ خفا میں ہیں، لیکن دولت آباد میں واقع آپ کا مزار اور مسجد اور اس کے عقب میں قائم خانقاہ کے آثار خود ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ حضرت مؤمن عارف باللہ نے خانقاہی نظام کی بنیاد رکھی اور اپنے مریدین کے قافلہ کے ساتھ دیوگری میں اسلام کی شمع جلائی۔ اس خصوص میں درگاہ کے قریب ان کے دور کے دو آثار آج بھی موجود ہیں، جن سے آپ کی نورانی شخصیت اور اسلام سے رغبت کا پتہ چلتا ہے۔ آپ کا مزار پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔ تاریخ میں یہ لکھا ہے کہ ہندو راجا کے عہد میں پہاڑی کی ترائی میں ایک ایسے مقام پر آپ نے چلہ کشی فرمائی ، جو انتہائی پرسکون مقام تھا، جس کے قریب ایک قدیم کنواں بھی تھا۔ پرفضا مقام پر پہنچنے کے بعد حضرت مؤمن عارف باللہ ریاضت میں مصروف ہوگئے۔ ان کے مریدین نے اس مقام پر خوب صورت گائے گھاس چرتی ہوئی دیکھی۔ پورے علاقہ میں کسی آدم زاد کا وجود نہیں تھا۔ کئی دن کے سفر اور بھوک پیاس کی وجہ سے مریدین بدحال ہوچکے تھے۔ اسلامی شعار کے مطابق مریدوں نے کھلی وادی میں تین چار بار آوازیں لگائیں، تاکہ گائے کا کوئی مالکقریب ہو تو اسے اطلاع ہوجائے، لیکن جب کوئی جواب نہ ملا تو مریدین نے گائے کو ذبح کرکے لکڑیاں جمع کیں اور اس کے گوشت کو اپنی غذا کے طور پر استعمال کیا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دیوگڈھ کے راجا کی سب سے چہیتی بیٹی کی گائے اس علاقہ میں گھاس چرنے آیا کرتی تھی اور لوگ چوں کہ گائے کی پرستش کے قائل تھے، اس لیے کوئی اسے ہاتھ نہیں لگاتا تھا۔ دن بھر گھاس چرنے کے بعد شام کو یہ گائے دوبارہ بادشاہ کے محل میں داخل ہوجاتی تھی۔ اندھیرا چھاگیا اور گائے واپس نہیں لوٹی تو راجا کی بیٹی کو فکر ہوئی۔ر اس نے سپاہیوں کو گائے ڈھونڈھنے کے لیے روانہ کیا۔ سپاہیوں نے دیکھا کہ جانور کی ہڈیاں موجود ہیں اور کچھ عجیب و غریب لباس میں ملبوس ایسی قوم وہاں دکھائی دی جو ان کی زبان سے واقفیت نہیں رکھتی تھی۔ سپاہیوں نے اشاروں میں حالت دریافت کی۔ حضرت مؤمن عارف باللہ کے مریدین نے گائے کو ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھالینے کا اشارہ دیا، جس پر سپاہی برہم ہوگئے اور مریدوں کو گرفتار کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ جن کی آواز سن کر حضرت مؤمن عارف باللہ کی ریاضت میں خلل پیدا ہوا ۔ انہوں نے سپاہیوں سے وجہ دریافت کی۔ حضرت مؤمن عارف باللہ سے سپاہیوں کی گفتگو اشاروں میں ہوئی، کیوں کہ ان کی زبان سے سپاہی واقف نہیں تھے۔ غرض حضرت نے تمام مریدین کو ہڈیاں جمع کرنے کا حکم دیا اور اپنے عصائے مبارک سے ہڈیوں کو دھکا دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی دیر میں نہ صرف خوبصورت گائے، بلکہ اس کا بچھڑا بھی ان ہڈیوں میں جان پڑنے سے برآمد ہوگیا۔ سپاہیوں کے لیے یہ بات بڑی عجوبہ تھی۔ انہوں نے راجا کی بیٹی کے روبرو تمام حقائق بیان کردیے، جس سے متاثر ہوکر راجا کی بیٹی نے حضرت مؤمن عارف باللہ کے دستِ حق پرست پر اسلام قبول کیا۔ آج بھی حضرت مؤمن عارف باللہ کی گنبد کے پائیں راجہ کی بیٹی کا مزار موجود ہے۔ اس کے علاوہ جس مقام پر گائے کو ذبح کیا گیا تھا۔ اس مقام پر چھوٹی سی گنبد بناکر محفوظ کیا گیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مؤمن عارف باللہ کشف و کرامت سے وابستہ بزرگ تھے اور ان کے زمانہ میں مسلمانوں کی زبان ہندوستان کے مقامی باشندوں کی زبان سے بالکل مختلف تھی۔ جب آپ نے دیو گڈھ کے قریب سکونت اختیار فرمائی اور عبادت و ریاضت کے علاوہ کشف و کرامت سے لوگوں کو متاثر فرمایا تو مقامی باشندے حضرت کی خانقاہ کی طرف رخ کرنے لگے۔ تب ان کی تربیت کے لیے حضرت مؤمن عارف باللہ نے خانقاہی نظام کو جاری رکھا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ دکن کی سرزمین میں سب سے پہلے اسلامی ثقافت کو رواج دینے والے بزرگ کی حیثیت سے حضرت مؤمن عارف باللہ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ طویل عرصہ تک حضرت مؤمن عارف باللہ کے بارے میں تفصیلات عدم دستیاب تھیں، لیکن تحقیق کے ذریعہ جن حقائق کا علم ہوا ہے اس کے مطابق یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک قدیم قلمی مخطوطہ ’’کتاب عشق ربانی‘‘ دستیاب ہوا ہے، جس میں مؤمن عارف باللہ کا سلسلۂ نسب درج کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ چودہ پشت کے بعد حضرت کا سلسلہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے، جس کے مطابق شجرہ کی تفصیل درج ہے:
(۱) سید محمد عارفؒ بن (۲) سید عماد الدین بن (۳) سید شرف الدین بن (۴) سید تاج الدین بن (۵) سید عماد الدین بن (۶) سید شرف الدین بن (۷) سید ابوالقاسم بن (۸) سید حسن بن (۹) سید موسیٰ بن (۱۰) سید محمد بن (۱۱) امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ۔
نسبی شجرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مؤمن عارف باللہ سادات نسب سے متعلق ہیں اور حضرت کے مزار پر موجود گنبد خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ مسلم تعمیر کا نمونہ نہیں ہے۔ حضرت نے جب اسلامی ثقافت اور علوم و فنون کی تبلیغ فرمائی تو مقامی باشندوں نے آپ کی رحلت کے بعد جس گنبد کی تعمیر فرمائی وہ بذاتِ خود ہندو فن تعمیر کی نشاندہی کرتا ہے۔ مسجد اور داخلہ کے دروازہ سے بھی اندازہ ہوتاہے کہ اس کا فن تعمیر اسلام کے فن تعمیر سے بالکل مختلف ہے۔ حضرت کے مزار پر کوئی کتبہ نہیں ہے۔ حضرت کی تاریخ وفات ۲۰ صفر بتائی جاتی ہے۔ قمری مہینہ کی مناسبت سے عرس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مزار تک جانے کے لیے دو طویل احاطوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ پہلا احاطہ سطح زمین سے کافی بلند ہے۔ سیڑھیوں سے آگے بڑھنے کے بعد صدر دروازہ اور اس کی جنوب کی طرف چند قبریں ہیں۔ جنوب مغرب میں نقارخانہ بنا ہوا ہے، جس کی سطح میں تنگ و تاریک تہہ خانہ بھی ہے۔ دوسرے احاطہ میں صحن کے احاطہ کے بعد مؤمن عارف باللہ کا مزار اور گنبد ہے۔ قریب کے چبوترہ پر چند قبریں بھی موجود ہیں اور حضرت کے پائیں راجہ کی بیٹی کا مزار ہے۔ کافی وسیع علاقہ میں جانب مغرب مسجد بنی ہوئی ہے، جو قدیم فن تعمیر کی نشاندہی کرتی ہے، جس پر لگا ہوا کتبہ صرف مسجد مؤمن عارف باللہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس طرح حضرت مؤمن عارف باللہ کا مزار دولت آباد کے قلعہ سے قبل مرجع خلائق ہے۔ قریب کے علاقوں میں بسنے والے باشندے جب بھی کوئی نئی سواری خریدتے ہیں تو بلالحاظِ مذہب و ملت حضرت مؤمن عارف باللہ کے مزار پر پھول چڑھانے کے بعد ہی اپنی نئی سواری کا استعمال کرتے ہیں۔ ہر وقت اسکوٹر، لاریاں، کاریں اور ان کے مالکین درگاہ پر حاضری دیتے اور چڑھاوے پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ حضرت کے حالات کی طرح تعلیمات بھی پردۂ خفا میں ہیں، اُس دور کی دیوگڈھ کی مقامی آبادی کی زبان سے ناواقفیت کے باوجود نہ صرف آپ نے انھیں متاثر کیا، بلکہ مقامی باشندوں کو اسلام سے قریب کرنے کے لیے دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری فرمایا۔ چوں کہ مقامی باشندے کرامات کی بنیاد پر نیک بندوں کی شناخت کرنے میں آسانی محسوس کرتے تھے، اس لیے آپ نے اپنی کرامات کے ذریعہ نہ صرف مقامی باشندوں کو اسلام سے قریب کیا، بلکہ ان کی تربیت و تبلیغ کے لیے خانقاہی نظام کو مستحکم فرمایا اور مقامی باشندوں کو نیک اور پاکباز بنانے کی کوشش کی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ زائد از نو سو سال گذرجانے کے باوجود بھی حضرت مؤمن عارف باللہ کا مزار اورنگ آباد سے بارہ کیلو کے میٹر فاصلہ پر قلعہ دولت آباد کے قریب ہر مذہب اور مکاتبِ فکر کے افراد کو اس بارگاہ میں حاضری دینے پر مجبور کرتا ہے۔ تاریخی پس منظر میں یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ خلیفہ المستنصر باللہ عباسی کی جانب سے شمس الدین التمش کو خلعت عطا ہوئے یعنی ۶۲۶ھ ؁ مطابق ۱۲۲۸ء ؁ سے ۱۱۵ سال قبل حضرت مومن عارف باللہ نے دکن میں وفات پائی۔ قطب الدین ایبک نے جب ہانسی کے ہندوؤں کی بغاوت کا خاتمہ ۱۱۹۲ء ؁ میں کیا اس وقت حضرت مومن عارف باللہ کی رحلت کو ۷۹ سال گذر چکے تھے۔ غرض ہندوستان میں خاندانِ غلامان کے آغاز سے قبل حضرت مومن عارف باللہ نے دولت آباد کی سرزمین میں فروکش اختیار فرمائی۔ حیدرآباد میں حضرت بابا شرف الدین سہروردیؒ کی آمد ۶۴ھ ؁ مطابق ۱۱۴۲ء ؁ میں ایسے وقت ہوئی جب کہ گولکنڈہ کا سارا علاقہ بشمول حیدرآباد (اس وقت حیدرآباد کا وجود نہیں تھا) ورنگل کے راجاؤں کے قبضہ میں تھا۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دکن میں سہروردیہ بزرگ حضرت بابا شرف الدین کی اوّلین آمد سے قبل مومن عارف باللہ کی رحلت کو ۶۹ سال گذر چکے تھے۔ ان تمام شہادتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دکن کی سرزمین دیوگری (موجودہ دولت آباد) میں دین کے قافلے کو لے کر اسلامی تبلیغات کو فروغ دینے والے اوّلین بزرگ حضرت مومن عارف باللہ ہی تھے جو ہندو دورِ اقتدار میں دکن تشریف لائے، جن کے بعد ہی صوفیائے کرام اور بزرگانِ دین کے قافلوں نے جنوبی ہند کی سرزمین کا رخ کیا۔ اس طرح بندھیاچل سے لے کر راس کماری تک کے علاقے جسے دکن کہا جاتا ہے، اس علاقہ میں دین کا علم بلند کرنے والوں میں حضرت مومن عارف باللہؒ کو سبقت حاصل ہوجاتی ہے۔

Share

One thought on “دکن میں اسلامی ثقافت کے اوّلین نقیب۔ حضرت مؤمن عارف باللہؒ”

Comments are closed.

Share
Share